صلہ رحمی کی فضیلت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِنَّ اللَّهَ تعالى خَلَقَ الْخَلْقَ حَتَّى إِذَا فَرعَ مِنْهُم قَامَتِ الرَّحِمُ فَقَالَتْ: هَذَا مَقَامُ العَائِذِ بِكَ مِنَ القَطِيعَةِ قَالَ نَعَمْ، أَمَا تَرَضِينَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكَ؟ قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَذَاكِ لَك ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: اقْرَؤُوا إِنْ شئتم: ﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ، أَفَلاَ يتدبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبِ أَقْفَالُها﴾ (سوره محمد، آیت:22 تا 24) (متفق عليه)
(صحیح بخاری: كتاب الأدب، باب من وصل وصله الله، صحیح مسلم کتاب البر والصلة و الآداب، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے مخلوق پیدا کی اور جب ان سے فارغ ہوا تو رحم (رشتہ) نے عرض کیا کہ یہ اس شخص کی جگہ ہے جو قطع رحمی (رشتہ توڑے) سے تیری پناہ مانگے؟ اللہ تعالی نے فرمایا: ہاں، تو اس پر راضی نہیں کہ میں اسے جوڑوں جو تجھے جوڑے اور اس سے توڑ لوں جو تجھ سے اپنے آپ کو توڑ لے؟ رشتہ نے کہا کیوں نہیں، اے رب ! اللہ تعالی نے فرمایا کہ پس یہ تجھ کو دے دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد فرمایا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔ ﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ، أَوْلَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ الله فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ، أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبِ أَقْفَالُهَا﴾ (سوره محمد: 22 تا 24)۔
اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کرو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی کی پھنکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے، کیا یہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: مَنْ أَحَبُّ أَن يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنسأ له في أثره فَلْيَصِل رَحِمَهُ (متفق عليه).
(صحیح بخاري كتاب الأدب، باب من بسط له في الرزق بصلة الرحم، صحيح مسلم: كتاب البر والصلة و الآداب، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها.)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ اللهِ قَالَ : لَيْسَ الوَاصِلُ بِالْمُكَافِي، وَلٰكِنَّ الْوَاصِلُ الَّذِيْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا. (أخرجه البخاري).
(صحيح بخاري: كتاب الأدب، باب ليس الواصل بالمكافي)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ الله عَنْهُ أَنَّ رَجُلاً قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ. إنَّ لِي قَرَابَة أَصلُهُمْ وَيَقْطَعُونِي وَأحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَى وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَىَّ، فَقَالَ: لَئِنْ كُنتَ كما قُلْتَ فَكَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ المَلَّ، وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِم (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم كتاب البر والصلة و الآداب، باب عمدة الرحم والتحريم…)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتے دار ہیں جنہیں میں ملانے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ رشتہ کاٹ دیتے ہیں اور جب ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں تو وہ اس کا جواب برائی سے دیتے ہیں اور جب ان کے ساتھ بردباری کرتا ہوں تو وہ جہالت سے پیش آتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر حقیقت میں تو ایسا ہی کرتا ہے تو تو ان کے منہ پر جلتی راکھ ڈالتا ہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا جو تم کو ان پر غالب رکھے گا جب تک تو اس حالت پر رہے گا۔
تشریح:
شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو آپسی تعلقات اور رشتہ داریوں کو جوڑ نے اور بڑھانے کا حکم دیا اور ان تمام امور سے جو مسلمانوں کے مابین دشمنی، قطع رحمی، بغض وحسد اور دوری کا سبب نہیں حرام قرار دیا ہے۔ صلہ رحمی کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قطع رحمی کرے اور رشتہ داری کو توڑنے کی کوشش کرے اسے ملا کر رکھا جائے اسے بھاگنے نہ دیا جائے یہی اصل صلہ رحمی ہے اس کے ذریعہ انسان کی عمر میں زیادتی ہوتی ہے اور روزی میں بڑھوتری آتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں صلہ رہی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ صلہ رحمی واجب ہے۔
٭ صلہ رحمی زیادتی عمر اور کشادگئی رزق کا ذریعہ ہے۔
٭ قطع رحمی کرنے والے کو ملا نا اصل صلہ رحمی ہے۔
٭ رشتہ کاٹنا حرام ہے۔
٭٭٭٭