تقدیر پر ایمان لانا واجب ہے
856۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا: ((لَوْ أَنَّ اللهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ، وَأَهْلَ أَرْضِهِ، لَعَذَّبَهُمْ غَيْرَ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ لَهُمْ خَيْرًا مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ انْفَقْتَ جَبَلَ أَحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا قَبِلَهُ اللهُ مِنْكَ حَتّٰى تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُن لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مُتَّ عَلٰى غَيْرِ هٰذَا لَدَخَلْتَ النَّارِ)) (أخرجه أحمد: 21588، 21611، 21653، وأبو داود: 4099، وابن ماجه:77)
’’اگر اللہ تعالی آسمان و زمین والوں کو عذاب دے تو انھیں عذاب دینے میں وہ ظالم نہیں ہوگا اور اگر کے برابر ان پر رحمت کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہتر ہے اور اگر تم احد پہاڑ – سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک قبول نہیں فرمائے گا جب تک تم تقدیر پر ایمان نہ لاؤ، اور اس بات کا یقین نہ رکھو کہ جو مصیبت تمھیں پہنچتی ہے وہ ملنے والی نہیں اور جو تمھیں نہیں پہنچنے والی وہ کسی صورت تمھیں نہیں پہنچ سکتی اور اگر تم اس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر فوت ہوئے تو تم ضرور جہنم میں جاؤ گے۔‘‘
توضیح و فوائد: کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اور آئندہ جو کچھ ہو گا یہ سب کچھ لکھا جا چکا ہے، اس کا نام تقدیر ہے۔ اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے تقاضے یہ ہیں:
1۔ اس حقیقت پر پختہ ایمان کہ اللہ تعالی کا علم از لی اور ابدی ہے۔ وہ شروع سے آخر تک ہر چیز کی تفصیل جانتا ہے، مخلوق کا ہر چھوٹا بڑا معاملہ اس کے علم میں ہے۔ اور اس کا علم جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہونے والا ہے، سب پر محیط ہے۔
2۔ اس بات پر پختہ ایمان کہ اللہ تعالی نے اپنے ازلی علم کی بنا پر تمام مخلوق جو گزر چکی ہے اور اس نے جو کچھ کیا اور جو لوگ آئندہ آئیں گے اور وہ جو کچھ بھی کریں گے، ان سب کی تقدیر لوح محفوظ میں لکھ رکھی ہے۔ مطلب یہ کہ ہر انسان کو پیش آنے والی ہر خوشی اور نمی کی تفصیل اللہ کے پاس اس کے پیش آنے سے پہلے ہی موجود ہے۔
3۔ اس بات پر پختہ ایمان کہ کائنات میں کوئی کام اللہ کی مرضی اور مشیت کے بغیر نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ چیزیں اس کی ناپسندیدہ ہوتی ہیں لیکن ارادہ کونیہ کے تحت وہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتیں۔ اس بات پر پختہ ایمان رکھنا کہ ہر چھوٹی بڑی ظاہر اور باطن چیز کا خالق اللہ تعالی ہی ہے۔ بندوں کے افعال کا خالق بھی اللہ تعالی ہے لیکن فعل کو عمل میں لانے والے بندے خود ہوتے ہیں۔
اس تقدیر کی کئی اقسام ہیں:
(1) تقدیر کونی: اللہ تعالی نے قلم کو پیدا کرنے کے بعد حکم دیا کہ جو ہو چکا اور جو قیامت تک ہو گا سب کچھ لکھ دے۔ یہ ہر فرد یا امت کی انفرادی نہیں بلکہ پوری کا ئنات کی مجموعی تقدیر ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
(2) تقدیر نوعیہ: اس تقدیر کا تعلق آدم علیہ السلام کی اولاد سے ہے۔ اس میں آدم علیہ السلامکی تمام اولاد کی مجموعی تقدیر کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد یہ لکھ دیا کہ اس کی کل کتنی اولاد ہوگی اور وہ کیسی ہو گی، پھر ان کی روحوں کو پیدا کر کے ان سے عہد لیا۔
(3) تقدیر فردیہ: اس سے مراد ہر فرد کی تقدیر ہے۔ یہ حمل ٹھہرنے کے بعد جب بچے میں روح پھونکی جاتی ہے، اس سے پہلے ہی لکھ دی جاتی ہے، اس میں عمر، رزق، خوش بخت اور بد بخت ہونا بھی لکھ دیا جاتا ہے۔
(4) تقدیر حولیہ: اس مراد وہ تقدیر ہے جو لیلتہ القدر میں لکھی جاتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ﴾ (الدخان:4:44) یعنی اس آنے والے سال کی اموات، رزق وغیرہ کی تفصیل لکھ دی جاتی ہے۔
(5) تقدیریومیہ: یعنی اللہ تعالی ہر روز کسی کی عزت کسی کی ذلت اور کسی کے فقر وغیرہ کا فیصلہ فرماتا ہے: ارشاد باری تعالی ہے: ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ﴾ (الرحمن:29:55) یعنی وہ روزانہ کام میں مصروف رہتا ہے اور ہر آن نئی شان میں ہے۔
857۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
((لَا يُؤْمِنُ الْمَرْءُ حَتّٰى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِهِ)) (أخرجه أحمد:6703، 6985)
’’کوئی شخص اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے بغیر مومن نہیں ہو سکتا۔‘‘
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ اس بات پر پکا ایمان ہو کہ کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے اور کوئی پریشانی آتی ہے تو بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے لیکن اس کا سبب خود انسان کا اپنا فعل ہے۔
858۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: حَتّٰى يَشْهَدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ. بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، وَحَتّٰى يُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَحَتّٰى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ))
’’کوئی آدمی چار چیزوں پر ایمان لائے بغیر مومن نہیں ہو سکتا: اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، مجھے اللہ نے حق دے کر مبعوث فرمایا، موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھے اور تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘
589۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نے نبیﷺ سے دریافت کیا: ایمان کیا ہے؟
(جوابًا) آپ اﷺ نے فرمایا: ((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ)) ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔‘‘
اس نے کہا: آپﷺ نے درست فرمایا۔……… (بالآخر ) آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّهُ جَبْرَئِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ)) (أخرجه مسلم:8)
’’وہ جبریل علیہ السلام تھے، تمھارے پاس آئے تھے، تمھیں تمھارا دین سکھا رہے تھے۔‘‘
860۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:
((إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ الْقَلَمَ، قَالَ: أَكْتُبْ فَقَالَ: مَا أَكْتُبُ قَالَ: أَكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَدِ)) (أخرجه أحمد:22705، والترمذي:2155، 3319)
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے حکم دیا لکھو۔ اس نے عرض کی: میں کیالکھوں؟ فرمایا: جو ہو چکا اور جو آئندہ تا زمانہ ہوگا اس کی تقدیر لکھو۔‘‘
861۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((كَانَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَكَتَبَ فِي اللَّوْحِ ذِكْرَ كُل شَيْءٍ)) (أخرجه البخاري:3191، 7418، وأحمد:19876)
’’اللہ تبارک و تعالی ہر ایک چیز سے پہلے ہے، اس کا عرش (پہلے) پانی پر ہے اور اس نے لوح محفوظ میں ہر ایک چیز کا ذکر لکھ دیا ہے۔‘‘
862۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((كُلِّ شَيْءٍ بِقَدَرٍ، حَتَّى الْعَجْرُ وَالْكَيْسُ، أَوِ الْكَيْسُ وَالْعَجْرُ)) (أخرجه مسلم:2655)
’’ہر چیز اللہ کی مقرر کردہ) مقدار کے ساتھ قائم ہے یہاں تک کہ (کسی کی) بے بسی اور مہارت بھی، یا کہا: (کسی کی) مہارت اور بے بسی (بھی اس مقدار سے ہے )۔‘‘
863۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺفرمایا:
((اِحْتَجِّ آدَمَ وَمُوسٰي. فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَنتَ آدَمُ الَّذِي أَخْرَجَتْكَ خَطِيئَتُكَ مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِكَلَامِهِ ثُمَّ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قُدِّرَ عَلَىَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى)) (أخرجه البخاري:3409، 4736، 3738، 6614، 7515، ومسلم:2652)
’’سیدنا آدم اور موسی علیہ السلام نے دلائل کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ موسی علیہ السلام نے کہا: آپ آدم ہیں جن کی خطا نے انھیں جنت سے باہر نکالا، تو سیدنا آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: تم موسی ہو جسے اللہ نے اپنی رسالت اور ہم کلامی سے دوسروں پر فضیلت دی، پھر تم مجھے اس معاملے میں ملامت کر رہے ہو جو میری پیدائش سے پہلے میرے لیے مقدر کر دیا گیا تھا۔ اس طرح آدم علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو دلیل سے خاموش کر دیا۔‘‘
توضیح وفوائد: تقدیر کا سہارا لے کر گناہ کرنا بڑی غلط اور خوفناک جسارت ہے کیونکہ انسان کو اس کا علم نہیں کہ اس کی تقدیر میں کیا لکھا ہے۔ انسان کو حکم یہ ہے کہ وہ اچھائی اور برائی کی تمیز کرے اور ہمیشہ اچھے کام کو اپنائے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عقل کی روشنی بھی دی ہے اور رہنمائی کے لیے انبیاء اور رسول بھی بھیجے ہیں۔ لیکن اگر کوئی گناہ یا نقصان ہو جائے تو پھر تقدیر کا سہارا لیا جا سکتا ہے کہ مقدر میں اس طرح لکھا تھا۔سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک شرابی کو کوڑے مارنے لگے تو اس نے کہا: میری تقدیر میں یہی لکھا تھا، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فوراً کہا: میری تقدیر میں تجھے کوڑے مارنا لکھا تھا۔
864۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم غزوہ حدیبیہ سے واپس آئے تو رسول الله ﷺنے فرمایا: ((مَنْ يَّحْرُ سُنَا اللَّيْلَةَ؟))
’’آج رات ہمارے لیے کون پہرہ دے گا؟‘‘
سیدنا عبد اللہ کہتے ہیں: میں نے عرض کی: میں پہرہ دوں گا۔
آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّكَ تَنَامُ )) ’’یقینًا آپ سو جائیں گے۔‘‘
پھر آپ نے دوبارہ فرمایا: ((مَنْ يَحْرُ سُنَا اللَّيْلَةَ؟))
’’آج رات کون ہمارے لیے پہرہ دے گا؟‘‘
میں نے عرض کی: میں (پہرہ دوں گا۔) آپ نے یہ بات بار بار دوہرائی۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں (پہرہ دوں گا۔)
آپﷺ نے فرمایا: ((فانتَ إِذًا)) ’’ٹھیک ہے تم پہرہ دو۔‘‘
فرماتے ہیں میں نے رات بھر پہرہ دیا حتیّٰ کہ جب صبح طلوع ہونے کے قریب تھی تو رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق: ((إِنَّكَ تَنَام)) ’’تم سو جاؤ گئے‘‘ میں سو گیا، پھر سورج کی تپش ہماری کمروں پر پڑی تو اس نے ہمیں جگایا۔ رسول اکرمﷺ اٹھے تو آپ نے سابقہ معمول کے مطابق وضو کیا اور فجر کی دوسنتیں ادا فرمائیں اور پھر ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ جب آپ نے نماز سے ﷺ پھیرا تو فرمایا:
((إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَوْ أَرَادَ أَنْ لَا تَنَامُوا لَمْ تَنَامُوا، وَلٰكِنْ أَرَادَ أَنْ تَكُونُوا لِمَنْ بَعْدَكُمْ، فَهٰكَذَا لِمَنْ نَامَ أَوْ نَسِي)) (أخرجه أحمد: 3710، وإسناده ضعيف، فيزيد بن هارون سمع من عبد الرحمن المسعودي بعد الاختلاط)
’’بلاشہ اگر اللہ عز وجل چاہتا کہ تم نہ سو ت تم نہ سوتے لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تم اپنے بعد والوں کے لیے مثال بنو، لہٰذا جو شخص سویا رہ جائے یا بھول جائے، وہ ایسے ہی کرے۔‘‘
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ تم نے جاگنے کے لیے پکا ارادہ کر رکھا تھا اور اسباب بھی اختیار کیے تھے۔ اس کے باوجود اگر تمھاری آنکھ نہیں کھلی اور نماز میں تاخیر ہو گئی تو تقدیر میں ایسا ہی لکھا تھا۔
865۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ جب خیار (ازواج مطہرات کو عقد نبوی کے بارے میں اختیار ملنے) کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا:
((يَا عَائِشَةُ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَذْكُرَلَكِ أَمْرًا، فَلَا تَقْضِينَ فِيهِ شَيْئًا دُونَ أَبَوَيْكِ))
’’ عائشہ! میں تجھ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں، اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے تم اپنے والدین سے ضرور مشورہ کر لینا۔‘‘
انھوں نے کہا: وہ کیا ہے؟ کہتی ہیں: رسول اکرم ﷺ نے مجھے بلایا اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا۲۸
وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾(الأحزاب33: 28، 29)
’’اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمھیں کچھ (دنیوی) سامان دے دوں اور تمھیں بہت ہی اچھے طریقے سے رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہو تو بلا شبہ اللہ نے تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
کہتی ہیں: میں نے عرض کی: ((قَدِ اخْتَرْتُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولَهُ)) (أخرجه أحمد:24487،25193، 25299، 25301، 26108)
’’میں نے اللہ عز وجل اور اس کے رسول کو اختیار کر لیا ہے۔‘‘
فرماتی ہیں: رسول اکرم ﷺ اس پر بہت خوش ہوئے۔
توضیح وفوائد: معاملہ کوئی بھی ہو، اس کے بارے میں مشورہ کرنا اور کوشش کر کے صحیح راہ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آدمی یہی کہتا رہے کہ جو تقدیر میں لکھا ہوا ہے وہ ہو جائے گا۔ انسان کو حکم ہے کہ پوری کوشش کرنے کے بعد صحیح معاملہ اختیار کرے۔ اس کے لیے کسی دانشمند سے مشورہ بھی کرنا پڑے تو ضرور کرے اس کے باوجود اگر نقصان ہو جاتا ہے تو پھر کہے کہ تقدیر میں ایسا ہی لکھا تھا۔
866۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((عَجِبْتُ لِلْمُؤْمِنِ، إِنَّ اللهَ لَا يَقْضِي لِلْمُؤْمِنِ قَضَاء إِلَّا كَانَ خَيْرًا لَهُ)) (أخرجه أحمد: 12160، 12906، 20283، وابن حبان: 728)
’’مجھے مومن کے معاملے پر تعجب ہوتا ہے، مومن کے لیے اللہ تعالی جو بھی فیصلہ فرماتا ہے، وہ اس کے لیے ضرور خیر و بھلائی پر مبنی ہوتا ہے۔‘‘
867۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے دین کو اس طرح بیان کیجیے، گویا ہم ابھی پیدا کیے گئے ہیں، آج کا عمل (جو ہم کر رہے ہیں) کس نوع میں آتا ہے؟ کیا اس میں جسے (لکھنے والی) قلمیں (لکھ کر) خشک ہو چکیں اور جو پیمانے مقرر کیے گئے ہیں ان کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے (ہم بس ابھی کے مطابق عمل کیے جارہے ہیں)؟
یا اس میں جو ہم از سر نو کر رہے ہیں (پہلے سے ان کے بارے میں کچھ طے نہیں)؟
آپ ﷺنے فرمایا: ((لا، بَلْ فِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ، وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ))
’’نہیں بلکہ جسے لکھنے والی قلمیں (لکھ کر) خشک ہو چکیں اور جن کے مقرر شدہ پیمانوں کے مطابق عمل شروع ہو چکا۔‘‘
انھوں نے کہا: تو پھر عمل کس لیے ( کیا جائے؟) آپﷺ نے فرمایا:
((اعْمَلُوا فَكُلِّ مُيَسَّرٌ)) (أخرجه مسلم:2648)
’’تم عمل کرو، ہر ایک کو سہولت میسر کی گئی ہے۔‘‘
868۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم کسی بنیاد پر
عمل کر رہے ہیں، ایسی چیزوں پر جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے یا ایسی چیز پر جس سے فارغ نہیں ہوا گیا، یعنی اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا اور وہ طے نہیں پائی، آپ ﷺ نے فرمایا:
((فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَكُلُّ مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ، فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ)) (أخرجه الترمذي: 2135)
بلکہ ایسی چیز پر جو طے ہو چکی ہے اور قلم اسے لکھ چکے ہیں، اے عمرہ لیکن ہر ایک کے لیے (کسی نہ کسی کام میں آسانی کر دی گئی، جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، پھر جو اچھے لوگوں میں سے ہے وہ اچھے کام کرتا ہے اور جو برے لوگوں میں سے ہے وہ برے کام کرتا ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: انسان اپنی تقدیر سے یکسر بے خبر ہے، اس لیے اسے اس کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے بلکہ حسن ارادہ کے ساتھ وہ صحیح کام کرنا چاہیے جس کا اسے علم ہے اور جو اس سے مطلوب ہے۔
869۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور بیٹھ گئے، ہم آپﷺ کے ارد گرد بیٹھ گئے، آپ کے ساتھ ایک چھڑی تھی، آپ نے اپنا سر مبارک جھکا لیا اور اپنی چھڑی سے (زمین) کریدنے لگے ( جس طرح کہ فکر مندی کے عالم میں ہوں)۔ پھر فرمایا: ((مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ، مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا وَقَدْ كَتَبَ اللهُ مَكَانَهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَإِلَّا وَقَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً))
’’تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں بلکہ کوئی پیدا ہونے والی جان ایسی نہیں جس کا جنت میں اور جہنم میں ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو، یعنییہ لکھا جا چکا ہے کہ کون نیک بخت اور کون بد بخت ہے۔‘‘
کسی آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے لکھے ہوئے پر ہی بھروسا نہ کر لیں اور عمل چھوڑ دیں؟
تو آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَسَيَصِيرُ إِلٰى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ))
’’جو شخص نیک لوگوں میں سے ہوتا ہے، اسے نیکیوں والے اعمال کی توفیق ملتی ہے اور جو شخص برے لوگوں میں سے ہوتا ہے اسے برے اعمال کرنے کی توفیق ملتی ہے۔‘‘
پھر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:
(اِعْمَلُوا فَكُلٌِ مُيَسِّرٌ، أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسِّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ))(اخرجه البخاري: 4945، 4946، 4947، 4949، و مسلم:2147)
’’تم عمل کرو۔ ہر شخص کو ان اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ جو شخص نیک ہو گا اسے نیکوں کے عمل کی توفیق ملی ہوتی ہے اور جو بد بخت ہو گا اسے بدبختوں کے عمل کی توفیق ملی ہوتی ہے۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:
﴿فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَ اتَّقٰیۙ وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰیۙ فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْیُسْرٰیؕ وَ اَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰیۙ وَ كَذَّبَ بِالْحُسْنٰیۙ فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰیؕ﴾
’’پس وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقوی اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کر دی تو ہم اسے آسانی کی زندگی (تک پہنچنے) کے لیے سہولت عطا کریں گے اور وہ جس نے بخل کیا اور بے پروائی اختیار کی اور اچھی بات کی تکذیب کی تو ہم اسے مشکل زندگی (تک جانے) کے لیے سہولت دیں گے۔“
870- ام المومنین سیده ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتی ہیں کہ میں نے دعا کی:
((اللَّهُمَّ أَمْتَعْنِي بِزَوْجِي رَسُولِ اللهِ، وَبِأَبِي أَبِي سُفْيَانَ، وَبِأَخِي مُعَاوِيَةً))
’’اے اللہ! مجھے اپنے خاوند رسول اللہ عا لیہ، اپنے والد سیدنا ابوسفیان اور اپنے بھائی سیدنا معاویہ میں (کی زندگیوں) سے مستفید فرما!‘‘
(راوی حدیث سیدنا عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((قَدْ سَأَلْتِ اللهَ لِآجَالٍ مَضْرُوبَةٍ، وَأَيَّامٍ مَعْدُودَةٍ، وَأَرْزَاقٍ مَقْسُومَةٍ، لَنْ يُّعْجِلَ شَيْئًا قَبْلَ حِلَّهِ، أَوْ يُؤَخِّرَ شَيْئًا عَنْ حِلِّهِ، وَلَوْ كُنْتِ سَأَلْتِ اللهَ أَنْ يُعِيذَكِ مِنْ عَذَابٍ في النَّارِ، أَوْ عَذَابٍ فِي الْقَبْرِ، كَانَ خَيْرًا وَأَفْضَلَ)) أخرجه مسلم:2663)
’’تم نے اللہ رب العزت سے عمروں کی ایسی مدتوں کا، جو مقرر کر دی گئی ہیں اور ان دنوں کا، جو گنے جاچکے ہیں اور ایسے رزق کا، جو بانٹے جاچکے ہیں، سوال کیا ہے۔ وہ کسی بھی چیز کو اس کے مقررہ وقت سے پہلے اور کسی بھی چیز کو اس کے مقررہ وقت کے بعد ہرگز رونما نہیں کرتا۔ اگر تم اللہ تعالٰی سے یہ مانگتی کہ تمھیں آگ میں دیے جانے والے یا قبر میں دیے جانے والے عذاب سے پناہ عطا فرما دے تو یہ زیادہ اچھا اور زیادہ افضل ہوتا۔‘‘
871۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ہمراہ غزوہ بنو مصطلق کے لیے روانہ ہوئے تو ہمیں عرب کے چند قیدی ہاتھ لگے۔ چونکہ عورتوں سے الگ رہنا ہم پر گراں ہو گیا تھا، اس لیے ہمیں عورتوں سے ملنے کی خواہش ہوئی اور ہم نے ان سے عزل کرنا چاہا تو ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا۔
آپﷺ نے فرمایا:
((مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا وَهِيَ كَائِنَةٌ) (أخرجه البخاري: 2229، 2542، 5210، ومُسْلِمٌ: 1438)
’’اگر تم ایسا نہ کرو تو؟ کیونکہ کوئی بھی جان جو قیامت تک پیدا ہونے والی ہے، وہ پیدا ہو کر رہے گی۔‘‘
872۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((الْعَيْنُ حَقٌّ، وَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ، وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا)) (أخرجه مسلم:2188)
’’نظر کا لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے سکتی تو وہ نظر ہوتی، اور جب (نظر بد کے علاج کے لیے) تمھیں اعضائے وضو دھونے کے لیے کہا جائے تو تم دھو دو۔‘‘
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ نظر لگ جانا برحق ہے لیکن یہ بھی اس کو لگتی ہے جس کے مقدر میں ہو۔ نظر اتارنے کا ایک طریقہ حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس کی نظر لگ جائے اور اس کے بارے میں صریح علم ہو کہ فلاں شخص کی نظر لگی ہے تو اس آدمی سے کہا جائے کہ وہ کسی برتن میں وضو کرے اور وضو کے اعضاء سے گرنے والا پانی اس آدمی پر ڈالا جائے جے نظر لگی ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ، الطب،: 3509)
873۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
((سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ يُكَذِّبُونَ بِالْقَدَرِ)) (أخرجه أحمد:5638، وأبو داود: 4613، والحاكم: 84/1)
’’عنقریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو تقدیر کو جھٹلائیں گے۔‘‘
874۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو لوگ تقدیر کے حوالے۔ سے بحث مباحثہ کر رہے تھے، یہ دیکھ کر آپﷺ کا چہرہ مبارک غصے سے اس قدر سرخ ہو گیا، گویا اس پر انار کے دانے نچوڑ دیے گئے ہیں، تب آپﷺ نے فرمایا:
((مَا لَكُمْ تَضْرِبُونَ كِتَابَ اللهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ بِهٰذَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ)) (أخرجه أحمد: 6668، وابن ماجه: 85)
’’تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی کتاب میں تضاد پیدا کر رہے ہو؟ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے۔‘‘
875۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین قریش تقدیر کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے بحث کرنے کے لیے آئے، اس وقت (یہ آیت) نازل ہوئی:
﴿یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ ؕ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ﴾ (أخرجه مسلم:2656)
’’جس دن وہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے، (کہا جائے گا: ) دوزخ کا عذاب چکھو، بے شک ہم نے ہر چیز کو (طے شدہ) مقدار کے مطابق بنایا ہے۔‘‘ (القمر54: 48،49)
876۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((إذا ذُكِرَ الْقَدَرُ فَأَمْسِكُوا)) (أخرجه الطبراني في الكبير:10448)
’’جب تقدیر کی بات ہو تو ( بحث مباحثے سے) رک جاؤ۔‘‘
توضیح و فوائد: تقدیر کے بارے میں قرآن وسنت سے جس قدر معلومات ہوں، ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے، اس میں بے جا بحث و مباحثہ کرنا غلط، لا حاصل اور تقدیر کو جھٹلانا حرام ہے۔