تحفظ خواتین بل

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً ۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝﴾(البقره:208)
گذشتہ چند خطبات میں اذیت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ کسی بھی مخلوق کو بالخصوص انسان کو، اور انسانوں میں سے بالخصوص مسلمان کو کسی قسم کی اذیت اور تکلیف پہنچانا ہرگز جائز نہیں ہے، اس موضوع پر مزید گفتگو ہو سکتی ہے اور ضرورت بھی ہے، بلکہ بار بار یاد دہانی کی ضرورت ہے، مگر اس پرفتن دور میں چونکہ ہر روز نت نئے مسائل ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ جن میں ہر خاص و عام کو رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے، انھیں بھی ڈسکس کرنا ضروری ٹھہرتا ہے۔
یہ فتنوں کا دور ہے اور فتنوں کے دور کا آغاز تو بہت پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے ہی ہو گیا تھا ، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مجلس میں موجود بعض صحابہ کرام سے دریافت کیا:
((أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْفِتْنَةِ ؟))
’’تم میں سے فتنے کے بارے میں آپ ﷺکی حدیث کسی کو یاد ہے؟‘‘
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: (انا احفظه) مجھے یاد ہے پھر انھوں نے چند چھوٹے چھوٹے فتنوں اور آزمائشوں کا ذکر کیا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے:
لَيْسَ هَذِهِ أَرِيدُ، وَلَكِنى أَرِيدُ الَّتِي تَمُوْجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ))
’’میں ان فتنوں کی بات نہیں کر رہا، بلکہ میرا مقصد ان فتنوں کے بارے میں جانتا ہے جو سمند کی لہروں اور موجوں کی طرح پھیل جائیں گے۔‘‘
تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
((لَيْسَ عَلَيْكَ بِهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بَأْسٌ))
’’اے امیر المؤمنین! آپ کو ان فتنوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
((بينك وبينها باب مغلق))
’’کہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک بند دروازہ ہے ۔‘‘
((قَالَ: فَيُكْسَرُ الْبَابُ أَوْ يُفْتَحُ))
’’تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا ؟‘‘
((قَالَ: قُلْتُ: لَا بَلْ يُكْسَرُ))
’’تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا: وہ دروازو کھولا نہیں جائے گا بلکہ توڑا جائے گا۔‘‘
((قَالَ: فَإِنَّهُ إِذَا كُسِرَ لَمْ يُغْلَقُ أَبَداً))
’’تو حضرت عمر رضی اللہ ت عالی عنہ نے فرمایا: اگر وہ توڑا گیا تو پھر کبھی بند نہ ہوگا۔‘‘
((قَالَ: قُلْتُ: أَجَل ))
’’تو حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا ہاں ایسے ہی ہے۔‘‘
((فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ مَنِ الْبَابُ))
’’مجلس میں موجود لوگوں نے کہا کہ ہم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ پوچھنے میں جھجک محسوس کی کہ وہ دروازہ کون شخص ہے۔‘‘
((فَقُلْنَا لِمَسْرُوقِ ، سَلْهَ))
’’چنانچہ ہم نے حضرت مسروق سے کہا کہ آپ پوچھئے۔‘‘
((قَالَ: فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: عُمَرُ))
’’ان کے پوچھنے پر حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ وہ دروازہ حضرت عمر ہیں۔‘‘
((قَالَ: قُلْنَا: فَعَلِمَ عُمَرُ مِنْ تَعْنِي؟))
’’کیا ہم نے پھر پوچھا کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہے کہ آپ کس کی بات کر رہے ہیں، یعنی دروازے سے مراد کون شخص ہے ؟‘‘
قَالَ: ((نعم ))
’’فرمایا: ہاں۔‘‘
((كَمَا أَنَّ دُونَ غَدٍ لَيْلَةً)) (صحيح البخاري ، كتاب الزكاة1435)
’’ انھیں یہ بات اتنی اچھی طرح اور اس یقین کے ساتھ معلوم ہے جیسے یہ بات واضح ہے کہ کل آنے والے دن سے پہلے ایک رات ہے۔‘‘
تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے وہ دروازو ٹوٹ گیا اور فتنوں کا آغاز ہو گیا جو کہ آج تک جاری ہیں اور جاری رہیں گے اور نہ صرف یہ کہ جاری رہیں گے بلکہ ان میں دن بدن شدت آتی چلی جائے گی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ تو فتنوں کا آغاز ہونے کے بعد فتنے روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بڑھتے چلے جائیں گے حتی کہ اس کثرت سے ہوں گے جیسے بارش کے قطرے ہوں اور ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے شدید تر اور بدتر ہوتا چلا جائے گا جیسا کہ حدیث میں ہے:
((عن الزبير بن عَدِي قَالَ: أَتَيْنَا أَنسَ بْنَ مَالِكِ ، فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا تَلْقَى مِنَ الْحَجَّاجِ ، فَقَالَ: اصْبِرُوا فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ حَتَّى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ، سَمِعْتُهُ من نبيكم )) (صحيح البخاری ، کتاب الفتن:7068)
’’ زبیر بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور حجاج کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں اور اذیتوں کی شکایت کی ، تو انھوں نے فرمایا: صبر کرو کہ تم پر ایک دور ایسا بھی آنے والا ہے کہ ہر آنے والا دن گزرے ہوئے سے بدتر ہو گا حتی کہ تم اپنے رب سے جاملو، یہ بات میں نے تمھارے نبیﷺ سے سنی ہے ۔‘‘
لہٰذا فتنوں کے دور میں نئے پیش آنے والے مسائل کو فتنوں کے دور اور علامات قرب قیامت کی روشنی میں دیکھنا ہوگا، کہ وہ مسائل عام حالات کے نہیں بلکہ خاص حالات میں پیدا ہوتے ہیں، لہذا ان کا حل تلاش کرتے ہوئے بھی خصوصی حالات کو ہی مد نظر رکھنا ہوگا۔
تو آج کل کے نئے پیش آنے والے بہت سے مسائل میں سے ایک مسئلہ گذشتہ دنوں پاکستان کی پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والا ’’ تحفظ خواتین بل‘‘ ہے۔ تحفظ خواتین بل ، ایک متنازعہ بل ہے، اس کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے، یوں تو ہر بل کی حمایت اور مخالف ہوتی رہی ہے، مگر چونکہ یہاں معاملہ شریعت کے موافق یا اس سے متصادم ہونے کے حوالے سے ہے اور یہ کہ یہ بل معاشرے پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرنے والا ہے اور یہ کہ لوگوں کی غالب اکثریت اس بل کے حوالے سے Confused اور الجھن کا شکار ہے، حتی کہ اس کی حمایت اور منا تی کہ اس کی حمایت اور مخالفت کرنے والے بھی محض ایک جذباتی موقف رکھتے ہیں، حقائق اور دلائل سے لاعلم اور نا واقف ہیں ۔ بل کیا ہے، اس کے لانے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اور اس کے پس پردہ حقائق اور عوامل کیا ہیں ، جاننے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ بل کے نام سے ظاہر ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے لایا گیا ہے، تفصیل معلوم نہیں ، لیکن اس کی ایک دو دفعات جو وجہ نزاع بنی ہوئی ہیں، وہ یہ ہیں کہ: پروڈکشن آرڈر کی دفعہ کے تحت خواتین، ہراساں کرنے والوں، یا جسمانی تشدد کرنے والوں کے خلاف عدالت سے پرو ٹیکشن آرڈر لے سکیں گی جس کے مطابق عدالت ان افراد کو جن سے خواتین کو تشدد کا خطرہ ہو، پابند کرے گی کہ وہ خاتون سے ایک فاصلے پر رہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ عدالت کے پروٹیکشن آرڈر کی خلاف ورزی نہیں ہورہی تشدد کرنے والے شخص کو GPS ٹریکنگ بریسلٹ پہنائے جائیں گے، یعنی ان کے ہاتھ یا پاؤں میں کڑا پہنایا جائے گا، جس کے ذریعے اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی اور قانون کی دوسری دفعہ یہ ہے کہ خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا۔
یہ بل رکن عقلی نقلی اور شرعی دلائل کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے، معلوم نہیں ہو سکا، اس بل کی حمایت میں لکھے جانے والے متعدد مضامین بغور پڑھے مگر دلائل کا مکمل طور پر فقدان نظر آیا۔
البتہ ایک چیز بکثرت پورے زور و شور اور غیظ و غضب کے ساتھ تمام مضامین میں نظر آئی اور وہ تھی تلخ و ترش جذباتی جملوں اور توہین آمیز الفاظ کی بھرمار اور طعن و تشنیع کے تیر و نشتر۔
بطور مثال چند جملے ذکر کرتا ہوں:
’’ایک اور بات جس کو لے کر دہائیوں سے مذہبی چورن فروش عوام کو اپنا چورن بیچتے ہی آرہے ہیں۔‘‘
اور ایک جگہ یوں لکھا تھا:
’’اس لیے مذہب اور روایات کی ہدایات کی آڑ میں چورن اور منجن بیچنے والے ٹولے کو کم سے کم اب ہدایت اور روایات کے منجن کے بجائے کسی اور چورن کا انتخاب کر ہی لینا چاہیے، کہ اب ان کا منجن اور چورن یہاں بکنا ممکن نہیں ہے۔‘‘
اور ایک جگہ یہ عبارت تھی:
’’یہ مخالفت اور اس حقوق نسواں کے بل کو لے کر جو احمقانہ قسم کے دلائل مذہبی ٹھیکیدار دیتے ہیں ان کو دیکھ اور سن کر تعجب ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ کیوں معاشرے کو دنیا سے صدیوں پیچھے رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
ان کے علاوہ ٹاک شوز میں جو نہایت ہی سطحی گفتگو کی گئی وہ الگ ہے۔
اس بل کی عقلی، نقلی اور شرعی لحاظ سے کیا حیثیت ہے، اس کی تفصیل میں جائے بغیر سرسری اور اجمالی طور پر اتنا کہوں گا کہ کہ یہ بل اسلامی اخلاق و آداب، حفظ مراتب اور اسلامی روح کے منافی ہے، علماء کرام اس کے خوب دلائل رکھتے ہوں گے اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ایک طالب علم کی حیثیت سے شاید میں بھی کچھ عرض کر سکوں گا۔
اس وقت میں اس بل کے متعلق گفتگو ایک دوسرے پہلو سے کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ اس بل کا پاس ہونا کوئی عام اور سادہ سی بات نہیں ، اور نہ ہی یہ کوئی راتوں رات بن گیا ہے، بلکہ اس کے لیے دہائیوں سے راہ ہموار کی گئی، ذہن سازی کی گئی اور کھلے عام پراپیگنڈہ کیا
گیا، تب کہیں جا کے یہ بل پاس ہوا۔
بل پاس کرنے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں کے طرز نظم اور انداز تخاطب سے خوب واضح ہوتا ہے کہ معاملہ محض عورتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کا نہیں بلکہ یہ دین سے تنفر اور بے زاری کا اظہار ہے۔ آپ نے دیکھا کہ علماء کرام کے خلاف اور دین دار طبقے کے خلاف کسی طرح نازیبا الفاظ استعمال کر کے اپنا غصہ نکالا گیا ہے حالانکہ کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ کسی عالم نے کبھی عورت کو حقیر اور کم تر کہا ہو، کسی مفتی نے کبھی عورت پر تشدد کے جواز کا فتوی دیا ہوا وہ لوگ جو عورتوں پر ظلم کرتے ہیں کیا وہ اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں؟ جو لوگ خواتین پر علم اور تشدد کرتے ہیں، وہ یا تو دین سے دور ہوتے ہیں، یا نفسیاتی مریض ہوتے ہیں، یا کسی قبائلی نظام کے تابع ہوتے ہیں جس میں عورت کو حقیر اور جوٹی کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اور ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے تشدد کو اسلام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ عورت پر تشدد دین سے دوری اور لاعلمی کی وجہ سے ہوتا ہے مگر حقوق نسواں کے نام نہاد علمبردار اسے اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلام کے خلاف گہری سازش اور خطر ناک منصوبے کا حصہ ہے۔
حقوق نسواں، آزادی نسواں، تحفظ خواتین ، آزادی رائے، جمہوریت ، روشن خیالی، یہ سارے محض پرکشش اور خوبصورت الفاظ میں جنھیں سن کر ایک عام آدمی خوش ہو جاتا ہے، ان کا معنی و مفہوم اور ان کی تفصیل جانے بغیر کہ ان نظریات کی زد کہاں جا کر پڑتی ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں لادینیت پھیلانے کا منصوبہ ہے، مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی محبت اس کی حمیت، اس کا شوق اور اس کا جذبہ نکال پھینکنے کا منصوبہ ہے، اس کو لبرل ازم اور سیکولرازم کی اصطلاحات میں لپیٹ کر اصحاب اقتدار اور سیکولر تعلیم یافتہ طبقے اور میڈیا کے حوالے کیا جاتا اور پھر وہاں سے عوام کے دل و دماغ اور ان کے طرز معاشرت میں اتار دیا جاتا ہے۔
یہ ایک بہت طویل موضوع ہے کہ عالم اسلام میں لادینیت پھیلانے کے لیے کیا کیا منصوبے اور کیا کیا سازشیں کی جارہی ہیں اور ان کے آلہ کارکون لوگ ہیں اور ان سازشوں سے بچنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔
یہ ساری باتیں یقینًا کسی ایک نشست میں بیان نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے آج کی گفتگو میں صرف ایک سرسری آگاہی دینے کی کوشش کریں گے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں لادینیت پھیلانے کا منصوبہ ہے۔ پاکستان سے باہر اس کی ایک جھلک بنگلا دیش میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
انگلینڈ کے اخبار ڈیلی میل کی خبر کے مطابق آج کل بنگلا دیش میں اسلام کو بنگلا دیش کے آئین سے نکالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ اسلام بنگلا دیش کا سرکاری مذہب نہیں ہونا چاہیے بلکہ سیکولر ازم ہونا چاہیے اور ۲۷ مارچ کو کورٹ میں اس کی Hearing Scheduled ہوئی ہے۔
بنگلا دیش1971ء میں جب پاکستان سے الگ ہوا تو اس کا سرکاری مذہب سیکولر ازم ہی قرار پایا تھا پھر1988ء میں Amendment کر کے اسلام کو بنگلا دیش کا سرکاری مذہب بنا دیا گیا، جنرل حسین ارشاد کی حکومت میں ۔
پھر2011ء میں حسینہ واجد نے Constitution میں Amendment کرکے Secularism Restore کر دیا، مگر ساتھ ہی اسلام بھی سرکاری مذہب رہنے دیا۔ اور آج کل پھر کوششیں کی جارہی ہیں کہ اسلام کو بنگلا دیش کے آئین سے نکال دیا جائے۔
تعجب ہے! ایک ایسے ملک کا سرکاری مذہب اسلام نہیں ہو سکتا جس کی90 فیصد آبادی مسلمان ہو۔ پس پردہ وہ کیا چیز ہے، وہ کون سی طاقتیں ہیں جو کسی مسلمان کو یہاں تک برانگیختہ کردیں کہ وہ اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کر دے اور اپنے ملک کا سرکاری مذہب اسلام ان م ماننے سے انکار کر دے اور اسے اپنے ملک کے آئین سے نکالنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے!
اسی طرح تاجکستان کو دیکھ لیجئے جس کی98 فیصد آبادی مسلمان ہے، وہاں13 ہزار لوگوں کی ڈاڑھیاں زبردستی منڈوا دی گئیں اور عورتوں کو حجاب سے اور عربی نام رکھنے سے منع کر دیا گیا۔
تعجب ہے! کیا ان کے ڈاڑھی نہ رکھنے سے، حجاب نہ پہننے سے اور اسلام کو اپنا سرکاری مذہب نہ ماننے سے اسلام معاذ اللہ ختم ہو جائے گا؟
اسلام تو غالب ہونے کے لیے آیا ہے اور ہر حال میں غالب ہو کر رہے گا یہ قرآن کا دعوی ہے اور چبلنج ہے۔
یہ تو ہماری سعادت اور خوش بختی ہے کہ ہماری نسبت اسلام کے ساتھ ہو جائے اور اسلام کی سربلندی کے لیے اللہ تعالی کے منصوبے میں استعمال ہو جا ئیں ورنہ کیا اللہ تعالی کو ہمارے جیسوں کی ضرورت ہے! کیا اسلام کا غالب آنا ہم پر منحصر اور موقوف ہے۔
اللہ تعالی اعمال کی تعداد اور حجم اور کوائنٹی کو نہیں دیکھتے بلکہ مخلصانہ کوششوں کو دیکھتے ہیں چاہے کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہوں۔
ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں پھینکے جانے کا قصہ تو آپ کو معلوم ہی ہے، اس قصے کے حوالے سے حدیث میں ہے کہ:
((أَنَّ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ حِينَ أُلْقِيَ فِي النَّارِ لَمْ تَكُنْ فِي الْأَرْضِ دَابَّةٌ إِلَّا أَطْفَاتِ النَّارَ عَنْهُ غَيْرَ الْوَزَعَ كَانَتْ تَنْفُخُ عَلَيْهِ، فَأَمَرَنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بِقَتْلِهِ)) (ابن ماجة ، كتاب الصيد:3231)
جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو اس وقت روئے زمین کا ہر جانور آگ بجھانے کی کوشش کرنے لگا، سوائے چھپکلی کے کہ وہ آگ کو مزید بھڑ کانے کے لیے اس میں پھونکیں مار رہی تھی ، پس آپ سے ہم نے ہمیں اس کے قتل ایسے ہی ایک اور حدیث میں ہے کہ: ((كَانَتِ الضَّفْدَعُ تُطْفِئُ النَّارَ عَنْ إِبْرَهِيمَ ، وَكَانَ الْوَزَعُ يَنْفَخُ فيه ، فَنَهَى عَنْ قَتْلِ هَذَا ، وَأَمَرَ بِقَتْلِ هَذَا)) (مصنف عبد الرزاق:8392)
’’ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں پھینکا گیا تو مینڈک آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا اور چھپکلی آگ کو بھڑ کانے کے لیے اس میں پھونکیں مارتی، پس آپ لینے کے اہم نے مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا اور چھپکلی کو قتل کرنے کا حکم دیا۔‘‘
اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ مینڈک کی کوششوں سے آگ نہیں بجھ سکتی تھی اور نہ چھپکلی کی کوششوں سے بھڑک سکتی تھی۔ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اُن کا کردار کھل کر سامنے آ گیا، ایک کا نام خوش بختوں میں شامل ہو گیا اور دوسرے کا نام بدبختوں میں شامل ہو گیا۔ ایک کا نام دین کے لیے استعمال ہونے والوں کی فہرست میں آگیا اور دوسرے کا نام دین کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کی فہرست میں آگیا۔ اپنی اپنی قسمت پر خوش ہو جاؤ یا آنسو بہاؤ ، جیسا کہ حدیث میں ہے، لمبی حدیث ہے، جس کے آخر میں ہے، آپ سے تم نے فرمایا:
((يَا عِبَادِي إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ ثُمَّ أَوْ فِّيَكُمْ إِيَّاهَا))
’’اے میرے بندو! یہ تو تمھارے ہی اعمال ہیں جنھیں میں تمھارے لیے شمار کرتا ہوں پھر تمھیں ان کا پورا بدلہ دوں گا ۔‘‘
((فَمَن وَّجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمِدِ الله عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ))
(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلة:2577)
’’پس جو شخص خیر کا معاملہ پائے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے ، اور جو کوئی اس کے برعکس معاملہ پائے تو وہ بس اپنے آپ کو ہی ملامت کرے ۔‘‘
آج اس دور میں امت مسلمہ کی پستی کا عالم ملاحظہ کیجیے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اسلام کی صورت میں اک نعمت عظمی سے نوازا ہے مگر ہمیں اپنی اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے شرم آتی ہے، اس سے منہ موڑتے ہیں، مگر سن لیں! اللہ تعالی ایسے قدر ناشناسوں سے قطعی طور پر بے نیاز ہیں، فرمایا:
﴿وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ۠۝۳۸﴾ (محمد:38)
’’یاد رکھو! اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تعالی تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا۔اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے ۔‘‘
اور ایک جگہ فرمایا:
﴿اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّهَا النَّاسُ وَ یَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰی ذٰلِكَ قَدِیْرًا۝۱۳۳﴾ (النساء:133)
’’اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو ہٹا کر، یعنی ہلاک کر کے تمھاری جگہ دوسروں کو لے آئے اور وہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے۔‘‘
اللہ تعالی نے ہمیں ایک بہت بڑا اعزاز بخشا تھا یہ فرما کر کہ:
﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (آل عمران:110)
’’تم کا ئنات کی بہترین امت ہو جسے لوگوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘
مگر افسوس ہم نے اس کی قدر نہ جانی!
ایک اور مقام پر اہل ایمان کو تنبیہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ ؗ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۵۴﴾ (المائدة:54)
’’اے ایمان والو! اگر تم میں کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو پھر جائے، اللہ تعالی اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدو جہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی علامت سے نہ ڈریں گے ۔‘‘
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے دین کی طرف لوٹ آئیں ، اور اس پر ثابت قدم ہو جا ئیں ، اللہ تعالی ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین!
…………..