شکر کی فضیلت

﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيْدٌ﴾ (ابراهيم:7)
’’اگر تم شکر گزاری کرو گے تو ہم تمہیں زیادہ دیں گے اور اگر ناشکری کرو گے تو سزا کے مستحق ہوگے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
﴿إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَّإِمَّا كَفُورًا﴾ (دهر:3)
’’ہم نے ان کو سیدھا راستہ بتایا (اب وہ) یا تو شکر گزاری کرے یا نا شکر گزار بن جائے۔‘‘
شکر کا یہ مطلب ہے کہ کوئی کسی کا تھوڑا سا بھی کام کر دے تو دوسرا اس کی پوری قدر کرے یہ قدرشناسی تعین طریقوں سے ہو سکتی ہے دل سے زبان سے اور ہاتھ پاؤں سے یعنی دل سے اس کی قدرشناسی کا جذبہ جو زبان سے اس کے کاموں کا اقرار ہو اور اس کے ہاتھ پاؤں سے ان کاموں کے جوابات میں ایسے افعال صادر ہوں جو کام کرنے والے کی بڑائی کو ظاہر کریں۔ کسی شاعر نے ان تینوں کو اس شعر میں جمع کر دیا ہے۔
افادتكم النعماء منى ثلاثة یدی و لساني والضمير المحجبا
’’یعنی تمہاری نعمتوں کا شکر میں نے اپنے ہاتھ زبان اور دل کی گہرائیوں سے ادا کیا۔‘‘
خدا کی نعمتوں کی ناقدری کرنا اور ان نعمتوں پر پردہ ڈالنا اور زبان و دل سے اس کا اقرار اور اپنے عمل سے اس کا اظہار نہ کرنا، کفران نعمت ہے یہ شکر اور کفران نعمت دونوں کا تقابل ہے اس لئے قرآن مجید میں ان دونوں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا ہے جیساکہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے معلوم ہوا۔ ایک لمبی حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’میں نے دوزخ کو دیکھا جس میں زیادہ تر کافرہ عورتیں نظر آئیں۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ کیا یہ عورتیں اللہ کے ساتھ کفر کرتیں ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ اپنے خاوندوں کا کفر یعنی ان کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہیں۔ اگر ساری عمر ان کے ساتھ احسان کرو اور پھر کوئی تکلیف انہیں پہنچ جائے تو کہتی ہیں کہ زندگی بھر کبھی آرام نہیں ملا۔[1]
اور کبھی شکر کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذرا ذرا سے کاموں کی پوری پوری قدر کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب النکاح باب كفران العشير وهو الزوج-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا﴾ (النساء: 147)
’’اگر تم شکر کرو اور ایمان لاؤ تو خدا تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا اور اللہ تعالی تو قدر پہنچاننے والا اور علم رکھنے والا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالی اپنے بندوں سے صرف دو باتیں چاہتا ہے شکر اور ایمان۔ ایمان کی حقیقت تو معلوم ہے اب رہا شکر تو شکر شریعت کی ہر چیز پر حاوی ہے۔ ساری عبادتیں شکر گزاری کے لئے ہی ہیں۔ بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور نیک برتاؤ کی حقیقت بھی شکر ہی ہے دولت مند اگر اپنی دولت کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں دیتا ہے تو یہ دولت کا شکر ہے۔ صاحب علم اپنے علم سے بندگان خدا کو فائدہ پہنچاتا ہے تو یہ علم کی نعمت کا شکر ہے۔ طاقتور کمزوروں کی امداد اور اعانت کرتا ہے تو یہ بھی طاقت وقوت کی نعمت کا شکریہ ہے۔
اللہ تعالی خالق کا ئنات ہے اور اس کی بے شمار نعمتیں اپنی مخلوقات پر ہیں جنہیں شمار بھی نہیں کیا جا سکتا ان نعمتوں کی شکر گزاری فرض ہے جس کے لئے لفظ حمد اور لفظ شکر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسے الحمد للہ ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ حمد زبانی تعریف کو کہتے ہیں خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو وہ اس کی لاز م صفتوں پر ہو یا متعدی سنتوں پر ہو اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل و زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے۔ ہر ہر نعمت کے بدلے میں شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد شکر ادا کرنے کا مطالبہ ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔
(1) ﴿تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوْجًا وَجَعَلَ فِيْهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيْرًا وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن یَذَكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا﴾ (فرقان: 61-62)
’’بڑی برکت اس کی ہے جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور اجالا کرنے والا چاند رکھا اور اسی نے رات اور دن بتایا کہ ایک کے بعد ایک آتا ہے اس کے واسطے جو دھیان رکھے یا شکر ادا کرنا چاہے۔‘‘
(2) ﴿ذٰلِكَ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُۙ۝۶ الَّذِیْۤ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍۚ۝۷ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍۚ۝۸ ثُمَّ سَوّٰىهُ وَ نَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ﴾ (سجدة: 6۔9)
’’وہ ذات پاک جو حاضر و غائب کا جاننے والا نہایت غلبہ والا۔ بہت ہی رحم والا ہے۔ جس نے جو چیز بنائی بہت خوب بنائی اور انسان کی پیدائش ایک گارے سے شروع کی پھر اس کی اولاد کو بے قدرسے (نچڑے ہوئے) پانی سے بنایا پھر اس کو درست کیا اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونکا اور تمہارے کان آنکھ اور دل بنا دیے تم کم شکر کرتے ہو۔‘‘
(3) ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ ﴾ (بقرة: (172)
’’اے ایمان والو! ہم نے جو تم کو روزی دی پاک چیزوں میں سے اسے کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘
(4) ﴿فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا ۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۝۱۱۴﴾ (النحل : 114)
’’تو اللہ نے جو تم کو حلال اور پاک چیزیں دی ہیں ان کو کھاؤ اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو۔ اگر تم اس کو پوجتے ہو۔‘‘
یہ مالی نعمت کا شکریہ ہے کہ اس کے حکم کے مطابق مال خرچ کیا جائے۔ تیسری قسم یہ ہے کہ کسی محسن نے جس قسم کا احسان ہمارے ساتھ کیا ہو ہم اسی قسم کا احسان اس کے ساتھ کریں اور فرمایا:
(5) ﴿وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَ تَرَی الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۴﴾ (النحل: 14)
’’اور اس نے سمندر کو تمہارے بس میں کر دیا کہ تم اس سے تازہ گوشت (مچھلی) کھاؤ اور اس سے آرائش کی چیز نکالو جس کو تم پہنتے ہو (یعنی موتی) اور تم جہازوں کو دیکھتے ہو کہ وہ اس میں پانی کو پھاڑتے رہتے ہیں اور تاکہ تم اللہ تعالی کا فضل (رزق) ڈھونڈو، اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
(6) (كٰذَلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (حج:36)
’’اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے بس میں کر دیا کہ تم شکر کرو۔‘‘
(7) ﴿وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (قصص: 72)
’’اور اس کی رحمت سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے رات اور دن بنایا کہ تم (رات کو) آرام کرو اور (دن کو) اس کے فضل و کرم کو تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
(8) ﴿إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ﴾ (يونس:60)
’’اللہ نے انسانوں پر بڑے بڑے فضل کئے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم شکر کرتے ہیں۔‘‘
(9) ﴿وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُونَ﴾ (اعراف: 10)
’’اور ہم نے تم کو زمین میں قوت بخشی اور اس میں تمہارے لئے بسر اوقات کے بہت سے ذریعے بنائے تم بہت کم شکر کرتے ہو۔‘‘
غرض اللہ تعالٰی اپنی نعمتوں کی شکر گزاری چاہتا ہے اور اس سے خوش ہو کر زیادہ بخشش اور انعام کا دریا بہاتا ہے جیسا کہ اس نے خود ہی فرمایا:
﴿لَئِنْ شَكَرْهُمْ لَاَزِيْدَ نَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيد﴾ (ابراهيم: 7)
’’اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میری پکڑ سخت ہے۔‘‘
ناشکری کی وجہ سے اللہ تعالی ناشکروں سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے۔ یہی ان کے لئے عذاب شدید ہے قوم سبا ایک مشہور قوم گزری ہے جس کا بیان قرآن مجید میں آیا ہے۔ اللہ کی بے شمار نعمتیں انہیں ملی ہوئی تھیں بہت عیش و آرام سے یہ قوم اپنی زندگی گزارتی رہی۔
تفسیر معالم التنزیل اور تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ ملک یمن میں سبا کی قوم بڑی خوشحال و آباد تھی زمین نہایت سرسبز پھل پھول بکثرت میلوں تک میوؤں کے باغ، باغوں میں بارہ ماہ پہل لَا مَقْطُوْعَ و لا ممنوعه جنت کی کیفیت، سال در سال پر موقوف میووں نہ ہوتی، میووں کی وہ کثرت کہ جس کا جی چاہے ٹوکرے بھرے، مفت لے جائے۔ کسی کی روک تھی نہ ٹوک۔ جتنا چاہو کھالو جتنا چاہو لے جاؤ۔ پھل اس کثرت سے گرتے تھے کہ مسافر نے اپنے سر پر ٹوکرا رکھا جو پچاس قدم باغ میں راستہ چلا سارا ٹوکرا میووں سے بھر گیا۔ نہ ہاتھ سے توڑنے کی ضرورت نہ زمین پر گرے پڑے پھل اٹھانے کی حاجت۔ یہ حکم تھا کہ اس کا شکریہ ادا کرتے رہنا، انسان ہمیشہ نافرمان رہا ہے۔ شکر کی جگہ ناشکری ایمان کی جگہ کفر کرنا شروع کیا۔ ہر چند وعظ و نصیحت کی گئی کب مانتے تھے۔ آخر پانی کی ایک رو ایسی زبردست آئی کہ سارے باغ جڑ سے اکھڑ گئے۔ کہیں پتہ نہ لگا وہ باغ اب تو خواب و خیال ہو گئے جب پانی کی رو خشک ہو گئی تو باغوں کی جگہ اندرائن کے پھل اور جھاؤ کے درخت اور جنگلی جھاڑی کے پیر پیدا ہو گئے۔ اللہ تعالی ان کے واقعہ کو یوں بیان فرماتا ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ ؕ۬ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ ؕ بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ۝۱۵ فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ وَ بَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَیْهِمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَیْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّ اَثْلٍ وَّ شَیْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِیْلٍ۝۱۶ ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْا ؕ وَ هَلْ نُجٰزِیْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ۝۱۷ وَ جَعَلْنَا بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ الْقُرَی الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا قُرًی ظَاهِرَةً وَّ قَدَّرْنَا فِیْهَا السَّیْرَ ؕ سِیْرُوْا فِیْهَا لَیَالِیَ وَ اَیَّامًا اٰمِنِیْنَ۝۱۸ فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا وَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِیْثَ وَ مَزَّقْنٰهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ۝۱﴾ (سوره سا: 15-19)
’’قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں خدا کی قدرت کی نشانیاں تھیں ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھا کر اس کا شکر ادا کرو۔ عمدہ شہر اور بخشنے والا رب۔ لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر تیز بہاؤ کے پانی کا نالا بھیج دیا اور ہم نے ان کے ان ہرے بھرے باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیئے جو بد مزہ میووں والے اور بکثرت جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے یہ ہم نے انہیں ان کی ناشکری کے بدلے میں دیا۔ ہم ایسی سخت سزا بڑے بڑے ناشکروں کو ہی دیتے ہیں۔ ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی چند بستیاں اور رہی تھی جو برسر راہ ظاہر تھیں اور ان میں چلنے کی منزلیں ہم نے مقرر کردی تھیں۔ ان میں راتوں اور دنوں کو باامن و امان چلتے پھرتے رہو۔ لیکن انہوں نے پھر درخواست کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر دور دراز کے کر دے چونکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا برا کیا۔ اس لئے ہم نے انہیں گزشتہ فسانوں کی صورت میں کر دیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دئیے۔ ہر ایک صبر و شکر کرنے والے کے لئے اس ماجرے میں بہت سی عبرتیں ہیں۔‘‘
باوجود میٹھے اور ٹھنڈے پانی کی ریل پیل، پھلوں اور کھیتوں کی بے شمار روزی کے سیل حرم کے بعد یہ حالت ہوئی کہ ایک ایک لقمے اور ایک ایک بوند پانی کو ترس گئے یہ چکر، یہ عذاب، یہ تنگی اور یہ سزا جو انہیں پہنچی اس سے ہر صابر و شاکر عبرت حاصل کر سکتا ہے کہ خدا کی نافرمانیاں کس طرح انسان کو گھیر لیتی ہیں۔ عافیت کو ہٹا کر آفت لانے کا باعث بنتی ہیں۔ مصیبتوں پر صبر اور نعمتوں پر شکر کرنے والے اس میں دلائل قدرت پائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومن کے لئے تعجب خیز فیصلہ کیا ہے کہ اگر اسے راحت ملے اور شکر کرے تو اجر پائے اور اگر اسے مصیبت پہنچے اور صبر کرے تو اجر پائے۔[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الزهد، باب المومن امره كله خير:413/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں جب ہے کہ مومن کے لئے خدائے تعالی کا فیصلہ بھلائی کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اگر اسے راحت پہنچتی ہے تو شکر کر کے بھلائی کو حاصل کرتا ہے اور اگر برائی اور غم پہنچتا ہے تو یہ صبر کرتا ہے اور نیک بدلہ حاصل کرتا ہے یہ نعمت تو صرف مؤمن کو ہی حاصل ہے کہ جس کی ہر حالت بہتری اور بھلائی والی ہے حضرت مطرف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مومن صبر و شکر کرنے والا بندہ کتنا ہی اچھا ہے کہ جب اسے نعمت ملے تو شکر کرے اور جب زحمت ملے تو صبر کرے۔[1] [1](صحیح مسلم: كتاب الزھد الأمر كله خير – رقم الحديث: 7500۔ 413/2)
اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو صبر و شکر سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(بَارَكَ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمْ بِالْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ)