سیدنا علی المرتضیٰ: فضائل و خصائل

اہم عناصر:
❄ سیدنا علی المرتضیٰ کا تعارف ❄ سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل
❄ سیدنا علی المرتضیٰ کی سیرت کے چند قابلِ عمل گوشے
❄ شہادت سیدنا سیدنا علی المرتضیٰ
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
اِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهِيرًا[الااحزاب: 33]
ذی وقار سامعین!
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ذی شان ہے؛
’’ فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ‘‘
’’تم پر میری سنت اور خلفاء راشدین جوکہ ہدایت یافتہ ہیں، کی پیروی لازم ہے۔ ‘‘
ان خلفاء راشدین میں سب سے پہلے نمبر پر سیدنا ابو بکر صدیق ، دوسرے نمبر پر سیدنا عمر ، تیسرے نمبر پر سیدنا عثمان اور چوتھے نمبر پر سیدنا علی ہیں، سیدنا علی کی شخصیت اسلامی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے، آپ کو جہاں خلیفہ رابع ہونے کا شرف حاصل ہے وہیں آپ کے حصے میں یہ مرتبت بھی آئی کہ آپ رسول اکرم ﷺ کے چچیرے بھائی اور داماد ہیں ، نبی ﷺکی لختِ جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کانکاح سیدنا علی کے ساتھ ہوا۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم سے سیدنا علی المرتضیٰ کا تعارف اور ان کے فضائل و مناقب سمجھیں گے۔
سیّدنا علی المرتضیٰ کا تعارف
نام اور کنیت:
علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
آپ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے، آپ کے دادا عبدالمطلب بن ہاشم پر آپ کا نسب خاندان نبوت سے مل جاتا ہے۔ عبدالمطلب کے صاحبزادے ابوطالب ، نبی کریم ﷺ کے والد عبداللہ کے حقیقی بھائی تھے۔
آپ کی کنیت ابوالحسن ہے۔ یہ نسبت آپ کے بڑے صاحبزادے حسن کی طرف ہے جو کہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت ابوتراب بھی ہے، اس کنیت سے آپ کو نبی کریم ﷺ نے نوازا تھا، جب آپ کو ابوتراب کہہ کر پکارا جاتا تھا تو آپ بہت خوش ہوتے تھے، اس کنیت کی وجہ یہ تھی کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے تو علی کو گھر پر نہ پایا، آپ نے پوچھا:’’ تمھارے سسر زاد (شوہر) کہاں ہے؟ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک معاملہ پر میرے او ران کے درمیان اَن بَن ہوگئی، وہ مجھ سے ناراض ہو کر یہاں سے چلے گئے، میرے پاس قیلولہ بھی نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے ایک آدمی سے کہا: دیکھو وہ کہاں گئے، وہ صاحب تلاش کرکے لوٹے تو بتایا کہ اے اللہ کے رسول! وہ مسجد میں سو رہے ہیں، اللہ کے رسول ﷺ مسجد میں تشریف لائے، دیکھا تو وہ بے خبر سو رہے ہیں اور نصف چادر زمین پر ہے، اور جسم پر مٹی لگی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ علی کے جسم سے مٹی جھاڑنے لگے اور کہا؛
قُمْ أَبَا تُرَاب ’’اے ابو تراب! اٹھ جاؤ۔‘‘ [بخاری: 441 ، مسلم: 6229]
ولادت:
آپ کی ولادت بعثت نبوی سے دس برس پہلے ہوئی۔ [فتح الباری: 7/174]
قبولِ اسلام:
بچوں میں سب سے پہلے سیدنا علی المرتضیٰ ایمان لے کر آئے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ سیّدنا علی بن ابی طالب نبی کریم ﷺ کے پاس آئے، اس وقت خدیجہ رضی اللہ عنہا اسلام لاچکی تھیں، دیکھا تو دونوں نماز پڑھ رہے تھے، علی نے پوچھا: یہ کیا معاملہ ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛
دِیْنَ اللّٰہِ اصْطَفَاہٗ لِنَفْسِہٖ، وَ بَعَثَ بِہٖ رُسَلَہٗ، فَأَدْعُوْکَ إِلَی اللّٰہِ وَحْدَہٗ وَ إِلَی عِبَادِتِہٖ، وَ تَکْفُرُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّی
’’یہ اللہ کا دین ہے جسے اس نے اپنے لیے پسند کیا اور اسی کے لیے انبیاء کو مبعوث کیا ہے، میں تمہیں بھی اللہ واحد اور اس کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں اور چاہتا ہو ں کہ لات اور عزیٰ کو معبود ماننے سے انکار کردو۔‘‘ علی نے کہا: یہ وہ بات ہے جسے میں نے پہلے کبھی نہیں سنا اور جب تک میں ابوطالب سے ذکر نہ کرلوں کچھ فیصلہ نہیں کرسکتا، جب کہ رسول اللہ ﷺ کی منشا تھی کہ جب تک اسلام کی اعلانیہ دعوت کا آغاز نہ ہو یہ راز فاش نہ ہو، چنانچہ آپﷺنے فرمایا؛
یَا عَلِیُّ إِذَا لَمْ تُسْلِمْ فَاکْتُمْ ’’اے علی! اگر تم ایمان نہیں لاتے ہو تو اس کو ابھی پوشیدہ رکھنا۔‘‘
علی اس رات خاموش رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی، صبح سویرے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: آپ نے مجھے کل کیا دعوت دی تھی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
تَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَتَکْفُرْ بِاللَّاتِ وَ الْعُزّٰی وَتَبَرَّأْ مِنَ الْاَنْدَادِ
’’اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور لات و عزیٰ کو معبود ماننے سے انکار کردو، اور کسی کو اس کا شریک ٹھہرانے سے براء ت کا اظہار کرو۔‘‘
چنانچہ علی نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، پھر اسلام لے آئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ابوطالب سے چھپ چھپا کر آیا کرتے اور اپنے اسلام کو ان پر ظاہر نہ کرتے۔[البدایۃ و النہایۃ: 61/4]
سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل
امام اہلِ سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے تھے؛
ماجاء لأحد من أصحاب رسول اللہ ﷺ من الفضائل ماجاء لعلي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ
"جتنے فضائل علی بن ابی طالب کے (احادیث میں) آئے ہیں اتنے فضائل کسی دوسرے صحابی کے نہیں آئے۔” [مستدرک الحاکم: 4572 حسن]
اسی طرح امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ (متوفی 360ھ) فرماتے ہیں؛
’’جان لو، اللہ ہم اور تم پر رحم کرے، بے شک اللہ کریم نے امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اعلیٰ فضیلت عطا فرمائی۔ خیر میں آپ کی پیش قدمیاں عظیم ہیں اور آپ کے مناقب بہت زیادہ ہیں۔ آپ عظیم فضیلت والے ہیں۔ آپ جلیل القدر، عالی مرتبہ اور بڑی شان والے ہیں۔
آپ رسول اللہ ﷺ کے بھائی اور چچا زاد، حسن و حسین کے ابا، مسلمانوں کے مردِ میدان، رسول اللہ ﷺ کا دفاع کرنے والے، ہم پلہ لوگوں سے لڑنے والے، امام عادل زاہد، دنیا سے بے نیاز (اور) آخرت کے طلب گار، متبع حق، باطل سے دور اور ہر بہترین اخلاق والے ہیں۔
اللہ و رسول آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں۔
آپ ایسے انسان ہیں کہ آپ سے متقی مومن ہی محبت کرتا ہے اور آپ سے صرف منافق بدنصیب ہی بغض رکھتا ہے۔
عقل، علم، بردباری اور ادب کا خزانہ ہیں، رضی اللہ عنہ‘‘ [الشریعۃ ص 714، 715 ]
چند فضائل پیشِ خدمت ہیں:
زبانِ نبوت سے جنت کی بشارت:
❄ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ رَجُلٌ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام-، فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ:عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ: النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ: وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ. وَلَوْ شِئْتُ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ! قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ.
ترجمہ : جناب عبدالرحمٰن بن الاخنس سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے جب ایک شخص نے سیدنا علی کا ذکر کیا تو سیدنا سعید بن زید کھڑے ہوئے اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” دس اشخاص جنت میں ہیں ۔ نبی ﷺ جنت میں ہیں ، ابوبکر جنت میں ہیں ، عمر جنت میں ہیں ، عثمان جنت میں ہیں ، علی جنت میں ہیں ، طلحہ جنت میں ہیں ، زبیر بن عوام جنت میں ہیں ، سعد بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں ہیں ۔ “ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہے ؟ تو وہ خاموش ہو رہے ۔ لوگوں نے پوچھا : وہ کون ہے تو انہوں نے کہا : وہ سعید بن زید ہے ۔ [ابوداؤد: 4649 صححہ الالبانی]
❄ سیدناعبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
القائِمُ بعدِي في الجنةِ ، والّذي يقومُ بعدَهُ في الجنةِ ، والثالثُ والرابِعُ في الجنةِ
‏‏‏‏ "میرے بعد شریعت پرعمل پیرا ہونے والا جنت میں جائے گا اور اس کے بعد شریعت کو اپنانے والا اور اس کے بعد تیسرے دور کا آدمی اور اسکے بعد چوتھے دور کا آدمی سب جنت میں داخل ہوں گے۔” [سلسلہ صحیحہ: 2319]
نبیﷺکے جانشین:
مشہور جلیل القدر صحابی اور فاتح قادسیہ سیدنا سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں؛
رسول اللہ ﷺ نے علی سے فرمایا؛
أنت مني بمنزلۃ ھارون من موسٰی، إلا أنہ لانبي بعدي
"تیری میرے ساتھ وہی منزلت ہے جو ہارون کی موسیٰ علیہما السلام سے ہے اِلا یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔” [بخاری: 3706 ]
اس حدیث سے سیدنا علی کا عظیم الشان ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن یادر رہے کہ اس کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
علی سے محبت ایمان کی علامت:
سیدنا علی فرماتے ہیں؛
اس ذات (اللہ) کی قسم ہے جس نے دانہ پھاڑا (فصل اگائی) اور مخلوقات پیدا کیں، میرے ساتھ نبی اُمی ﷺ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ میرے (علی کے) ساتھ محبت صرف مومن ہی کرے گا اور (مجھ سے) بغض صرف منافق ہی رکھے گا۔ [مسلم: 131/78]
معلوم ہوا کہ سیدنا علی سے مومنین محبت کرتے ہیں اور بغض کرنے والے منافق ہیں۔ تمام اہلِ سنت سیدنا علی سے محبت اور پیار کرتے ہیں۔
سیدنا علی کا دوسرا قول یہ ہے کہ:
’’ایک قوم (لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ (اندھا دھند) محبت کرے گی حتیٰ کہ وہ میری (افراط والی) محبت کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض رکھے گی حتیٰ کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی‘‘۔
[فضائل الصحابۃ 2/ 565 ح 952 صحیح]
علی سے نبیﷺراضی تھے:
سیدنا امیرالمومنین عمر نے فرمایا؛
نبی ﷺ نے اس حالت میں وفات پائی کہ آپ ﷺ علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی تھے۔ [بخاری:3700]
علی ہر مومن کے ولی(دوست) ہیں:
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا؛
إن علیاً مني وأنا منہ وھو ولي کل مؤمن [ترمذی: 3712 صححہ الالبانی]
"بے شک علی مجھ سے ہیں اور میں اُن سے ہوں اور وہ ہر مومن کے ولی ہیں۔”
یعنی رسول اللہ ﷺ علی سے محبت کرتے ہیں اور علی آپ سے محبت کرتے ہیں۔ ہر مومن علی سے محبت کرتا ہے۔
سیدنا زید بن ارقم سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا؛
من کنت مولاہ فعلي مولاہ
"جس کا میں مولیٰ ہوں تو علی اس کے مولیٰ ہیں۔” [ترمذی: 3713 صححہ الالبانی]
لغت میں مخلص دوست کو بھی مولیٰ کہتے ہیں۔ [دیکھئے القاموس الوحید ص 1900]
نبی کریم ﷺ نے زید بن حارثہ سے فرمایا؛
أنت أخونا ومولانا "تُو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے۔” [بخاری: 2699]
آپ ﷺ نے سیدنا جلیبیب کے بارے میں فرمایا؛
ھٰذا مني وأنا منہ "یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔” [صحیح مسلم: 2472]
بعض روافض کا حدیثِ ولایت سے سیدنا علی کی خلافتِ بلا فصل کا دعویٰ کرنا ان دلائل سابقہ و دیگر دلائل کی رُو سے باطل ہے۔
نبیﷺکی دعا:
ایک دفعہ سیدنا علی بیمار ہو گئے تو نبی کریم ﷺ نے آپ کے لئے دعا فرمائی؛
اللہم عافہ أو اشفہ "اے اللہ! اسے عافیت یا شفا عطا فرما۔”
سیدنا علی فرماتے ہیں: میں اس کے بعد کبھی بیمار نہیں ہوا۔ [مسند احمد: 637 حسن]
زبانِ نبوت سے شہید کا لقب ملا:
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک روز نبی اکرم ﷺ حراء پہاڑ پر تھے، آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے، اتنے میں چٹان حرکت کرنے لگی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
اہدأ فما علیک إلا نبي أو صدیق أو شہید
"تھم جاؤ، کیونکہ تمہارے اوپرنبی، صدیق، اور شہید ہیں۔”[مسلم: 2417]
سیدنا علی المرتضیٰ کی شہادت
ابن ملجم ، بُرَک بن عبداللہ اور عمرو بن بکر التمیمی ایک جگہ جمع ہوئے ، ملکی حالات پر گفتگو کی۔
چنانچہ ابن ملجم نے کہا: میں علی بن ابی طالب کو قتل کروں گا، بُرَک بن عبداللہ نے کہا: میں معاویہ کو قتل کروں گا، عمرو بن بکر تمیمی نے کہا: میں عمرو بن عاص کو قتل کروں گا، پھر انھوں نے اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے ایک دوسرے سے پختہ وعدہ اور قسمیں لیں اور یہ طے ہوا کہ جس کے ہدف پر جو آدمی ہے وہ اسے ہرحال میں قتل کرے گا، یا خود بھی مار دیا جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی اپنی تلواریں لیں اور اسے زہرآلود کیا، 17/رمضان کی تاریخ پر سب کا اتفاق ہوا کہ اس دن ہر ایک اپنے اپنے مطلوبہ شخص پر حملہ کرے، پھر یہ سب اپنے اپنے مطلوبہ شخص پر حملہ کی تلاش میں ان کے شہروں میں چلے گئے۔[تاریخ الطبری: 56/6]
ابن الحنفیہ کا بیان ہے کہ میں نے بھی اس رات لوگوں کے ساتھ جامع مسجد میں نماز پڑھی تھی جس میں نمازیوں کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ لوگ دروازہ کے قریب تک نماز پڑھ رہے تھے، کوئی قیام میں تھا، کوئی رکوع میں اورکوئی سجدہ میں، پوری پوری رات وہ عبادت کرنے اور نماز پڑھنے سے نہیں اکتاتے تھے، اسی رات کی صبح علی فجر کی نماز کے لیے نکلے اور حسب معمول لوگوں کو نماز! نماز! کی ندا دینے لگے، مجھے یاد نہیں ہے کہ آپ دروازہ سے باہر نکل سکے تھے یا نہیں اور نماز! نماز! کی ندا لگا پائے تھے یا نہیں، اتنے میں میں نے ایک چمک دیکھی اور یہ آواز سنی کہ
الحکم للہ یا علی لا لک و لا لاصحابک یا علی!
"حکومت صرف اللہ کی ہے تمھاری اور تمھارے ساتھیوں کی نہیں۔”
پھر میں نے ایک تلوار دیکھی اور پھر فوراً دوسری تلوار پر نظر پڑی، پھر علی کو فرماتے ہوئے سنا: یہ آدمی بھاگ کر نکلنے نہ پائے، لوگوں نے ہر طرف سے اسے گھیر لیا، پھر وہ جنبش نہ کرسکا کہ پکڑ لیا گیا اور علی کے سامنے پیش کیا گیا، لوگوں کے ساتھ میں بھی آپ کے پاس گیا، آپ فرما رہے تھے: جان جان کے بدلے، اگر میں مرجاؤں تو جس طرح اس نے مجھے قتل کیا ہے اسے بھی قتل کردینا اور اگر میں زندہ بچا تو خود دیکھ لوں گا۔ محمد بن الحنفیہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد لوگ گھبراہٹ کے عالم میں حسن کے پاس گئے، ابن ملجم ان کے سامنے مشکوں میں بندھا کھڑا تھا، ام کلثوم بنت علی نے جو کہ اپنے والد کی حالت دیکھ کر رو رہی تھیں، ابن ملجم سے کہا: اے اللہ کے دشمن! میرے باپ کو کوئی ضرر نہ پہنچے گا اور اللہ تجھے رسوا کرے گا، ابن ملجم نے کہا: پھر تم رو کیوں رہی ہو؟ میں نے اس تلوار کو ایک ہزار درہم میں خریدا تھا اور ایک ہزار خرچ کرکے اسے زہر آلودکیا تھا، اگر اس کی ضرب تمام اہل شہر پر پڑے تو بھی کوئی شخص زندہ نہ بچے۔[تاریخ الطبری: 62/6]
سیدنا علی المرتضیٰ کی سیرت کے چند قابلِ عمل گوشے
سیدنا علی المرتضیٰ کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ، مثال اور ماڈل ہے ، اب ہم سیرتِ علی کی چند باتیں آپ کے سامنے رکھیں گے جن پر عمل کرکے زندگیاں سنواری جا سکتی ہیں۔
1۔ فرمانِ رسولﷺپر یقین:
حضرت علی فرماتے ہیں کہ مجھے ، ابومرثد اور زبیر کو رسول اللہ نے ایک مہم پر بھیجا۔ ہم سب شہسوار تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا تم لوگ سیدھے چلے جاؤ۔ جب روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی ‘وہ ایک خط لیے ہوئے ہے جسے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین کے نام بھیجا ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پالیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط لا۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بیٹھا کر اس کی تلاشی لی تو واقعی ہمیں بھی کوئی خط نہیں ملا۔ لیکن ہم نے کہا
مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ
"حضور ﷺ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی خط نکال ورنہ ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔”
جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو ازار باندھنے کی جگہ کی طرف اپنا ہاتھ لے گئی وہ ایک چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اس نے خط نکال کر ہم کو دے دیاہم اسے لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت عمرص نے کہا کہ اس نے (یعنی حاطب بن ابی بلتعہ نے) اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے حضور ﷺ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گر دن ماردوں لیکن حضور ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ حاطب ﷺ بولے اللہ کی قسم! یہ وجہ ہر گز نہیں تھی کہ اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان باقی نہیں رہا تھا میرا مقصد تو صرف اتنا تھا کہ قریش پر اس طرح میرا ایک احسان ہوجائے اور اس کی وجہ سے وہ (مکہ میں باقی رہ جانے والے) میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں آپ کے اصحاب میں جتنے بھی حضرات (مہا جرین) ہیں ان سب کا قبیلہ وہاں موجود ہے اور اللہ ان کے ذریعے ان کے اہل و مال کی حفاظت کرتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتا دی ہے اور تم لوگوں کو چاہئے کہ ان کے متعلق اچھی بات ہی کہوحضرت عمر نے پھر عرض کیا؛
إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ أَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمْ الْجَنَّةُ أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ وَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ
اس شخص نے اللہ ‘ اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن مار دوں حضور ﷺ نے ان سے فر مایا کہ کیا یہ بدر والوں میں سے نہیں ہے؟ آپﷺنے فرمایا‘ اللہ تعالی اہل بدر کے حالات کو پہلے ہی سے جانتا تھااور وہ خود فرما چکا ہے کہ ” تم جو چاہو کرو ‘ تمہیں جنت ضرور ملے گی “ ( یا آپ نے یہ فرمایاکہ ) میں نے تمہاری مغفرت کر دی ہے یہ سن کر حضرت عمر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور عرض کیا‘ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ [بخاری: 3983]
2۔ فرمانِ رسولﷺپر عمل:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا، فَقَالَ: «أَلاَ أُخْبِرُكِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْهُ؟ تُسَبِّحِينَ اللَّهَ عِنْدَ مَنَامِكِ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَتَحْمَدِينَ اللَّهَ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَتُكَبِّرِينَ اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ» ثُمَّ قَالَ سُفْيَانُ: إِحْدَاهُنَّ أَرْبَعٌ وَثَلاَثُونَ، فَمَا تَرَكْتُهَا بَعْدُ، قِيلَ: وَلاَ لَيْلَةَ صِفِّينَ؟ قَالَ: وَلاَ لَيْلَةَ صِفِّينَ
ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تھیں اور آپ سے ایک خادم مانگا تھا ، پھر آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہو ۔ سوتے وقت تینتیس ( 33 ) مرتبہ سبحان اللہ ، تینتیس ( 33 ) مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس ( 34 ) مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ ان میں سے ایک کلمہ چونتیس بار کہہ لے ۔ حضرت علی نے کہا کہ پھر میں نے ان کلموں کو کبھی نہیں چھوڑا ۔ ان سے پوچھا گیا جنگ صفین کی راتوں میں بھی نہیں؟ کہا کہ صفین کی راتوں میں بھی نہیں۔ [بخاری: 5362]
3۔ نامِ محمدﷺکا احترام:
سیدنا براء بن عازب فرماتے ہیں؛
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَرْسَلَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ يَسْتَأْذِنُهُمْ لِيَدْخُلَ مَكَّةَ، فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لاَ يُقِيمَ بِهَا إِلَّا ثَلاَثَ لَيَالٍ، وَلاَ يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ، وَلاَ يَدْعُوَ مِنْهُمْ أَحَدًا، قَالَ: فَأَخَذَ يَكْتُبُ الشَّرْطَ بَيْنهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ، وَلكِنِ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: «أَنَا وَاللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَنَا وَاللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ» قَالَ: وَكَانَ لاَ يَكْتُبُ، قَالَ: فَقَالَ لِعَلِيٍّ: «امْحَ رَسُولَ اللَّهِ» فَقَالَ عَلِيٌّ: وَاللَّهِ لاَ أَمْحَاهُ أَبَدًا، قَالَ: «فَأَرِنِيهِ»، قَالَ: فَأَرَاهُ إِيَّاهُ فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ
نبی کریم ﷺ نے جب عمرہ کرنا چاہا تو آپ نے مکہ میں داخلہ کے لیے مکہ کے لوگوں سے اجازت لینے کے لیے آدمی بھیجا ۔ انہوں نے اس شرط کے ساتھ ( اجازت دی ) کہ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہ کریں ۔ ہتھیار نیام میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں اور ( مکہ کے ) کسی آدمی کو اپنے ساتھ ( مدینہ ) نہ لے جائیں ( اگر چہ وہ جانا چاہے ) انھوں نے بیان کیا کہ پھر ان شرائط کو علی بن ابی طالب نے لکھنا شروع کیا اور اس طرح ” یہ محمد اللہ کے رسول کے صلح نامہ کی تحریر ہے ۔ ‘ ‘ مکہ والوں نے کہا کہ اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو روکتے ہی نہیں بلکہ آپ پر ایمان لاتے ، اس لیے تمہیں یوں لکھنا چاہئے ، ” یہ محمد بن عبداللہ کی صلح نامہ کی تحریر ہے ‘ ‘ ۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ، اللہ گواہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ گواہ ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں ۔ آنحضرت ﷺ لکھنا نہیں جانتے تھے ۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے علی سے عرض کیا کہ خدا کی قسم ! یہ لفظ تو میں کبھی نہ مٹاوں گا ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر مجھے دکھلاو ، راوی نے بیان کیا کہ علی نے آنحضرت ﷺ کو وہ لفظ دکھایا ۔ اور آپ ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیا ۔ [بخاری: 3184]
4۔ اللہ اور اس کے رسولﷺسے محبت:
غروہ خیبر میں سیدنا علی آ شوب چشم میں مبتلا تھے۔ آپﷺنے فرمایا؛
لأُعْطِیَنَّ هذِهِ الرَّاْ یَةَ غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰهُ عَلَی یَدَیْهِ، یُحِبُّ اللّٰه وَرَسُوْلَهُ، وَیُحِبُّهُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ
"کل جھنڈا اسی شخص کے ہاتھ میں ہوگا جو اللہ کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اسے پسندکرتا ہے۔” ]صحیح مسلم: 6223[
یہ جھنڈا نبیﷺنے سیدنا علی کو عطا فرمایا تھا۔
5۔ شجاعت و بہادری:
❄غروہ خیبر میں سیدنا علی آ شوب چشم میں مبتلا تھے۔ آپﷺنے فرمایا:
لأُعْطِیَنَّ هذِهِ الرَّاْ یَةَ غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰهُ عَلَی یَدَیْهِ، یُحِبُّ اللّٰه وَرَسُوْلَهُ، وَیُحِبُّهُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ
"کل جھنڈا اسی شخص کے ہاتھ میں ہوگا جو اللہ کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اسے پسندکرتا ہے۔”
چنانچہ صحابہ نے اس فکر وتمنا میں رات بڑی بے چینی سے گزاری کہ معلوم نہیں کون اس کا حق دار ہوگا، صبح ہوئی سب آپﷺکے پاس آئے، اور ہر ایک اس سرفرازی کے لیے منتظر رہا، آپﷺنے فرمایا؛ ((ایْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ))’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟‘‘ صحابہ نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، لیکن انھیں بلایا گیا اور وہ آئے، آپﷺنے ان کی دونوں آنکھوں میں لعاب دہن لگادیا اور ان کے لیے دعا فرمائی، جس سے ان کی تکلیف ایسے دُو رہوگئی گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ میں عَلَمْ دیا۔ علی نے دریافت کیا: کیا میں اس وقت تک ان سے قتال کروں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں؟ آپﷺنے فرمایا؛
اُنْفُذْ عَلَی رِسْلِکَ حَتَّی تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَی الإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَایَجِبُ عَلَیْهِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰهِ فِیْهِ، فَوَ اللّٰهِ لِأَنْ یَهْدِيَ اللّٰهُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ لَکَ حُمُرُ النَّعَمِ
’’تم اپنی مہم پر اطمینان سے گامزن ہوجاؤ، اور ان سے مقابلہ میں اتر کر انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے واللہ اگر تمھارے ہاتھ پر ایک آدمی بھی ہدایت پاجائے تو تمھارے لیے بے شمار سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ ‘‘ ]صحیح مسلم: 6223[
چنانچہ آپ نے قدم آگے بڑھایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر فتح کیا۔ اس غزوہ میں علی نے بہادری کے جوہر دکھائے اور یہودیوں کے سورما مرحب سے ٹکرلی، مرحب جب ان اشعار کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھا:
قَدْعَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّيْ مَرْحَبُ
شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مَجَرَّبُ
إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلْهَبُ
’’خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، ہتھیار پوش، بہادر اور تجربہ کار! جب جنگ وپیکار شعلہ زن ہو‘‘
اس وقت علی جوابًا یہ اشعار پڑھے اور آگے بڑھے۔
أَنَا الَّذِيْ سَمَّتْنِيْ أُمِّيْ حَیْدَرَه
كَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْهِ الْمَنْظَرَه
أَوْ فِیْهِمْ بِالصَّاعِ كَیْلَ السَّنْدَرَهِ
’’میں وہ شخص ہوں کہ میرا نام میرے ماں نے حیدر (شیر) رکھا ہے، جنگل کے شیر کی طرح خوفناک، انھیں صاع کے بدلہ نیزہ کی ناپ پوری کروں گا۔ ‘‘ پھر آپ نے مرحب کے سرپر زبردست وار کیا،اسے قتل کردیا اور آپ کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔ ]صحیح مسلم: 1807[
❄ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَاءَ وَأَنَا أَسْمَعُ قَالَ أَشَهِدَ عَلِيٌّ بَدْرًا قَالَ بَارَزَ وَظَاهَرَ
ترجمہ: ایک شخص نے حضرت براء سے پوچھا اور میں سن رہا تھا کہ کیا حضرت علی بدر کی جنگ میں شریک تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں انہوں نے تو مبارزت کی تھی اور غالب رہے تھے ۔ [بخاری: 3970]
❄ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: تَقَدَّمَ -يَعْنِي: عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ-، وَتَبِعَهُ ابْنُهُ وَأَخُوهُ، فَنَادَى: مَنْ يُبَارِزُ؟ فَانْتَدَبَ لَهُ شَبَابٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: لَا حَاجَةَ لَنَا فِيكُمْ، إِنَّمَا أَرَدْنَا بَنِي عَمِّنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ يَا حَمْزَةُ، قُمْ يَا عَلِيُّ، قُمْ يَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْحَارِثِ فَأَقْبَلَ حَمْزَةُ إِلَى عُتْبَةَ، وَأَقْبَلْتُ إِلَى شَيْبَةَ، وَاخْتُلِفَ بَيْنَ عُبَيْدَةَ وَالْوَلِيدِ ضَرْبَتَانِ، فَأَثْخَنَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ، ثُمَّ مِلْنَا عَلَى الْوَلِيدِ فَقَتَلْنَاهُ، وَاحْتَمَلْنَا عُبَيْدَةَ
ترجمہ: سیدنا علی بیان کرتے ہیں کہ ( جنگ بدر میں ) عتبہ بن ربیعہ سامنے آیا اور اس کے پیچھے اس کا بیٹا اور بھائی بھی آ گئے تو اس نے للکارا : کون ہے جو مقابلے میں آئے ؟ اس پر انصاری جوان سامنے آئے ۔ اس نے پوچھا : تم کون ہو ؟ تو انہوں نے اس کو بتا دیا ( کہ ہم انصاری جوان ہیں ) اس نے کہا : ہمیں تم سے کوئی مطلب نہیں ۔ ہم اپنے چچا زاد چاہتے ہیں ۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” اٹھو ، اے حمزہ ! اٹھو ، اے علی ! اٹھو ، اے عبیدہ بن حارث ! ) چنانچہ حمزہ عتبہ کے مقابل ہوئے اور میں ( علی ) شیبہ کے سامنے آیا ۔ عبیدہ اور ولید کے درمیان دو دو واروں کا مقابلہ ہوا اور ہر ایک کو ایک دوسرے سے چوٹیں لگیں ( اور زخمی ہوئے ) پھر ہم دونوں ولید پر چڑھ دوڑے اور اس کو قتل کر ڈالا اور عبید کو اٹھا لائے۔ [ابوداؤد: 2665 صححہ الالبانی]
6۔ جاہلی رسومات کا خاتمہ:
عَنْ أَبِي الْهَيَّاجِ الْأَسَدِيِّ قَالَ قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ
ترجمہ: ابو الہیاج اسدی سے روایت ہے ، انھوں نے کہا:حضرت علی بن ابی طالب نے مجھ سے کہا:کیا میں تمھیں اس(مہم) پر روانہ نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے روانہ کیا تھا؟(وہ یہ ہے) کہ تم کسی تصویر یا مجسمے کو نہ چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا اور کسی بلند قبر کو نہ چھوڑنا مگر اسے(زمین کے) برابر کردینا۔ [مسلم: 2243]