صلہ رحمی کی ترغیب

الحمد لله الملك الحق المبين، أحمده سبحانه حمد الشاكرين، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، اصطفاه رب العالمين، وأنزل عليه ﴿فَاٰتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ﴾ صلى الله عليه وعلى آله وصحبه أهل البر والوفاء، ومن سار على نهجهم واقتفى:
تمام تعریف اللہ شہنشاہ بر حق کے لئے ہے میں اس کی حمد بیان کرتا ہوں جیسا کہ شکر گذار بندے بیان کرتے ہیں اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں اس نے منتخب و مختار بنایا اور ان پر یہ آیت نازل فرمائی:
﴿فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهُ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ﴾ (الروم:38)
’’اہل قرابت اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق دیتے رہو۔‘‘
اللہ کا بے شمار درود و سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے نیک اور وفا شعار آل و اصحاب پر اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے مومنین و صالحین پر۔ اما بعد!
لوگو! اللہ سبحانہ و تعالی سے ڈرو اس کا تقوی اختیار کرو اس کے احکام بجالاؤ۔ منہیات سے بچز۔ تمہارے اوپر اس کی جو بے شمار نعمتیں اور احسانات ہیں انہیں یاد کرو۔ جو چیزیں تم پر فرض کی ہیں انہیں مکمل طور پر انجام دو۔ اور اپنے رب کی کتاب قرآن کریم کے اندر فکر و تدبر کرو۔ اللہ تعالی نے تقوی و خشیت پر ابھارتے ہوئے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ وخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَنِسَاءُ وَّاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا﴾ (النساء: 1)
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔ اس سے (اولا) اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مردو عورت (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو اور ( قطع مودت) ارحام سے (بچو) بے شک اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
مذکورہ آیت کے اندر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے جملہ احوال و اعمال میں اس کا تقوی اختیار کریں امانت اور جن چیزوں کے محافظ وامین بنائے گئے ہیں ان کی نگرانی اور ادائیگی میں اللہ سے ڈریں۔ اپنے اور اپنے عزیز واقارب اور اہل و عیال کے مابین جو حقوق ہیں حتی کہ خود اپنے نفس کے جو حقوق ہیں ان کے سلسلہ میں بھی اللہ رب العالمین سے ڈرتے اور خوف کھاتے رہیں کیونکہ اس نے ہمیں پیدا فرمایا ہے، پالا پوسا اور پرورش کی ہے اور تنہا وہی مستحق عبادت بھی ہے اس لئے وہی اس بات کا بھی تھا حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کا تقویٰ اختیار کیا جائے اور اسی سے مغفرت چاہی جائے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر ﴿خَلَقَكُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَّاحِدَہ﴾ کے ذریعہ یہ تعلیم دی ہے کہ چونکہ سارے مومنین ایک ہی اصل اور بنیاد سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ آپس میں اتفاق و اتحاد بر قرار رکھیں الفت و محبت اور شفقت و مہربانی کا سلوک کریں کوئی کسی پر اپنا تفوق اور برتری نہ جتائے اور نہ ہی اپنے حسب و نسب اور جاہ و مال کی وجہ سے دوسروں کو کمتر سمجھے۔ ارشاد الہی ہے:
﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ﴾ (الحجرات: 13)
’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے باعزت وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ رہے کہ اللہ تعالی نے قرابت داروں کے کچھ حقوق متعین فرمائے ہیں۔ جن کی حفاظت و ادا ئیگی ضروری ہے جو رشتہ دار جتنا ہی قریبی ہو اس کے حقوق کو اتناہی اولیت حاصل ہو گی چنانچہ سب سے زیادہ اولیت و فوقیت والدین کے حقوق کو حاصل ہے والدین ہی سب سے زیادہ احسان و بھلائی، شفقت و نرمی، خدمت اور حسن سلوک کے مستحق ہیں ان کے بعد حسب قرابت دیگر رشتہ داروں کا حق ہوتا ہے۔
اللہ کے بندو! صلہ رحمی ایک قرآنی حکم ہے اور سید الانام صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی ترغیب دی ہے یہ اسلام کے محاسن میں سے ہے اللہ تعالی نے صلہ رحمی کرنے والوں کے ساتھ رحمت و بخشش کا وعدہ فرمایا ہے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک سے یہ بشارت دی ہے کہ وہ صلہ رحمی کرنے والوں کی روزی میں برکت دیتا اور ان کی عمر دراز کرتا ہے چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:
﴿من أحب أن يبسط له في رزقه، وينسأ له في أجله فليصل رحمه)
[صحیحین میں یہ حدیث ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مروی ہے، دیکھئے: صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب من أحب البسط في الرزق (2017) و صحیح مسلم، كتاب البر والصلة باب صلة الرحم (2557)]
’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی روزی میں وسعت و برکت ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
صلہ رحمی روزی اور عمر میں برکت کے ساتھ ہی آخرت میں ثواب کا باعث بھی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
(من سره أن يمد له في عمره، ويوسع لَهُ فِي رِزْقه، ويدفع عنه ميتة السوء فليتق الله وليصل رحمه) [مسند احمد: 133/1 (1212)]
’’جس شخص کو یہ بات پسند آتی ہو کہ اس کی عمر دراز ہو اور رزق میں برکت و وسعت ملے اور بری موت سے نجات پائے تو وہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے۔‘‘
نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
)إن الصدقة وصلة الرحم يزيد الله بهما في العمر، ويدفع بهما ميتة السوء، ويدفع بهما المكروه والمحذور([الترغیب والترہیب 335/3]
’’صدقہ اور صلہ رحمی یہ دونوں ایسی خصلتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تے تعالی عمر دراز کرتا ہے بری موت سے نجات دیتا ہے اور ہر ناپسندیدہ اور مکروہ چیز سے محفوظ رکھتا ہے۔‘‘
صلہ رحمی ان مهتم بالشان اور گرانقدر اعمال میں سے ہے جن کی جانب قرآن کریم نے ترغیب دلائی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ان اعمال پر ابھارا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهُ﴾ (الروم: 38)
’’قرابت داروں کو ان کا حق دیتے رہو۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِالله واليَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ) [علامہ سیوطی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ امام بخاری امام احمد بن حنبل، امام ترمذی اور امام ابو داؤد نے بھی اس کی روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔ فیض القدیر(361/5)]
’’جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
اللہ کے بندو! صلہ رحمی کی اہمیت و فضیلت اور اس کا ثواب اس موقع پر مزید بڑھ جاتا ہے
جب دوسرے کی جانب سے قطع تعلقی ہو رہی ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِي، وَلٰكِنَ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمَهُ وَصَلَهَا) [الترغيب والترهيب(333/3)]
’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو کسی کی صلہ رحمی کا برابر برابر بدلہ دے رہا ہو بلکہ صلہ رحمی کرنے والا در حقیقت وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑ لیا جائے تو وہ جوڑ دے۔‘‘
نیز آپﷺ نے فرمایا:
(أفضل الفضائل أن تصل من قطعك، وتعطي من منعك وتصفح عمن شتمك) [مسند احمد: 438/3 (15618)]
’’سب سے زیادہ فضیات کا عمل یہ ہے کہ جو تم سے رشتہ و تعلق توڑے اس سے اپنا رشتہ جوڑو جو تمہیں محروم کرے اسے دو اور جو تم کو برابھلا کے اس سے درگذر کرو۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
(ألا أدلكم على ما يرفع الله به الدرجات؟ قالوا: نعم يا رسول الله، قَالَ: تَحْلُم علٰى من جهل عليك، وتعفو عمن ظلمك، وتعطي من حرمك، وتصل من قطعك) [حافظ منذری نے ذکر کیا ہے کہ طبرانی اور ہزار نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ملاحظہ ہو: الترغیب والترهيب: (419/3)]
’’کیا میں تمہیں وہ اعمال نہ بتلا دوں جن کے ذریعہ اللہ تعالٰی درجات بلند فرماتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں اے اللہ کے رسول! آپ ضرور ارشاد فرمائیں- آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص تمہارے ساتھ جہالت کرے تم اس کے ساتھ بردباری سے پیش آؤ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو، جو محروم رکھے اسے دو اور جو تم سے اپنے تعلقات توڑے تم اس سے تعلق جوڑے رکھو۔‘‘
اسلامی بھائیو! قطع رحمی سے بچو کیونکہ یہ بہت بری چیز ہے دنیا میں بھی خسارہ اور نحوست کا سبب ہے اور آخرت میں بھی عذاب و عقاب کا باعث ہے اور مجموعی طور پر اللہ تعالی کی لعنت و پھٹکار اور حق سے اعراض کا سبب ہے اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:
﴿فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ۝۲۲ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤی اَبْصَارَهُمْ۝۲﴾ (محمد:22،23)
’’(اے منافقو!) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو زمین میں فساد مچانے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو میں لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان کو بھرا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔‘‘
قطع رحمی کرنے والا اور حقیقت اپنے آپ کو بہت بڑی محرومی کا شکار اور سخت و عید کا مصداق بنا لیتا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(لا يدخل الجنة قاطع) [الترغیب والترہیب: 344/3]
’’رشتہ توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
نیز فرمایا:
(إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لا تنزل على قوم فيهم قاطع رحم) [الترغیب والترہیب 345/3]
’’اس قوم پر رحمت کے فرشتے نہیں نازل ہوتے جس میں کوئی رشتہ توڑنے والا موجود ہوتا ہے‘‘
ایک بارحضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے جبکہ وہ نمازفجر کے بعد ایک حلقہ میں بیٹھے ہوئے تھے فرمایا:
(أنشد الله قاطع رحم لما قام عنا، فإنا نريد أن ندعو ربنا، و إن أبواب السماء مرتجة- أي مغلقة- دون قاطع رحم۔)[اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رواۃ بھی صحیح کےاندر لائف حجت ہیں، البتہ اعمش نے (جنہوں نے اس حدیث کو ابن مسعود سے روایت کیا ہے) ابن مسعود کو نہیں پایاہے۔ الترغیب و الترہیب:345/3)]
’’میں قطع رحمی کرنےوالے کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ اس مجلس سے چلا جائے، کیونکہ ہم اپنے رب سے کچھ دعا کرنا چاہتے ہیں اور آسمان کے (قبولیتِ دعا کے) دروازے قطع رحمی کرنے والوں کے لیے بند ہوتے ہیں۔‘‘
لہذا اے اللہ کے بندو! قطع رجمی سے بچتے رہو اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ صلہ رجمی کے بھی کچھ حدود ہیں۔ صلہ رحمی اسی حد تک ہوکہ شریعت کے مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے خویش و اقارب کو دینی و دنیاوی فائدے پہنچائے جائیں۔ صلہ رحمی یہ نہیں کہ باطل پر بھی ان کی مدد کی جائے اور فساد وگمراہی اور ہلاکت و بربادی میں بھی ان کا ساتھ دیا جائے، بلکہ یہ تو جاہلیت کی ضد اور حمیت ہے جس کی اللہ تعالی نے مذمت فرمائی ہے:
﴿اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ ﴾ (الفتح:26)
’’جب کافروں نے اپنے دل میں طرفدار کی اور طرفداری بھی جاہلیت کی۔‘‘
دینی بھائیو! اللہ سے ڈرتے اور صلہ رحمی کرتے رہو اور اللہ کے اس اعلان کو ہمیشہ یاد رکھو:
﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ إِلَى اللهِ ثُمَّ تُوَفّٰی كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ﴾ (البقره: 281)
’’اس دن سے ڈرو جبکہ تم اللہ کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہو گا۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب، فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
خطبہ ثانیہ
الحمد لله العظيم السلطان، الكريم المنان، أحمده سبحانه وأشكره على سوابع الأنعام، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، صاحب الإحسان، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله المصطفى المختار، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه الأئمة الأبرار.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو عظمت و سلطنت والا صاحب کرم اور بے انتہا احسان کرنے والا ہے۔ میں اس کے بے پایاں احسان و انعام پر اس کی تعریف کرتا اور شکر بجالاتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے منتخب بندے اور مختار رسول ہیں۔ یا اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور ان کے آل و اصحاب پر بہت بہت درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! میں آپ سب کو اور خود اپنے نفس کو اللہ عز و جل کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ تقوی اللہ کے عذاب سے بچانے والا اور اس کی مغفرت و خوشنودی تک پہنچانے والا ہے۔ یہ جان رکھو کہ صلہ رحمی افضل ترین عمل نیز دین و دنیا کی سعادت اللہ کی رضا مندی و خوشنودی اس کی بخشش و کرامت اور جنت کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہے اور قطع رحمی دنیاوآخرت کی شقاوت و بدبختی اللہ کے غضب و ناراضگی اور اس کے درد ناک عذاب کا بہت بڑا سبب ہے۔
بخاری و مسلم میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرے اور جہنم سے نجات دلائے آپﷺ نے فرمایا: ”
(تعبد الله ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتُؤتي الزكاة، وتصل الرحم)[ الترغيب والتربيب (336/3)]
’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھر او نماز قائم کروز کو دو اور صلہ رحمی کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔