تراویح کی فضیلت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَة رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ۔ (أخرجه البخاري ومسلم).
صحیح بخاری: کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين، باب الترغيب في قيام رمضان)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کرے تو اللہ تعالی اس کے سابقہ گناہ معاف فرما دے گا۔
عَنْ أَبِيْ سَلْمَةَ بْنِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ انَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُوْلِ الله ﷺ فِي رَمَضَانَ قَالَتْ مَا كَانَ رَسُولُ اللهِ يَزِيدُ فِي رَمَضَان وَلَا فِي غِيْرِهِ عَلٰى إِحْدٰى عَشَرَةَ رَكْعَةً يُصلَّى أَرْبَعًا فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلَّى أَرْبَعًا فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلَّى ثَلَاثاً فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ الله أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوَتِرَ، فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنِىْ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِيْ (أخرجه البخاري ومسلم).
(صحیح بخاری: کتاب التهجد، باب قيام النبيﷺ بالليل في رمضان و غيره، صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرين، باب صلاة الليل وعدد ركعات النبيﷺ)
ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہا نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ آپ ﷺ رمضان میں کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے تو ام المومنین نے فرمایا کہ آپ صرف گیارہ رکعت نماز پڑھتے تھے چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان۔ نبی کریمﷺ رات کو چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان کی خوبصورتی اور لمبائی کے بارے میں مت پوچھئے، آپ پھر چار رکعتیں اور پڑھتے اور ان کے حسن اور طول کے بارے میں بھی مت پوچھئے۔ پھر تین رکعت پڑھتے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ وتر کی نماز ادا کرنے سے پہلے سو جاتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! میری آنکھیں ہوتی ہیں پر دل جاگتا رہتا ہے۔
تشریح:
نبی اکرم ﷺ ہمیشہ تہجد کی نماز کا اہتمام کرتے تھے چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان ہو، اس نماز کو رمضان میں تراویح اور غیر رمضان میں تهجد کہتے ہیں اور یہ نفلی نماز ہے لیکن اس کا اہتمام تمام مسلمانوں کو کرنا چاہئے۔ رسول اکرمﷺ اسے صرف تین رات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جماعت کے ساتھ پڑھائی اور پھر اس خدشہ سے چوتھے دن مسجد میں نہیں آئے کہ کہیں یہ نماز فرض نہ کر دی جائے لیکن صحابہ کرام کو اسے پڑھنے کے لئے کہا کہ وہ اسے پڑھیں لہذا کوئی تنہا پڑھ لیتا اور کبھی دو مل کر پڑھ لیتے تو کبھی تین چار لوگ مل کر جماعت سے ادا کر لیتے۔ اور یہی سلسلہ رسول اکرم ﷺ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کےزمانے تک چلتا رہا۔ لیکن جب امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور تراویح کے فرض ہونے کا خدشہ ختم ہو گیا تو انہوں نے اپنے دور خلافت میں اس نماز کو با جماعت ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ لوگ ایک امام کی اقتدا میں اس نماز کو ادا کریں اور ہر ایک کو قرآن مجید سننے کا موقع نصیب ہو اور باجماعت نماز ادا کرنے کا ثواب بھی ملے۔ اور وہیں سے اس تراویح کی نماز کا سلسلہ باجماعت شروع ہو گیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔
تراویح کی نماز کی رکعت کے بارے میں جو صحیح روایت آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپﷺ صرف گیارہ رکعت پڑھتے تھے چاہے رمضان ہو یا غیررمضان۔ اور جن تین راتوں میں آپ کے نے لوگوں کو نماز پڑھائی تھی وہ بھی گیارہ رکعت ہی تھی آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنے کا اہتمام کریں۔
نماز تراویح اگرچہ نفلی نماز ہے لیکن اس کا ثواب بہت ہی زیادہ ہے چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کرے تو اللہ تعالی اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادے گا۔ اس لئے اس نماز کا اہتمام اور اس میں قرآن مجید کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ یہی وہ موقع ہے کہ جس میں ایک آدمی پورے قرآن مجید کو آسانی سے نماز میں سن لیتا ہے اس لئے اگر مسجد میں تراویح پڑھانے کے لئے کسی حافظ کا انتظام نہ ہو سکے تو امام قرآن مجید دیکھ کر نماز پڑھا سکتا ہے جیسا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے آزاد کردہ غلام ذکوان کو حکم دیا کہ وہ قیام رمضان میں امامت کے فرائض سر انجام دیں، چنانچہ ذکوان قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھتے تھے۔ (صیح بخاری کتاب الا ان باب امامۃ العبد والموالی) ۔
یہاں پر ایک بات زیر غور ہے کہ آج بعض مساجد میں دیکھا جاتا ہے کہ ائمہ مساجد تراویح کی نماز قرآن مجید کی تلاوت اتنی تیزی میں کرتے ہیں کہ کچھ بھی پتہ نہیں چلتا ہے کہ کیا پڑھ رہے ہیں اور کہاں سے پڑھ رہے ہیں اور بعض مساجد میں تو شبینہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر حسب اتفاق دو دن یا تین دن یا پانچ دن میں قرآن مجید کوختم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر نہ تو تراویح کا اہتمام ہوتا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا۔ جبکہ رسول اکرم ﷺ نے اس طرح سے قرآن مجید پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور جس نماز میں سکون اطمینان اور ارکان و شروط کی ادائیگی نہ ہورہی ہو اس سے اللہ تعالی کی رضا نہیں مل سکتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں قیام اللیل میں قرآن مجید کو ترتیل و تجوید کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ تراویح کی نماز آٹھ رکعت پڑھنا مسنون ہے۔
٭ رمضان میں قیام اللیل کا اہتمام کرنا مستحب ہے۔
٭ تراویح کا ثواب پچھلے تمام گناہوں کا کفارہ ہے۔
٭٭٭٭