صراط مستقیم کی عظمت اور راہ ابلیس کی مذمت

﴿إِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًا﴾ (فاطر: 6)
شیطان کے شر سے بچنے اور اس کی شرارتوں اور چالوں سے خبردار رہنے کا معاملہ نہایت ہی اہم معاملہ ہے، اس کی اہمیت متعدد بار بدلائل بیان کی جا چکی ہے ، اس سے پوری توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔
شیطان سے بچنے کی اہمیت کو قرآن و حدیث میں جو مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے تو ان میں سے ایک یہ بھی ہے جو کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ آپ سلام نے زمین پر ایک لکیر کھینچی
((خَطَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ خَطًّا بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ هَذَا سَبِيلُ اللهِ مستقيمًا))
’’آپ ﷺنے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: یہ اللہ تعالی کا سیدھا راستہ ہے۔‘‘
(ثُمَّ خَطَّ عَنْ يَمِينِهِ وَ شِمَالِهِ))
’’پھر اس کے دائیں بائیں چند اور لکیریں کھینچیں ۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ:))
پھر فرمایا:
(( هَذِهِ السُّبُلُ لَيْسَ مِنْهَا سَبِيلٌ إِلَّا عَلَيْهِ شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ))
’’یہ جو راستے ہیں، ان میں سے ہر راستے پر شیطان بیٹھا اس کی طرف بلا رہا ہے۔‘‘
پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت کی۔
﴿وَ أَنَّ هٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ﴾ (الانعام:153) (مسند احمد ، ج:7 ص 436)
’’اللہ فرماتے ہیں: یہ میرا سیدھا راستہ ہے، اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو‘‘
اب آپ جانتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں بہت سے معاملات ایسے ہیں جن سے انسان کو صبح و شام واسطہ پڑتا ہے اور بہت سے ایسے بھی ہیں کہ جن سے کبھی کبھار واسطہ پڑتا ہے، ان میں سے کسی کسی معاملے میں ہم صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہیں اور کس کس معاملے میں ہم شیطان کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہوتے ہیں؟
اس کا جواب تو ہم سبھی دے سکتے ہیں اگر ہم نے بھی شیطان سے بچنے کی اہمیت کو جانا اور سمجھا ہو اور اسے کوئی اہمیت دی ہو، ہمارے دلوں میں صراط مستقیم پر چلنے اور شیطان کے راستوں سے بچنے کی خواہش تو رہی ہوگی کیونکہ ہم ہر روز، ہر نماز میں بلکہ ہر رکعت میں اللہ تعالی سے اس کی دعاء مانگتے ہیں کہ:
﴿اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ (الفاتحه:5)
’’ہمیں صراط مستقیم کی رہنمائی فرما۔‘‘
اور صراط مستقیم کیا ہے؟ اسلام، قرآن و حدیث ، مگر ہم جب اللہ تعالی سے یہ دعاء مانگ رہے ہوتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں صراط مستقیم کا کیا مفہوم ہوتا ہے؟
شاید کچھ بھی نہیں، چند رٹے رٹائے الفاظ ہیں جو ہم طوطے کی طرح بول دیتے ہیں. اس کا معنی و مفہوم نہیں جانتے اور نہ کبھی جاننے کی کوشش کی ہے اور نہ جانا چاہتے ہیں، اللہ تعالی ہم سب کو اس بدبختی سے محفوظ فرمائے۔ آمین
کچھ لوگوں نے صراط مستقیم کا اک اپنا ہی مفہوم بنا رکھا ہے کہ سیدھے سیدھے کام پر جاؤ، واپس آؤ، کھانا وانا کھاؤ اور سو جاؤ اور صبح سویرے پھر کام کے لیے تیار ہو جاؤ اور اس کے ساتھ چند ایک اخلاقیات اپنے اوپر لازم قرار دے رکھی ہوتی ہیں اور بیس۔ صراط مستقیم کی ضرورت انسان کو عمر بھر اور زندگی کے ہر شعبے میں رہتی ہے، وہ سونے جاگنے سے متعلق ہو، کاروبار سے متعلق ہو، شادی بیاہ سے متعلق ہو یا زندگی کے کسی بھی شعبے سے متعلق ہو، ہر ہر کام میں اور ہر ہر بات میں انسان کو صراط مستقیم کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آدمی صراط مستقیم پر نہ ہو تو پھر اس کا ایک ہی مطلب ہوگا کہ پھر وہ شیطان کے راستے پر ہے۔
بہت وضاحت کے ساتھ آپ ﷺ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ صراط مستقیم صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ سیدھا راستہ ہے، باقی سب پگڈنڈیاں ہیں اور ایک ایک پگڈنڈی پر بیٹھا شیطان لوگوں کو اس طرف بلا رہا ہے اور شیطان کسی طرح بلاتا ہے؟ دلوں میں وسوسے ڈال کر، چیزوں کو مزین کر کے اور خوبصورت بنا کر، دل میں اس کی چاہت اور محبت ڈال کر اور بھی وہ انسانوں میں سے اپنے ہم عفت، اپنے ہم خیال اور اپنے ہم نواؤں کی زبان ہے۔
اگر کوئی صراط مستقیم معلوم کرنا چاہے تو بھلا اس سے کیا مشکل ہو سکتی ہے!
صراط مستقیم کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایک ہے، واضح ہے اور سیدھی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپﷺ نے فرمایا:
(( قَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ لَيْلَهَا كَنَهَارِهَا))
’’میں تمہیں ایک ایسے واضح اور روشن راستے پر چھوڑے جا رہا ہوں کہ جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے۔‘‘
((لَا يَزِيعُ عَنْهَا بَعْدِي إِلَّا هَالِكٌ)) (ابن ماجة:41)
’’میرے بعد اس سے کج روی وہی اختیار کرے گا جسے ہلاک ہوتا ہی ہوگا۔‘‘
صراط مستقیم نجات کا راستہ ہے اور صرف اور صرف وہی ایک راستہ اللہ تعالی کا راستہ ہے، باقی تمام راستے پگڈنڈیاں ہیں ، زگ زیگ ہیں، ہاں پرکشش ضرور ہیں، پر رونق ہیں۔ اک خلق کثیر ان پر رواں دواں ہے، لیکن صراط مستقیم اتنا واضح ہے کہ اس کی پہچان میں کسی کو قطعاً کوئی مشکل نہیں ہو سکتی ،
مثلا: ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو کتنے ہی ایسے اعمال کرتے ہیں جنہیں وہ اسلام سمجھ کر اور اسلام سے محبت کے اظہار کے طور پر کرتے ہیں، مگر اسلام میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اب یہ جاننے میں کیا مشکل ہے کہ یہ صراط مستقیم نہیں ہے، اللہ اور اس کے رسول سرام نے اس کا حکم نہیں دیا، صحابہ کرام نے یہ سب کچھ نہیں کیا، کوئی پھر بھی کرنا چاہے تو اس کی مرضی، مگر صراط مستقیم نہیں ہے۔
اسی طرح سودی معاملات کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ کون سی خرید و فروخت اور لین دین سودی ہے اور کون سی نہیں اور جو سودی لین دین میں ملوث ہیں کیا انہیں معلوم نہیں کہ وہ اس معاملے میں صراط مستقیم پر نہیں ہیں!
اور جب صراط مستقیم پر نہیں ہیں تو پھر ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے شیطان کا راستہ ۔
اور جب کوئی شخص اپنے نفس کی خواہش اور شیطان کے وسوسے پر اس قدر تین گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے کہ جس کی قباحت اور کراہت کی تنبیہ سن کر ہی آدمی اس گناہ کے ارتکاب سے باز رہتا ہے تو وہ شیطان کی دوسری چالوں کا تو بڑی آسانی سے شکار ہو سکتا ہے۔
اور دوسری چالیں اس کی کیا ہیں ، بے شمار چالیں ہیں، وہ لوگوں کو ہر قسم کے گناہ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر اس کے ہاں اس کے حربے تحریش بین الناس کو خصوصی توجہ حاصل ہے۔
یعنی وہ سب سے زیادہ اس بات کو اہمیت دیتا ہے کہ کسی طرح لوگوں کے درمیان پھوٹ ڈال سکے، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کا سکے، کیونکہ اس کا یہ حربہ دوسرے حربوں کی نسبت زیادہ سنگین نتائج رکھتا ہے۔ لوگوں کے درمیان نفرت، بغض، عداوت وغیرہ کی آگ ایسی بھڑکتی ہے کہ جلد بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب دو شخص یا ہم دست و گریباں ہوں اور انہیں چھٹروانے کی کوشش کی جائے تو وہ اچھل اچھل کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ دیکھنے والے جو یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں ان سے بھی نہیں رہا جاتا، چاہے ان کا کسی فریق سے کوئی تعلق نہ ہو، مگر وہ بھی کسی ایک کی حمایت میں لڑائی میں کود پڑتے ہیں۔
تو تحریش بین الناس شیطان کی اک نہایت ہی خطرناک چال ہے، کچھ لوگوں کو تو شیطان اکساتا ہے، مگر کچھ لوگوں کا یہ اپنا ہی محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ وہ بغیر کسی سبب کے کسی سے بھی الجھ پڑھتے ہیں، جیسے ان کی کوئی پرانی دشمنی ہو۔
ہاں کسی شخص کے بارے میں دل میں اک فطری انقباض ہو سکتا ہے، مگر اسے بنیاد بنا کر کسی سے لڑا جھگڑا نہیں جا سکتا۔
چنانچہ حدیث میں جو آیا ہے کہ:
((لَمَّا صَوَّرَ اللهُ آدَمَ فِي الْجَنَّةِ تَرَكَهُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَتْرَكَهُ))
’’جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں آدم علیہ کا ڈھانچہ بتایا تو اس کو اللہ تعالیٰ نے جتنا چاہا ایک عرصے تک یوں ہی چھوڑے رکھا ۔‘‘
((فَجَعَلَ ابْلِيسُ يُطِيفُ بِهِ يَنظُرُ مَا هُوَ))
’’ابلیس اس کے گرد چکر لگاتا اور دیکھتا کہ وہ کیا ہے۔ یعنی کسی طرح کی مخلوق ہے، کچھ سمجھ نہ آئی۔‘‘
((فَلَمَّا رَآهُ أَجُوفَ عَرَفَ أَنَّهُ خُلِقَ خَلْقًا لَا يَتَمَالَكُ)) (مسلم:2611)
’’مگر جب اس نے دیکھا کہ وہ اندر سے خالی ہے تو اس نے جان لیا کہ یہ مخلوق اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے گی ۔‘‘
یعنی اس کے اندر کمزوریاں ہوں گی، خطا اور نسیان کی کمزوری، حرص اور لالچ کی کمزوری، خواہشات کی محبت کی کمزوری ، عزم وارادے کی کمزوری اور دیگر کمزوریاں ۔ تو ایک عرصے تک اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کا مجسمہ بنا کر جنت میں چھوڑے رکھا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی اور حدیث میں ہے کہ:
((لَمَّا خَلَقَ اللهُ آدَمَ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَسَقَطَ مِنْ ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّيَّتِهِ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)) (ترمذى:3076)
’’ جب اللہ تعالی نے آدم علیم کو پیدا فرمایا تو ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا، تو جتنے لوگ ان کی اولاد میں سے قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں، سب کے سب ظاہر ہو گئے ۔‘‘
تو پھر اللہ تعالی نے ان سے عہد لیا، جسے عہد الست کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔
﴿وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ؕ قَالُوْا بَلٰی ۛۚ شَهِدْنَا ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ۝﴾ (الاعراف: (۱۷۲)
’’اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشت سے ان کی اولادیں نکالیں اور خود ان ہی کو ان کا گو او بتایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے کہا: ہاں، کیوں نہیں، ہم گواہی دیتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ کہیں قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہم تو اس سے بالکل بے خبر تھے۔‘‘
تو اس موقع پر عالم ارواح میں کہ جب تمام رو میں ایک ہی جگہ پر موجود تھیں ، روحوں کی ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہوئیں مگر تمام روحیں تمام روحوں سے تو نہ ملیں، تو جو روھیں وہاں عالم ارواح میں آپس میں ملیں اور جو رو میں آپس میں نہ مل سکیں، ان کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ
((اَلْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُّجَنَّدَةٌ))
’’روحیں جمع شدہ لشکر ہیں ۔‘‘
((فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ))
’’جن روحوں کا وہاں آپس میں تعارف ہوا۔ یعنی ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی اور ہم اخلاق و ہم صفات ٹھہریں۔ وہ دنیا میں ایک دوسرے سے مانوس ہوتی ہیں، آپس میں الفت اور قربت رکھتی ہیں ۔‘‘
آپ نے کبھی محسوس کیا ہوگا کہ کبھی کوئی شخص پہلی بار کسی سے ملتا ہے مگر ایسے لگتا ہے جیسے پہلے سے اس سے جان پہچان ہے، تو آدمی اس سے بے تکلفی سی محسوس کرتا ہے،
(( وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ)) (مسلم:2638)
’’اور جو روحیں وہاں ایک دوسرے سے اجنبی رہیں، وہاں ان کا آپس میں تعارف نہ ہوا تو وہ دنیا میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی ہیں۔‘‘
اور یہ بھی آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ کبھی کوئی شخص پہلی بار آپ سے ملتا ہے، آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ اچھا ہے یا برا ہے، مگر اس سے انس نہیں ہوتا ، دل کو اتنا بھاتا نہیں، حالانکہ کوئی ناراضی، کوئی اختلاف اور کوئی جھگڑا نہیں ہے، مگر اک انجان اور اجنبی جان کر آدمی اس سے بے تکلف نہیں ہوتا ، تو یہ انسان کے دل میں کسی کے لیے اک مانوسیت ہونا یا کسی سے اجنبیت محسوس کرنا، عالم ارواح کی ملاقات اور عدم ملاقات کا اثر ہے مگر اس بنیاد پر کسی سے دوستی اور دشمنی نہیں ہو سکتی۔
تو شیطان کی چالوں میں سے اس کی اس خطرناک چال کا ذکر ہو رہا تھا کہ وہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کاتا ہے، اور اس کا یہ بھڑکانا اور اکسانا کئی طرح سے ہوتا ہے، ایک تو چغلی اور نیبت کے ذریعے، ایک دوسرے کی عیب جوئی کے ذریعی اور ایک دوسرے
کے تجس کے ذریعے وغیرہ ، اور ان کی قباحت و شناعت اور ممانعت قرآن و حدیث میں متعدد جگہ بیان ہوئی ہے، ان کے نقصانات سب جانتے ہیں۔
اور اسی طرح حسد اور بغض کے ذریعے بھی، اور حسد اور بغض تو ایسی بیماریاں اور بری صفات ہیں کہ انہیں داء الامم کہا گیا ہے، یعنی وہ بری صفات کہ جن سے قومیں تباہ و برباد ہوتی ہیں۔
جیسا کہ حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ))
’’تم میں تم سے پہلی قوموں کی بیماری رینگتی ہوئی گھس آئی ہے ۔‘‘
((الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاء))
’’حسد اور بغض‘‘
((هِيَ الْحَالِقَة))
’’حلق کر دینے والی ہے، یہ خصلت مونڈ دینے والی ہے ۔‘‘
((حَالِقَةُ الدِّينِ لَا خَالِقَةُ الشَّعْرِ))
’’دین کا صفایا کر دینے والی نہ کہ بال مونڈ نے والی ۔‘‘
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ))
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔‘‘
((لَا تُؤْمِنُوا حَتّٰى تَحَابُّوا))
’’تم اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہیں کرنے لگتے ۔‘‘
((أَفَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِشَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ))
’’کیا میں تمھیں ایک ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم اسے کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو !‘‘
((أَفْشَوُا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ)) (ترمذي:2510)
’’آپس میں سلام کو پھیلاؤ‘‘
سلام کرنے سے ثواب ہوتا ہے، اجنبیت ختم ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور نتیجتًا محبت بڑھتی ہے، جبکہ حسد اور بغض دلوں میں نفرت اور عدادت پیدا کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ صفت جو بغض کا سبب بنے داء الامم کے ضمن میں آتی ہے، جیسے چغلی اور غیبت کہ جس شخص سے نیبت کی جاتی ہے اس کے دل میں یقینًا دوسرے شخص کے بارے میں نفرت اور بغض پیدا ہوتا ہے، اسی طرح جس شخص کی غیبت کی جاتی ہے جب اس کو معلوم ہو کہ فلاں نے اس کی غیبت کی ہے تو اس کے متعلق اس کے دل میں نفرت و بغض پیدا ہوتا ہے۔
تو یوں شیطان اپنی چالوں کے ذریعے لوگوں کے درمیان نفرت اور عداوت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انھیں ایک دوسرے کے خلاف ابھارتا اور اُکساتا ہے، لہٰذا اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………