تقوی اور متقین
اہم عناصرِ خطبہ :
01. تقوی کی اہمیت
02. تقوی کی حقیقت
03. متقین کی صفات
04. تقوی کے فوائد وثمرات
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ’’ تقوی ‘‘ ہے ۔ سب سے پہلے ہم اس کی اہمیت ذکر کریں گے ۔ پھر ’تقوی ‘ کے بارے میں بتائیں گے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ بعد ازاں متقین کی صفات اور تقوی کے فوائدو ثمرات کا تذکرہ کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
تقوی کی اہمیت:
01. خطبۂ مسنونہ میں تین آیات کی تلاوت :
آپ حضرات کو معلوم ہونا چاہئے کہ امام الانبیاء جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبۂ حاجت میں تین آیات کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ روایت کرتے ہیں ۔ سنن النسائی : 1404۔ وصححہ الألبانی
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی ضرورت کے وقت جو خطبہ ارشاد فرماتے تھے اس میں ان تین آیات کی تلاوت ضرور کرتے تھے ۔
اور ان تینوں آیات کریمہ کی ابتداء میں اللہ تعالی نے ’تقوی ‘ کا حکم دیا ہے ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ’ تقوی ‘ کی بڑی اہمیت ہے ۔ ان تینوں آیات میں کیا ہے ؟ سنئے !
پہلی آیت میں ایمان والوں کو مخاطب کر کے فرمایا :﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾ آل عمران3 :102
’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالی سے اس طرح ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے ۔ اور تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو ۔ ‘‘
دوسری آیت میں عام لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا : ﴿ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآء ً﴾
’’ اے لوگو ! تم اپنے اس رب سے ڈرتے رہو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں میں سے بہت سے مرودوں اور عورتوں کو پھیلا دیا ۔‘‘
اسی آیت میں دوبارہ ارشاد فرمایا :
﴿وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾ النساء4 :1
’’اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو ۔ اور قریبی رشتہ داروں کے معاملے میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بے شک اللہ تعالی تم پر نگران ہے ۔ ‘‘
تیسری آیت میں اہل ِ ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا :
﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا﴾
’’ اے ایمان والو ! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور بات سیدھی کیا کرو ۔ ‘‘
اللہ ! اِس سے کیا فائدہ ہوگا ؟ فرمایا :
﴿ یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ﴾ الأحزاب 33: 70 ۔71
’’ وہ تمھارے اعمال کو درست کردے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا ۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی حاصل کرلی ۔ ‘‘
ان آیات مبارکہ میں جس طرح اللہ تعالی نے بار بار تمام لوگوں کو ، خاص طور پر مومنوں کو تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں آیات کی تلاوت ہر خطبۂ حاجت میں فرمایا کرتے تھے ، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں ’تقوی ‘ کی قدر ومنزلت بڑی عظیم ہے اور اس کا درجہ بہت بلند ہے ۔
اسی لئے اللہ تعالی نے اگلے پچھلے تمام لوگوں کو خاص طور پر ’تقوی ‘ کی وصیت فرمائی ۔
02. اگلے پچھلے لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف سے تقوی کی وصیت
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ اِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ﴾ النساء4 :131
’’اور تم سے پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہم نے انھیں بھی تاکیدی حکم دیا اور تمھیں بھی یہی تاکیدی حکم ہے کہ تم سب اللہ سے ڈرتے رہو ۔ ‘‘
اور اسی لئے تقوی تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کا محور تھا ۔
03. تقوی انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کا محور
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مختلف انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ ذکر فرمایا ہے ۔
٭ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :
﴿ کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ نِ الْمُرْسَلِیْنَ ٭ اِِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ٭ اِِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ٭ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭ وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِِنْ اَجْرِیَ اِِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ٭ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ الشعراء26 :105 109-
’’ قوم نوح نے رسولوں کو جھٹلا دیا تھا ۔ جبکہ ان کے بھائی نوح ( علیہ السلام ) نے انھیں کہا : کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمھارے لئے ایک امین رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ میں تم سے اس پر کوئی صلہ نہیں مانگتا ۔ میرا صلہ تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے ۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
٭ اور حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :
﴿ کَذَّبَتْ عَادُ نِ الْمُرْسَلِیْنَ ٭ اِِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ ہُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ٭ اِِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ٭ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ الشعراء26 :123 126-
’’ قوم عاد نے رسولوں کو جھٹلا دیا تھا ۔ جبکہ ان کے بھائی ہود ( علیہ السلام ) نے انھیں کہا : کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمھارے لئے ایک امین رسول ہوں ۔لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
٭ اور حضرت صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :
﴿ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَ ٭ اِِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ٭اِِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ٭ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ﴾ الشعراء26 :141 144-
’’ قوم ثمود نے رسولوں کو جھٹلا دیا تھا ۔ جبکہ ان کے بھائی صالح( علیہ السلام ) نے انھیں کہا : کیا تم ڈرتے نہیں ؟
میں تمھارے لئے ایک امین رسول ہوں ۔لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
٭ اور حضرت لوط علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :
﴿کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطِ نِ الْمُرْسَلِیْنَ ٭ اِِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ٭ اِِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ٭ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ﴾ الشعراء26 : 160 ۔163
’’ قوم لوط نے رسولوں کو جھٹلا دیا تھا ۔ جبکہ ان کے بھائی لوط( علیہ السلام ) نے انھیں کہا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمھارے لئے ایک امین رسول ہوں ۔لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
٭اور حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :
﴿ کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْئَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ ٭ اِِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ٭ اِِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ الشعراء26 :176 ۔179
’’ اصحاب الایکہ ( اصحاب مدین ) نے بھی رسولوں کو جھٹلا دیا تھا ۔ جبکہ ان سے شعیب( علیہ السلام ) نے کہا : کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمھارے لئے ایک امین رسول ہوں ۔لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
٭ اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا :
﴿ وَلَمَّا جَآئَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَلِاُبَیِّنَ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ الزخرف43:63
’’ اور جب عیسی ( علیہ السلام ) صریح نشانیاں لے کر آئے تو کہا : میں تمھارے پاس حکمت لایا ہوں اور اس لئے کہ تم پر بعض وہ باتیں واضح کردوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ ‘‘
یہ چند آیات تو پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کے بارے میں تھیں ، جن کے ذریعے ہم نے ثابت کیا ہے کہ ان حضرات کی دعوت کا محور ’’ تقوی ‘‘ تھا ۔
04. جہاں تک امام الانبیاء جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دعوت وتبلیغ اور وعظ ونصیحت میں ’تقوی ‘ کو بڑی اہمیت دیتے تھے ۔
a اللہ تعالی نے قرآن مجید کی پہلی سورت میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت فرمایا :
﴿ اَرَئَیْتَ اِِنْ کَانَ عَلٰی الْہُدٰٓی ٭ اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰی ﴾ العلق96 :11۔12
’’آپ کا کیا خیال ہے ، اگرچہ وہ بندہ ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سیدھی راہ پر ہے اور تقوی کا حکم دیتا ہے ۔ ‘‘
گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جن امور کو اپنی دعوت میں سر فہرست رکھا ان میں سے ایک امر ’ تقوی ‘ تھا۔
02. اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیتوں میں بھی ایک وصیت ’تقوی ‘کے بارے میں فرمائی ۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
((صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم الصُّبْحَ،فَوَعَظَنَا مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً،ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ، وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ،فَقُلْنَا:کَأَنَّہَا مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا،فَقَالَ:أُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ ۔۔۔)) سنن أبی داؤد :4607، جامع الترمذی :2676، سنن ابن ماجہ : 42۔ وصححہ الألبانی
’’ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی ، پھر ہمیں ایسی موثر نصیحت فرمائی کہ جس سے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دلوں میں دہشت پیدا ہونے لگی ۔ چنانچہ ہم نے گزارش کی کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ الوداع کہنے والے شخص کی نصیحت ہے تو آپ ہمیں وصیت کریں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا ۔۔۔۔‘‘
03. اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر بھی کہ جس کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آگئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے جم غفیر کو جو وصیت فرمائی اس میں سب سے پہلی بات یہی تھی کہ ’’تم اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا ۔ ‘‘
جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے دوران اپنی اونٹنی (الجدعاء ) پر بیٹھے ہوئے یوم النحر کو منیٰ میں خطبہ ارشاد فرما یا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کجاوے کی رکاب میں اپنے پاؤں رکھ کر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے بلند آواز سے فرمایا :
(أَ لَا تَسْمَعُوْنَ ) کیا تم سنتے نہیں ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا :
( أَ لَا لَعَلَّکُمْ لَا تَرَوْنِیْ بَعْدَ عَامِکُمْ ہٰذَا ) ’’شاید تم مجھے آئندہ سال نہ دیکھ سکو ۔‘‘
ایک آدمی جو سب سے پیچھے کھڑا تھا ، کہنے لگا : تو آپ ہمیں کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اِتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ ، وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ ، وَصُوْمُوْا شَہْرَکُمْ ، وَأَدُّوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ ، وَأَطِیْعُوْا ذَا أَمْرِکُمْ، تَدْخُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ ) مسند أحمد:486/36 :22161 و22258و22260 ( الأرناؤط) ،جامع الترمذی : 616 :حسن صحیح ،سنن أبی داؤد (مختصرا):1955۔وصححہ الألبانی فی صحیح سنن الترمذی وسنن ابی داؤد والسلسلۃ الصحیحۃ برقم :867
’’ تم اللہ سے ڈرتے رہنا جو کہ تمھارا رب ہے ۔ اور پانچوں نمازیں ادا کرتے رہنا ۔ اور اپنے مالوں کی زکاۃ دیتے رہنا ۔نیز اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرتے رہنا۔اس طرح تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔‘‘
04. اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض ساتھیوں کو بھی خصوصی طور پر ’ تقوی ‘ ہی کی وصیت فرماتے تھے ۔
چنانچہ جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مَن یَّأْخُذُ عَنِّی ہٰؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ فَیَعْمَلُ بِہِنَّ أَوْ یُعَلِّمُ مَن یَّعْمَلُ بِہِنَّ ؟ )
’’ کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھے ، پھر ان پر عمل کرے یا اس شخص کو سکھلائے جو ان پر عمل کرے ؟ ‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر پانچ باتیں شمار کیں ۔ فرمایا :
01. ( اِتَّقِ الْمَحَارِمَ تَکُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ )
’’ تم حرام کاموں سے بچتے رہنا ، اس طرح تم لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے ۔ ‘‘
02. ( وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللّٰہُ لَکَ تَکُنْ أَغْنَی النَّاسِ )
’’ اور اس رزق پر راضی ہو جانا جسے اللہ تعالی تمھاری قسمت میں کردے ، اس طرح تم لوگوں میں سب سے زیادہ مالدار بن جاؤ گے ۔ ‘‘
03. ( وَأَحْسِنْ إِلٰی جَارِکَ تَکُنْ مُؤْمِنًا )
’’ اور اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرتے رہنا ، تم سچے مومن بن جاؤ گے ۔ ‘‘
04. ( وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکُنْ مُسْلِمًا )
’’ اور تم لوگوں کیلئے بھی وہی چیز پسند کرنا جسے اپنے لئے پسند کرتے ہو ، تم سچے مسلمان بن جاؤ گے ۔ ‘‘
05. ( وَلَا تُکْثِرِ الضَّحِکَ فَإِنَّ کَثْرَۃَ الضَّحِکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ ) جامع الترمذی :2305۔ وحسنہ الألبانی
’’ اور زیادہ مت ہنسنا ، کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کر دیتی ہے ۔ ‘‘
اسی طرح جناب ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر مجھے ارشاد فرمایا :
( اِتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُمَا کُنْتَ ، وَأَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُہَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ ) جامع الترمذی :1987۔ وحسنہ الألبانی
’’ تم جہاں کہیں بھی ہو ، اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا ۔ اور برائی کے بعد نیکی کرنا جو اسے مٹا دے گی ۔ اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ میل جول ر کھنا ۔ ‘‘
05. ’تقوی ‘کی اسی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے یہ دعا فرمایا کرتے تھے :
( اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا ، أَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا ) صحیح مسلم :2722
’’ اے اللہ ! تو میرے نفس کو اس کا تقوی نصیب کر ۔ اور اسے پاک کردے ، تو ہی اسے بہترین پاک کرنے والا ہے ۔ تو ہی اس کا دوست اور اس کا سرپرست ہے ۔ ‘‘
06. تقوی بہترین لباس ہے
جی ہاں ، لباس اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اور بہترین لباس ’ تقوی ‘ ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَ رِیْشًا وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ﴾ الأعراف7 :26
’’ اے آدم کی اولاد ! ہم نے تمھارے لئے لباس اتارا جو تمھاری شرمگاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے ۔ اور تقوی کا لباس اُس سے بہتر ہے ۔ ‘‘
07. تقوی بہترین زاد ِ راہ ہے
ہر مسافر اپنے لئے زاد ِ راہ ( سفر خرچ ) اپنے ساتھ لے لیا کرتا ہے ۔ اور ہم میں سے ہر شخص آخرت کی طرف سفر کر رہا ہے ۔ اور آخرت کے مسافر کیلئے بہترین زاد ِ راہ ( سفر خرچ )تقوی ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَ اتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ ﴾ الأعراف7 :26
’’ اور تم سفر خرچ لے لیا کرو ۔ سب سے بہتر سفر خرچ تقوی ہے ۔ اور اے عقلمندو ! مجھ سے ڈرتے رہا کرو ۔ ‘‘
اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے !
وَلَسْتُ أَرَی السَّعَادَۃَ جَمْعَ مَالٍ وَلٰکِنَّ التَّقِیَّ ہُوَ السَّعِیْدُ
وَتَقْوَی اللّٰہِ خَیْرُ الزَّادِ ذُخْرًا وَعِنْدَ اللّٰہِ لِلْأَتْقَی مَزِیْدُ
’’ میں نہیں سمجھتا کہ خوش نصیبی مال جمع کرنے میں ہے ۔ بلکہ متقی ہی در حقیقت خوش نصیب ہے ۔ اور اللہ کا تقوی ذخیرہ کرنے کیلئے بہترین زاد راہ ہے ۔ اور اللہ کے ہاں متقی کیلئے مزید بہت کچھ ہے ۔ ‘‘
08. متقین ہی اولیاء اللہ ہیں
’ تقوی ‘ اس قدر اہم ہے کہ جس شخص میں یہ ہو وہ متقی اور پرہیزگار ہوتا ہے ۔ اور ہر متقی وپرہیزگار اللہ تعالی کا دوست ہوتاہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ٭ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ ﴾ یونس10 :62 ۔63
’’یاد رکھو ! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جو (برائیوں ) سے پرہیز کرتے ہیں ۔ ‘‘
09. متقی ہی اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ عزت واکرام کے لائق ہے
اللہ تعالی کے نزدیک ’تقوی ‘کی اتنی اہمیت ہے کہ جس شخص میں زیادہ تقوی ہو اور جو زیادہ متقی ،پرہیزگار ہو ، چاہے وہ کسی رنگ ونسل کا ہو ، وہ اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت واکرام کے لائق ہوتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾ الحجرات49 : 13
’’ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو ۔ ‘‘
حقیقت ِ تقوی
عزیزان گرامی ! قرآن وحدیث کی روشنی میں تقوی کی اہمیت واضح ہونے کے بعد اب آپ میں سے ہر شخص یہ جاننا چاہتا ہوگا کہ ’ تقوی ‘ کہتے کسے ہیں ؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ تو آئیے اس کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں ۔
لفظ ’ تقوی ‘ ’وقایہ ‘سے ہے جس کا معنی ہے : بچنا ، پرہیزکرنا اور جس چیز سے انسان کو خطرہ لاحق ہو اس کے اور اپنے درمیان حائل و فاصل اور رکاوٹ کھڑی کرنا ۔ یعنی اپنے اور گناہوں کے درمیان اللہ کے خوف کو حفاظتی دیوار کے طور پر کھڑا کرنا ۔
شاعر کہتا ہے :
خَلِّ الذُّنُوبَ صَغِیْرَہَا وَکَبِیْرَہَا فَہُوَ التُّقٰی
وَاصْنَعْ کَمَاشٍ فَوْقَ أَرْضِ الشَّوْکِ یَحْذَرُ مَا یَرَی
’’تم چھوٹے ،بڑے گناہوں سے بچو ، یہی تقوی ہے ۔ اور اُس طرح احتیاط کرو جیسا کہ کانٹوں والی زمین پر
چلنے والا شخص اپنے قدم پھونک پھونک کر اٹھاتا ہے ۔ ‘‘
گویا ’تقوی ‘ سے مراد اپنے پورے جسم کو اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچانا اور برائیوں سے پرہیز کرنا ہے ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
’’ جو شخص اللہ تعالی سے ڈرنا اور اس کے عذاب سے بچنا چاہتا ہو تو وہ اپنے پانچ اعضاء کا خاص طور پر خیال رکھے : آنکھ ، کان ، زبان ، دل اور پیٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب ان پانچ اعضاء کی ( گناہوں سے ) حفاظت ہو جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے باقی اعضاء کی بھی حفاظت کرلے گا ۔ اور تب وہ جامع تقوی کا حامل ہو گا ۔ ‘‘
اور سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ( مَنْ أَرَادَ أَنْ تَصِحَّ لَہُ التَّقْوَی فَلْیَتْرُکِ الذُّنُوبَ کُلَّہَا )
’’ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ وہ صحیح معنوں میں متقی بن جائے تو وہ تمام گناہوں کو ترک کردے ۔ ‘‘
اور جب ہم قرآن مجید میں متقین کی صفات پر غور کرتے ہیں ، جنھیں ہم تھوڑی دیر میں ذکر کریں گے ( ان شائٔ اللہ ) تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ’ تقوی ‘ ایک جامع لفظ ہے ۔ جس کا مطلب ہے اللہ تعالی کے تمام احکام واوامر پر عمل کرنا ، تمام محرمات ونواہی سے بچنا اور پورے دین پر عمل کرنا ۔
اسی لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:( اَلتَّقْوَی ہِیَ الْخَوْفُ مِنَ الْجَلِیْلِ،وَالْعَمَلُ بِالتَّنْزِیْلِ، وَالْاِسْتِعْدَادُ لِیَوْمِ الرَّحِیْلِ ، وَالْقَنَاعَۃُ بِالْقَلِیْلِ)
’’ تقوی کا معنی ہے : اللہ تعالی سے ڈرنا ، قرآن وسنت پر عمل کرنا ، کُوچ کے دن کیلئے تیاری کرنا اور کم رزق پر قناعت کرنا ۔ ‘‘
اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے فرمان ﴿اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ﴾ کے بارے میں فرماتے ہیں :
( أَن یُّطَاعَ فَلَا یُعْصٰی ، وَیُذْکَرَ فَلَا یُنْسٰی ، وَیُشْکَرَ فَلَا یُکْفَر )
’’ اللہ تعالی سے کما حقہ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے اور نافرمانی نہ کی جائے ۔ اسے یاد رکھا جائے اور بھلایا نہ جائے ۔ اس کا شکر ادا کیا جائے اور نا شکری نہ کی جائے ۔ ‘‘
برادران اسلام ! تقوی کے بارے میں اِس پوری وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’تقوی ‘در حقیقت اللہ تعالی کے اُس خوف کا نام ہے جو انسان کو برائیوں اور گناہوں سے بچنے پر آمادہ کرے ۔ چاہے وہ لوگوں کے سامنے ہو یا لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو ۔ بلکہ حقیقی تقوی یہ ہے کہ جب ایک آدمی خلوت میں ہو ، اسے کوئی شخص دیکھنے والا نہ ہو ۔ شیطان اس کیلئے برائی کو مزین کرے اور اسے اس کے ارتکاب پر آمادہ کرے ۔ اوراس کیلئے ایسا ماحول بنائے کہ اسے کسی قسم کا خوف وخطر لاحق نہ ہو اور وہ اطمینان سے برائی کا ارتکاب کر سکتا ہو ، ایسے میں اگر وہ اللہ
تعالی سے ڈر کر برائی کا ارتکاب نہ کرے تو وہ آدمی حقیقت میں تقوی والا ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی وَہَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِیَائً وَّذِکراً لِّلْمُتَّقِیْنَ ٭الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُم بِالْغَیْْبِ وَہُم مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُونَ﴾ الأنبیاء21 :48۔49
’’یہ بالکل سچ ہے کہ ہم نے موسی ( علیہ السلام ) اور ہارون ( علیہ السلام ) کو ایسی کتاب دی جو ( حق وباطل ) میں فرق کرنے والی ، روشنی پھیلانے والی اور ان پرہیزگاروں کیلئے نصیحت والی ہے جو اپنے رب سے خلوتوں میں خوف کھاتے ہیں اور قیامت ( کے تصور ) سے کانپتے ہیں ۔ ‘‘
سامعین کرام ! آپ ان آیات میں غور کریں کہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کو متقی قرار دیا ہے جو اپنی خلوتوں میں اپنے خالق ومالک رب تعالی سے ڈرتے رہتے ہیں ۔
اور اسی قسم کے لوگوں کے متعلق اللہ تعالی ار شاد فرماتا ہے :
﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ ﴾ الملک67 :12
’’ بے شک وہ لوگ جو اپنے رب سے غائبانہ طور پر( یا خلوتوں میں ) ڈرتے رہتے ہیں ان کیلئے بخشش اور بہت بڑا اجر ہے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا :
﴿إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمَن بِالْغَیْْبِ فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَأَجْرٍ کَرِیْمٍ﴾ یس36 :11
’’بس آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی اتباع کرے اور رحمٰن سے خلوتوں میں ڈرے ، لہٰذا آپ اس کو مغفرت اور باوقار اجر کی بشارت دیجئے ۔ ‘‘
لہٰذا جلوت وخلوت دونوں میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا چاہئے اور ہر حال میں اس کی نافرمانی سے اپنے دامن کو بچانا چاہئے ۔ یہی تقوی ہے ۔
شاعر کہتا ہے :
إِذَا مَا خَلَوْتَ الدَّہْرَ یَوْمًا فَلَا تَقُلْ خَلَوْتُ وَلٰکِنْ قُلْ عَلَیَّ رَقِیْبُ
’’ تم زندگی میں جب کبھی خلوت میں جاؤ تو یہ نہ کہو کہ میں خلوت میں ہوں ( اور جو مرضی کروں ) بلکہ یہ کہو کہ یہاں خلوت میں بھی میری نگرانی کرنے والا ( اللہ تعالی ) موجود ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالی ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے : ﴿ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ
الْہَوٰی ٭ فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی﴾ النازعات79 :40 ۔41
’’ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اپنے نفس کو خواہش ( کی پیروی کرنے ) سے روکتارہا تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے ۔ ‘‘
اور ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ ٭ ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیْظٍ ٭ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبٍ ٭ أُدْخُلُوْہَا بِسَلاَمٍ ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ ٭ لَہُمْ مَّا یَشَآؤُوْنَ فِیْہَاوَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ ﴾ ق50 : 31۔35
’’ اور جنت پرہیزگاروں کیلئے بالکل قریب کردی جائے گی، ذرا بھی دور نہ ہو گی ۔ ( اور کہا جائے گا : ) یہ ہے وہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ، ہر اس شخص کیلئے جو ( اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا ، پابندی کرنے والا ہو ، جو رحمان کا خلوت میں خوف رکھتا ہو اور توجہ والا دل لایا ہو ۔ تم اس جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ ۔ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ یہ وہاں جو چاہیں گے انھیں ملے گا (بلکہ ) ہمارے پاس اور بھی زیادہ ہے ۔ ‘‘
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو لوگوں کے سامنے تو تقوی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں لیکن خلوت میں وہ برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں تو انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ خلوت میں برائیوں کا ارتکاب ان کی نیکیوں کیلئے انتہائی تباہ کن ہے ۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِی یَأْتُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالَ جِبَالِ تِہَامَۃَ بَیْضًا ، فَیَجْعَلُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہَبَائً مَّنْثُوْرًا )
’’ میں یقینا اپنی امت کے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے روز ایسی نیکیاں لے کر آئیں گے جو تہامہ کے پہاڑوں کی مانند روشن ہو نگی لیکن اللہ تعالی ان کی ان نیکیوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ذرات کی مانند اڑا دے گا ۔‘‘
(صِفْہُمْ لَنَا،جَلِّہِمْ لَنَا ، أَن لَّا نَکُوْنَ مِنْہُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ )
ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ ان لوگوں کے بارے میں وضاحت کر دیجئے اور ان کے بارے میں کھل کر بیان کر دیجئے تاکہ ہم لا علمی میں ایسے لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(أَمَا إِنَّہُمْ إِخْوَانُکُمْ وَمِنْ جِلْدَتِکُم،وَیَأْخُذُوْنَ مِنَ اللَّیْلِ کَمَا تَأْخُذُوْنَ ، وَلٰکِنَّہُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللّٰہِ انْتَہَکُوْہَا) سنن ابن ماجہ:4245۔ وصححہ الألبانی فی صحیح سنن ابن ماجہ والصحیحۃ :505
’’ خبر دار ! وہ تمہارے بھائی اور تمہاری قوم سے ہی ہونگے ۔ اور وہ رات کو اسی طرح قیام کریں گے جیسا کہ تم کرتے ہو لیکن وہ ایسے لوگ ہونگے کہ جب خلوت میں انھیں اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزیں ملیں گی تو وہ ان سے اپنا دامن نہیں بچائیں گے ۔ ‘‘
لہٰذا جو شخص اپنی نیکیوں کی حفاظت کرنا چاہتا ہو ، تو اس پر لازم ہے کہ وہ جلوت وخلوت دونوں میں اللہ تعالی سے ڈرے اور ہر حال میں برائیوں سے پرہیز کرے ۔
متقین کی صفات
عزیزان گرامی ! اللہ تعالی نے قرآن مجید کی متعدد آیات کریمہ میں متقی اور پرہیز گار لوگوں کی صفات ذکر کی ہیں ۔ ہم اختصار کے ساتھ ان صفات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
٭ اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ﴾
’’یہ کتاب ( قرآن مجید ) ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور اس میں متقین کیلئے ہدایت ہے ۔ ‘‘
پھر اللہ تعالی نے ان کی پانچ صفات ذکر کی ہیں :
01.﴿الَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ﴾ ’’وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔‘‘ مثلا اللہ تعالی پر ، اللہ کے فرشتوں پر اور اللہ کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔
02. ﴿ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ﴾ ’’ نماز قائم کرتے ہیں۔‘‘ یعنی تمام نمازیں پابندی کے ساتھ ار کان وشروط اور آداب سمیت ادا کرتے ہیں ۔
03.﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ﴾’’ اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔‘‘
یعنی اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ۔
04. ﴿ وَ الَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ﴾ ’’ وہ اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل کی گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی ۔‘‘ یعنی قرآن مجید پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس سے پہلے دیگر آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر بھی ایمان لاتے ہیں ۔
05.﴿ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾’’ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔‘‘ یعنی انھیں اس بات پر یقین کامل
ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، دنیا ختم ہونے والی ہے ، قیامت کادن قائم ہوگا ، جس میں اللہ تعالی اول وآخر تمام انسانوں کے متعلق فیصلہ فرمائے گا ۔ اُس دن دو ہی ٹھکانے ہونگے : جنت وجہنم ۔ اپنے فرمانبردار بندوں کو اللہ تعالی جنت میں اور نافرمانوں کو جہنم میں داخل کرے گا ۔
جن لوگوں میں یہ پانچوں صفات پائی جاتی ہوں ، ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا :
﴿اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :2 ۔5
’’ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ( نازل شدہ ) ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ ‘‘
٭ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :177
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے آگاہ فرمایا ہے کہ ’نیکی ‘صرف اس بات کانام نہیں کہ تم مشرق ومغرب کی طرف منہ پھیر لو ۔ بلکہ ’ نیکی ‘ چند اہم اعمال واوصاف کا نام ہے ۔ اور یہ اُس وقت ارشاد فرمایا تھا جب یہود ونصاری نے تحویل قبلہ کے موضوع کو مستقل بحث ونزاع کا ذریعہ بنا لیا تھا ۔
پھر اللہ تعالی نے ’ نیکی ‘ کی وضاحت فرمائی اور اس کی متعدد صورتوں کو بیان فرمایا ، اسکے بعدآیت کے آخر میں اللہ تعالی نے ’ نیکی ‘ کے ان اعمال کے کرنے والوں کو سچے مومن اور متقین قرار دیا ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اعمال متقین کے اوصاف ہیں ۔ وہ اوصاف کیا ہیں ، آئیے سنئے !
01. ﴿وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ﴾ ’’ اور نیکی یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر ، آخرت کے دن پر ، فرشتوں پر ، کتاب پر اور نبیوں پر ایمان لائے ۔۔۔‘‘
یعنی ’اصل نیکی‘ ان پانچ چیزوں پر ایمان لانا ہے ۔ اللہ پر ، آخرت کے دن پر ، فرشتوں پر ، کتاب ( قرآن مجید ) پر اور انبیاء علیہم السلام پر ۔یہ متقین کی پہلی صفت ہے ۔
02. ﴿ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ﴾ ’’ اور مال کی محبت کے باوجود اسے خرچ کرے رشتہ داروں پر ، یتیموں پر ، مسکینوں پر ، مسافر پر ، مانگنے
والوں پر اور غلاموں کو آزاد کرانے میں ۔‘‘
یعنی ’اصل نیکی ‘ کی دوسری صورت مال سے محبت کے باوجود اسے فی سبیل اللہ خرچ کرنا ہے ۔پھر فی سبیل اللہ خرچ کی متعدد شکلیں بیان کردیں ۔ رشتہ داروں پر خرچ کرنا ، یتیموں پر خرچ کرنا ، مسکینوں پر خرچ کرنا ، مسافروں پر خرچ کرنا ، مانگنے والوں پر خرچ کرنا اور غلاموں کو غلامی سے رہائی دلوانے میں خرچ کرنا ۔یہ متقین کی دوسری صفت ہے ۔
03. ﴿ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ ﴾ ’’ اور نماز قائم کرے ۔ ‘‘ یہ متقین کی تیسری صفت ہے ۔
04. ﴿وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ﴾ ’’ اور زکاۃ ادا کرے ۔ ‘‘ یہ متقین کی چوتھی صفت ہے ۔
05. ﴿وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ﴾ ’’ اور وہ جب عہد کرلیں تو اپنے عہد کو پورا کریں ۔ ‘‘
یہ متقین کی پانچویں صفت ہے ۔
06. ﴿ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِِ﴾
’’ اور بد حالی ، مصیبت اور جنگ کے دوران صبر کریں ۔ ‘‘ یہ متقین کی چھٹی صفت ہے ۔
یہ تمام صفات ذکر کرنے کے بعد فرمایا :
﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ﴾
’’ یہی لوگ راست باز ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں ۔ ‘‘
اس سے معلوم ہواکہ متقی وہ ہوتے ہیں جو ’ نیکی ‘ کے مذکورہ سارے اعمال واوصاف کو اختیار کرتے ہیں ۔
٭ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ٭الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ٭ وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ٭ اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُھُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ﴾ آل عمران3 :133 ۔136
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے اہل ِ ایمان ! تم اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جلدی کرو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ۔ اور اسے متقین کیلئے تیار کیا گیا ہے ۔ متقین کون
ہوتے ہیں ، ان کی صفات کیا ہیں ؟ فرمایا :
01. ﴿اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ ﴾
’’ جو خوشحالی اور تنگدستی ( دونوں حالتوں ) میں خرچ کرتے ہیں ۔ ‘‘
02. ﴿ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ﴾ ’’ اور غصہ کو پی جاتے ہیں ۔ ‘‘
03. ﴿وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ﴾ ’’ اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ۔ ‘‘
یہ تینوں صفات ذکر کرنے کے بعد فرمایا :
﴿وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’ اور اللہ تعالی ایسے ہی نیک لوگوں سے محبت رکھتا ہے ۔ ‘‘
04. ﴿ وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ﴾
’’ اور جو ایسے لوگ ہیں کہ جب ان سے کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فورا انھیں اللہ یاد آجاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں ۔ ‘‘
اِس کے ساتھ ہی فرمایا : ﴿ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ﴾ ’’ اور کون ہے جو اللہ کے سوا گناہ معاف کر سکے ؟ ‘‘ یعنی اس کے سوا کوئی نہیں جو گناہ معاف کر سکے ، لہٰذا اسی سے گناہگاروں کو اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہئے ۔
05. ﴿وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ ﴾
’’ اور وہ جان بوجھ کر اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۔ ‘‘ بلکہ جن گناہوں کی معافی مانگتے ہیں تو دوبارہ دانستہ طور پر ان گناہوں کے قریب نہیں جاتے ۔
ان تمام صفات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا :
﴿اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُھُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ﴾ ’’ ایسے لوگوں کی جزاء ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ یہ ( اچھے ) عمل کرنے والوں کا اچھا بدلہ ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو متقی اور پرہیزگار بنائے ۔ اور ہمیں حقیقی تقوی نصیب فرمائے ۔
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! تقوی کی اہمیت ، اس کی حقیقت اور متقین کی صفات معلوم کرنے کے بعد آئیے اب تقوی کے فوائد وثمرات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
تقوی کے فوائد وثمرات
محترم حضرات ! تقوی کے فوائد وثمرات بہت زیادہ ہیں ۔ ان میں سے چند ضروری فوائد وثمرات پیش خدمت ہیں :
01. مشکلات سے نکلنے کا راستہ اور رزق میں کشادگی
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا ٭ وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْْثُ لَا یَحْتَسِبُ ﴾ الطلاق65 :2۔3
’’ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کیلئے چھٹکارے کی راہ نکال دیتا ہے اوراسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا ۔‘‘
02. معاملات آسان !
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہُ مِنْ أَمْرِہِ یُسْرًا ﴾ الطلاق65 :4
الطلاق65 :5
’’ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے ہر کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے ۔‘‘
03. گناہوں کی معافی اور بہت بڑا اجر
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئَاتِہِ وَیُعْظِمْ لَہُ أَجْرًا ﴾ الطلاق65 :5
’’ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے اور اسے بہت بڑا اجرعطا کرتاہے ۔‘‘
04. حق وباطل میں فرق کرنے کی توفیق اور گناہوں کی بخشش
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾ الأنفال8 :29
’’ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ تعالی سے ڈرتے رہو تو وہ تمھیں ( نور ِ بصیرت عطا کرکے حق وباطل میں ) فرق کرنے کی توفیق دے گا ، تمھارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمھیں معاف کردے گا ۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ ‘‘
05. اللہ تعالی کی محبت
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ التوبۃ9 :7
’’ بے شک اللہ تعالی پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘
06. اللہ تعالی کا ساتھ اور اس کی مدد
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ﴾ النحل16 :128
’’ بے شک اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جومتقی ہیں اور جو نیک کام کرنے والے ہیں ۔ ‘‘
07. اللہ تعالی کی دوستی
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ المقالۃ الحسنیٰ، (ص5-6’’ اور اللہ تعالی متقی لوگوں کا دوست ہے ۔ ‘‘
08. دنیا وآخرت میں بشارت
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ ٭ لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ ﴾ یونس10 :63 ۔64
’’ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو اللہ تعالی سے ڈرتے تھے ان کیلئے دنیا کی زندگی میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی ۔ ‘‘
09. اعمال کی قبولیت
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ المائدۃ5 :27
’’ اللہ تعالی تو متقی لوگوں سے ہی قبول کرتا ہے ۔ ‘‘
10. عذاب ِ الہٰی سے نجات
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ﴾ النمل27 :53
’’ اور ہم نے ان لوگوں کو ( اپنے عذاب سے ) نجات دی جو ایمان لائے تھے اور جو تقوی کی راہ اختیار کرتے تھے ۔ ‘‘
11. باری تعالی کی رحمت کا استحقاق
اللہ تعالی کافرمان ہے :
﴿ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤمِنُوْنَ ﴾ الأعراف7 :156
’’ اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے ۔ لہٰذا میں اسے ان لوگوں کیلئے لکھ دوں گا جو تقوی کی راہ اختیار کرتے ہیں ، زکاۃ ادا کرتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ۔ ‘‘
12. موت کے وقت جنت کی خوشخبری
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ ٭ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لَھُمْ فِیْھَا مَا یَشَآئُ وْنَ کَذٰلِکَ یَجْزِی اللّٰہُ الْمُتَّقِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوْا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ النحل16 :32-30
’’ اور متقین کا کیا ہی اچھا گھر ہے ! دائمی باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے ۔ ان میں نہریں جاری ہوں گی اور جو کچھ بھی وہ چاہیں گے انھیں ملے گا ۔ اللہ تعالی متقین کو اسی طرح بدلہ دیتا ہے ۔ جو پاک سیرت ہوتے ہیں ، فرشتے ان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو کہتے ہیں : تم پر سلام ہو ، جو اچھے عمل تم کرتے رہے ہو اس کے سبب جنت میں داخل ہوجاؤ ۔ ‘‘
محترم حضرات ! جہاں تک آخرت کا تعلق ہے تو وہ تو ہے ہی صرف متقین کیلئے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَالْاٰخِرَۃُ عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیْنَ ﴾ الزخرف43 :35
’’ اور آخرت تو آپ کے رب کے ہاں صرف متقین کیلئے ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿ تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ﴾ القصص28:83
’’یہ دار آخرت تو ہم ان لوگوں کیلئے مخصوص کردیتے ہیں جو زمین میں بڑائی یا فساد نہیں چاہتے ۔ اور ( بہتر ) انجام تو متقین ہی کیلئے ہے ۔ ‘‘
وہ بہتر انجام کیا ہوگا ؟ اللہ تعالی متقین کو جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل کردیں گے ۔
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ وَ اِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ٭ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ
نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا﴾ مریم19: 71 ۔72
’’ اور تم میں سے کوئی نہیں جس کا جہنم پر گزر نہ ہو ۔ یہ طے شدہ بات ہے جو آپ کے رب کے ذمہ ہے ۔ پھر ہم متقین کو تو نجات دلائیں گے مگر ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا چھوڑیں گے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا :
﴿ وَیُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اتَّقَوا بِمَفَازَتِہِمْ لَا یَمَسُّہُمُ السُّوٓئُ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾ الزمر39: 61
’’اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے رہے انھیں وہ ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا ۔ انھیں نہ تو کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہی وہ غمزدہ ہوں گے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ وَاِِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ ٭ جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُ٭ مُتَّکِئِینَ فِیْہَا یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّشَرَابٍ ٭ وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ٭ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ ٭ اِِنَّ ہٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہٗ مِنْ نَّفَادٍ ﴾ ص38 :49۔ 54
’’ اور حقیقت یہ ہے کہ متقین کیلئے اچھا ٹھکانا ہے ۔ ہمیشہ والے باغات جن کے دروازے ان کیلئے کھلے ہوں گے ۔ وہ ان میں تکیہ لگائے ہوں گے اور بہت سے لذیذ میوے اور شراب طلب کریں گے ۔نیز ان کے پاس نگاہیں جھکائے رکھنے والی ہم عمر بیویاں بھی ہوں گی ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا روز حساب کیلئے تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ۔ بلاشبہ یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا ۔‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿اِِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا ٭ حَدَآئِقَ وَاَعْنَابًا٭ وَکَوَاعِبَ اَتْرَابًا ٭ وَّکَاْسًا دِہَاقًا ٭ لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلاَ کِذّٰبًا ٭ جَزَآئً مِّنْ رَبِّکَ عَطَآئً حِسَابًا ﴾ النبأ78 :31 ۔36
’’ متقین کیلئے یقینا کامیابی ہے ۔ باغات اور انگور ۔ نوجوان اور ہم عمر عورتیں ۔ اور چھلکتے ہوئے جام ۔ وہاں نہ کوئی بیہودہ بات سنیں گے اور نہ جھوٹ ۔ یہ آپ کے رب کی طرف سے بدلہ ہے جو اپنے اپنے اعمال کے حساب سے ملے گا ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِہَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَعْدَ اللّٰہِ لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ ﴾ الزمر39 :20
’’ لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کیلئے بالا خانے ہیں ، جن کے اوپر اور بالاخانے بنے ہیں
اور ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍ ٭ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ٭ یَّلْبَسُوْنَ مِنْ سُنْدُسٍ وَّاِِسْتَبْرَقٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ٭ کَذٰلِکَ وَزَوَّجْنٰہُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ ٭ یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیْنَ ٭ لاَیَذُوْقُوْنَ فِیْہَا الْمَوْتَ اِِلَّا الْمَوْتَۃَ الْاُوْلٰی وَ وَقٰہُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ٭ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکَ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ الدخان44 :51 ۔57
’’ متقین امن کی جگہ میں ہوں گے ۔ باغوں اور چشموں میں ۔ باریک اور گاڑھے ریشم کا لباس پہنے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے ۔ ایسا ہی ہوگا اور ہم انھیں بڑی آنکھوں والی اور گوری عورتیں بیاہ دیں گے ۔ وہ وہاں اطمینان سے ہر قسم کے میوے طلب کریں گے ۔ وہاں وہ موت نہیں چکھیں گے ۔ بس پہلی موت جو دنیا میں آچکی۔ اور اللہ انھیں عذاب جہنم سے بچا لے گا ۔ یہ آپ کے رب کا فضل ہوگا ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔ ‘‘
متقین کو گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا ۔
اللہ تعالی کا فر مان ہے : ﴿ وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا حَتّٰی۔ٓ اِِذَا جَآئُوْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ ٭ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَائُ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ﴾ الزمر39 :73 ۔74
’’ اور جو اپنے رب سے ڈرتے رہے انھیں گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا ، یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھولے جائیں گے تو اس کے داروغے انھیں کہیں گے : تم پر سلامتی ہو ، خوش ہو جاؤ اور ہمیشہ کیلئے جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ وہ کہیں گے : اس اللہ کا شکر ہے جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہمیں اس سرزمین کا وارث بنایا کہ اس جنت میں ہم جہاں چاہیں رہیں ۔ عمل کرنے والوں کیلئے یہ کیسا اچھا اجر ہے ۔ ‘‘
متقین کیلئے ایک نہیں بلکہ دو جنتیں ہونگی ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ ﴾ الرحمٰن55 :46
’’ اور اس شخص کیلئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا دو جنتیں ہیں ۔‘‘
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تقوی نصیب کرے اور ہمیں متقین کی صفات اختیار کرنے کی توفیق دے ۔ اور جنت کے وارثوں میں شامل کرے ۔ کیونکہ اللہ کے بندوں میں سے صرف وہی بندہ جنت کا وارث بنے گا جو متقی ہوگا ۔ فرمایا :﴿ تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا﴾ مریم19 :63
’’ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جو متقی ( پرہیز گار ) ہوں۔ ‘‘
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین