سنّت کی پیروی اور بدعات کا ردّ
﴿إنَّ الحَمْدَ لِلہِ نَحمَدُہُ وَنَسْتَعِينُہُ، مَن يَہْدِہِ اللہُ فلا مُضِلَّ لہ، وَمَن يُضْلِلْ فلا ہَادِيَ لہ، وَأَشْہَدُ أَنْ لا إلَہَ إلَّا اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِيکَ لہ، وَأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسولُہُ، يَا أَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ، يَا أَ يُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَارِجَالاً  کَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيبًا،        يَاأَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن يُطِعْ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا، أما بعدُ فإنَّ خيرَ الحديثِ کتابُ اللہِ وخيرَ الہديِ ھديُ محمدٍ ﷺ وشرَّ الأمورِ محدثاتُھا وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ وکلُّ ضلالۃٍ في النارِ.﴾
تمہید: لوگوں کی کم علمی کی بناء پر ہمارے معاشرے میں شرک و بدعت زیادہ پھیل رہے ہیں۔ خصوصی طور پر رجب کا مہینہ شروع ہوتے ہی بہت سے امور شروع ہو جاتے ہیں جن کا شریعت مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ مثلاً: رجب کی پہلی شب جمعہ کو صلاۃ الرغائب پڑھی جاتی ہے، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح 26رجب اور ستائیسویں شب معراج کے طور پر منایا جاتا ہے۔  اسراء اور معراج تو قرآن اور حدیث سے ثابت ہے مگر یہ کہ کیا معراج کا واقعہ 26 رجب کو پیش آیا؟ اس کی کوئی پکی روایت نہیں ہے۔ پھر اگلے دن روزہ رکھنے کا بھی شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اسی طرح 22 رجب کو امام جعفر صادقa کے نام کے کونڈے دئیے جاتے ہیں۔ توصحیح بات ہے کہ اس دن امام جعفر صادقa کی پیدائش ثابت نہیں ہے۔ بلکہ دشمنان صحابہ اور دشمنان حضرت امیر معاویہy کی ایک چال نظر آتی ہے کہ 22 رجب کو حضرت امیر معاویہt کا یوم وفات ہے جس کی مناسبت سے یہ شروع کیا گیا۔ حضرت امیر معاویہt کی وفات کی خوشی دشمنان امیر معاویہt کو ہو سکتی ہے۔ محبان صحابہ اور محبان امیر معاویہt کو نہیں۔ اسی مناسبت سے ہم ضروری سمجھا کہ سنتوں کے احیاء اور بدعات کے ردّ میں مواد پیش کیا جائے تا کہ عوام الناس کو حقائق سمجھ آ جائیں۔
سورۃ الزخرف آیت نمبر  43 میں ہے:
اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.
﴿فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْکَ إِنَّکَ عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾
’’پس جو وحی آپ کی طرف کی گئی ہے اسے مضبوط تھامے رہیں بے شک آپ    راہ راست پر ہیں ۔‘‘
 سورۃ  الجاثيۃ آیت نمبر 18 میں ہے:
﴿ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلَی شَرِيعَۃٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعہَا وَلَا تَتَّبِع أَہْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعلَمُونَ.﴾
’’پھر ہم نے آپ کو دین کی ( ظاہر ) راہ پر قائم کر دیا سو آپ اس پر لگے رہیں اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی میں نہ پڑیں۔‘‘
سورۃ النساء آیت نمبر 59 میں ہے:
﴿يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّہَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنکُمْ، فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ، إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، ذَٰلِکَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا.59﴾
’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (e) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسولe کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے ۔‘‘
سورۃ النساء آیت نمبر 65 میں ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّیٰ يُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَہُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.65﴾
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔
سورۃ النساء آیت نمبر 115 میں ہے:
﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدَی وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا.115﴾
’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (e) کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے ۔‘‘
٭  شریعت میں بدعت کی کوئی گنجائش نہیں۔
صحیح البخاری حدیث نمبر 109 میں ہے:
﴿الراوي: سلمۃ بن الأکوع. مَن يَقُلْ عَلَيَّ ما لَمْ أقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ.﴾
’’میں نے رسول اللہe کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘
صحیح البخاری حدیث نمبر 2697 میں ہے:
﴿مَن أَحدَثَ في أَمْرِنَا ہذا ما ليسَ فِيہِ فَہو رَدٌّ.﴾
رسول اللہe  نے فرمایا: ’’جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے۔‘‘
مسلم حدیث نمبر 1847 / 4784 میں ہے:
﴿الراوي: حذيفۃ بن اليمان. کانَ النَّاسُ يَسْأَ لُونَ رَسولَ اللہِ ﷺ عَنِ الخَيْرِ، وَکُنْتُ أَسْأَلُہُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَۃَ أَنْ يُدْرِکَنِي، فَقُلتُ: يا رَسولَ اللہِﷺ، إنَّا کُنَّا في جَاہِلِيَّۃٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللہُ بہذا الخَيْرِ، فَہلْ بَعْدَ ہذا الخَيْرِ شَرٌّ؟ قالَ: نَعَمْ، فَقُلتُ: ہلْ بَعْدَ ذلکَ الشَّرِّ مِن خَيْرٍ؟ قالَ: نَعَمْ، وَفِيہِ دَخَنٌ، قُلتُ: وَما دَخَنُہُ؟ قالَ: قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بغيرِ سُنَّتِي، وَيَہْدُونَ بغيرِ ہَدْيِي، تَعْرِفُ منہمْ وَتُنْکِرُ، فَقُلتُ: ہلْ بَعْدَ ذلکَ الخَيْرِ مِن شَرٍّ؟ قالَ: نَعَمْ، دُعَاۃٌ علَی أَبْوَابِ جَہَنَّمَ مَن أَجَابَہُمْ إلَيْہَا قَذَفُوہُ فِيہَا، فَقُلتُ: يا رَسولَ اللہِ ﷺ، صِفْہُمْ لَنَا، قالَ: نَعَمْ، قَوْمٌ مِن جِلْدَتِنَا، وَيَتَکَلَّمُونَ بأَلْسِنَتِنَا، قُلتُ: يا رَسولَ اللہِ ﷺ، فَما تَرَی إنْ أَدْرَکَنِي ذلکَ؟ قالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ المُسْلِمِينَ وإمَامَہُمْ، فَقُلتُ: فإنْ لَمْ تَکُنْ لہمْ جَمَاعَۃٌ وَلَا إمَامٌ؟ قالَ: فَاعْتَزِلْ تِلکَ الفِرَقَ کُلَّہَا، ولوأَنْ تَعَضَّ علَی أَصْلِ شَجَرَۃٍ حتَّی يُدرِکَکَ المَوْتُ وَأَنْتَ علَی ذلکَ.﴾
’’ حضرت حذیفہ بن یمانt نے کہا: لوگ رسول اللہe  سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں اس خوف سے کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، آپ سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر ( اسلام ) عطا کی، تو کیا اس خیر کے بعد پھر سے شر ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ ہاں۔‘‘ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’ ہاں، لیکن اس ( خیر ) میں کچھ دھندلاہٹ ہو گی۔‘‘ میں نے عرض کی: اس کی دھندلاہٹ کیا ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’ ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کے بجائے دوسرا طرز عمل اختیار کریں گے اور میرے نمونہ عمل کے بجائے دوسرے طریقوں پر چلیں گے، تم ان میں اچھائی بھی دیکھو گے اور برائی بھی دیکھو گے۔‘‘ میں نے عرض کی: کیا اس خیر کے بعد، پھر کوئی شر ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے والے، جو ان کی بات مان لے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ! ہمارے سامنے ان کی (بری ) صفات بیان کیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’ ہاں، وہ لوگ بظاہر ہماری طرح کے ہوں گے اور ہماری ہی طرح گفتگو کریں گے۔‘‘میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ! اگر وہ زمانہ میری زندگی میں آ جائے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ تم مسلمانوں کی جماعت اور مسلمانوں کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔‘‘ میں نے عرض کی: اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام؟ آپ نے فرمایا: ’’تم ان تمام فرقوں ( بٹے ہوئے گروہوں ) سے الگ رہنا، چاہے تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ تمھیں موت آئے تو تم اسی حال میں ہو۔‘‘
ابن ماجہ حدیث نمبر 43۔ صحیح میں ہے:
﴿الراوي: العرباض بن ساريۃ. وَعَظَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ. فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ ﷺإِنَّ ہَذِہِ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَيْنَا. قَالَ قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَيْضَاءِ لَيْلُہَا کَنَہَارِہَا لَا يَزِيغُ عَنْہَا بَعْدِي إِلَّا ہَالِکٌ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ فَسَيَرَی اخْتِلَافًا کَثِيرًا. فَعَلَيْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِي وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَہْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْہَا بِالنَّوَاجِذِ. وَعَلَيْکُمْ بِالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الْأَنِفِ حَيْثُمَا قِيدَ انْقَادَ.﴾
حضرت عرباض بن ساریہt  سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہe  نے ہمیں ( ایسا ) وعظ فرمایا، جس کے اثر سے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دل (اللہ کی ناراضی اور عذاب سے ) خوف زدہ ہو گئے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! یہ تو ایسا وعظ ہے جیسے کسی رخصت کرنے والے کی نصیحت، تو آپ ہم سے کیا وعدہ لیتے ہیں؟ نبی کریمe  نے فرمایا: ’’ میں تمہیں روشن ( شریعت ) پر چھوڑ رہا ہوں۔ جس کی رات بھی دن کی طرح ( روشن ) ہے، میرے بعد وہی شخص کج روی اختیار کرے گا جو ہلاک ہونے والا ہے۔ تم میں سے جو کوئی زندہ رہے گا، وہ جلد بہت اختلاف دیکھے گا، لہٰذا تمہیں میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کا جو طریقہ معلوم ہو اسی کو اختیار کرنا۔ اسے ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا۔ اور ( امیر کی ) اطاعت کو لازم پکڑنا اگرچہ وہ حبشی غلام ہو کیوں کہ مومن تو نکیل والے اونٹ کی طرح ہوتا ہے جہاں لے جایا جائے، چلا جاتا ہے۔‘‘
٭  بدعتی شخص کو حوض کوثر کا پانی نصیب نہیں ہو گا۔
صحیح البخاری حدیث نمبر  6583 میں ہے:
إنِّي فَرَطُکُمْ علَی الحَوْضِ، مَن مَرَّ عَلَيَّ شَرِبَ، ومَن شَرِبَ لَمْ يَظْمَأْ أبَدًا، لَيَرِدَنَّ عَلَيَّ أقْوامٌ أعْرِفُہُمْ ويَعْرِفُونِي، ثُمَّ يُحالُ بَيْنِي وبيْنَہُمْ. فأقُولُ إنَّہُمْ مِنِّي، فيُقالُ: إنَّکَ لا تَدرِي ما أحدَثُوا بَعدَکَ، فأقُولُ: سُحقًا سُحقًا لِمَن غَيَّرَ بَعدِي.﴾
’’نبی کریمe نے فرمایا ’’میں اپنے حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود رہوں گا۔ جو شخص بھی میری طرف سے گزرے گا وہ اس کا پانی پئے گا اور جو اس کا پانی پئے گا وہ پھر کبھی پیاسا نہیں ہو گا اور وہاں کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانیں گے لیکن پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گاکہ نبی کریمe نے فرمایا کہ یہ لوگ مجھ میں سے ہیں۔ نبی کریمe سے اس وقت کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا تبدیلیاں کر دی تھیں؟ میں کہوں گا کہ دوری ہو دوری ہو ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلیاں کر دی تھیں۔‘‘
٭  بدعتی شخص کے لیے توبہ کا دروازہ بند رہتا ہے۔
﴿الترغيب والترہيب. صححہ الألباني.
﴿الراوي: أنس بن مالک. إنَّ اللہَ حجب التوبۃَ عن کلِّ صاحبِ بدعۃٍ حتی يدَعَ بدعتَہ.﴾
’’اللہ تعالیٰ تب تک بدعتی شخص کی توبہ قبول نہیں کرتا جب تک وہ اس بدعت کو   ترک نہ کر دے۔‘‘
٭  نیت خواہ کتنی ہی اچھی ہو، کرنے والا خواہ صحابی کیوں نہ ہو، اگر سنت سے ثابت نہیں ہے تو وہ دین نہیں ہو گا۔
صحیح البخاری حدیث نمبر 5063 میں ہے:
﴿جَاءَ ثَلَاثَۃُ رَہْطٍ إلی بُيُوتِ قالَ أحَدُہُمْ: أمَّا أنَا فإنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أبَدًا، وقالَ آخَرُ: أنَا أصُومُ الدَّہْرَ ولَا أُفْطِرُ، وقالَ آخَرُ: أنَا أعْتَزِلُ النِّسَاءَ فلا أتَزَوَّجُ أبَدًا، فَجَاءَ  رَسولُ اللہِ ﷺ إليہِم، فَقالَ: أنْتُمُ الَّذِينَ قُلتُمْ کَذَا وکَذَا؟! أَمَا واللہِ إنِّي لَأَخْشَاکُمْ لِلہِ وأَ تْقَاکُمْ لہ، لَکِنِّي أصُومُ وأُفْطِرُ، وأُصَلِّي وأَرْقُدُ، وأَ تَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فمَن رَغِبَ عن سُنَّتي فليسَ مِنِّي.﴾
(( تین صحابہ کرام کا قصہ ))
’’ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔  دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔
تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریمe تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور  میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ رَغِبَ عن سُنَّتي فليسَ مِنِّي. میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔‘‘
السلسلۃ الصحيحۃ. صحيح
﴿عن عمرو بنِ سلَمۃَ الہمْدانيِّ قال کنا نجلسُ علی بابِ عبدِ اللہِ بنِ مسعودٍ قَبل صلاۃِ الغداۃِ…﴾
’’حضرت عمرو بن سلمہ ہمدانی بیان کرتے ہیں کہ وہ فجر کی نماز سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعودt  کے دروازے پر پہنچ جاتے۔ مختصر کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعودt مسجد میں آئے اور لوگ ٹولیاں بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ‘‘
﴿في کلِّ حلْقۃٍ رجلٌ وفي أيديہم حصًی فيقول کَبِّرُوا مئۃً فيُکبِّرونَ مئۃً فيقول ہلِّلُوا مئۃً فيُہلِّلون مئۃً ويقول سبِّحوا مئۃً فيُسبِّحون مئۃً.﴾
’’ہر ٹولی پر ایک بندہ کھڑا ہے اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں وہ کہتا ہے سو دفعہ اللہ اکبر کہو وہ سو دفعہ اللہ اکبر کہتے ہیں۔ ‘‘ وہ کہتا ہے سو دفعہ لا الہ الا اللہ کہو وہ سو دفعہ لاالہ الا اللہ کہتے ہیں۔ وہ کہتا سو دفعہ سبحان اللہ للہ کہو وہ سو دفعہ سبحان اللہ کہتے ہیں۔
﴿ويحکم يا أمَّۃَ محمدٍ ما أسرعَ ہلَکَتِکم ہؤلاءِ صحابۃُ نبيِّکم ﷺ مُتوافرون وہذہ ثيابُہ لم تَبلَ وآنيتُہ لم تُکسَر.﴾
یہ ماجرا دیکھ کر حضرت عبداللہ بن مسعودt نے کہا تمہارا برا ہو اے امت محمد کے افراد، تم کتنی تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہے ہو ، ابھی تو کثیر تعداد میں صحابہ کرام موجود ہیں، ابھی تو نبی کریمe کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے آپ کے زیراستعمال برتن بھی نہیں ٹوٹے، تو انہوں نے کہا کہ ہماری نیت تو نیکی کی ہی ہے ناں! تو انہوں نے فرمایا ضروری نہیں جس کی نیت اچھی ہو اس عمل بھی درست ہو۔ (یعنی سنت سے ثبوت ضروری ہے ۔)
﴿والذي نفسي بيدہ إنکم لعلی مِلَّۃٍ ہي أہدی من ملۃِ محمدٍ أو مُفتتِحو بابَ ضلالۃٍ.﴾
’’پھر حضرت عبداللہ بن مسعودt نے فرمایا، اللہ کی قسم اٹھا کے کہتا ہوں یا تو  تمہیں محمدe کے دین سے بہتر کوئی طریقہ مل گیا ہے یا آپ نے گمراہی کا  دروازہ کھول لیا ہے۔‘‘
الألباني في إصلاح المساجد. صحيح
﴿عن عَبدِ اللہِ بنِ مَسعودٍ ؓ أنَّہ قال: اتَّبِعوا ولا تَبتَدِعوا فقد کُفْيتُم.﴾
’’حضرت عبداللہ بن مسعودt نے فرمایا: اتباع کرو نئی بدعات نہ نکالو۔ جتنا دین تمہیں مل چکا ہے وہ کافی ہے۔‘‘
٭  نبی کریمe کے مقابلے میں کسی قول اور رائے کی کوئی حیثیت نہیں خواہ صحابی کا قول ہو یا امام کی فقہ۔
تخريج المسند. شعيب الأرناؤوط. صحيح
سنن  ترمذی حدیث نمبر 824 میں ہے:
﴿أنَّ سالمَ بنَ عبدِاللہِ حدَّثَہ أنَّہ سمِعَ رجُلًا مِن أہْلِ الشَّامِ وہو يَسألُ عبدَ اللہِ بنَ عُمرَعن التَّمتُّعِ بالعُمْرۃِ إلی الحجِّ، فقال عبدُ اللہِ بنُ عُمرَ: ہي حلالٌ، فقال الشَّاميُّ: إنَّ أَباکَ قد نَہَی عنہا،  فقال عبدُ اللہِ بنُ عُمرَ: أَرأيْتَ إنْ کان أَبي نَہَی عنہا، وصَنَعَہا رسولُ اللہِ ﷺ: أَمْرُ أَبي يُتَّبَعُ أَمْ أَمْرُ رسولِ اللہِ ﷺ؟ فقال الرَّجُلُ: بلْ أَمْرُ رسولِ اللہِ ﷺ. فقال: لقد صَنَعَہا رسولُ اللہِ ﷺ.﴾
’’سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمرw  سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو عبداللہ بن عمرw  نے کہا: یہ جائز ہے۔ اس پر شامی نے کہا: آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے؟ عبداللہ بن عمرw  نے کہا: ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہe نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہe کے حکم کی؟تو اس نے کہا: رسول اللہe کے حکم کی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہe نے ایسا کیا ہے۔‘‘
﴿قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُوشِکُ أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْکُمْ حِجَارَۃٌ مِنْ السَّمَاءِ! أَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَتَقُولُونَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ رضی اللہ عنہما.﴾
’’مجھے خطرہ ہے تم پر کہیں پتھروں کی بارش نہ ہو جائے، میں کہتا ہوں رسول اللہ نے فرمایا تم ابوبکر اور عمرw کی بات پیش کرتے ہو۔‘‘
٭  امام مالکa کا فیصلہ کن قول۔
﴿من ابتدع في الإسلام بدعۃ يراہا حسنۃ فقد زعم أن محمداً -ﷺ- خان الرسالۃ. لأن اللہ يقول: {الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ} [المائدۃ: 3] فما لم يکن يومئذ ديناً فلا يکون اليوم ديناً.﴾
’’امام مالکa کا مشہور قول ہے جو کوئی دین میں نئی چیز( بدعت ) داخل کرے اور سمجھے کہ یہ نیکی ہے وہ سمجھتا ہے کہ (نعوذ باللہ) محمدe نے خیانت کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ میں فرمایا کہ میں نے آج کے دن تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔ جو چیز اس وقت دین نہیں تھی وہ اب بھی دین نہیں ہو سکتی۔‘‘
٭  دین یا قرآن مجید ہے یا حدیث رسولe۔
﴿منزلۃ السنۃ. حسنہ الألباني ترکتُ فيکم أمرينِ ؛ لن تَضلُّوا ما إن تمسَّکتُم بہما: کتابَ اللہِ وسُنَّتي.﴾
’’نبی کریمe نے فرمایا۔ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک انہیں تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہو سکتے۔‘‘
صحیح مسلم حدیث نمبر  867 میں ہے:
﴿کانَ رَسولُ اللہِ ﷺ إذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاہُ، وَعَلَا صَوْتُہُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُہُ.
خطبے میں یہ فرمایا کرتے :
أَمَّا بَعْدُ؛ فإنَّ خَيْرَ الحَديثِ کِتَابُ اللہِ، وَخَيْرُ الہُدَی ہُدَی مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا، وَکُلُّ بدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ.﴾
٭  دین مکمل ہو چکا ہے نئی کسی عبادت کی کوئی ضرورت ہے نہ گنجائش۔
صحیح البخاری حدیث 6785 میں ہے:
﴿قالَ: فإنَّ اللہَ تَبَارَکَ وتَعَالَی قدْ حَرَّمَ علَيْکُم دِمَاءَکُمْ وأَمْوَالَکُمْ وأَعْرَاضَکُمْ إلَّا بحَقِّہَا، کَحُرْمَۃِ يَومِکُمْ ہذا، في بَلَدِکُمْ ہذا، في شَہْرِکُمْ ہذا، ألَا ہلْ بَلَّغْتُ؟ ثَلَاثًا، کُلُّ ذلکَ يُجِيبُونَہُ: ألَا نَعَمْ.﴾
نبی کریمe نے اب فرمایا: ’’پھر بلاشبہ اللہ نے تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتوں کو حرمت والا قرار دیا ہے، سوا اس کے حق کے، جیسا کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینہ میں ہے۔ ہاں! کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا۔‘‘ تین مرتبہ آپe نے فرمایا اور ہر مرتبہ صحابہ نے جواب دیا کہ جی ہاں، پہنچا دیا۔
٭  وضاحت: دین پورا ہو چکا تھا۔ کسی صحابی نے نہیں کہا کہ حضور چند مسائل رہ گئے ہیں جو آپ نے ابھی نہیں بتائے ۔
جیسے عید میلاد النبی کیسے منانی ہے؟ اذان سے پہلے الصلاۃ والسلام عليک يا رسول اللہ کہنا بھی ابھی آپ نے نہیں بتایا۔تو پتا چلا جو چیز اس وقت دین میں موجود نہیں تھی بعد میں داخل کی گئی وہ دین نہیں ہو سکتی۔ہر وہ چیز بدعت شمار ہو گی۔ بدعت دیکھنے میں بڑی خوش نما لگتی ہے۔
٭  پتا چلا کہ اپنی طرف سے کسی رات کی عبادت یا کسی دن کا خاص روزہ مقرر کر لینا جائز نہیں ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر 1144 میں ہے:
﴿لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الجُمُعَةِ بقِيَامٍ مِن بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَا تَخُصُّوا يَومَ الجُمُعَةِ بصِيَامٍ مِن بَيْنِ الأ يَّامِ، إِلَّا أَنْ يَكونَ في صَوْمٍ يَصُومُہُ أَحَدُكُمْ.﴾
’’شب جمعہ کو عبادت کے لئے خاص نہ کریں اور جمعے کے دن کو روزے کے لئے خاص نہ کریں۔‘‘
٭٭٭