تجدید ایمان کیوں ضروری ہے؟

﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ۝۱﴾ (الحديد: (16)
’’کیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے نازل کردہ حق سے نرم ہو جائیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جو اس سے پہلے کتاب دیے گئے پھر ان پر لمبی مدت گزری تو ان کے دل سخت ہو گئے اور بہت سے ان میں سے نا فرمان ہیں۔‘‘
گذشتہ جمعے کمزور ایمان کی علامات کا ذکر ہو رہا تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی صحت و سلامتی اور ضعیف و کمزوری کے بارے میں جاننا انسان کے لیے نہایت ضروری ہے، اس لیے کہ ایمان کی صحت و سلامتی پر ہی انحصار ہے انسان کی دنیوی و اخروی کامیابی کا اور اس کا
ضروف اور ناتوانی سبب ہے انسان کی دنیوی و اخروی ناکامی کا۔
ایمانی حالت کے بارے میں فکر مند ہونا اور خبردار رہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایمان کا مقام و مسکن دل ہے اور دل کو کسی لمحے چین اور قرار نہیں ہے، ہر وقت تڑپتا اور دھڑ کتا رہتا ہے اور جیسے دل ہر وقت دھڑکتا ہے ایسے ہی اس میں موجود ایمان بھی ہمہ وقت متقلب اور الٹ پلٹ ہوتا رہتا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا: ((لَقَلْبُ ابْنِ آدَمَ أَسْرَعُ تَقَلُّبَا مِنَ الْقِدْرِ إِذَا اسْتَجْمَعَتْ غَلْيًا))
(المعجم الكبير للطبراني ، ج: 20، ص:253)
’’ابن آدم کا دل ہنڈیا میں ابلتے ہوئے پانی سے بھی زیادہ مضطرب و بے قرار ہوتا ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
((لَقَلْبُ ابْنِ آدَمَ أَشَدُّ انْقَلَابًا مِنَ الْقِدْرِ إِذَا اجْتَمَعَتْ غَلَيَانًا))
(السلسلة الصحيحة:374/4)
’’ابن آدم کا دل ہنڈیا میں ابلتے ہوئے پانی سے بھی زیادہ شدت سے بدلتا ہے۔” جس کا مطلب یہ ہے کہ دل کے بدلنے میں سرعت بھی ہے اور شدت بھی ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں دل کی اس کیفیت کو ایک دوسری تشبیہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
آپ ﷺنے فرمایا:
((أَنَّمَا مَثَلُ الْقَلْبِ كَمَثَلِ رِيشَةٍ مُعَلَّقَةٍ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ تُقَلِّبُهَا الرِّيْحُ ظَهْراً لِبَطَنٍ)) (مسند احمد:19661)
’’دول کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی پر کسی درخت پر اٹکا ہو اور ہوا اس کو الٹ پلٹ کر رہی ہو۔‘‘
جس کا مطلب ہے کہ اپنے ایمان کی فکر کرو، ایمان دل میں ہوتا ہے اور دل ہر وقت الٹ پلٹ ہوتا رہتا ہے، گویا کہ ایمان بھی الٹ پلٹ ہوتا رہتا ہے، کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے اپنی اتجاہ اور ڈائریکشن بدلتا رہتا ہے۔
جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ كَقَلْبِ وَاحِدٍ يُصَرَّفَهُ حَيْثُ يَشَاءُ))
’’تمام بنی آدم کے دل اللہ تعالی کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں، اللہ تعالی انہیں جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ، اللَّهُمَّ مَصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلٰى طَاعَتِكَ)) (صحيح مسلم ، کتاب القدر (2655)
’’ اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا: "اے اللہ ! دلوں کو پھیر دینے والے ! ہمارے دلوں کو اپنی طاعت و فرمانبرداری کی طرف پھیر دے۔‘‘
لہذا ایمان کی حالت وقفے وقفے سے چیک کرتے رہنا چاہیے، اگر ایمانی کیفیت کو گاہے بگاہے چیک نہ کیا جائے تو اس کے بڑے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مثلاً: اس کا ایک انجام یہ ہو سکتا ہے کہ دل سخت ہو جائے۔ جب کوئی آدمی معصیت و نافرمانی کی راہ پر گامزن ہو اور کبھی اپنی اصلاح کا خیال نہ آیا ہو، اس کے لیے بھی کوئی کوشش نہ کی اور ایک لمبا عرصہ اسی کیفیت پر گزر جائے تو پھر خطرہ ہے کہ دل ایسا سخت ہو جائے کہ ہدایت کا راستہ ہی بند ہو جائے۔ اور اگر ایسی صورت حال نہ بھی ہو، بلکہ دین پر کار بند تو ہو، مگر خوب سے خوب تر کی کوشش نہ ہو، تو بھی قابل سرزنش قرار پاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی اہل ایمان کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ۝۱﴾ (الحديد: (16)
’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پکھلیں، اور اس کے نازل کر وہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا ئیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہو گئے ۔‘‘ اندازہ کیجئے اللہ تعالی کی طرف سے یہ سرزنش قرون اولی کے مسلمانوں کے لیے ہے، یعنی صحابہ کرام کے لیے ہے، مگر اس میں شامل تمام مسلمان ہیں۔
تو جب بعض صحابہ کرام کو اس بات پر سرزنش کی گئی ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد ایک ہی حالت پر منجمد ہو گئے ہیں اور خوب سے خوب تر کے لیے جدوجہد نہیں کرتے ، تو پھر ہم تو اس سرزنش کے یقینا زیادہ حقدار ٹھہرتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اس سرزنش کے بارے میں فرماتے ہیں:
((مَا كَانَ بَيْنَ إِسْلَامِنَا وَبَيْنَ أَنْ عَاتَبَنَا اللهُ بِهَذِهِ الْآيَةِ ﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ﴾ إِلَّا أَرْبَعُ سِنِينَ))
(صحیح مسلم ، كتاب التفسير:3027)
’’ ہمارے اسلام لانے اور اللہ تعالی کے ہمیں آیت ﴿﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ﴾ کے ذریعے ڈانٹنے کے درمیان صرف چار سال کا عرصہ ہے۔‘‘
یعنی کوئی بہت لمبا عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے سرزنش آگئی۔
حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی ایمانی حالت اور ہماری ایمانی حالت میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اور سرزنش کسی بات پر کی جارہی ہے﴿ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ﴾ ’’ان کے دل اللہ کے ذکر سے پکھلتے نہیں۔‘‘
نرم کیوں نہیں ہوتے ۔ ان میں ڈر اور خوف کیوں نہیں پیدا ہوتا، کپکپاتے کیوں نہیں ہیں۔
اہل ایمان کی صفات تو یہ ہیں کہ ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚ﴾
(الانفال:2)
’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔‘‘
اور اللہ کے کلام میں خاصیت یہ ہے کہ اسے سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں:
﴿ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ۖۗ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰی ذِكْرِ اللّٰهِ ؕ ﴾ (الزمر:23)
’’اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے جو ایک ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے، جسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، جسم کانپ اٹھتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور پھر ان کے جسم اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۔‘‘
تو جب اللہ تعالی کے کلام میں یہ خاصیت ہے کہ اسے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور بچے ایمان کی نشانی یہ ہے کہ ایسا صاحب ایمان جب اللہ کا کلام سنتا ہے تو لرز جاتا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے دل اللہ کا کلام سن کر، وعظ و نصیحت سن کر اثر نہیں لیتے، ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، ہم اس قدر بے حس کیوں ہو چکے ہیں؟
کبھی ہم نے غور کیا ؟ کبھی ہم نے اپنے دلوں کو ٹولا؟ کبھی ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ ہمارے ایمانوں کو کیا ہو گیا ہے، ہمارے دل غور و فکر سے بے بہرہ اور محروم کیوں ہیں؟ جاننا چاہتے ہیں کہ قرآن پاک پڑھنے اور سننے کے بعد اس پر غور وفکر نہ کرنے کا سبب کیا ہے؟ تو آئیے سنئے ! قرآن بتلاتا ہے؟﴿ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا۝۲۴﴾ (محمد:24)
’’کیا یہ لوگ قرآن پاک پر غور نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں!‘‘
قرآن پاک پر غور و فکر کریں اور اس کی بات سمجھ نہ آئے اور دل پر اثر نہ کرے، ہو نہیں سکتا۔ قرآن پاک کو پڑھا لکھا بھی سمجھتا ہے اور عالمی بھی سمجھتا ہے، اس کو نصیحت کے لیے بالخصوص آسان کر دیا گیا ہے۔
﴿ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝﴾ (القمر:40)
’’اور ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے، پس ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ؟‘‘
اگر کوئی واقعی نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے قرآن پاک ہی واحد معیار ہے۔
﴿ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ۠۝۴۵﴾ (ق45)
’’اور جو میری تہدید اور تنبیہ سے ڈرتا ہے اسے قرآن پاک کے ذریعہ نصیحت کیجئے ۔‘‘
تو اگر قرآن پاک پر غور و فکر کیا ہوتا تو اس طلسماتی دنیا کا بھید کھل گیا ہوتا اور آخرت کی حقیقت سمجھ آگئی ہوتی، اور اگر پھر بھی دنیا کا گرویدہ ہو اور آخرت سے روگردانی کئے ہوئے ہو، یعنی قرآن پاک پر غور و فکر کے بعد بھی اس کی یہ حالت ہو کہ اس پر رقت طاری نہیں ہوتی ، اس کے دل میں آخرت کا ڈر پیدا نہیں ہوتا ، اسے خشوع و خضوع کی کیفیت حاصل نہیں ہوتی تو پھر یہ علامت اس بات کی ہے کہ اس کا دل اک بیمار دل ہے ، اور پھر اس بات کا بھی ڈر ہے کہ کہیں اس کا شمار ان دلوں میں نہ ہو جائے کہ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ: ﴿ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا﴾ ’’ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
ان پر ہدایت کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ تو آئیے ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنے دلوں کو ٹولیں اپنی اپنی ایمانی کیفیت اور حالت جانچیں اور پڑ ھیں، اس سے پہلے کہ ہمارے دل سخت ہو جائیں اور ہدایت کے دروازے بند کر دیئے جائیں۔ اعاذنا الله منها ۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کہ جن کے ایمان کی خود اللہ تعالی نے گواہی دی ہے اور ان کے ایمانوں کو ہمارے لیے معیار مقرر فرمایا ہے، یہ کہہ کر کہ:
﴿ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۚ ﴾ (البقره:137)
’’اگر لوگ اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم لائے ہو (یعنی صحابہ کرام ) (فقد اهتدوا) تو پھر وہ ہدایت پر ہیں۔‘‘
انہیں اپنے ایمان کی اس قدر فکر دامن گیر تھی کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا ، حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((قَالَ: لَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ: كَيْفَ أَنْتَ يَا حَنْظَلَةُ‘‘
’’کہ مجھے ابو بکر بھی نہ ملے اور کہنے لگے: اے حنظلہ آپ کیسے ہو؟‘‘
((قُلْتُ نَافَقَ حنظلة))
’’میں نے کہا مطلہ منافق ہو گیا ہے۔‘‘
((قَالَ: سُبْحَانَ اللهِ مَا تَقُولُ؟‘‘
’’انھوں نے کہا: سبحان اللہ! کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
((قُلْتُ: تَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ حَتّٰى كَأَنَّا رَأَى عَيْنٍ))
’’میں نے کہا: ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، آپ ہمیں جنت اور جہنم یاد کرواتے ہیں۔ تو ہم محسوس کرتے ہیں۔ گویا ہم ان دونوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘
((فَإِذَا خَرَجْنَا مِن عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ، فَنَسِيْنَا كَثِيْرًا ))
’’لیکن ہم جب رسول اللہ سے عوام کے ہاں سے نکل جاتے ہیں تو ہم بیویوں، بچوں اور کھیتی باڑی کو سنبھالنے میں لگ جاتے ہیں اور بہت سی چیزیں بھول جاتے ہیں۔‘‘
((قَالَ أَبو بكر: ((فَوَاللَّهِ إِنَّا لَتَلْقَى مِثْلَ هَذَا))
’’ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم یہی کچھ ہمیں بھی پیش آتا ہے۔‘‘
اندازہ کیجئے حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی عاجزی اور انکساری کا حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ وہ شخصیت ہیں کہ جن کا مقام پوری امت میں نبی کریمﷺ کے بعد سب سے بلند ہے، آپ ﷺکے بعد امت میں سب سے افضل ہیں اس پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے۔
مگر عاجزی کیسی! فرماتے ہیں کہ ایسی کیفیت تو ہماری بھی ہوتی ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج کے دور میں اگر کوئی شخص کسی کے سامنے اس طرح اپنی ایمانی کیفیت کا اظہار کرتا ہے تو دوسرا شخص جواب میں کیا کہے گا؟ وہ اس کے سامنے نصیحتوں کے انبار لگا دے گا کہ تمہیں ایسے کرنا چاہیے اور ایسے نہیں کرنا چاہیے، فلاں چیز سے بچنا چاہیے وغیرہ، گویا وہ اپنے آپ کو اس سے مستثنی اور پاک صاف سمجھ رہا ہوگا، اور پارسائی کی چوٹی پر براجمان سمجھ رہا ہوگا۔ دوسرے کی کیفیت جان کر اپنے گریبان میں جھانکتا یہ انہی لوگوں کا خاصہ تھا۔
تو حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ((فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ .))
’’میں اور ابوبکر دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے۔‘‘
((فَقُلْتُ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ الله))
’’میں نے کہا: اللہ کے رسول ! حنظلہ منافق ہو گیا ہے۔‘‘
(( قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ((وَمَا ذَاكَ ))
’’آپﷺ نے فرمایا: اور وہ کیا ہے ؟‘‘
((قُلْتُ: يَارَسُوْلَ اللهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكَّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأَىَ عَيْنٍ))
’’میں نے کہا: اللہ کے رسول ! ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں آپ ہمیں جنت اور جہنم یاد کراتے ہیں گویا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘
((فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ نسينا كثيرًا))
’’اور جب ہم آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو ہم بیویوں، بچوں اور کھیتی باڑی وغیرہ کو سنبھالنے میں لگ جاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنْ لَوْ تَدُومُونَ علٰى مَا تَكُونُونَ عِنْدِى وَفِي الذِّكْرِ لَصَافَحَتَكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فرشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ، وَلَكِن يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ)) (صحيح مسلم ، كتاب التوبة:2750)
’’پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم ہمیشہ اس کیفیت میں رہو جس طرح میرے پاس ہوتے ہوئے اور ذکر میں لگے رہنے سے ہوتی ہے تو تمھارے بستروں اور تمھارے راستوں میں فرشتے تم سے مصافحہ کریں لیکن اسے حنظلہ! گھڑی گھڑی کی بات ہے ، یعنی ہر وقت ایمانی حالت ایک جیسی نہیں رہتی کوئی گھڑی کسی طرح ہوتی ہے اور کوئی گھڑی کس طرح ہوتی ہے۔‘‘
اس حدیث میں یوں تو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر ایک فائدہ کہ آپ ﷺ نے بالخصوص جس کا ذکر فرمایا ہے وہ ہے مداومت اور پیشگی۔
دینداری اور نیکی کی راہ پر چلنے کے لیے کوئی بڑے بڑے نیک کام اور میگا پراجیکٹ کرنا شرط نہیں ہے، بلکہ مداومت اور پیشی ہے، فرائض کے بعد ۔
فرائض کی تو ہر حال میں پابندی کرنا ہے، فرائض کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی کسی نیک عمل پر کہ جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو پابندی کرنا ہے تو اُس کا عمل اللہ تعالی کے ہاں بہت محبوب اور پسندیدہ ہوتا ہے، چاہے وہ بہت تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، مگر جو ہمیشہ، پابندی کے ساتھ۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((وَأَنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ))
(صحیح البخاری ، کتاب الرقاق:6464)
’’اللہ تعالی کے ہاں سب سے محبوب عمل وہ ہے جو ہمیشہ ہو، چاہے بہت تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
مثلاً: کوئی شخص تہجد پڑھتا ہے مگر صرف دو رکعت ہی پڑھتا ہے، زیادہ پڑھنے کی کسی وجہ سے ہمت نہیں ہوتی مگر پڑھتا پابندی کے ساتھ ہے، کبھی ناغہ نہیں کرتا، اس شخص کی دو رکعت کی تجد اس شخص کی آٹھ دس بارہ اور زیادہ رکعات کی تجہ سے بہتر اور افضل ہے، جو کبھی پڑھتا ہے اور کبھی نہیں پڑھتا۔
کیونکہ مداومت، پیشگی اور پابندی اصل میں آدمی کے اپنے مطلوب و مقصود کے ساتھ سنجیدگی اور اخلاص کی علامت ہوتی ہے، اور اس پیشگی کا آدمی کے دل پر اثر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کئے جانے والے بڑے کام اور ہمیشہ کئے جانے والے تھوڑے اور چھوٹے سے کام کی مثال کچھ یوں ہے، کہ اگر سیلاب آئے اور کسی پتھر کے اوپر سے گزر جائے تو اُس سیلاب کا پتھر پر کیا اثر ہوگا ؟ زیادہ سے زیادہ اس پتھر کے اوپر کا گرد و غبار صاف ہو جائے گا۔ لیکن اس کے برعکس اگر پانی کا ایک قطرہ مسلسل پتھر پر گرتا رہے تو آپ جانتے ہیں کہ پتھر میں سوراخ کر دیتا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی اپنی ایمانی کیفیت کو وقتا فوقتا چیک کرتے رہنے کی کہ انسان کے لیے نہایت ہی ضروری ہے، صحابہ کرام کے عمل سے اس کی اہمیت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔ اور اس کے بہت سے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ تجدید ایمان ہوتی رہتی ہے، اور تجدید ایمان کی یقینًا انسان کو ضرورت رہتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الْإِيمَانَ لَيَخْلَقُ فِي جَوْفِ أَحَدِكُمْ كَمَا يَخْلَقُ الثَّوْبُ فَاسْئَلُوا اللَّهَ تَعَالَى أَنْ يُجَدِّدَ الْإِيْمَانَ فِي قُلُوبِكُمْ))(صحيح الجامع الصغير وزيادته:1590)
’’ایمان یقینًا تم میں سے کسی کے سینے میں بوسیدہ ہو سکتا ہے ، جس طرح کہ کپڑا بوسیدہ ہو جاتا ہے ، لہذا دعا کیا کرو کہ اللہ تعالی تمھارے دلوں میں ایمان کی تجدید فرمادے ۔‘‘
یعنی بار بار تجدید کرتے رہا کرو کیوں کہ ایمان کی تجدید کی آدمی کو ایک بار نہیں ، بلکہ بار بار ضرورت پڑتی ہے کہ ایمان صرف لغزش خطا اور گناہ سے ہی بوسیدہ نہیں ہوتا بلکہ ذکر سے غفلت اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں نہ رہنے سے بھی ہوتا ہے ، اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم یقینًا اس بات کا اہتمام کیا کرتے تھے حتی کہ کبھی آپس میں مل بیٹھ کر دین کی باتیں کرنے سے بھی تجدید ایمان کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ہے کہ وہ کبھی اپنے کسی ساتھی سے کہا کرتے تھے جیسا کہ اسود بن جلال المحاربی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں که ((قالَ لِي مُعَاذٌ إِجْلِسٌ بِنَانُؤ مِنْ سَاعة)) (مصنف ابن ابي شيبة ، ج:6، ص:164)
’’آؤ بیٹھیں کہ کچھ دیر ایمان لائیں ، یعنی ایمان تازہ کریں ۔‘‘
لہذا ہمیں بھی تجدید ایمان کرتے رہنا چاہیے ، اللہ تعالی ہمیں حمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین