تقدیر پر عدم رضا کے اظہار کے لیے کاش“ کا لفظ استعمال کرنے کی ممانعت

897۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلِّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلٰى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللهِ، وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ: لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ، وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ)) (أخرجه مسلم:2664)

’’طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے، جبکہ خیر دونوں میں  (موجود) ہے۔ جس چیز سے تمھیں (حقیقی) نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو مایوس ہو کر نہ بیٹھ جاؤ)، اگر تمھیں کوئی (نقصان) پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں (اس طرح) کرتا تو ایسا ایسا ہوتا بلکہ یہ کہو:  (یہ) اللہ کی تقدیر ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس لیے کہ (حسرت کرتے ہوئے) کاش  (کہنا) شیطان کے عمل (کے دروازے) کو کھول دیتا ہے۔‘‘

898۔ سیدنا انس  بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہﷺ کی خدمت کی، آپ نے جب بھی مجھے کسی کام کے لیے بھیجا اور وہ نہ ہو سکا تو آپﷺ نے فرمایا:

((لَوْ قُضِيَ كَانَ أَوْ لَوْ قُدِرَ كَانَ )) ’’اگر قضا و قدر میں ہوتا تو ہو جاتا‘‘(أخرجه أحمد: 11973، 13418، والضياء في المختارة: 1834)

توضیح و فوائد: ’’لو‘‘ کا مطلب ہے اگر، اے کاش، یعنی اگر میں ایسے کرتا تو اس طرح ہو جاتا۔ اللہ نہ کرے، جب کوئی مصیبت آ پڑے تو پھر اگر مگر کرنے کی بجائے یہ کہنا چاہیے کہ تقدیر میں اسی طرح لکھا تھا۔ تقدیر پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح کی باتیں کرنا ٹھیک نہیں۔