صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے

13۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا:اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ((أَنْ تَجْعَلَ لِلهِ نِدًّا وَّهُوَ خَلَقَكَ)) ’’(سب سے بڑا گناہ یہ ہے) کہ تم (عبادت میں) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔‘‘

میں نے کہا:اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا: ((أن تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةً أَنْ يَّأْكُلَ مَعَكَ))

’’تم اپنی اولاد کو اس ڈر اور خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمھارے ساتھ کھائے گی۔“

میں نے پھر پوچھا:اس کے بعد کون سا؟

آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَنْ تُزَانِيَ حَلِيْلَةَ جَارِكَ)) ’’اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔‘‘(أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ:4477، 4761، 6001و6811، 6861، 7520، 7532، ومسلم:86)

14۔ سیدنا علی بن ابو طالب  رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ سجدے میں ہوتےتو فرماتے:

((اَللّٰهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِيَ لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:771)

’’اے اللہ! میں نے تیرے ہی حضور سجدہ کیا اور تجھ ہی پر ایمان لایا اور میں نے اپنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا، اس کی صورت بنائی اور بہت اچھی صورت بنائی، اس کے کان اور اس کی آنکھیں بنائیں۔ برکت والا ہے اللہ جو بہترین پیدافرمانے والا ہے۔ “

15۔سیدنا حارث اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ يحیٰ بن زکریا علیہ السلام  نے اپنی قوم سے کہا:

((إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَكُمْ وَرَزَقَكُمْ، فَاعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:17170 والترمذي:2863 و 2864 والحاكم:118/1 وابن خزيمة:1895 وابن حبان:6233(

 ’’اللہ تعالی نے تمھیں پیدا کیا اور رزق دیا ہے، اس لیے تم صرف اُسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘

توضیح و فوائد: اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات وصفات میں یکتا تسلیم کرنے کی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ عبادت میں بھی اس کی ذات عالی کو یکتا اور اکیلا سمجھا جائے کیونکہ جو پیدا کرنے والا ہے، عبادت کا مستحق بھی وہی ہے۔ جب کائنات کی کوئی چیز بھی کسی اور نے نہیں بنائی تو عبادت اور سجدہ وغیرہ اس کے علاوہ دوسروں کے لیے کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ توحید عبادت کی اس قسم میں اگر خلل آجائے تو باقی تمام قسموں پر ایمان بھی بے سود ہے۔

16۔سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں کا ایک عالم (رسول اللہﷺ کے پاس) آیا اور کہنے لگا:

((إِنَّهُ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جَعَلَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ وَالْخَلَائِقَ عَلَى إِصْبَعٍ ثُمَّ يَهُزُّهُنَّ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَنَا الْمَلِكُ فَلَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ تَعَجُّبًا وَتَصْدِيقًا لِقَوْلِهِ )) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ:7513 وَمُسْلِمٌ2786)

’’جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالی ایک انگلی پر آسمانوں کو، ایک انگلی پر زمین کو، ایک انگلی پر پانی اور کیچڑ کو، ایک انگلی پر دیگر تمام مخلوقات کو اٹھا لے گا، پھر ان سب کو حرکت دے گا اور کہے گا:میں ہی بادشاہ ہوں، میں ہی بادشاہ ہوں۔ (سیدنا عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ) میں نے دیکھا کہ نبیﷺ اس قدر کھلکھلا کر ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک نمایاں ہو گئے، آپ اس کی تصدیق کر رہے تھے اور ان باتوں پر تعجب کر رہے تھے۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے (سورہ زمر کی)  یہ آیت کریمہ تلاوت کی:﴿ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ۖۗ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖ ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۶۷﴾

’’انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے اور قیامت کے دن ساری کی ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور اس کے دائیں ہاتھ میں آسمان لیتے ہوں گے، وہ پاک ہے اور وہ بلند ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘

توضیح و فوائد: اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح آسمان سات ہیں اسی طرح زمینیں بھی سات ہیں، نیز اللہ تعالی کے لیے ہاتھ اور انگلیوں کا اثبات ہے، اس پر ایمان رکھنا ضروری اور توحید کا بنیادی تقاضا ہے لیکن اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔ یہ کیفیت علم غیب سے تعلق رکھتی ہے جس کا علم اللہ تعالی کے سوا کسی کو نہیں، نہ ہم اس کی تشبیہ بیان کر سکتے ہیں، نہ مثال بیان کرتے ہیں۔ آپﷺ کے آیت تلاوت کرنے کا ایک مقصد تو یہودی کی بات کی تصدیق کرنا تھا اور دوسرا مقصد یہ بتانا تھا کہ یہ بد بخت یہودی اللہ تعالی کے بارے میں اتنا کچھ جاننے کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کر کے اس ذات عالی کی ناقدری کرتے ہیں۔

17۔سید نا شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر

استغفار یہ ہے کہ تو (یہ کلمات)  کہے:

((اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ)) (أخْرَجَهُ البخاري:6306، 6323)

’’اے اللہ! تو میرا رب ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق، یعنی عبادت کے لائق نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا ہی بندہ ہوں۔ میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر کار بند ہوں۔ میں  ان بری حرکتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو میں نے کی ہیں۔ مجھ پر جو تیری نعمتیں ہیں، میں ان کا اقرار کرتا ہوں اور میں اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں۔ میرے گناہوں کو معاف کر دے۔ بلاشبہ تیرے سوا کوئی بھی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔ ‘‘

آپ ﷺنے فرمایا:

((وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا، فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ)) (أخْرَجَهُ البخاري:6306، 6323)

’’جس شخص نے اس استغفار پر یقین رکھتے ہوئے صبح کے وقت اسے دل کی گہرائی سے پڑھا، پھر شام ہونے سے پہلے اسی دن اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ اور جس نے ان الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات کے وقت انھیں پڑھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔“

توضیح و فوائد: حدیث میں مذکور دعا میں بندے کی طرف سے اللہ رب العزت کی وحدانیت اور اس کے کمال عظمت و جلال کے ساتھ ساتھ اپنی انتہائی عاجزی اور بندگی کا اظہار ہے، مزید برآں یہ دعا تو بہ کے تمام معانی پر مشتمل ہے، اسی لیے اسے سید الاستغفار کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ عل اللہ نے اپنی امت کو تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: ’’سید الاستغفارضرور سیکھو اور اسے حرز جان بناؤ۔‘‘

(السنن الكبرى للنسائي، حديث: 10301)

18۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

((مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى سَمِعَهُ مِنْ اللَّهِ يَدَّعُونَ لَهُ الْوَلَدَ ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ)) (أخرجه البخاري:7378، ومسلم:2804 واللفظ له)

’’اذیت ناک اور تکلیف دہ بات سن کر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں، اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا جاتا ہے اور مشرکین کہتے ہیں کہ اس کی اولاد ہے، اس کے باوجود اللہ تعالٰی انھیں عافیت میں رکھتا ہے اور انھیں رزق بھی عطا فرماتا ہے۔ ‘‘

توضیح وفوائد:انسان دنیاوی زندگی میں اللہ رب العزت کی بے شمار نافرمانیاں کرتا ہے جو یقیناً اللہ کی ناراضی کا موجب ہے۔ لیکن اللہ رب العزت کو سب سے زیادہ اذیت اور کوفت اس وقت ہوتی ہے جب بندہ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتا ہے، یا اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتا ہے۔ حالانکہ عبادت کا مستحق تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے کیونکہ وہی ہمارا خالق، مالک اور رازق ہے۔

………….