تخیلات صحابه رضی اللہ تعالی عنہم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ﴾ [الحجرات: 7]
وہ لوگ کتنے خوش بخت اور سعادت مند تھے جنہیں حالتِ ایمان میں سید الرسل خاتم النبیین، امام الانبیاء، جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی زیارت ورفاقت کا شرف حاصل ہوا اور ایمان کی حالت میں رسول اللہﷺ کا دیدار ہی ان کی نجات و کامرانی کے لیے کافی تھا کیونکہ جامع الترمذی میں نبی مکرمﷺ کا ارشاد گرامی موجود ہے:
(لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي) [جامع الترمذي كتاب المناقب باب ما جاء في فضل من رأى النبي ﷺ و قحبه رقم 3858]
’’جس مسلمان نے مجھے دیکھنے کا اعزاز حاصل کر لیا اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔‘‘
وہ لوگ اس قدر مبارک اور پاکیزہ تھے۔ صحیح البخاری میں حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا اور آپ اکثر آسمان کی طرف نگاہ مبارک اٹھایا کرتے تھے آپﷺ نے چمکتے ہوئے تاروں کو دیکھا تو فرمایا:
(النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ اَتَى السَّمَاءَ مَا يُوعَدُ)
’’ستارے آسمان کے لیے علامت و امن ہیں جب ستارے نہ رہیں گے آسمان پر وہ آفت آجائے گی جس کا اس کو وعدہ دیا گیا ہے۔‘‘
(وَانَا اَمَنَةٌ لِاصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ اَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ)
’’اور میں اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے نشان امن ہوں جب میں چلا جاؤں گا میرے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ پر وہ تکلیفیں اور آزمائشیں آجائیں گی جن کا انہیں وعدہ دیا گیا ہے۔‘‘
(وَأَصْحَابِي اَمَنَةٌ لِأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي اَتَى أُمَّتِي مَا تُوعَدُ) [صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب بيان أن بقاء النبي ﷺ أمان لاصحابه (6466)]
’’اور میرے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میری امت کے لیے نشانی امن ہیں جب میرے صحابہ چلے جائیں گے۔ میری امت پر وہ تکلیفیں آئیں گی جن کا امت کو وعدہ دیا گیا ہے۔‘‘
غور کیجئے! صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو پیغمبر اسلام نے اُمت محمد یہ کے لیے نشان امن اور علامت امن قرار دیا ہے۔
یہیں پہ بس نہیں، صحابہ کرام ہی وہ مقدس حضرات ہیں جن کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’میرا کوئی صحابی دنیا کے کسی بھی خطے میں وفات پائے گا وہ کل قیامت کے دن اس پورے علاقے کے لوگوں کے لیے قائد اور روشن مینار کی طرح کھڑا کیا جائے گا۔‘‘[جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب فيمن سب أصحاب النبي ﷺ، رقم: 3865]
یہ ہیں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جنہیں رضی اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کی ڈگری اور سند خالق کائنات نے دی ہے اور چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی تربیت میں اللہ کی خصوصی نگرانی اور رسول اللہﷺ کی صحبت ورفاقت کا اثر تھا اس لیے ان لوگوں کے تخیلات بہت اونچے تھے ان کی نظروں میں اس عارضی دنیا کی کوئی خاص قدر و منزلت نہیں تھی ان کی نگاہوں کے سامنے ایک ہی منزل تھی اور ان کا نصب العین صرف یہی تھا کہ دنیا میں ایمان اور عمل صالح میں دوسروں سے آگے نکل جائیں اور آخرت میں پیغمبر کی رفاقت اور جنت کا داخلہ مل جائے۔
آئیے! چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے تخیلات کیا تھے ان کی سوچ کیا تھی۔ ان کے جذبات کس طرح کے تھے۔ صحیح البخاری میں ہے ایک دن رسول اللہ ﷺ جنت کے دروازوں کا تذکرہ فرماتے ہیں:
(إِنَّ لِلْجَنَّةِ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ)
’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں: ریان، الصدقة، الجهاد اور الصلاة وغيره‘‘
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ عرض کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ ہر گزرنے والا ایک ہی دروازے سے گزر کر جنت میں داخل ہو گا۔ لیکن کیا کوئی ایسا خوش قسمت بھی ہوگا کہ جسے جنت کے آٹھوں دروازوں سے آواز پڑے۔ آؤ! ہمارے دروازے سے گزر کر جنت میں جاؤ۔ باب الصلاۃ کا دربان کہے میرے دروازے سے گزرو۔ باب الصدقہ کا دربان کہے میرے دروازے سے گزرو۔ باب الجہاد کا دربان بے تاب ہو کہے میرے دروازے سے گزرو۔ باب الریان کا دربان پکار رہا ہو کہ میرے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(نَعَمْ وَأَرْجُوانْ تَكُونَ مِنْهُمْ) [صحیح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبيﷺ، باب مناقب في بكر صديق رضی اللہ تعالی عنہ (3666)]
’’ہاں ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہوں کے جنہیں جنت کے آٹھوں دروازوں سے پکارا جائے گا اور مجھے یقین ہے کہ ابوبکر! آپ انہیں میں سے ہوں گے۔‘‘
کیسی سوچ ہے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی اور اس عظیم تخیل اور سوچ کا نتیجہ بھی کتنا اعلٰی ہے۔
صحیح مسلم اٹھائیے! حضرت ربیع بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت کے لیے رات بھر مستعد رہتا تھا۔ میں آپﷺ کے پاس آپ ﷺ کے وضو کا پانی اور دوسری ضرورت کی اشیاء (مسواک وغیرہ) لاتا ۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
(سَلْ) ’’سوال کرو۔‘‘
میں نے عرض کیا، میں آپﷺ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا اس کے علاوہ (بھی تیرا کوئی سوال) ہے؟‘‘ میں نے کہا:
بس یہی سوال ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(فَاَعِنِّى عَلٰى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ) [صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب فضل السجود والحث عليه (489) و ابوداؤد (1320) والبيهقي (486/2)]
’’تو تجھے اپنے نفس کے مقابلہ میں زیادہ نوافل ادا کر کے میری مدد کرنا ہو گی۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ زیادہ نوافل ادا کرو، تہجد، ضحی، سنن راتبہ کو معمول بناؤ۔ تو پھر میں آپ کے حق میں اللہ کی بارگاہ میں درخواست کر سکوں گا کہ تجھے میری رفاقت مل جائے۔
بہرحال اس واقعہ سے بھی صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے عمدہ تخیلات کا پتہ چلتا ہے۔ اور صحیح مسلم کی ہی دوسری حدیث میں ہے۔ حضرت معدان بن طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے غلام ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے ملا۔ میں نے کہا مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیں کہ وہ عمل کروں تو اللہ تعالی مجھے اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل فرمائے۔ وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے اس سے پھر سوال کیا۔ وہ خاموش ہو گیا۔ پھر میں نے اس سے تیسری بار دریافت کیا اس نے بیان کیا کہ میں نے یہ سوال رسول اللہﷺ سے دریافت کیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ: ’’تجھے کثرت کے ساتھ نوافل ادا کرنے چاہئیں بلاشبہ جب تو اللہ کی رضا کے لیے ایک سجدہ کرے گا تو اللہ اس سجدے کی وجہ سے تیرا ایک درجہ بلند فرمائے گا۔‘‘
معدان رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا بعد ازاں میں ابوالدرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے ملا اور ان سے دریافت کیا انہوں نے بھی مجھے اسی طرح کا جواب دیا جس طرح مجھے ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا تھا۔[صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب فضل السجود والحث عليه، رقم: (1093)]
دیکھئے ایسی سوچ ہے؟ کہ کسی طریقے سے جنت کا داخلہ مل جائے کسی طریقے سے آخرت میں سعادت و نجات مل جائے دنیا کی انہیں تڑپ ہی نہیں تھی ان کی ایک ہی تڑپ تھی آخرت سنور جائے۔
اور متفق علیہ روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ فقیر مہاجرین رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا مالدار لوگ اجر و ثواب اونچے درجات اور (آخرت کی) دائمی نعمتیں لے گئے۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا: ’’وہ کیسے؟“ انہوں نے بیان کیا وہ ہماری طرح نمازیں ادا کرتے ہیں اور ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور وہ صدقات دیتے ہیں جو ہم نہیں دیتے وہ (غلاموں کو) آزاد کرتے ہیں جو ہم نہیں کرتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جس کے ساتھ تم سبقت لے جانے والوں کے برابر ہو جاؤ گے اور ان لوگوں سے آگے ہو جاؤ گے جو رتبے میں تم سے پیچھے ہیں اور کوئی مالدار تم سے افضل نہیں ہو گا۔ سوائے اس کے جو ایسا عمل کرے جو تم کرتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا: ضرور اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے فرمایا: ’’تم فرض نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کے کلمات کہو۔‘‘
ابو صالح کہتے ہیں: کہ فقیر مہاجرین رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: ہمارے مالدار بھائیوں نے ان (کلمات کو) سنا اور انہوں نے بھی وہی کیا جو ہم نے کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب استحباب الذكر بعد الصلاة (567) واحمد (371/2)]
غور فرمائے! فقیر مہاجرین کو یہ تڑپ نہیں کہ ہمیں دنیا میں مال و منال مل جائے کو بھی بنگلہ مکان مل جائے۔ نہیں انہیں صرف یہ تڑپ ہے کہ ہم آخرت میں بلند درجات سے محروم نہ ہو جا ئیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں۔ اس دوران میرے پاس کچھ مال آ گیا۔ میں نے (دل میں) خیال کیا کہ اگر کسی روز میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے (صدقہ کرنے میں) سبقت لے سکوں تو آج کے دن ان سے آگے رہوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ میں اپنا آدھا مال لے آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے (مجھ سے) دریافت کیا کہ ’’آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے۔‘‘ (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں) میں نے جواب دیا کہ اسی قدر (یعنی آدھا مال گھر چھوڑ آیا ہوں اور آدھا مال آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ہوں) اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا تمام مال لے آئے ۔ آپ ﷺ نے (ابوبکر میلاد سے) دریافت کیا: اے ابوبکر! آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے اپنے گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ (کی رضا) کو چھوڑا ہے۔ (عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے (دل میں) خیال کیا کہ میں کبھی بھی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔[جامع الترمذي رقم: 3675، سنن في داؤد، كتاب الزكوة، باب في الرخصة في ذلك. رقم: 1678]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ایک دن رسول اللہ سی ایم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں: اے اللہ کے رسولﷺ!
(مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟)
’’قیامت کے دن لوگوں میں سے آپ کی سفارش کی سعادت کسی کو حاصل ہوگی۔‘‘ تو آپﷺ نے (جواب دینے سے پہلے) ارشاد فرمایا: ’’اے ابو ہریرہ! مجھے یقین تھا کہ مجھ سے یہ حدیث سب سے پہلے آپ ہی پوچھیں گے۔ کیونکہ آپ حدیث سیکھنے پر بڑے حریص ہیں۔‘‘ پھر جواب ارشاد فرمایا:
(اسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا من قلبه)[صحيح البخاري، كتاب العلم، باب الحرص على الحديث]
’’قیامت کے دن میری سفارش کی سعادت اس شخص کو حاصل ہو گی جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہا۔‘‘
غور فرمائیے! حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کیسا عظیم تخیل ہے کہ اس مسئلے میں فکر ہے کہ مند ہیں کہ کل قیامت کے دن رسول اللہﷺ کی سفارش کی سعادت کے حاصل ہوگی۔ یہی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ایک دن دربار نبوت میں حاضر ہوئے عرض کیا: اے اللہ کے رسول من (میری ایک پریشانی ہے) میں آپ سے بہت ساری احادیث سنتا ہوں اور بھول جاتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی چادر بچھاؤ۔‘‘ میں نے چادر بچھائی۔ آپ ﷺ نے اس پر اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ چلو ڈالا پھر فرمایا: ’’اسے اپنے سینے سے لگا لو۔‘‘ کہتے ہیں: میں نے چادر کو سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا، پھر اس کے بعد میں کوئی حدیث نہیں بھولا۔[صحيح البخاري، كتاب العلم، باب حفظ العلم.]
سبحان اللہ کیسی سوچ ہے بھوک کا فکر نہیں۔ پیاس کا فکر نہیں، کوئی اور پریشانی سر پر سوار نہیں، صرف یہ پریشانی ہے کہ مجھے احادیث بھول جاتی ہیں اور جذبہ اتنا سچا تھا کہ معجزے کا ظہور ہو گیا اور خالق کائنات نے معجزانہ طور پر قوت حافظہ کو بڑھا دیا۔
سبحان اللہ کیسی سوچ ہے کیسے پاکیزہ تخیلات ہیں کیسے عمدہ جذبات ہیں کہ نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا ذوق شوق ہے۔ یہ وہ مقابلہ اور دوڑ ہے جس کا حکم اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بار بار دیا ہے کہیں سورة البقرة میں فرمایا:
﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾ [البقرة: 148]
’’نیکی (کے میدان) میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے دوڑ لگاؤ۔‘‘
کہیں سورہ آل عمران میں فرمایا:
﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ [آل عمران: 133]
’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے جلدی کرو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کی طرح ہے جو متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔
کہیں سورۃ الحدید میں فرمایا:
﴿سَابِقُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ﴾ [الحديد:21]
غور فرمائیے! خالق کائنات نے الفاظ بدل بدل کر اس مقابلے کی ترغیب دی: ﴿فَاسْتَبقُوا﴾ – ﴿سَارِعُوْا﴾ ﴿سَابِقُوا﴾ اور کہیں رب ارض و سماء نے ان مؤمنین اہل کتاب کی تعریف کی جو اس قسم کا مقابلہ کرتے ہیں ﴿وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ﴾ اور وہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے جلدی کرتے ہیں (نیز یاد رہے مومنین اہل کتاب سے مراد حضرت عبدالله بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے رفقاء ہیں جو اہل کتاب میں سے ایمان لائے تھے) اور کہیں رب کا ئنات نے نبیوں اور رسولوں کی یہ صفت بتلائی ہے کہ دو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿إِنَّهُمْ كَانُوْا يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرَاتِ﴾ [الأنبياء:90]
’’یقینًا یہ انبیاء ورسل نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے تھے۔‘‘
یہ وہ مقابلہ ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑی دلچسپی سے حصہ لیا لیکن آج ہمارے مقابلے کس طرح کے؟ مقابلہ حسن، مقابلہ کھیل رسم ورواج میں مقابلہ کوٹھی اور بنگلے میں مقابلہ سوٹ بوٹ میں مقابلہ….۔
ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے تخیلات کتنے پاکیزہ تھے ان کی سوچ کتنی بلند تھی ان کے جذبات کتنے اعلیٰ تھے۔ کہ وہ کبھی جنت کے آٹھوں دروازوں سے پکارے جانے کی خواہش کا اظہار کرتے۔ کبھی جنت میں داخلے کی تمنا کرتے۔ کبھی جنت میں پیغمبر سلام کی رفاقت چاہتے اور ان کے یہ تخیلات اور آرزوئیں صرف زبانی کلامی نہ تھیں بلکہ ان اعلیٰ خواہشات کے حصول کے لیے رسول اللہﷺ سے اعمال وعبادات پوچھتے اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔ ان پاکیزہ سیرت لوگوں کے متعلق قرآن مجید میں رب کائنات کا اعلان موجود ہے۔ سورۃ الحجرات پڑھیے:
﴿وَلٰكِنَّ اللهُ حَبَّبَ﴾
’’اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے ایمان کو ان کے دلوں اور سینوں کی زینت بنایا تھا۔‘‘
اور کفر و فسق اور گناہ و نافرمانی سے ان کے دل پاک کر دیتے تھے بلکہ فسق و فجور کی نفرت ان کے دلوں میں بٹھادی تھی اور ان سب کے متعلق یہ سرٹیفکیٹ جاری کر دیا:
﴿أولٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ﴾ [الحجرات:7]
کہ یہ سارے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ ہدایت یافتہ اور کامیاب و کامران ہیں۔ اللہ ہمارے دلوں میں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سچی عظمت و محبت پیدا فرمائے اور ہمارے تخیلات اور جذبات بھی ان کی طرح پاکیزہ اور عمدہ بنائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔