تکملہ ارکان ایمان [1]
اہم عناصر خطبہ :
01. ایمان بالملائکۃ
02. ایمان بالکتب
پہلا خطبہ
برادران اسلام ! گذشتہ خطبۂ جمعہ میں ہم ایمان کی اہمیت وفضیلت کے علاوہ ارکانِ ایمان میں سے ایمان باللہ کی تفصیلات بیان کر چکے ہیں۔ آج کے خطبۂ جمعہ میں بھی ارکان ایمان ہی ہمار ا موضوع ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا اور حقیقی ایمان نصیب فرمائے ۔ آمین
دوسرا رکن
فرشتوں پر ایمان لانا
ایمان بالملائکہ یعنی فرشتوں پر ایمان لاناایمان کے ان چھ ارکان میں سے دوسرا رکن ہے جن کے بغیر بندے کا ایمان نہ تو درست ہوتا ہے اور نہ ہی قبول کیا جاتا ہے۔ اور تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ معزز فرشتوں پر ایمان لانا فرض ہے۔ اگر کوئی شخص ان سب کے وجود کا یا ان میں سے بعض کے وجود کا انکار کرے تووہ کافر ہے اور کتاب وسنت اور اجماع ِ امت کا مخالف ہے۔
01. ایمان بالملائکہ سے کیا مقصود ہے ؟
اس بات پر پختہ اعتقاد رکھنا کہ ’’ملائکہ‘‘ اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مخلوق ہیں جسے اس نے نور سے پیدا فرمایا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہیں اور وہ انھیں جو حکم دیتا ہے وہ کر گزرتے ہیں اور اس کی نافرمانی نہیں کرتے۔ وہ دن رات اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس سے ذرا نہیں اکتاتے۔ان کی تعداد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور اس نے ان کے ذمہ مختلف قسم کے فرائض سونپ رکھے ہیں۔
02. فرشتوں پر ایمان لانے کی کیفیت
فرشتوں پر کما حقہ ایمان لانے کیلئے دو امور ضروری ہیں :
01. ان کے وجود کا اقرار کرنا اور اس بات پر یقین رکھنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے۔ ان کا وجود حقیقی ہے اورہمارا ان کو نہ دیکھ سکنا ان کے نہ ہونے کی دلیل نہیں، کیونکہ کائنات میں کتنی ہی ایسی عجیب وغریب مخلوقات ہیں جن کا وجود حقیقی ہے لیکن ہم نے انھیں دیکھا نہیں۔ یہاں ہم فرشتوں کے وجود پر بعض دلائل ذکر کرتے ہیں :
(1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو اپنی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ( رَأیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم جِبْرِیْلَ فِیْ صُوْرَتِہٖ وَلَہُ سِتُّمِائَۃِ جَنَاحٍ، وَکُلُّ جَنَاحٍ مِّنْہَا قَدْ سَدَّ الأُفُقَ) [ أخرجہ احمد فی المسند وذکرہ الحافظ ابن کثیر فی تفسیرہ وقال : إسنادہ حسن : تفسیر ابن کثیر : ۴/۲۶۵]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امین ( علیہ السلام ) کو اپنی اصل شکل میں دیکھا۔ ان کے چھ سو پر تھے اورہر پر نے مشرق ومغرب کی پوری فضا (آسمان کو ) ڈھانپا ہوا تھا۔‘‘
(2) اسی طرح بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی بعض فرشتوں کو انسانی شکل میں دیکھا جیسا کہ حدیثِ جبریل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت جبریل علیہ السلام ایک آدمی کی شکل میں آئے جن کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے، ان پر سفر کا کوئی نشان نہ تھااور ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی انھیں پہچانتا بھی نہ تھا۔ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان ، اسلام ، احسان ، قیامت اور اس کی علامات کے بارے میں سوالات کئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جوابات دئیے ۔ پھر جب وہ چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے جو دین سکھلانے آئے تھے ۔ [ مسلم :۸]
اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے جنگِ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمی دیکھے جنہوں نے سفید رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا ۔ انھیں میں نے نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ بعد میں کبھی دیکھا ۔ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام ۔ [بخاری : ۵۸۲۶ ]
اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت جبریل علیہ السلام کو انسانی شکل میں دیکھا تھا اور یہ فرشتوں کے وجود کی دلیل ہے ۔
(3) فرشتوں کا جنگ بدر میں شریک ہونا
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ بَلٰی إِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَأتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِہِمْ ہٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ آلاَفٍ مِّنَ
الْمَلاَئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ ﴾ [ آل عمران : ۱۲۵ ]
’’ کیوں نہیں ! اگر تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور (اگر ) دشمن تم پر فورا چڑھ آئے تو تمہارا رب خاص نشان رکھنے والے پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ۔ ‘‘
اور حضرت رفاعۃ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ( مَا تَعُدُّوْنَ أَہْلَ بَدْرٍ فِیْکُمْ ؟ ) ’’ اہلِ بدر کا آپ کے نزدیک کیا مقام ہے ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ( مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِیْنَ) ’’ وہ مسلمانوں میں سب سے افضل ہیں ‘‘ ( یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا ۔) حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : (وَکَذٰلِکَ مَنْ شَہِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ ) ’’ اور اسی طرح وہ فرشتے بھی سب سے افضل ہیں جوجنگ ِ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ ‘‘ [ بخاری : ۳۹۹۲ ]
02. ان کو جو مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے انھیں اسی پر برقرار رکھنا۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مامور بندے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں عزت دی ہے ، ان کے مرتبہ کو بلند کیا اور انھیں اپنا تقرب نصیب کیا ہے۔ ان میں سے بعض اللہ تعالیٰ کی وحی وغیرہ کے پیامبر اور قاصد ہیں۔ اوران میں اتنی ہی طاقت ہے جس قدر اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے اور دوسروں کے کسی نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ اس لئے کسی قسم کی عبادت کو ان کیلئے بجا لانا جائز نہیں، چہ جائیکہ انھیں اللہ تعالیٰ کی صفات سے متصف کیا جائے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت جبریل علیہ السلام کے بارہ میں عقیدہ ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿ وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَہُ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ٭ لاَ یَسْبِقُوْنَہُ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِأَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ﴾ [الأنبیاء: ۲۶، ۲۷]
’’(مشرک لوگ) کہتے ہیں کہ رحمن اولاد والا ہے ۔ اس کی ذات پاک ہے، بلکہ وہ سب ( فرشتے )اس کے معزز بندے ہیں، کسی بات میں اللہ تعالیٰ پر سبقت نہیں لے جاتے، بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں۔‘‘
اور فرمایا: ﴿ لاَ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤمَرُوْنَ ﴾ [التحریم: ۶]
’’انھیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے، وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘
فرشتوں کے بارہ میں یہ تھا اجمالی ایمان جو ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے ۔ اور جہاں تک تفصیلی ایمان کا تعلق ہے تو وہ ان چیزوں پر مشتمل ہے:
01. ان کی پیدائش : اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نور سے پیدا کیاہے ۔ جیسا کہ اس نے جنوں کو آگ اور بنی آدم کو مٹی سے
پیدا کیا۔ اور ان کی پیدائش آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل کی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( خُلِقَتِ الْمَلاَئِکَۃُ مِنْ نُّوْرٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ) [ مسلم : ۲۹۹۶ ]
’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا اور جنوں کو بھڑکنے والے شعلے سے ۔اور آدم کو اس چیز سے جس کا وصف تمہارے لئے بیان کیا گیا(یعنی مٹی سے ) ‘‘
02. فرشتوں کی تعداد: فرشتے ایک ایسی مخلوق ہیں کہ جن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ إِلاَّ ہُوَ ﴾ [ المدثر: ۳۱]
’’اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘
اورحضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
( إِنِّیْ أَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ ، وَأَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُوْنَ ، أَطَّتِ السَّمَائُ وَحُقَّ لَہَا أَنْ تَئِطَّ، مَا فِیْہَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِع إِلَّا وَ مَلَکٌ وَاضِعٌ جَبْہَتَہُ سَاجِدًا لِلّٰہِ ) [ ترمذی : ۲۳۱۲ ۔ وحسنہ الألبانی ]
’’بے شک میں وہ چیز دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اورمیں وہ چیز سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے ۔ آسمان چرچرایا اور اسے حق ہے کہ وہ چرچرائے ( کیونکہ ) اس میں چار انگلیوں کے برابر کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز نہ ہو ۔‘‘
اور واقعۂ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ جب انھیں ساتویں آسمان پر لے جایا گیا تو وہاں انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ البیت المعمور کی طرف ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔اورالبیت المعمور کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( یَدْخُلُہُ فِیْ کُلِّ یَوِمٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ لاَ یَعُوْدُوْنَ إِلَیْہِ) [مسلم : ۱۶۲]
’’ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جوپھر کبھی دوبارہ اس کی طرف نہیں پلٹتے۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یُؤْتٰی بِالنَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، لَہَا سَبْعُوْنَ أَلْفَ زِمَامٍ ، مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَجُرُّوْنَہَا ) [ مسلم : ۲۸۴۲]
’’ قیامت کے روز جہنم کو لایا جائے گا ، اس کی ستر ہزار لگامیں ہو نگی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہو نگےجو اسے کھینچ رہے ہونگے۔ ‘‘
ان تمام احادیث سے ہمارے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ فرشتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے پاس نہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ان کو پیدا کیا اور ان کی گنتی کو شمار کیا۔
03. فرشتوں کے نام: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث پاک میں جن فرشتوں کے نام ذکر کیے ہیں ان پر ایمان لانا فرض ہے۔ ان میں سے تین عظیم فرشتوں کے نام یہ ہیں :
(1) حضرت جبریل علیہ السلام ، انھیں جبرائیل بھی کہا جاتا ہے اور وہی روح القدس ہیں ۔اور ان کے ذمے انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل کرنا تھا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلٰی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّٰہِ﴾ [البقرۃ: ۹۷]
’’جو جبریل کا دشمن ہو اس سے آپ کہہ دیجئے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کے دل پر پیغام ِباری اُتارا ہے‘‘۔
(2)حضرت میکائیل علیہ السلام ، انھیں میکال بھی کہا جاتا ہے اوران کے ذمہ بارش نازل کرنا ہے ۔وہ اسے وہاں نازل کرتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔
(3) حضرت اسرافیل علیہ السلام ، جن کے ذمہ صور میں پھونکنا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر ہیں ، جب انھیں حکم ملے گا تو وہ صور میں پھونکیں گے جس سے دنیاوی زندگی کی انتہاء ہو جائے گی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اس میں پھونکیں گے جس سے لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے ۔
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( کَیْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدْ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الْإِذْنَ مَتٰی یُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَیَنْفُخُ )
’’ میں کیسے آسودگی سے زندگی بسر کروں جبکہ سینگ والا ( فرشتہ ) سینگ اپنے منہ میں لے چکا ہے اور وہ انتہائی توجہ کے ساتھ یہ حکم سننے کے انتظار میں ہے کہ صور پھونکو ، تاکہ وہ فورا اس پر عملدرآمد کرے اور صور پھونکے‘‘
یہ بات گویا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر بھاری گذری ، جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا :
( قُوْلُوْا : حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ، عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا ) [ترمذی : ۲۴۳۱ ۔ وصححہ الألبانی ]
تم ’’ یہ کہو کہ ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے ۔ ہم نے اللہ پر ہی توکل کیا ۔ ‘‘
(4) فرشتوں کی صفات: فرشتے ایک حقیقی مخلوق ہیں اور ان کے حقیقی اجسام ہیں جو بعض صفات سے متصف ہیں۔ مثلا ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بڑی طاقتور شکلوں میں پیدا فرمایا ہے جو ان کے بڑے بڑے اعمال کے شایان شان ہیں ، وہ اعمال جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کیے ہیں۔دوسری یہ کہ ان کے پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے دو دو، تین تین اور چار چار پر بنائے ہیں اور اس سے زیادہ بھی ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو اپنی اصلی شکل میں دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے اور ہر پر نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔
اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ اَلْحَمْدُ للّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَالأرْضِ جَاعِلِ الْمَلاَئِکَۃِ رُسُلاً أُولِیْ أَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ یَزِیْدُ فِیْ الْخَلْقِ مَا یَشَائُ﴾ [فاطر: ۱]
’’تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو (ابتداء ً)آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اور جو دو دو، تین تین، چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد)بنانے والا ہے۔ اور وہ مخلوق میں جس قدر چاہے اضافہ کرتا ہے۔ ‘‘
تیسری یہ کہ وہ کھانے پینے کے محتاج نہیں ہیں۔اور نہ وہ شادی کرتے ہیں اور نہ ہی آگے ان کی نسل چلتی ہے۔ چوتھی یہ کہ تمام فرشتے، ملک الموت سمیت قیامت کے دن فوت ہوجائیں گے ۔ پھر انھیں ان اعمال کی ادائیگی کیلئے دوبارہ اٹھایا جائیگا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کر رکھے ہیں۔پانچویں یہ کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کیلئے مختلف قسم کی عبادات بجا لاتے ہیں مثلا دعا، تسبیح، رکوع، سجود، خوف، خشیت، محبت وغیرہ ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ یُسَبِّحُوْنَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ لاَ یَفْتُرُوْنَ ﴾ [الأنبیاء: ۲۰]
’’وہ دن رات اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ،سستی اور کمی نہیں کرتے۔‘‘
5۔ فرشتوں کے فرائض:
فرشتے وہ بڑی بڑی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کی ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
صلی اللہ علیہ وسلم عرش کو اٹھانا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ٭ رَبَّنَا وَأَدْخِلْہُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِیْ وَعَدْتَّہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾ [غافر: ۷]
’’جو ( فرشتے ) عرش اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں ، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور ایمان والوں کیلئے استغفار کرتے ہیں ( اور کہتے ) ہیں : اے ہمارے رب ! تو نے اپنی رحمت اور علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے ، لہذا جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی انھیں بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچا لے ۔اے ہمارے رب ! انھیں ان ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ۔ اور ان کے آباؤ اجداد ، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں انھیں بھی ۔ بلا شبہ تو ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے ۔‘‘
اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ کئی فرشتے ایسے ہیں جو عرشِ الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔ اور وہ اللہ رب العزت کی تسبیحات پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان ایمان والوں کیلئے دعائیں بھی کرتے ہیں جنہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کے دین کی پیروی کی ۔
02. بنی آدم کے اعمال کو لکھنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
﴿وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِیْنَ ٭ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ٭ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ [ الإنفطار : ۱۰ ۔ ۱۲ ]
’’ اور تم پر نگران ( فرشتے ) مقرر ہیں جو معزز ہیں ، اعمال لکھنے والے ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں۔‘‘
اور اعمال کو لکھنے والے فرشتے دن اور رات کے الگ الگ ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( یَتَعَاقَبُوْنَ فِیْکُمْ مَلاَئِکَۃٌ بِاللَّیْلِ وَمَلاَئِکَۃٌ بِالنَّہَارِ ،وَیَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلاَۃِ الْفَجْرِ وَصَلاَۃِ الْعَصْرِ ، ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِیْنَ بَاتُوْا فِیْکُمْ ، فَیَسْأَلُہُمْ رَبُّہُمْ وَہُوَ أَعْلَمُ بِہِمْ : کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ ؟ فَیَقُوْلُوْنَ : تَرَکْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ ، وَأَتَیْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ) [ بخاری : ۵۵۵ ، ۳۲۲۳ ، مسلم : ۶۳۲ ]
’’ تم میں دن اور رات کے فرشتے باری باری آتے ہیں ۔ وہ نماز فجر اور نماز عصر کے وقت جمع ہوتے ہیں ۔ پھر وہ فرشتے اوپر جاتے ہیں جنہوں نے تمہارے پاس رات گذاری ہوتی ہے ۔ چنانچہ ان کا رب ان سے سوال کرتا ہے حالانکہ وہ ان کے بارے میں زیادہ جانتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ تو وہ کہتے ہیں : ہم نے انھیں جب چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس آئے تب بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے ۔ ‘‘
03. امت کے سلام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
( إِنَّ لِلّٰہِ مَلاَئِکَۃً سَیَّاحِیْنَ فِیْ الْأرْضِ یُبَلِّغُوْنِیْ عَنْ أُمَّتِیْ السَّلاَمَ ) [نسائی : ۱۲۸۲ ۔ ابن حبان : ۹۱۴ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’ بے شک اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو زمین میں سیاحت کرتے رہتے ہیں اور وہ مجھ تک میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں ۔ ‘‘
04. بنی آدم کی حفاظت کرنا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہُ مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ ﴾ [ الرعد : ۱۱ ]
’’ ہر شخص کے آگے اور پیچھے اللہ کے مقرر کردہ نگران ( فرشتے ) ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ‘‘
05. رحم ِ مادرمیں انسان میں روح پھونکنا، اس کا رزق، عمل، بدبختی اور سعادت مندی لکھنا۔
حضرت حذیفۃ بن أ سِید الغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( إِذَا مَرَّ بِالنُّطْفَۃِ ثِنْتَانِ وَأَرْبَعُوْنَ لَیْلَۃً ، بَعَثَ اللّٰہُ إِلَیْہَا مَلَکًا ، فَصَوَّرَہَا وَخَلَقَ سَمْعَہَا، وَبَصَرَہَا وَجِلْدَہَا ، وَلَحْمَہَا وَعِظَامَہَا ، ثُمَّ قَالَ : یَا رَبِّ ! أَذَکَرٌ أَمْ أُنْثٰی ؟ فَیَقْضِیْ رَبُّکَ مَا شَائَ ، وَیَکْتُبُ الْمَلَکُ ، ثُمَّ یَقُوْلُ : یَا رَبِّ ! أَجَلُہُ ؟ فَیَقُوْلُ رَبُّکَ مَا شَائَ ، وَیَکْتُبُ الْمَلَکُ ، ثُمَّ یَقُوْلُ : یَا رَبِّ ! رِزْقُہُ ؟ فَیَقْضِیْ رَبُّکَ مَا شَائَ وَیَکْتُبُ الْمَلَکُ ، ثُمَّ یَخْرُجُ الْمَلَکُ بِالصَّحِیْفَۃِ فِیْ یَدِہٖ ،فَلاَ یَزِیْدُ عَلٰی مَا أُمِرَ وَلاَ یَنْقُصُ ) [ مسلم : ۲۶۴۵ ]
’’ جب ( رحمِ مادر میں ) نطفہ پر بیالیس راتیں گذر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کی شکل وصورت بناتا ہے اور اس کے کان ، آنکھیں ، جلد ، گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے ۔ پھر وہ کہتا ہے: اے میرے رب ! مرد یا عورت ؟ تو تمہارا رب جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتاہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے ۔ پھر وہ کہتا ہے : اے میرے رب !اس کی عمر کتنی ہو گی ؟ تو تمہارا رب جو چاہتا ہے کہتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے ۔ پھر وہ کہتا ہے : اے میرے رب !اس کا رزق کتنا ہو گا ؟ تو تمہارا رب جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتاہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے ۔ اس کے بعد فرشتہ صحیفہ لے کر نکل جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں کرتا ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( جو کہ الصادق المصدوق ہیں ) نے ارشاد فرمایا :
’’ بے شک تم میں سے ہر شخص کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک ( بصورتِ نطفہ ) جمع کی جاتی
ہے ۔ پھر اتنا ہی عرصہ وہ خونِ بستہ کی شکل میں رہتا ہے ۔ پھر اتنی ہی مدت وہ گوشت کے لوتھڑے کے شکل میں رہتا ہے ۔ پھر ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے ۔ اور اسے چار کلمات کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے : اس کا رزق ، اس کی مو ت ، اس کا عمل اور کیا یہ نیک بخت ہو گا یا بد بخت ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( فَوَالَّذِیْ لاَ إِلٰہَ غَیْرُہُ ! إِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی مَا یَکُوْنُ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا إِلاَّ ذِرَاعٌ ، فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ فَیَدْخُلُہَا ، وَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ ، حَتّٰی مَا یَکُوْنُ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا إِلاَّ ذِرَاعٌ ، فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیَدْخُلُہَا) [ بخاری : ۳۲۰۸ ، مسلم : ۲۶۴۳ ]
’’ اس ذات کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں ! بے شک تم میں سے ایک شخص اہلِ جنت کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، لیکن تقدیر اس پر سبقت لے جاتی ہے ، پھر وہ اہلِ جہنم کا کوئی عمل کرتا ہے اور وہ جہنم میں چلا جاتا ہے ۔ اور تم میں سے ایک شخص اہلِ جہنم کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، لیکن تقدیر اس پر سبقت لے جاتی ہے ، پھر وہ اہلِ جنت کا کوئی عمل کرتا ہے اور وہ جنت میں چلا جاتا ہے ۔ ‘‘
6۔موت کے وقت بنی آدم کی ارواح کو قبض کرنا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً حَتّٰی إِذَا جَائَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُوْنَ ﴾ [الأنعام : ۶۱ ]
’’ اور وہ اپنے بندوں پر پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگران ( فرشتے ) بھیجتا ہے ، حتی کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں۔ اور وہ ( اپنے کام میں ) ذر ہ بھرکوتاہی نہیں کرتے ۔ ‘‘
نیز فرمایا : ﴿ وَلَوْ تَریٰ إِذِ الظَّالِمُوْنَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلاَئِکَۃُ بَاسِطُوْا أَیْدِیْہِمْ أَخْرِجُوْا أَنْفُسَکُمْ ﴾ [الأنعام: ۹۳]
’’اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔‘‘
07. قبر میں لوگوں سے سوال وجواب کرنا اور اس پر مرتب ہونیوالی جزا یا سزا دینا ۔
08. جہنم کے خازن
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ فِیْ النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَہَنَّمَ ادْعُوا رَبَّکُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ ٭ قَالُوا أَوَلَمْ تَکُ تَأتِیْکُمْ رُسُلُکُم بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا بَلَی قَالُوا فَادْعُوا وَمَا دُعَائُ الْکَافِرِیْنَ إِلَّا فِیْ ضَلَالٍ﴾ [ غافر :۴۹۔ ۵۰ ]
’’ اور جو لوگ جہنم میں ہو نگے وہ جہنم کے محافظوں سے کہیں گے : اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ ایک دن تو ہمارے عذاب میں کچھ تخفیف کردے ۔ وہ کہیں گے : کیاتمہارے پاس رسول واضح دلائل لے کر نہیں آئے تھے ؟ جہنمی کہیں گے : کیوں نہیں ( ضرور آئے تھے ۔) تو وہ کہیں گے : پھر تم خود پکارو اور کافروں کی پکار تو ضائع ہوجانے والی ہے ۔ ‘‘
نیز فرمایا : ﴿ وَنَادَوْا یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ قَالَ إِنَّکُمْ مَّاکِثُوْنَ ﴾ [ الزخرف : ۷۷]
’’ وہ پکاریں گے : اے مالک ! (داروغۂ جہنم کا نام) تمہارا رب ہمارا کام تمام کردے ( تو اچھا ہے ) وہ کہے گا: تم ہمیشہ یہیں رہو گے ۔ ‘‘
برادران اسلام ! ہم نے فرشتوں کے بعض فرائض کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان کے علاوہ ان کے اور بھی کئی فرائض ہیں جنھیں وہ سرانجام دیتے ہیں ۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فرشتوں پر سچا اور حقیقی ایمان نصیب کرے ۔
دوسرا خطبہ
حضرات محترم ! آئیے اب ارکانِ ایمان میں سے تیسرے رکن ( ایمان بالکتب ) کے بارے میں کچھ گذارشات سماعت فرمائیے ۔
تیسرا رکن
کتابوں پر ایمان لانا
اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام پر جو کتابیں نازل کیں ان پر ایمان لانا ایمان کے ارکان میں سے تیسرا رکن ہے۔
اورکتابوں پر ایمان لانے سے مقصود یہ ہے کہ بندہ دل سے اس بات کی تصدیق کرے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ کتابیں اپنے رسولوں پر نازل فرمائی ہیں جو کہ اس کا حقیقی کلام ہیں اور غیر مخلوق ہیں ، ان میں نور ہے اور وہ باعثِ ہدایت ہیں ۔ اور ان میں جو کچھ ہے اس کی پیروی کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔ ان کی تعداد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اور جو شخص ان کا یا ان میں سے بعض کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا آمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلاَئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْدًا﴾ [النساء: ۱۳۶]
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اور اس کتاب پر ایمان لے آؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہے۔ اسی طرح ان کتابوں پر بھی جو اس نے اس سے پہلے نازل فرمائی ہیں۔ اورجس شخص نے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن سے کفر کیا وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ ‘‘
کتابیں نازل کرنے کی حکمت
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں متعدد حکمتوں کے پیش ِ نظر نازل فرمائیں۔
پہلی حکمت : آسمانی کتابیں مخلوق کیلئے باعث رحمت وہدایت ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ [ البقرۃ : ۲ ]
’’ اس کتاب میں کوئی شک وشبہ نہیں اور یہ پرہیزگاروں کیلئے باعث ِ ہدایت ہے ۔ ‘‘
نیز فرمایا : ﴿ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ﴾ [ البقرۃ : ۱۸۵ ]
’’ وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے باعث ِ ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی اور ( حق وباطل کے درمیان ) فرق کرنے کی نشانیاں ہیں ۔ ‘‘
دوسری حکمت : آسمانی کتابیں بندوں کیلئے دنیا وآخرت کی سعادت کی ضامن ہیں ۔ان کیلئے دنیا میں گزر بسر کرنے کیلئے ایک نظام زندگی اور دستورِ حیات ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ﴾ [الحدید: ۲۵]
’’یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو واضح دلائل دے کر مبعوث فرمایا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔ ‘‘
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر کتابیں نازل کرنے کی حکمت ذکر فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ تاکہ لوگ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے ۔
تیسری حکمت : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں اس لئے نازل فرمائیں کہ تاکہ اس کے بندے اپنے تمام مسائل میں انھیں اپنا مرجع بنائیں اور ہر مسئلہ میں ان کی طرف رجوع کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأوِیْلاً ﴾ [النساء : ۵۹ ]
’’ پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے ۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تلقین فرمائی کہ وہ کتاب اللہ ( قرآن مجید ) کو مضبوطی سے تھام لے ، اس طرح وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگی ۔ ارشاد فرمایا :
(۔۔۔۔۔ وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابَ اللّٰہِ ) [ مسلم : ۱۲۱۸]
’’ ۔۔ اور ( جان لو ) میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑ کر جارہا ہوں جسے تم نے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے کتاب اللہ ۔۔۔‘‘
لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کو سیکھیں ، پڑھیں ، اس میں غور وفکر کریں اور اس پر عمل کریں ۔
چوتھی حکمت : کتابیں نازل کرنے کی چوتھی حکمت یہ ہے کہ لوگ ان کے ذریعے فیصلے کر سکیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَأَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ ﴾ [البقرۃ: ۲۱۳]
’’در اصل لوگ ایک ہی جماعت تھے پھر اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والے بنا کر مبعوث فرمایا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔ ‘‘
اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے باہمی اختلافات کا فیصلہ قرآن مجید کے ذریعے کریں اور تمام متنازعہ امور میں کتاب اللہ کی طرف رجوع کریں ۔ اور کتاب اللہ جو فیصلہ کردے اس کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دیں اور اسے کھلے دل سے تسلیم کر لیں ۔
پانچویں حکمت یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد اللہ کا دین ان کتابوں کے ذریعے محفوظ رہے ۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ، وَلَنْ یَتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ ) [ صحیح الجامع : ۲۹۳۷ ]
’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان کے بعد ( یعنی اگر تم نے انھیں مضبوطی سے تھام لیا تو) کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔ایک ہے کتاب اللہ ( قرآن مجید ) اور دوسری ہے میری سنت ۔ اور یہ دونوں کبھی جدا جدا نہیں ہو نگی یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آئیں گی ۔ ‘‘
چھٹی حکمت یہ ہے کہ یہ کتابیں لوگوں پراللہ تعالیٰ کی حجت کے طور پر قائم رہیں ، تاکہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ میرے پاس تو کوئی نصیحت کرنے والا آیا ہی نہ تھا ۔ اور چونکہ کتاب اللہ ( قرآن مجید ) موجود اور بفضل اللہ محفوظ ومامون ہے اس لئے یہ اللہ تعالی کی حجت کے طور پر قائم ہے اور واجب الاتباع ہے۔
جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ﴿ اِتَّبِعُوْا مَا أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلاَ تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أَوْلِیَائَ﴾ [سورۃ الأعراف: ۳]
’’تم لوگ اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کردوسرے سرپرستوں کی پیروی مت کرو۔‘‘
اور فرمایا:﴿ وَہٰذَا کِتَابٌ أَنْزَلْنٰہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ [الأنعام: ۱۵۵]
’’اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، یہ بڑی برکت والی ہے۔ لہذا تم اس کی پیروی کرو اور ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘
آسمانی کتابیں
آسمانی کتب جن کا ذکر قرآن وحدیث میں وارد ہے وہ ہیں:
01. زبور: یہ وہ کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل فرمایا ۔ اس پر بھی ایمان لانا واجب ہے لیکن اس پر جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل فرمایا ،وہ زبور قطعی طور پر نہیں جو یہودیوں کے ہاتھوں تحریف کا شکار ہو چکی ہے۔اللہ رب العزت کا ارشادہے: ﴿ وَآتَیْنَا دَاؤُدَ زَبُوْرًا ﴾ [النساء: ۱۶۳]
’’اور ہم نے داؤد ( علیہ السلام ) کو زبور عطا فرمائی ۔‘‘
2۔ابراہیم وموسیٰ علیہ السلام کے صحیفے: یہ وہ صحیفے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے ۔ یہ تمام صحیفے مفقود ہیں اور ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسیٰ ٭ وَإِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی ٭ أَلاَّ تَزِرَ وَازِرَۃٌ وِّزِرَ أُخْرٰی٭ وَأَنْ لَّیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلاَّ مَا سَعٰی ٭ وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُریٰ ٭ ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَائَ الأَوْفٰی﴾ [النجم: ۳۶- ــ ۴۱]
’’کیا اس چیز کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ ( علیہ السلام ) اور وفادار ابراہیم( علیہ السلام ) کے صحیفوں میں تھی کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش اس نے خود کی۔ اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائیگی پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائیگا۔ ‘‘
اور فرمایا :﴿ بَلْ تُؤثِرُوْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا ٭وَالآخِرَۃُ خَیْرٌ وَّأَبْقٰی ٭ إِنَّ ہٰذَا لَفِیْ الصُّحُفِ الأُوْلٰی ٭ صُحُفِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسیٰ﴾ [الأعلیٰ: ۱۶ ــ -۱۹]
’’لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہوحالانکہ آخرت بہت بہتر اور بہت بقاء والی ہے۔البتہ یہ باتیں پہلے صحیفوں میں بھی ہیں (یعنی)موسیٰ ( علیہ السلام ) اور ابراہیم ( علیہ السلام) کے صحیفوں میں۔ ‘‘
03. تورات: یہ اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جس کو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا اور اسے باعث نور وہدایت بنایا ۔ اس کے ذریعے بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام اور ان کے علماء فیصلے فرماتے تھے۔
اس تورات پر ایمان لانا واجب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا نہ کہ اس محرف شدہ تورات پر جو اہل کتاب کے پاس موجود ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿ إِنَّا أَنْزَلْنَا الـتَّوْرَاۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ یَّحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ أَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبَّانِیُّوْنَ وَالأحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ ﴾ [المائدۃ: ۴۴]
’’بلا شبہ ہم نے تورات کو نازل کیا جس میں ہدایت ونور ہے۔ اسی تورات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار انبیاء( علیہم السلام ) ان لوگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے جو یہودی بن گئے تھے اور خدا پرست اور علماء بھی ( اسی تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے ) کیونکہ انھیں اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا۔ ‘‘
04. انجیل: یہ اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جس کو اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا ۔ وہ پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ صرف اس انجیل پر ایمان لانا واجب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے صحیح اصولوں کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا نہ کہ اس تحریف شدہ انجیل پر جو آج اہل کتاب کے پاس موجود ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَقَفَّیْنَا عَلٰی آثَارِہِمْ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّـوْرَاۃِ وَآتَیْنَاہُ الْإِنْجِیْلَ فِیْہِ ہُدًی وَّنُوْرٌ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَہُدًی وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ﴾ [المائدۃ: ۴۶]
’’اور ہم نے ان کے بعد عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے۔اورہم نے انھیں انجیل عطا فرمائی جس میں نور اور ہدایت تھی اور یہ کتاب بھی اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتی تھی اور وہ پرہیز گاروں کیلئے سراسر ہدایت ونصیحت تھی ۔ ‘‘
یاد رہے کہ تورات وانجیل میں دوسرے احکام کے ساتھ ساتھ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی بشارت بھی موجود تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الأُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ یَأمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ ﴾ [الأعراف: ۱۵۷]
’’جو لوگ ایسے رسول ، نبی اُمی کی اتباع کرتے ہیں جس کو وہ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ انھیں نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں ۔ اور پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں ۔ ‘‘
05. قرآن کریم: یہ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام پاک ہے جسے اس نے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔ اور یہ نازل کردہ آسمانی کتابوں میں سب سے آخری کتاب ہے ۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ﴾ [المائدۃ: ۴۸]
’’اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے ۔ اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اس اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کے ساتھ فیصلہ کیجئے ۔‘‘
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ وہ کون سے امور ہیں جن کی بناء پر قرآن مجید کو سابقہ تمام کتابوں پر امتیازی حیثیت حاصل ہے ؟ وہ متعدد امور ہیں جن میں سے چند ایک کا ہم تذکرہ کرتے ہیں ۔
01. قرآن مجید اپنے الفاظ ومعانی میں اور کونی وعلمی حقائق میں معجزانہ حیثیت کا حامل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی أَنْ یَّأتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا ﴾ [ الإسراء : ۸۸ ]
’’ آپ کہہ دیجئے ! اگر جن وانس سب مل کر قرآن جیسی کوئی چیز بنا لائیں تو نہ لا سکیں گے ، خواہ وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں ۔ ‘‘
02. قرآن مجید آسمانی کتابوں میں سے آخری کتاب ہے۔ اس کے نزول کے ساتھ ہی کتابوں کے نزول کا سلسلہ ختم کر دیا گیاجیسا کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد رسالت کے دروازہ کو بند کر دیا گیا۔
03. اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی تحریف سے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے جبکہ دوسری کتابوں کا معاملہ یہ نہیں ہے اور اسی لئے ان میں تحریف واقع ہوچکی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ ﴾ [الحجر: ۹]
’’ہم نے ہی اس ذکر کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘
04. قرآن مجیدسابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ مَا کَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤمِنُوْنَ ﴾ [یوسف: ۱۱۱]
’’یہ قرآن جھوٹی اور بنی بنائی بات نہیں بلکہ یہ ان کتابوں کی تصدیق کرتاہے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں۔ اور یہ ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے اور ایمان والوں کیلئے باعث ہدایت ورحمت ہے۔‘‘
05. قرآن مجید سابقہ تمام کتب کا ناسخ ہے۔لہذا قرآن مجید کے نزول کے بعد اب یہ درست نہیں کہ کوئی اس سے پہلی کتب میں سے کسی کتاب سے احکامِ الٰہی اخذ کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں تورات کے کچھ اوراق ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور پر ناراضگی کے آثار نمایاں ہو گئے اور آپ نے فرمایا : ( وَاللّٰہِ لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ مَا حَلَّ لَہُ إِلَّا أَن یَّتَّبِعَنِی ) [ أخرجہ الدارمی وأحمد وغیرہما بسند حسن ]
’’ اللہ کی قسم ! اگر موسی علیہ السلام تمھارے درمیان زندہ موجودہوتے تو ان کیلئے سوائے میری اتباع کے اور کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ ‘‘
یعنی وہ بھی میری اور میرے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید ہی کی اتباع کرتے اور اسی کا مطالعہ کرکے اس سے شرعی احکام اخذ کرتے ۔
حضرات محترم !یہ اور ان کے علاوہ دوسری کئی خصوصیات کی بناء پر قرآن مجید دیگر آسمانی کتابوں سے ممتاز حیثیت کا حامل ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس عظیم الشان کتاب کو اپنا دستور حیات بنانے کی توفیق دے ۔
ارکان ایمان میں سے بقیہ ارکان کی تفصیلات کے متعلق ہم ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبۂ جمعہ میں گفتگو کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان پر قائم رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ۔ آمین ۔