شیطان کی انسان دشمنی
دار الامتحان اور وساوس شیطان
﴿إِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً﴾ (فاطر:6)
یہ دنیا دارا لامتحان ہے، اس میں زندگی بھر انسان کو امتحان پیش آتے ہیں اور یہ سلسلہ امتحانات اس قدر وسیع ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی وسعت اور شمولیت بیان کرنے کے لیے ایسا جامع کلام بیان فرمایا ہے کہ اس نے دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی چیز چھوڑی جو امتحان ہو اور
نہ عمر کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ چھوڑا جو امتحان سے خارج ہو۔ فرمایا:
﴿اَلَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوة لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملك:2)
’’اس نے موت اور زندگی کو پیدا فرمایا تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہترعمل کرنے والا ہے۔‘‘
گویا کہ زندگی اور موت کے درمیان جو کچھ ہے اور جتنا وقت ہے سب کا سب امتحان ہے، حتی کہ پیدا ہونا اور فوت ہونا بھی امتحان ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آجاتی اس وقت تک وہ امتحان کے لیے سنجیدہ نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالی کے اس کلام کی روشنی میں زندگی کا بھلا کون سا معاملہ اور عمر کا کون سا حصہ امتحان سے خارج ہو سکتا ہے؟ یقینًا کوئی نہیں، دنیا کی ہر چیز اور زندگی کا ہر لمحہ انسان کے لیے امتحان اور سراسر امتحان ہے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ کون کون سی چیزیں امتحان ہیں ، زیادہ اہم نہیں رہتا، کیونکہ دنیا کی ہر چیز ہی تو شامل امتحان ہے۔ البتہ اللہ تعالی نے اپنا خصوصی فضل و رحمت فرماتے ہوئے بعض امتحانات کا نام لے کر آگاہ فرمایا ہے اور وہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی محبت اور چاہت فطرتًا انسان کے دل میں موجود ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ؕ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ﴾ (آل عمران:14)
’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں، بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مزین کر دی گئی ہیں مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں، حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ (الانفال:28)
’’اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولادیں حقیقت میں آزمائش ہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ۱۵۵﴾ (البقرة:155)
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے اور جو صبر کرنے والے ہیں انہیں خوش خبری دے دو۔‘‘
اور اسی طرح اور چیزیں بھی ہیں کہ جن کا باقاعدہ نام لے کر بتلایا کہ وہ امتحان ہیں۔ ور نہ حقیقت میں دنیا کی ہر چیز امتحان ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾(الكهف:7)
’’واقعہ یہ ہے کہ روئے زمین پر جو کچھ بھی ہے ہم نے اسے زمین کی زینت بنایا ہے تا کہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘
امتحان کا لفظ سن کر عموماً ذہن میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ کوئی تکلیف دہ اور ناگوار امر ہی امتحان ہو سکتا ہے، جبکہ حقیقت یوں نہیں، حقیقت میں امتحان خوشی کے راستے سے بھی آتا ہے اور غمی کے راستے سے بھی ، خوشحالی کے ذریعے بھی آتا ہے اور تنگدستی کے ذریعے بھی نعمتوں کے طریق سے بھی آتا ہے اور تنگیوں اور تکلیفوں کے طریق سے بھی۔
﴿وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَّإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ) (الأنبياء:35)
’’اور ہم شر اور خیر میں مبتلا کر کے تمہیں آزمائیں گے آخر کار تمھیں ہماری طرف ہی پلٹتا ہے۔‘‘
﴿وَبَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ (الاعراف:168)
’’اور ہم نے انہیں خوشحالیوں اور بدحالیوں میں مبتلا کر کے آزمایا۔‘‘
امتحان کے معاملے میں جہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پوری کی پوری زندگی اور زندگی کا ہر معاملہ چاہے دو خوشی سے متعلق ہو یا غمی سے، امتحان ہے، وہاں یہ جاننا بھی ضروری کہ انسان کس طرح امتحان میں سرخرو ہو سکتا ہے اور کیونکر نا کام ہوتا ہے۔
یہ موضوع ایک الگ اور مستقل موضوع ہے، اس وقت یہاں یہ باتیں محض تمہیداً عرض کی گئی ہیں تاکہ امتحان کی اہمیت سمجھ میں آجائے اور ذہن نشین ہو جائے۔ دنیا کے امتحانات کا تعلق اکثر و بیشتر خواہشات نفس کے حوالے سے ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ﴾ (آل عمران:14)
’’لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی محبت کو مزین کر دیا گیا۔‘‘
آپ جانتے ہیں کہ دل میں جو کسی چیز کی خواہش اور چاہت ہوتی ہے، وہ کھانے پینے سے متعلق ہو، پہننے سے متعلق ہو یا دولت و ثروت سے متعلق ہو۔ وہ چیز دل کو بھلی معلوم ہوتی ہے، اچھی لگ رہی ہوتی ہے اس لیے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ حاصل ہو جائے۔ کسی چیز کا دل میں اچھا لگتا اور اور اس کے حصول کی خواہش پیدا ہونا ایک الگ بات ہے، مگر خواہش اور چاہت کا اچھا لگنا ایک دوسری بات ہے۔ آپ نے محاورہ سن رکھا ہوگا کہ خیالی پلاؤ پکانا ، جس کا مطلب ہے کہ ایسی باتیں سوچتا جو تقریبًا نا ممکن ہوں۔ آدمی ایسے کیوں کرتا ہے، ایسے خیالات میں کیوں گم رہتا ہے اس لیے کہ ان خیالات کی اپنی ایک لذت ہے، ہے، وہ وہ خیالات انسان کو بڑے محبوب ہوتے ہیں، بہت اچھے لگتے ہیں، اور لوگ اس میں ایسے مگن ہوتے ہیں کہ بیداری میں خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ فطری طور پر تمام کی تمام متاعِ دنیا انسان کو اچھی لگتی ہے، ان کی خواہش دل میں موجود ہے اور اس پر مزید یہ کہ ان خواہشات کو مزید خوبصورت بنا دیا گیا ہے، مزین کر دیا گیا ہے۔
یہ کتنی بڑی آزمائش ہے، آپ اندازہ کر سکتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ تمام تر آگاہی کے با وجود، انسان کی وفات، قبر، حشر اور پل صراط کے خوفناک اور المناک احوال سے خبردار کرنے کے باوجود لوگ اپنی خواہشات نفس کی طرف بھیجے چلے جاتے ہیں، اور وہ کھچاؤ، وہ میلان اور ر جحان انسان کو ایسا مست کر دیتا ہے کہ پہلے تو آدمی کوئی ان پر لذت خیالات سے نکالنے والی باتیں سننا پسند ہی نہیں کرتا، اگر سننی پڑ جائیں تو سنی ان سنی کر دیتا ہے اور اگر غور سے سن بھی لے تو اثر نہیں ہوتا اور اگر کچھ اثر ہو بھی جائے تو بہت تھوڑی دیر کے لیے ہوتا ہے۔ کہ جب تک آدمی سن رہا ہوتا ہے۔
جیسا کہ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
(أَنَّ الْمَوَاعِظَ كَالسَّيَاطِ)
’’وعظ ونصیحت کی مثال کوڑوں کی سی ہے۔ ‘‘
(وَالسَّيَاطُ لَا تُولِمُ بَعْدَ إِنْقِضَائِهَا إِيلَامَهَا وَقَتَ وُقُوعِهَا) (صيد الخاطر ، ص:24)
’’کوڑوں کا درد جو کوڑے پڑتے وقت ہوتا ہے وہ کوڑے ختم ہونے کے بعد نہیں ہوتا ۔‘‘
تو ایک طرف تو طبعی اور فطری طور پر دنیا کی محبت اور اس کی خواہش اور چاہت کا دل میں ہونا اور پھر اس چاہت کی اس قدر چاہت ہوتا کہ ہر چاہت پہ دم نکلے۔ سمجھ نہیں آتی آدمی ان چاہتوں کے دام سے نکلے تو کس طرح نکلے!
یقینًا یہ اک بہت بڑا امتحان ہے، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی ، اس امتحان کا استحصال اس سے بھی بڑا امتحان ہے، اور وہ کیا ہے؟ شیطان کہ جس کے پاس انسان کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا اک کارگر تربہ وسوسہ ہے، وہ اس وسوسے کے ذریعے انسان کی خواہشات نفس کو استعمال کرتا ہے، ان کا استحصال کرتا ہے انہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا اور ابھارتا ہے۔
اک سادہ لوح مسلمان، دین کے احکام سے لاعلم، خواہشات میں گھرا ہوا، دنیا کی دلدل میں پچھسا ہوا ، شیطان کی چالوں سے بے خبر، اور اس کے وسوسوں میں جکڑا ہوا حیران ہے کہ کیا کرے اور کدھر جائے؟
تو آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں: دل میں پائی جانے والی فطری خواہشات جب برانگیختہ اور مشتعل ہوتی ہیں تو خیالات اور حدیثِ نفس کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ آدمی محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ اس کا دل اسے کچھ کہہ رہا ہے۔
انسان سے مطلوب یہ ہے کہ حدیث نفس سے بھی بچتا رہے اور شیطان کے وسوسوں سے بھی بچتا رہے۔ حدیث نفس کو سوسہ نفس بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ دو قسم کے وسوسے ہیں، بلکہ تین قسم کے ہیں۔ ایک ہے وسوسہ نفس، خود اپنے دل میں پیدا ہونے والا وسوسہ، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ منْ حَبْلِ الْوَرِيدِ﴾ (ق:16)
’’ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں، ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ ‘‘
اور دوسرا اور تیر اوسوسہ ہے جو شیطان ڈالتا ہے، ایک وہ شیطان جو جنوں میں سے ہے اور دوسرا وہ جو انسانوں میں سے ہے۔
﴿الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ﴾(الناس: 6،5)
’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، خواہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں ہے۔‘‘
اس شیطان کے وسوسے سے بچنا تو آسان ہے، کہ ادھر اعوذ بالله من الشيطان الرجیم پڑھا اور ادھر شیطان بھاگا۔
﴿ اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا۠﴾(النساء:76)
’’شیطان کی چالیں نہایت کمزور ہیں ۔‘‘
مگر نفس کے وسوسے سے کیسے بچا جائے؟ اس کے لیے سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کون سا وسوسہ شیطانی وسوسہ ہے اور کون سا وسوسہ حدیث نفس یا نفس کا وسوسہ اور خیال ہے!
تو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ابو حازم کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:
(مَا كَرِهَتْهُ نَفْسُكَ لِنَفْسِكَ فَهُوَ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنْهُ)
’’جس وسوسے کو تمہارا نفس ہی اپنے لیے نا پسند کرتا ہو، وہ شیطان کی طرف سے وسوسہ ہے، اس سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘
(ومَا أَحَبَّتْهُ نَفْسُكَ لِنَفْسِكَ فَهُوَ مِنْ نَفْسِكَ فَانهَهَا عَنْهُ) (مجموع الفتاوى:529/17)
’’اور جس کو تمہارا نفس اپنے لیے پسند کرتا ہو وہ تمہارے نفس کا وسوسہ ہے، بس اس سے رک جاؤ۔‘‘
جس طرح شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم ہے ایسے ہی نفس کے شر سے پناہ مانگنے کی بھی دعا سکھلائی گئی ہے، مگر نفس کے شر سے بچنے کے لیے کچھ قوت ارادی ، ضبط نفس اور عزیمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، تاہم وسوسے نفس ہو یا یا وسوسہ شیطان، دونوں سے بچنے کے لیے یقینًا سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
انسان کا اپنا وسوسۂ نفس بھی اگر چہ اس کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے لیکن شیطان اگر اس وسوسے کا استحصال کر لے تو یہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ شیطان ان خیالات اور وسوسوں کو ابھارتا اور بر انگیختہ کرتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں تمام قسم کے وسوسوں سے محفوظ فرمائے ۔ آمین وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين۔