طہارت و پاکیزگی

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ﴾ [البقرة: 222)
دین اسلام کے امتیازات و خصوصیات میں ایک امتیاز اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو عقیده و عمل اخلاق و کردار، لباس و بدن، خوردونوش، ضروریات و خواہشات اور تمام امور زندگی میں طہارت و پاکیزگی اور نظافت و صفائی کی تعلیم دیتا ہے اسلام کے علاوہ تمام مذاہب و ادیان (یہودیت انصرانیت، مجوسیت اور ہندومت وغیرہ) میں تمام امور زندگی بلا مبالغہ جانوروں اور درندوں کی طرح غلاظت و نجاست اور پلیدی و گندگی پر مشتمل ہیں اس لیے اللہ رب العزت نے سورہ محمد (ﷺ] میں کافر قوموں کے طرز حیات پر انتہائی جامع تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَتَمَتَّعُوْنَ وَ یَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَ النَّارُ مَثْوًی لَّهُمْ﴾ [محمد: 12]
’’کافر لوگ اس طرح فائدہ اٹھاتے اور کھاتے (پیتے) ہیں جس طرح جانور (فائدہ اٹھاتے اور) کھاتے پیتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
اسی طرح رب کائنات نے سورہ فرقان میں اہل کفر کے طرز حیات اور طریقہ و زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا﴾ [الفرقان: 44]
’’ان لوگوں کی زندگی جانوروں کی طرح ہے بلکہ جانوروں سے بدتر اور بری ہے۔‘‘
(واقعۃ بعض گندے کاموں میں کافرقومیں جانوروں اور درندوں سے بھی آگے ہیں)
اقبال نے سچ کہا تھا:
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا تہذیبی نظام
چہره روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کافرقوموں کے تمام امور میں گندا ہونا دور قدیم اور دور جدید میں یکساں اور برابر ہیں ہاں موجودہ دور میں ان کی ظاہری چمک دمک کچھ ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ جانوروں جیسی گندی زندگی گزارنے والے ہیں، شراب و کباب کے رسیا، ہم جنس پرستی کے مارے ہوئے، کتنا، بلی، چوہا، خنزیز، مردار اور حشرات الارض جیسی گندی چیزیں کھانے والے اور طہارت و پاکیزگی کے سنہرے اسلامی اصولوں سے ناآشنا اور تہی دست ہیں۔
اور یہ وہ حقائق ہیں کہ یورپ و برطانیہ اور امریکہ و جاپان میں رہنے والا ہر مسلمان ان حقائق سے واقف اور آشنا ہے۔ جبکہ اسلام نے انسان کو انتہائی پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گزارنے کی تعلیم دی ہے اور طہارت و نظافت کے سلسلے میں افراط و تفریط سے پاک انتہائی معتدل احکامات صادر فرمائے ہیں اور پاک صاف رہنے والوں کی بڑی زبردست مدح و ستائش کی ہے۔ رب ارض و سماء نے سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا:
﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ﴾ (البقرة: 222)
’’یقینا اللہ خوب تو یہ کرنے والوں اور خوب پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
سورۃ التوبہ میں اہل قبا کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ﴾ [التوبة: 108]
’’اس (مسجد قباء) میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو پاک صاف رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ صاف رہنے والوں سے مجبت کرتا ہے۔‘‘
سورۃ المائدہ میں احکام وضوء و غسل بیان کرنے کے بعد فرمایا:
﴿ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ [المائدہ:6]
’’اللہ تعالی (احکام طہارت کے ذریعے) تمہیں تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ بلکہ تمہیں پاک و صاف کرنا چاہتا ہے، اور تمہارے اوپر اپنی نعمت پوری کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔‘‘
معلوم ہوا طہارت و پاکیزگی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اورطہارت وپاکیزگی اس قدر اہم ہے کہ خالق کائنات نے رسول الہل ﷺ پر اترنے والی دوسری وحی (سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات) میں حکم دیا:
﴿ وَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْ۪ۙ۝۴
وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ﴾ [المدثر:4تا 5]
’’اور اپنے کپڑے پاک صاف رکھیں اور ہر طرح کی گندگی سے بچ کر رہیں۔‘‘
امام الانبیاء جناب محمد ﷺ نے بھی اپنے ارشادات عالیہ میں طہارت وپاکیزگی کی بڑی اہمیت بیان فرمائی۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الطھور شطر الایمان)[صحیح مسلم: کتاب الطھارۃ، باب فضل الوضوء(223)]
’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔‘‘
اور مسلم شریف کی ہی دوسری حدیث میں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(عشر من الفطرۃ)
’’دس کام فطرت سے ہیں۔‘‘
لب (کے بالوں کو) تراشنا، داڑھی کو بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی داخل کرنا، ناخنوں کو تراشنا، (جس میں میل کچیل کے جمع ہونے کی) جگہوں کو دھونا، بغل کے بالوں کو اکھیڑنا، زیر ناف بالوں کو مونڈنا اور پانی کے ساتھ طہارت کرنا۔ (اس حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ) میں دسویں کام کو بھول رہا ہوں۔ شاید وہ منہ میں پانی ڈالنا ہے۔[سنن أبي داود، كتاب الطهارة، باب السواك من الفطرة (53) و صحيح أبي داود (43)]
اور بخاری و مسلم کی ایک روایت میں پانچ چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الْفِطْرَةٌ خَمْسٌ)
’’پانچ کام فطرت سے ہیں۔‘‘
1۔ الْخِتَانُ.
’’ختنہ کرانا۔
2۔ وَالْإِسْتِحْدَادُ
زیر ناف بال مونڈنا۔
3۔ وَقَصُّ الشَّارِبِ.
مونچھیں تراشنا۔
4۔ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ.
ناخن کا شنا۔
5۔ وَنَتْفُ الإِبِطِ.
اور بغل کے بال اکھیڑنا[صحيح البخاري، كتاب اللباس، باب تقليم الأظفار (5891) ومسلم (257)]
اور موطاء امام مالک میں ہے، حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا جس کے سر اور داڑھی کے
بال پراگندہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کیا گویا آپ میں سے بالوں اور داڑھی کی اصلاح کا حکم دے رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے بال اور داڑھی ٹھیک کی اور پھر آپ کی خدمت میں واپس آیا اس کو دیکھ کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کیا یہ حالت اس حالت سے بہتر نہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اس طرح آئے کہ اس کے سر کے بال پراگندہ ہوں، گویا وہ شیطان ہے۔[مؤطا امام مالك، كتاب الشعر باب إصلاح الشعر، رقم: 1770]
طہارت و پاکیزگی کی اس اہمیت کے پیش نظر دین اسلام میں طہارت و نظافت کے یومیہ ہفتہ وار ماہانہ اور سالانہ احکام دیئے گئے ہیں۔ اور بہت سارے احکام بعض عارضی اسباب کے تحت نافذ کیے گئے ہیں۔
یومیہ احکام:
ہر نماز کے لیے وضو کی فرضیت اور مسواک کی ترغیب اور نماز سے قبل بد بودار چیز کچا لہسن پیاز وغیرہ) کھانے کی ممانعت اور نیند سے بیدار ہو کر ہاتھ دھوئے بغیر برتن میں ڈالنے سے ممانعت وغیرہ یہ طہارت و پاکیزگی کے یومیہ احکام ہیں۔
ہفتہ وار احکام:
جمعہ کے دن غسل، خوشبو اور اچھے لباس کا حکم یہ ہفتہ وار احکام میں سے ہیں۔
ماہانہ احکام
بغلوں کی صفائی، زیر ناف بالوں کو مونڈھنا، ناخن تراشنا، ماہانہ احکام طہارت میں سے ہیں۔
سالانه احکام:
عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر غسل، خوشبو اور نیا لباس یہ سالانہ احکام میں سے ہے۔
مختلف اسباب کے تحت احکام:
بول و براز کے بعد اچھی طرح استنجا کرنا غسل جنابت کرنا غسل حیض و نفاس کرنا۔ میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا اور میت کو اٹھانے کے بعد وضوء کرنا۔ یہ مختلف اسباب کے تحت طہارت و پاکیزگی کے احکام ہیں۔
ان احکام سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کو کس قدر پاکیزگی و طہارت پسند ہے کہ اس نے مختلف موقعوں پر مختلف وجہوں سے طہارت و نظافت کے احکام جاری کیے ہیں۔ اس کے برعکس گندگی نجاست پلیدی اور بدبو وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کو شدید نفرت ہے۔ اس لیے اس نے ہر طرح کی گندگیوں سے بچنے کی تلقین کی ہے اور گندا رہنے والوں کی سخت مذمت کی ہے اور انہیں شدید وعید سنائی ہے اور انہیں چوپایوں اور جانوروں سے تشبیہ دی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی ان لوگوں کی سخت خبر لی ہے جو بول و براز اور دیگر گندگیوں سے بچاؤ نہیں کرتے۔
اور متفق علیہ حدیث ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے۔ لیکن کسی بڑے کام میں ان کو عذاب نہیں ہو رہا بلکہ ان میں سے ایک شخص پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھا۔ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ پیشاب کے چھینٹوں سے (خود کو) دور نہیں رکھتا تھا۔[صحيح البخاری (216) و صحیح مسلم، كتاب الطهارة، باب الدليل على نجاسة البول و وجوب الاستبراء منه (292) و ابوداود (25) والترمذی (70)]
لمحہ فکریہ:
آج یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ بعض مدعیان اسلام نے ایسے لوگوں کو اللہ کا ولی دوست اور مقرب ٹھہرا دیا ہے۔ جو اسلامی طہارت کی باؤ تاؤ سے بھی ناواقف ہیں۔ جو جانوروں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ جو وضوء و غسل سے بالکل ماوراء ہیں۔ جن کے بدنوں پر دو دو سوتر میل کی تہہ جمی ہوتی ہے۔ اور مکھیاں چھائی ہوئی ہوتی ہیں اور کوئی صاف ستھرا انسان انہیں اپنے محل، بنگلے اور مکان میں ٹھہرانے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ ساری زندگی سڑکوں کے کنارے گندگی و غلاظت میں گزار دیتے ہیں اور جب وہ مر جاتے ہیں تو ان کی قبر پہ قبہ و مزار بنا کر انہیں ولی کامل کا نام دے دیا جاتا ہے۔
یاد رکھیے! ایسے گندے لوگ اللہ کے دوست اور ولی قطعاً نہیں ہو سکتے ایسے لوگوں کو اللہ کا ولی کہنا اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ اللہ تعالی ہمیں پاک صاف رہنے اور ہر طرح کی گندگی و نجاست سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔