شوق جنت فطرت انسانی ہے

﴿وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ۝۱۳۳﴾(ال عمران:133)
گذشتہ خطبہ جمعہ میں جنت کا ذکر ہو رہا تھا، اور جنت کا ذکر، جنت کی خواہش اور جنت کا تصور اور خیال انسان کی فطرت اور سرشت ، اس کے مزاج ، اس کی طبیعت ، اس کے خمیر اور اس کے تحت الشعور میں موجود ہے، لہٰذا اس کے ذکر کی کوئی خاص مناسبت اور سبب نہ بھی ہو تو اس کی غیر شعوری خواہش، چاہت اور طلب راکھ کے ڈھیر میں اک دلی ہوئی چنگاری کی طرح موجود ہوتی ہے، جب اسے ذراسی ہوا اور پھونک دی جائے تو وہ بھڑک کر شعلہ والا بن جاتی ہے۔
کچھ اسی طرح جنت کا شوق ہے جو کہ انسان کے خمیر میں پوشیدہ ہے، جب اس کا ذکر چھڑتا ہے تو اس کی طلب میں تازگی اور نشاط پیدا ہو جاتی ہے۔ جنت کے ذکر سے اس کے شوق اور اس کی طلب و جستجو میں اضافے کا ایک سبب تو یہ ہے کہ جنت کا وجود اور اس کی طلب اور خواہش ہر مسلمان کے عقیدہ و ایمان کا حصہ ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جنت انسان کا مسکن اول رہا ہے۔ ہم ان جسموں کے ساتھ تو اگر چہ وہاں موجود نہ تھے مگر ہماری روحیں وہاں ضرور موجود رہی ہیں۔ اور جب کوئی مسلمان فوت ہوتا ہے تو اس کی روح پھر جنت میں چلی جاتی ہے، جسم اس کا دنیا میں ہی ہوتا ہے، قبر میں سمندر میں یا جہاں کہیں بھی ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٍ يَعْلَقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهُ الله تَبَارَكَ وَتَعَالٰى إِلٰى جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ)) (مسند احمد:157761)
’’فرمایا: مؤمن کی روح مرنے کے بعد جنت کے درختوں کے پھل کھاتی پھرتی ہے، حتی کہ جب قیامت کے دن اللہ تعالی لوگوں کو اٹھا ئیں گے تو پھر ان کی روحیں ان کے جسموں میں لوٹا دی جائیں گی ۔‘‘
جنت میں اہل ایمان کی روحیں درجات کے تفاوت کے حساب سے ہوں گی، کچھ اعلی علیین میں ہوں گی جیسے انبیاء علیہم السلام کی روحیں ہیں، کچھ سبز پرندوں کے قالبوں میں ہوتی ہیں، کھاتی پیتی اور جنت کے نظارے کرتی ہیں جیسے شہداء کی روحیں ہیں، اسی طرح سب اپنے اپنے درجات کے حساب سے ہوں گی۔
جنت میں اپنے جسم کے ساتھ آدم علیہ السلام رہے ہیں اور آپ ﷺنے جنت کی سیر کی ہے اور اس طرح عیسی علیہ السلام ہیں مگر ان کا معاملہ ذرا دوسرا ہے، ان کی تو تخلیق بھی آدم علیہ السلام طرح دوسروں سے مختلف ہے۔
تو ان جسموں کے ساتھ اگر چہ ہم وہاں موجود نہ تھے مگر ہماری روھیں وہاں ضرور موجود رہی ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں بھی ہے اور احادیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالی نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکال کر خود ان کو ان کے اوپر گواہ بنا کر پوچھا تھا کہ
﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾
’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ‘‘
﴿قَالُوا بَلٰى شَهِدْنَا﴾ (الاعراف:172)
’’تو سب نے کہا: ہاں آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ۔‘‘
آج وہ عہد الست تو اگر چہ کسی کو یاد نہیں مگر فطرت سلیمہ اس کی مقرود معترف ہے، اس طرح وہاں وہ قیام بھی اگر چہ ہمیں یاد نہیں مگر اس کا انس اب بھی فطرت محسوس کرتی ہے۔ اور یہ بات بھی انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنی پہلی منزل کو ہرگز نہیں بھول پاتا ، اس کی رغبت اور اس کا شوق اور اس کی چاہت ہمیشہ دل میں رہتی ہے، جیسا کہ شاعر ابو تمام کہتا ہے۔
وَكَمْ مَنْزِلٍ فِي الْأَرْضِ يَأْلْفُهُ الْفَتَى
وَحَنِيْنُهُ أَبَدًا لِأَوَّلِ مَنْزِلِ
’’انسان دنیا میں کتنی ہی مختلف جگہوں سے مانوس و مالوف ہوتا ہے مگر منزل اول کی طرف اس کا اشتیاق بدستور قائم رہتا ہے۔‘‘
انسان زندگی میں ضرورت کے تحت ، مجبوری کے باعث یا از راہ شوق اپنا مسکن بدلتا رہتا ہے، مگر اپنے آبائی گھر، یا وہ گھر جہاں اس کا بچپن گزرا ہو، جہاں اس کی یادیں وابستہ ہوں اسے ہمیشہ یاد رہتا ہے، اور دل میں اس کی یاد اور اس کے انس اور الفت کی اک لذت ضرورپاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے وطن اور گھر کی محبت انسان کی شدید فطری محبت ہے اور اس میںیقینًا حکمتیں پوشیدہ ہیں، اگر اپنے علاقے اور وطن کی محبت نہ ہوتی تو صحرائی اور پہاڑی علاقے سخت گرم اور سخت ٹھندے علاقے شاید آباد نہ ہوتے۔
وطن کی محبت کی گہرائی پر غور کیجیے کہ لوگ کیسے صحراؤں میں سانپوں، بھیڑیوں اور درندوں کے ساتھ رہنا گوارا کر لیتے ہیں مگر اپنا علاقہ نہیں چھوڑتے ، اسی طرح پہاڑوں اور وادیوں میں رہنے والے لوگ وہاں کی مشقتیں اور صعوبتیں برداشت کر لیتے ہیں مگر اپنا وطن چھوڑ نا انہیں گوارا نہیں ہوتا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ فرماتے ہیں:
( وَلَولَا حُبُّ الْوَطَنِ لَخَرِبَ الْبَلَدُ السُّوءُ . .)( المحاسن والمساوئ للبيهقي، ص:286)
’’اور اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو برے شہر ویران ہو جاتے ۔‘‘
اور فرمایا:
(عَمَّرَ الله البُلْدَانَ بِحُبِّ الْأَوْطَانِ) (ربيع الأبرار للزمخشرى، ج:1، ص:286)
’’اللہ تعالی نے وطنوں کی محبت سے شہروں اور علاقوں کو آباد کیا۔‘‘
اور وطن کی محبت انسان کے دل میں کتنی گہری ہوتی ہے، قرآن پاک کی اس آیت کریمہ سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ ؕ﴾ (النساء:66)
’’اور اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو قتل کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے ۔‘‘
﴿ وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآىِٕنَا﴾ (البقرة:246)
’’بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں، ہمیں تو اپنے گھروں سے نکال دیا گیا، اور بچوں سے دور کر دیا گیا۔‘‘
آپ جانتے ہیں کہ اپنے آپ کو قتل کرنا کتنا مشکل کام ہے، دشمن سے لڑتے ہوئے قتل ہو جانا اک دوسری بات ہے، مگر اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنا یا قتل کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دینایقینًا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ اور یہاں اللہ تعالی اس آیت کریمہ میں اپنے آپ کو قتل کرنے اور اپنے گھروں سے نکل جانے کو ایک جیسا شدید نوعیت کا عمل قرار دے رہے ہیں۔
آپﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم پر ہجرت کرتے ہوئے گھروں کو چھوڑ نا کتنا تکلیف دہ تھا، سیرت کی کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے، جس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔
تو جنت جو کہ ہمارے ماں باپ کا اور ہماری روحوں کا مسکن اول اور منزل اول رہا ہے اس کا شوق دل میں ہوتا ایک طبعی اور فطری بات ہے۔ اور اس کا ذکر اس شوق میں اضافے کا سبب بنتا ہے، لہٰذا ہم جنت کی نعمتوں کا ، اور اہل جنت کی صفات کا کچھ ذکر کرنا چاہیں گے مگر اس سے پہلے جنت کے شوق کے حوالے سے اک اور حدیث سنتے ہیں کہ اہل ایمان کسی طرح جنت کا شوق دل میں رکھتے ہیں۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا ((إِنَّ للهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰى مَلَائِكَةً سَيَّارَةً فُضُلًا يَتَتَبَّعُوْنَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ))( صحیح مسلم:2989)
’’اللہ تعالی کا ایک فرشتوں کا موبائل سکواڈ ہے ایک گشت کرنے والا دستہ ہے، جس کا کام صرف مجالس ذکر میں شامل ہوتا ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے۔
(فُضُلًا عَنْ كِتَابِ النَّاسِ))
وہ دستہ لوگوں کے اعمال لکھنے والے کرانا کا تین کے علاوہ ہے، ان کا کام صرف ذکر کی محفلوں میں حاضر ہوتا ہے۔
((فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ))( مسند احمد ج:2، ص:251، رقم:7418)
’’جب وہ کوئی ایسی مجلس دیکھتے ہیں کہ جس میں کسی طرح اللہ تعالی کا ذکر ہو رہا ہو تو ان کے ساتھ وہ بھی بیٹھ جاتے ہیں‘‘
یہاں ذکر سے مراد دین کی باتیں ہیں۔ قرآن وحدیث کا درس ہے، وعظ و نصیحت کا ماحول ہے، قرآن وحدیث کی تعلیم ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتِ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُوْنَهُ بَيْنَهُم إلا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السكينة، وَغَشِيتهم الرَّحْمَةُ وَحَقَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَ هُمُ اللهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ)) (مسلم:2699)
’’ کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر (مسجد) میں بیٹھ کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر پڑھتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ رحمت ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں اپنے پروں میں گھیر لیتے ہیں، اور اللہ تعالی ان کا ذکر ان لوگوں میں کرتا ہے جو اس کے پاس (فرشتے) ہیں۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((خَرَجَ مُعَاوِيَةَ بنِ أبي سفيان لا عَلَى حَلْقَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ مَا أَجْلَسَكُمْ قَالُوا جَلَسْنَا نَذْكُرُ الله))
’’حضرت معاویہ بن ابی سفیان بنی یہ مسجد میں بیٹھی ہوئی ایک مجلس میں گئے، اور دریافت کیا کہ تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہو، انہوں نے کہا کہ ہم بیٹھے اللہ کا ذکر کر رہے ہیں۔‘‘
((قَالَ: آللهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ))
’’فرمایا: کیا اللہ کی قسم تم لوگ صرف اس لیے بیٹھے ہوئے ہو۔‘‘
((قَالُوا وَاللهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ))
’’انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اس کے سوا ہمیں کسی چیز نے نہیں بٹھایا۔ یعنی صرف اس کام کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں‘‘
((قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ اَسْتَحْلِفُكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ))
’’کہا: میں نے تمہیں کسی الزام کی وجہ سے تم سے قسم نہیں لی۔‘‘
((وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللهِ أَقَلَّ عَنْهُ حَدِيْثًا)) .(مسلم:2701)
’’اور آپﷺ سے قربت کے حوالے سے میرے جیسا کوئی کم حدیثیں روایت کرنے والا بھی نہیں ہے۔‘‘
یعنی آپﷺ سے جو میری اتنی قربت ہے مگر اس کے باوجود میں نے سب سے کم حدیثیں روایت کی ہیں، مگر اس کے باوجود ایک حدیث آپ کو سناتا ہوں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی آپ ﷺسے قربت یوں ہے کہ وہ ام المومنین ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہا کے بھائی ہیں، اور اس نسبت سے وہ خال المومنین کے نام سے مشہور ہیں۔ یعنی مومنوں کے ماموں ، اگر چہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی یہی رشتہ ہے مگر اس نام سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی زیادہ مشہور ہیں۔
تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حدیث بیان کرتے ہیں۔
((إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خرجَ عَلٰى حَلْقَةٍ مِنْ أَصحابه))
’’ایک بار آپﷺ اپنے صحابہ کی ایک مجلس میں تشریف لے گئے۔‘‘
((فَقَالَ: مَا أَجْلَسَكُمْ))
’’آپﷺ نے فرمایا: تم لوگ کیسے بیٹھے ہو؟‘‘
((قَالُوا جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللهَ وَنَحْمَدُهُ عَلَى مَا هَدَانَا لِلإِسْلَامِ وَمَنَّ بِهِ عَلَيْنَا))
’’صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کہا: ہم اللہ تعالی کا ذکر اور اس کی تعریف کر رہے ہیں اس پر کہ اس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی اور اس کے ساتھ ہم پر احسان فرمایا۔‘‘
((قَالَ: آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ))
فرمایا: کیا اللہ کی قسم ! صرف اسی چیز نے تمھیں بٹھایا ہے؟
((قَالُوا وَاللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ))
صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا: اللہ کی قسم ! ہمیں اسی چیز نے یہاں بٹھایا ہے۔‘‘
((قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِقُكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ))
’’آپﷺ نے فرمایا: میں نے تمھیں کسی الزام کی وجہ سے تم سے قسم نہیں لی۔‘‘
((وَلَكِنَّهُ آتَانِی جِبْرِيلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبَاهِي بِكُمْ المَلَائِكَة)) (مسلم:2701)
’’لیکن میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اللہ عزوجل فرشتوں میں تم پر فخر کرتا ہے۔‘‘
تو مجالس ذکر کا معنی احادیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس سے مراد وعظ ونصیحت، درس و تدریس اور دین کی باتیں کرنا ہے۔ تو اللہ تعالی کے گشت کرنے والے فرشتوں کا دستہ مجالس ذکر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، اور جہاں نہیں دو کوئی ایسی مجلس دیکھتے ہیں تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔
((وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِم حَتّٰى يَمْلَؤُوْا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا))
’’اور وہ فرشتے ایک دوسرے کے پروں کے ساتھ اس مجلس کے گرد ایسا حصار بنا لیتے ہیں کہ ان کی مجلس سے آسمان دنیا تک تمام جگہ بھر دیتے ہیں۔ ‘‘
((فَإِذا تَفَرَّقُوْا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ))
’’پھر جب مجلس برخاست ہو جاتی ہے اور لوگ منتشر ہو جاتے ہیں، تو فرشتے آسمانوں پر چلے جاتے ہیں ۔‘‘
((فَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ))
تب اللہ عز وجل ان سے پوچھتے ہیں جب کہ اللہ تعالی ان کے بارے میں بہتر جانتے ہیں۔
((مِنْ اَیْنَ جِئْتُم ؟))
’’تم کہاں سے آئے ہو ؟‘‘
((فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِي الْأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُوْنَكَ وَيَهَلِّلُوْنَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ))
’’تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم زمین پر تیرے ایسے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح بیان کرتے ہیں تکبیر بیان کرتے ہیں تیری تبلیل بیان کرتے ہیں (لا إله إلا اللہ) کہتے ہیں، تیری حمد بیان کرتے ہیں اور تجھ سے سوال کرتے ہیں دعا مانگتے ہیں۔ دعامانگتے ہیں۔‘‘
((قَالَ: وَمَاذَا يَسْأَلُونِي))
’’اللہ فرماتے ہیں: وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں ؟‘‘
((قَالُوا: يَسْأَلُونَكَ جَنَّتَكَ))
’’تو فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت کا سوال کرتے ہیں ۔‘‘
تو اللہ فرماتے ہیں:
((وَهَلْ رَأَوْا جَنَّتِي))
’’اور کہا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟‘‘
((قَالُوا: لَا أَي رَبِّ))
’’وہ کہتے ہیں نہیں ! اے ہمارے رب۔‘‘
((قَالَ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا جَنَّتِي))
’’تو اللہ فرماتے ہیں اور اگر وہ میری جنت دیکھ لیتے تو کیا ہوتا !‘‘
((قَالُوا وَيَسْتَجِيرُونَكَ))
’’فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تیری پناہ بھی مانگتے ہیں ۔‘‘
((قَالَ وَمِمَّ يَسْتَجِيْرُوْنَنِي))
’’اللہ فرماتے ہیں کسی چیز سے وہ میری پناہ مانگتے ہیں؟‘‘
((قَالُوا مِنْ نَارِكَ يَا رَبِّ))
’’فرشتے کہتے ہیں: تیری آگ سے اے ہمارے رب
((قَالَ: وَهَلْ رَأَوا نَارِي ؟))
’’اللہ فرماتے ہیں: اور کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟‘‘
((قَالُوا: لَا))
’’کہتے ہیں نہیں ۔‘‘
((قَالَ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا نَارِي))
’’تو اللہ فرماتے ہیں اور اگر وہ میری آگ دیکھ لیتے تو کیا ہوتا ۔ یعنی اس سے زیادہ شدت سے پناہ مانگتے۔‘‘
((قَالُوا: وَيَسْتَغْفِرُونَكَ))
’’فرشتے کہتے ہیں: اور وہ تجھ سے بخشش اور مغفرت بھی طلب کرتے ہیں ۔‘‘
((قَالَ: فَيَقُولُ: قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ))
’’فرمایا: اللہ فرماتے ہیں: میں نے ان کو بخش دیا۔‘‘
((فأعطيتهم ما سألُوا وَأَجَرَتْهُمْ مِمَّا اسْتَجَارُوا))
’’اور جو انہوں نے مانگا میں نے انہیں عطا کیا اور جس سے میری پناہ مانگی، میں نے انہیں پناہ دے دی ۔‘‘
((قَالَ: فَيَقُوْلُوْنَ))
’’فرمایا: جب فرشتے کہتے ہیں۔‘‘
((رَبِّ فِيهِمْ فُلانٌ عَبْدٌ خَطَّاءٌ إِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَهُمْ))
’’فرشتے کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ان میں ایک ایسا بندہ بھی ہے جو بہت زیادہ گناہ گار ہے وہ تو گزر رہا تھا تو ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔‘‘
((قَالَ: فَيَقُولُ:))
آپ ﷺنے فرمایا: تو اللہ فرماتے ہیں‘‘
((وَلَهُ غَفَرْتُ))
’’میں نے اس کو بھی بخش دیا ہے۔‘‘
((هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيْسُهُمْ))(مسلم:2689)
’’وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی بد نصیب اور بد بخت نہیں رہتا۔‘‘ اللهم اجعلنا منهم . آمين
تو جنت کے شوق کی بات ہو رہی تھی کہ اہل ایمان یوں جنت کا شوق، اس کی خواہش اور طلب رکھتے ہیں اور اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں۔
بلکہ ترغیب دی گئی ہے۔ فرمایا:
((إِذَا سَأَلْتُمُ اللهُ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوس))
’’جب تم اللہ تعالی سے مانگو تو جنت الفردوس مانگو۔‘‘
((فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ، وَأَعْلَى الْجَنَّةِ، وَفَوْقَهُ عَرْشِ الرَّحْمَنِ ومِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ)) .(بخاری:7423، 2790)
’’کیوں کہ وہ جنت کا درمیان اور جنت کا اعلیٰ مقام ہے، اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہے۔‘‘
تو جنت ہر مسلمان کی خواہش، اور اس کی تمنا اور آرزو ہے، اور اس کی آخری منزل ہے، اور اس کی طلب و جستجو اللہ کا حکم ہے۔ مگر کچھ لوگ جنت اور جہنم کے بارے میں بڑا عجیب اور گمراہ کن عقیدہ رکھتے ہیں۔ جیسا کہ رابعہ بصریہ سے منسوب ایک قول ذکر کیا جاتا ہے کہ رابعہ بصریہ (رحمها الله) نے کہا کہ اگر میرے ایک ہاتھ میں آگ ہو اور دوسرے میں پانی تو میں آگ سے جنت کو جلا دوں اور پانی سے جنم کی آگ کو بجھا دوں ۔ تاکہ لوگ جنت کے لالچ سے اور جہنم کے ڈر سے اللہ کی عبادت نہ کریں۔ بلکہ اللہ کی محبت کے جذبے سے کریں، اور یه عقیده سراسر قرآن وحدیث کا انکار ہے۔ اللہ تعالی ہمیں قرآن وحدیث پر عمل کرنے والا پکا اور سچا مسلمان بنائے۔ آمین