صرف اہل توحید ہی امن اور ہدایت کے حق دار ہیں

44- سیدنا  عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب (سورہ انعام کی)  یہ آیت اتری:

﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ﴾ (الأنعام 82:6)

’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا۔‘‘

 ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا ؟ تو آپﷺنے فرمایا:

((لَيْسَ كَمَا تَقُولُونَ، لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ بِشِرْكٍ، أَوَلَمْ تَسْمَعُوا إِلٰى قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهِ: ﴿يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ إِنَّ الشَّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾(أَخْرَجَةُ البُخَارِي:3360، وَمُسْلِمٌ:124)

’’اس آیت کا یہ مطلب نہیں ؟ جو تم نے سمجھ لیا ہے، بلکہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہ کیا ہو۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ سیدنا لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا:اے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، یقینًا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘

45۔ سیدنا ربیعہ بن عباد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی آنکھوں سے ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا، آپﷺ فرما رہے تھے:

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا:لَا إِلٰهَ إِلَّا الله، تُفْلِحُوا وَيَدْخُلُ فِي فِجَاجِهَا، وَالنَّاسُ مُتَقَصِّفُونَ عَلَيْهِ، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا يَقُولُ شَيْئًا، وَهُوَ لَا يَسْكُتُ، يَقُولُ:أَيُّهَا النَّاسُ! قُوْلُوْا:لَا إِلٰهَ إِلَّا الله، تُفْلِحُوا)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:16023)

’’لوگو! لا الہ اِلَّا الله کہو، فلاح پاؤ گے۔‘‘ آپﷺ بازار میں گھوم رہے تھے، آپ کے ارد گرد لوگوں کا ہجوم تھا، میں نے کسی کو بات چیت کرتے ہوئے نہیں دیکھا، سب خاموش تھے لیکن رسول اللہﷺ خاموش نہیں ہو رہے تھے۔ آپ مسلسل فرما رہے تھے:’’لوگو! لا الہ الَّا الله کہو، فلاح پاؤ گے۔‘‘

توضیح و فوائد: دنیا میں اہل توحید ہمیشہ مشکلات کے نرغے میں رہتے ہیں لیکن یہ مصائب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے، اس لیے کہ حقیقی سکون آخرت ہی کا سکون ہے اور یہ صرف توحید کی برکت سے حاصل ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل توحید ہی ہدایت یافتہ ہونے کی بنا پر دنیا میں حقیقی امن کے نفاذ کی کوشش کرتے ہیں جسے دنیا والے فساد سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ وہ خود اول درجے کے فسادی اور فتنہ پرور ہوتے ہیں۔

………………