طہارت کے مسائل

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا اسْتَيْقَظَ أحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَن يُدْخِلُهَا فِيُوضُونِهِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَانَتْ يَدُهُ (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الوضوء، باب الأستجمار وتراًن و صحيح مسلم: كتاب الطهارة، باب كراهة غمس المتوضى وغيره يده المشكوك في نجاستها.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اپنے ہاتھ کو پانی کے برتن میں ڈالنے سے پہلے دھوئے۔ کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں کہ رات بھر ہاتھ کہاں کہاں گردش کرتا رہا۔ ( اور کس چیز کو چھوتا اور مس کرتا رہا۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَا يَيُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ (متفق عليه)
(صحیح بخاري: كتاب الوضوء، باب البول في الماء الدائم، صحيح مسلم: كتاب الطهارة، باب النهي عن البول في الماء الراكد.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے اور پھر اس کے اندر نسل کرے۔
وعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ فِي الْمَنِيِّ: كُنتُ أَفْرُكْهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَرْكًا فَيُصَلَّى فِيهِ. (اخرجه مسلم)
(صحیح مسلم کتاب الطهارة، باب حكم المني.)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ منی کے بارے میں کہتی ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے کپڑے سے منی کو کھرچ ڈالتی تھی پھر آپ اس کپڑے کو پہن کر نماز پڑھتے تھے۔
وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَخبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ اللَّهُ كَانَ يَغْتَسِلُ بِفَضْلٍ مَيْمُونَةً. (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: كتاب الحيض، باب القدر المستحب من الماء في غسل الجنابة وغسل الرجل)
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ میمونہ رضی اللہ عنہا کے غسل کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرتے تھے۔
وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَدِمَ أُنَاسٌ مَنْ عُكُل أَوْ عُرَيْنَةَ فَاجْتَوُوا المَدِينَةَ فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ بِلِقَاحٍ وَأَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا والبَانِها. (أخرجه البخاري)
(صحیح بخاری: کتاب الوضوء، باب أبوال الإبل والدواب والغنم و مرابضها)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے قبیلہ عکل یا عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ۔ انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی (اور بیمار ہو گئے) تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو چند اونٹنیاں عطا فرمائیں اور حکم دیا کہ وہ ان کا پیشاب اور دودھ ہیں۔
تشریح:
شریعت اسلامیہ نے انسان کی آسانی کے لئے بہت ساری چیزوں کو مباح قرار دیا ہے جیسا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپﷺ کے کپڑے میں منی لگ جاتی تو میں اسے کھرچ ڈالتی اور پھر آپ ﷺ اس کپڑے میں نماز ادا فرماتے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی منی پاک ہے لیکن بہت سے افراد یہ سوچتے ہیں کہ وہ بذات خود ناپاک ہے اور اس کا دھلنا ضروری ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ ﷺ منی کھر چنے کے بعد بغیر دھلے ہوئے اس کپڑے میں نماز نہیں پڑھتے۔ اسی طرح عورت کے بچے ہوئے پانی سے مرد کا غسل کرنا اور وضو کرنا جائز اور مباح ہے۔ نیز کھانے والے جانوروں کا پیشاب و پاخانہ پاک ہے اگر کپڑے وغیرہ میں ان جانوروں کے پیشاب وغیرہ لگ جائیں تو بغیر دھلے ہوئے اس کپڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ ان احادیث میں پانی سے متعلق بعض احکام کا بیان ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی سو کر اٹھے تو اپنے ہاتھوں کو پہلے تین بار دھوئے پھر پانی میں اپنے ہاتھوں کو ڈالے کیونکہ انسان نہیں جانتا ہے کہ اس کا ہاتھ سونے کی حالت میں جسم کے کس کس حصہ پہ جاتا ہے، اسی طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں ان آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
فوائد:
٭ نیند سے بیداری کے بعد تین بار ہاتھ دھونے سے قبل پانی میں ہاتھ ڈالنا منع ہے۔
٭ ٹھہرے ہوئے پانی میں جنابت کا فسل کرنا اور پیشاب کرتا دونوں منع ہے۔
انسان کی منی پاک ہے اگر کپڑے میں لگ جائے تو اسے دھلنا ضروری نہیں ہے۔
٭ عورت کے بچے ہوئے پانی سے مرد کا غسل کرنا جائز ہے۔
٭ جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا پیشاب و پاخانہ اور تھوک پاک ہے۔
٭٭٭٭