سودی معاملات پر تنبیہ
الحمد لله الذي أنزل كتابه هدى للناس وبينات من الهدى والفرقان، وأبان لنا الحلال والحرام بأوضح بيان، وأحل لنا الطيبات وحرم علينا الخبائث والفسوق والعصيان، أحمده سبحانه وأشكره. ما أولاه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله الهادي إلى سبيل الرشد والفلاح، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
تمام تعریف اللہ رب العالمین کیلئے ہے جس نے ایسی کتاب نازل فرمائی جو لوگوں کیلئے رہنما ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کو الگ الگ کر دینے والی نشانیاں ہیں اور جس نے حلال و حرام کو ہمارے لئے کھول کھول کر واضح طور پر بیان کر دیا ہے، طیبات کو حلال اور خبائث، فسق و فجور اور عصیان و نافرمانی کو حرام ٹھرایا ہے۔ میں رب العالمین کی بے شمار نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا کرتا اور آداب شکر بجالاتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک اور ساجھی نہیں اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہوں نے رشد و ہدایت اور فلاح و نجات کی راہ دکھائی۔ یا اللہ! تو اپنے بندے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کے احکام کی بجا آوری اور منہیات سے اجتناب کر کے اس کی اطاعت و فرماں برداری کرو۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے سختی کے ساتھ جن کاموں سے منع فرمایا ہے۔ ان میں سودی معاملات بھی ہیں جو اسلامی نظام اور اسلامی تعلیمات سے خارج ہیں۔ یہ سودی کاروبار روزی کی برکت مٹاتے اور سیئات میں اضافہ کرتے ہیں، غریب کا کندھا بوجھل اور اس کی زندگی مکدر کر دیتے ہیں مالدار کا دھن گندا اور اس کا وجود معاشرہ میں قابل نفرت بنا دیتے ہیں۔ اور اس کی روزی اور دولت کی برکت چھین لیتے ہیں۔ در حقیقت حلال اور پاکیزہ مال کے اندر جب سور داخل ہو جاتا ہے۔ تو وہ اسے گندا اور ناپاک کر دیتا ہے، اس مال سے اگر کچھ مخرچ کیا جائے تو ثواب نہیں مانا صدقہ کیا جائے تو قبول نہیں ہوتا اور کھا لیا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کا ذکر فرمایا ہے۔ جو گرد آلود پراگنده سرطول طویل سفر کرتا ہے۔ اور اس دوران آسمان کی طرف اپنے ہاتھ اٹھا کر عاجزی سے دعا کرتا اور اے میرے رب! اے میرے رب پکارتا ہے۔ مگر اس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔ جبکہ اس کا کھانا حرام کا اس کا پینا حرام کا اس کا لباس حرام کا اور جو غذا کھا کر وہ پلا بڑھا ہے۔ وہ بھی حرام کی۔
سود خور پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے۔ فرمایا:
(لعن رسول الله الله آكل الربا وموكله وكاتبه وَشَاهِدَيه) [صحیح بخاری: کتاب المساقاة، باب لعن أكل الربا وموكله (1597،1598) و مسند احمد 393/1(3725)]
’سود کھانے والے سود کھلانے والے سودی کاروبار کے لکھنے والے اور اس پر شہادت دینے والے سب پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘
سود خور در حقیقت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ عز و جل کا ارشاد ہے:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِيْنَ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَأَذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾ (البقره:279،289)
’’مومنوا اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے۔ اس کو چھوڑ دو اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے لئے خبر دار ہو جاؤ۔‘‘
مسلمانو! غور کرو وہ کون سا خطرہ اور کون سی مصیبت ہے۔ جو اللہ اور رسول سے جنگ کرنے سے زیادہ سنگین ہو گی اور یہ بھی یاد رکھو کہ سود خور قیامت کے دن اپنی قبر سے اس شخص کی طرح اٹھے گا جسے شیطان نے لگ کر خبط الحواس کر دیا ہو۔
اللہ کے بندو! سود لینا ایمان و تقویٰ کی کمزوری کی علامت، بخل و کنجوسی کا ثبوت غرور و انانیت کی نشانی حرص و ہوس نیز پریشان حال بھائیوں کے ساتھ قساوت قلبی اور بے رحمی کی دلیل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تنبیہ و انکار کے طور پر سود کے عام ہو جانے کی بابت یہ پیشگوئی فرمائی تھی:
(لَيَاتِينَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لا يبالي المرء بما أخذ من المال، بحلال أو بحرام) [مسند احمد: 452:2 (9837) و صحیح بخاری: کتاب البيوع، باب من لم يبال من حيث كسب المال (2059)]
’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے کیسا مال حاصل کیا ہے۔ حلال یا حرام؟‘‘
آج بہت سارے لوگ سود میں مبتلا ہیں، کچھ لوگ اس طرح کا کاروبار کرتے ہیں۔ کہ ایک متعین رقم اس شرط پر دیتے ہیں۔ کہ لینے والا مذکورہ رقم سے حاصل ہونے والے نفع کا ایک مخصوص حصہ ماہ بماہ یا سال بسال اسے دیتا رہے۔ یا یہ کرتے ہیں۔ کہ ایک مقررہ مدت تک کے لئے ایک متعین رقم دیتے ہیں۔ اور مدت گذر جانے کے بعد اس رقم کے ساتھ ہی اس کا پانچ فیصد یا دس فیصد یا اس کے مثل کچھ کم و بیش اضافہ بھی لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب ربا (سود) ہے۔ سودی معاملات میں یہ بھی داخل ہے۔ کہ آدمی کوئی سامان ادھار فروخت کرے اور بائع و مشتری (فروخت کرنے اور خرید نے والے) کے درمیان قیمت ادا کرنے کا جو وقت مقرر ہوا تھا اس سے پہلے ہی بائع اپنا بچا ہوا سامان مشتری سے متعین قیمت سے کم پر نقد خرید لے اور اسی کو مسئلہ ’’عینہ‘‘کہتے ہیں۔ جس کی حدیث شریف کے اندر ممانعت آئی ہے۔ چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
(إذا تبايعتم بالعينة، وأخذتُم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع . وترکتم الجھاد، سلط الله عليكم ذلا، لا ينزعه۔ حتى ترجعوا إلى دينكم) [سنن ابی داود: کتاب الاجازة، باب في النهي من العینة (3662) و مسند احمد: 42/2 (5007)]
’’جب تم گائے کی دم پکڑ لو گے اور بیع عینہ کرنے لگو گے اور کھیتی باڑی ہی پر قناعت کر لو گے اور جہاد جیسا اہم کام چھوڑ دو گے تو اللہ تعالی تم پر ایسی ذلت ورسوائی مسلط کر دے گا جسے اس وقت تک تم سے ختم نہ کرے گا جب تک کہ دوبارہ تم اپنے دین کی طرف پلٹ نہ آؤ۔‘‘
لہذا وہ مسلمان جو اپنے نفس کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ان کے لئے ضروری ہے۔ کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کا تقوی اختیار کریں، اسود اور سودی کاروبار سے بچیں اور یہ یقین رکھیں کہ روزی دینے والا اللہ ہے۔ جیسا کہ اس کا اعلان ہے:
﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبْ﴾ (الطلاق:32)
’’جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لئے خلاصی کی صورت پیدا کر دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے گمان بھی نہ ہو۔‘‘
مسلمانو! سودی کاروبار کرنے والا کیا اللہ کے عذاب سے نہیں ڈرتا؟ کیا اسے یہ بھی خوف نہیں ہوتا کہ اللہ اسے فقیر و مفلس نہ بنادے؟ کیا وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ اللہ اس کے مال کی برکت ہی نہ ختم کر دے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾ (البقره: 276)
’’اللہ سود کو نابود کرتا ہے۔ اور صدقات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے۔‘‘
مذکورہ آیت کے اس کھڑے يَمْحَقُ الله الرابا کی تفسیر بعض سلف نے یوں کی ہے۔ کہ سود کے مال کو اللہ تعالی یا تو سود خور کے ہاتھ سے کلی طور پر چھین لیتا ہے۔ یا اس کو اس مال سے نفع اندوز ہونے سے محروم کر دیتا ہے، چنانچہ وہ شخص اس مال سے قطعًا کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتا مرید بر آن دنیا و آخرت دونوں جگہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب و عقاب کا مستحق ہو جاتا ہے۔ سودی معاملات سے باز نہ آنے والوں کے سلسلہ میں جو آیت وارد ہے۔ یعنی ﴿ فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ۚ ﴾ کے اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما فرماتے ہیں۔ ” (استيقنوا بحرب من الله و رسولہ) اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کا پورا پورا یقین کر لو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے سلسلہ میں یہ بھی مروی ہے۔ کہ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص سود پر قائم رہے اور اس سے دست بردار نہ ہوا ایسے شخص سے مسلمانوں کا امام وقت توبہ کرائے اگر وہ توبہ کر کے سود سے دست بردار ہو جائے تو ٹھیک اور نہ اس کی گردن مار دے۔
پس اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرو وہ مزید نعمتوں سے نوازے گا اور ناشکری ہرگز نہ کرو اور نہ جو نعمتیں اس نے تم کو عطا کی ہیں۔ انہیں بھی چھین لے گا جیسا کہ اس کا اعلان ہے:
﴿ولَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيْدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيْدٌ﴾ (ابراہیم:7)
’’اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو کہ میرا عذاب بھی سخت ہے۔‘‘
دینی بھائیو! اللہ تعالی نے تمہیں مومن کے نام سے خطاب کیا ہے۔ تاکہ تمہارے ایمان کا تذکرہ کر کے تمہیں یہ یاد دلائے کہ جب تم اہل ایمان ہو تو اجر و ثواب کی طلب میں ممنوع افعال کے ارتکاب سے باز رہو فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۱۳۰ وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْۤ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَۚ۱۳۱ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۚ۱۳۲﴾ (آل عمران: 130 تا 132)
’’اے ایمان والو! دُگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب، فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔