شوہر کے حقوق

ارشاد ربانی ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا﴾ (سورة النساء، آیت: 1)
ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔
نيز فرمايا: ﴿وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ﴾ (سوره بقره آیت: 228)
ترجمہ: ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قِيلَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ: أَىُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ؟ قَالَ : الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ، وَتُطِيْعُهُ إِذَا أَمَرَ، وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ (أخرجه النسائي).
(سنن نسائي: كتاب النكاح، باب أي النساء خير، وقال الألباني في حسن صحيح في المشكاة (3272) وفي الصحيحة: (1838)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے بہتر عورت کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو اس کو خوش کردے، جب کسی کام کے لئے کہا جائے تو وہ بجالائے، اور شوہر کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے نفس اور مال کے بارے میں ایسا تصرف نہ کرے جو شوہر کے لئے ناپسندیدہ ہو۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهُ : إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَلَمْ تَأْتِهِ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا لَعَنَتُهَا المَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ (متفق عليه).
(صحیح بخاري: كتاب النكاح، باب إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها، صحيح مسلم: كتاب النكاح باب تحریم امتناعها من فراش زوحها.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آدمی اپنی عورت کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ نہ آئے، اور خاوند وہ رات اس سے ناراضی کی حالت میں گزارے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَن رَسُول الله ﷺ قَالَ: لَا يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصُومَ وَزَوجُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَلَا تَأْذَنُ فِيْ بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ. (متفق عليه).
(صحیح بخاری: كتاب النكاح، باب لا تأذن المرأة في بيت زوجها لأحد إلا باذنه، صحیح مسلم: کتاب الزكاة، باب ما أنفق العبد من ماله مولاه)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے اور نہ یہ جائز ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو اس کے گھر میں آنے کی اجازت دے۔
تشریح:
شریعت اسلامیہ نے بہت سارے حقوق بیان کئے ہیں انہیں حقوق میں سے میاں بیوی کے حقوق بھی ہیں جن کی ادائیگی ہر ایک کے اوپر لازم ہے۔ اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں پر فوقیت دی ہے کیونکہ مرد ہی پر گھروں کے چلانے کی پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب شوہر عورت کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے اور شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے نیز اس کی موجودگی میں بغیر اس کی اجازت کے نفلی روزے سے اجتناب کرے اور جب وه اپنی خاص ضرورت کے لیئے بلائے تو انکار نہ کرے اگرچہ کسی خاص کام ہی میں کیوں نہ مشغول ہو اسی طرح بغیر اس کی اجازت کے کسی اجنبی آدمی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دے۔ ان کے علاوہ اور بھی حقوق ہیں جن کی رعایت عورتوں کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالی زوجین میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے حقوق سمجھنے کی توفیق دے۔
فوائد:
٭ شوہر کو عورت پر فوقیت حاصل ہے۔
٭ شوہر کی موجودگی میں عورت کے لئے بغیر اس کی اجازت کے نفلی روزہ رکھنا منع ہے۔
٭ شوہر کی اطاعت عورت کے لئے دخول جنت کا سبب ہے۔
٭ شوہر کی عدم موجودگی میں عورت پر اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت واجب ہے۔
٭٭٭٭