شرک کرنے والے کے عمل برباد ہو جاتے ہیں۔

123۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى: أَنَا أَغْنَى الشَّرَكَاءِ عَنِ الشَّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَكَ فِيهِ مَعِيَ غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2985)

’’اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے کہ شریک بنائے جانے والوں میں سب سے زیادہ میں شراکت سے مستغنی ہوں۔ جس شخص نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیتا ہوں۔ ‘‘

124۔سیدنا ابو سعد بن ابو فضالہ انصاری  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ، نَادٰى مُنَادٍ مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ فَلْيَطْلُبُ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى الشَّرَكَاء عَنِ الشَّرْكِ)) (أخرجه الترمذي: 3154، و ابن ماجه:4203)

’’جب اللہ تعالی اگلے پچھلے تمام لوگوں کو قیامت کے دن کے لیے جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، ایک منادی کرنے والا اعلان کرے گا: جس نے جو کام اللہ کے لیے کیا تھا اور اس میں کسی کو شریک ٹھہرایا تھا تو وہ اس کا ثواب، غیر اللہ ہی سے طلب کرے کیونکہ اللہ تعالی تمام شریکوں سے بڑھ کر شرک سے بے نیاز ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: اعمال برباد ہونے کی دو صورتیں:

٭ کوئی کام نیکی کجھ کر کیا جائے اور اس میں اللہ کی رضا کے علاوہ کوئی اور مقصد کار فرما ہوتو ایسا عمل ضائع ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے جہنم کو جن لوگوں سے بھڑکایا جائے گا وہ شہید، سخی اور عالم ہو گا جنھوں نے حصول شہرت کے لیے یہ کام کیے ہوں گے۔ ایسا عمل اللہ کے ہاں کوئی وقعت نہیں رکھتا۔

٭ جو شخص شرک کی حالت میں مرا تو اس کی تمام نیکیاں اکارت جائیں گی،  خواہ وہ نیکیاں بجائے خود صحیح ہوں۔

125۔ سیدنا  ابوذر  رضی  اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص فجر کی نماز کے بعد گفتگو کرنے سے پہلے دو زانو بیٹھے ہوئے، دس مرتبہ کہتا ہے: ((لا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہی ہے، اس کے لیے حمد وستائش ہے، وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

عَشْرَ مَرَّاتٍ، كُتِبَتْ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَمُحِيَ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَكَانَ يَوْمَهُ ذٰلِكَ كُلَّهُ فِي حِزْرٍ مِنْ كُلِّ مَكْرُوةٍ، وَحَرْسٍ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَلَمْ يَنْبَغِ لِذَنْبٍ أَنْ يُدْرِكَهُ فِي ذٰلِكَ الْيَوْمِ إِلَّا الشَّرْكَ بِاللهِ)) (أخرجه الترمذي: 3474، وهو عند البزار في مسنده 4050، والنسائي في عمل اليوم والليلة:127)

’’اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس درجات بلند ہوتے ہیں اور وہ دن بھر تمام مکروہات سے (اللہ تعالی کی) پناہ میں رہتا ہے، شیطان سے حفاظت میں رہتا ہے اور اسے اس دن کوئی گناہ سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے ہلاک نہیں کر سکے گا۔‘‘

توضیح و فوائد: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ دعا پڑھے اس دن اس سے جو گناہ بھی سرزد ہو گا، وہ اسے تباہ نہیں کرے گا، تاہم اگر شرک کا ارتکاب کیا تو اس دعا کے اثرات ختم ہو جائیں گے اور وہ سچی تو بہ کیے بغیر شرک کی سزا سے نہیں بچ سکے گا۔

126۔امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اس جیسی روایت سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کے ذکر کے علاوہ شہر بن حوشب

عن عبد الرحمن بن غنم سے مروی ہے۔(أخرجه أحمد:17990)

……………………..