تربیتِ أولاد: کیوں
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ [التحریم: 6]
ذی وقار سامعین!
اولاد اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، اتنی بڑی نعمت کہ حضرت زکریا اور حضرت ابراہیم  أولاد کے لئے اللہ کے سامنے گڑگڑاتے رہے ، اللہ سے أولاد کا سوال کرتے رہے،قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
”آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے، یقیناً وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔“[الشورٰی: 49]
یہاں اللہ کی حکمت اور قدرت کا اظہار ہے کہ وہ اپنے فضل سے جسے چاہے اولاد دے اور جسے چاہے اس سے محروم رکھے۔ اس کے باوجود، اولاد کی نعمت اللہ کا انعام ہے اور اس کا شکر ادا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اولاد کی محبت اور ان کے ساتھ تعلق کو اسلام میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کو ایک بڑی نعمت کے طور پر بیان کیا، وہاں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اولاد کی محبت انسان کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“ [المنافقون: 9]
قرآن میں جہاں اولاد کی نعمت کا ذکر آیا ہے، وہاں اس کی آزمائش کے طور پر بھی ذکر کیا گیا ہے۔
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ
”اور جان لو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد ایک آزمائش کے سوا کچھ نہیں۔“ [الانفال: 28]
یہ آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ نے اولاد کو ایک آزمائش کے طور پر دیا ہے۔ بعض اوقات اولاد انسان کے لیے خوشی کا باعث بنتی ہے، تو کبھی یہ آزمائش کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس لیے والدین کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اولاد کے ساتھ پیش آنے والی ہر صورتحال میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھا جائے۔
اسلام میں اولاد کو محض ایک دنیاوی نعمت نہیں، بلکہ ایک امانت سمجھا جاتا ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نہ صرف دنیاوی تعلیم دیں، بلکہ ان کی دینی تربیت بھی کریں تاکہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور آخرت میں بھی ان کے لیے نیک عمل کا سبب بنیں۔ جب والدین اپنی اولاد کو اللہ کی رضا کے مطابق تربیت دیتے ہیں، تو یہ نہ صرف ان کی زندگی میں سکون کا باعث بنتی ہے بلکہ یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بھی بن جاتی ہے۔
یقیناً، اولاد اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے اور اس نعمت کا شکر گزار ہونا، اس کی تربیت کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہر والدین کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس عظیم نعمت سے نوازا ہے تاکہ ہم اس کا شکر ادا کریں اور اس کی رضا کے لیے اپنی زندگیوں کو بہتر بنائیں۔
اس لئے ہم آج کے خطبہ جمعہ میں تربیتِ أولاد کے حوالے سے چند اہم اور ضروری باتیں سمجھیں گے۔
تربیتِ أولاد مگر کیوں۔۔۔؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اور اس دنیا میں اس کی رہنمائی کے لیے خاندان کا نظام عطا فرمایا ہے۔ خاندان انسان کی ابتدائی تربیت گاہ ہے اور اس میں اولاد سب سے قیمتی سرمایہ اور امانت ہے۔ یہ امانت ایسی ہے جس کے بارے میں قیامت کے دن والدین سے بازپرس ہوگی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں واضح حکم دیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر سخت دل، بہت مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔“ [التحریم: 6]
یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت نہ صرف والدین کی ذمہ داری ہے بلکہ ان کی اپنی آخرت کی کامیابی بھی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔ والدین کو یہ سوچنا ہوگا کہ ان کے بچے ان کے بعد کس طرح کی زندگی گزاریں گے اور ان کی شخصیت و کردار دینِ اسلام کے مطابق ہوگا یا دنیا کے گمراہ کن نظریات کے زیرِ اثر؟ بچوں کی تربیت صرف ان کی دنیاوی کامیابی تک محدود نہیں بلکہ ان کی روحانی اور اخلاقی زندگی کا تحفظ بھی والدین کا فرض ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے بارہا والدین کو نصیحت کی اور خود بہترین نمونہ پیش فرمایا۔ آپ ﷺ بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت کا برتاؤ کرتے اور ان کے دل میں ایمان کی بنیاد مضبوط کرتے۔ آپ ﷺ کی یہ تربیت ان بچوں کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب بناتی اور دینِ اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بنتی۔
اولاد کی تربیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہی بچے کل کے معمار ہیں۔ ان کی اصلاح پر پورے معاشرے کی اصلاح کا انحصار ہے۔ اگر بچوں کی تربیت صحیح نہ ہو تو نہ صرف ان کا اپنا مستقبل تباہ ہوسکتا ہے بلکہ وہ معاشرے کے لیے بھی بوجھ اور فساد کا سبب بن سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ َ وَالرَّجُلُ فِي مَالِ أَبِيهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
”تم میں سے ہر فرد ایک طرح کا حاکم ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ پس بادشاہ حاکم ہی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ ہر انسان اپنے گھر کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ مرد اپنے والد کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔“ [صحیح بخاری: 2409]
یہ ذمہ داری بڑی اہم اور نازک ہے، کیونکہ اولاد کی صحیح تربیت صرف دنیاوی فوائد نہیں بلکہ والدین کے لیے آخرت میں بھی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ سیدنا أبو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ
”جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) : صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔“ [صحیح مسلم: 4223]
سیدہ عائشہ  کہتی ہیں:
دَخَلَتْ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنْ النَّارِ
ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے وہی دے دی۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا حال بیان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی۔[صحیح بخاری: 1418]
سیدنا ابو ہریرہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:
إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ أَنَّى لي هَذَا فَيُقَالُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ.
”جنت میں آدمی کا درجہ بلندکردیا جاتا ہے تووہ کہتا ہے:یہ (مجھے)کس طرح مل گیا؟ کہا جاتا ہے کہ بیٹے کے تمہارے لئے بخشش طلب کرنے کی وجہ سے۔“ [سلسلہ صحیحہ: 69]
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے  کہ والدین کی محنت سے اگر اولاد نیک اور صالح بن جائے تو وہ دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کے لیے نفع کا باعث بنے گی۔
تربیتِ أولاد کے چند رہنما أصول
تربیت اولاد ایک نہایت اہم اور ذمہ دار عمل ہے، جو نہ صرف فرد کی شخصیت کی تشکیل میں مدد دیتا ہے بلکہ پوری معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اب ہم تربیت اولاد کے چند اہم رہنما اصول بیان کریں گے جو نہ صرف ایک اچھے فرد کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں بلکہ ایک کامیاب معاشرتی زندگی کے لیے بھی لازم ہیں۔
1۔ اچھی بیوی کا انتخاب:
اچھی بیوی کا انتخاب ایک ایسی حکمت عملی ہے جو اولاد کی بہترین تربیت کا آغاز ہے۔ یہ معاملہ اسلام میں نہایت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ خاندان کی بنیاد ایک پاکیزہ اور صالحہ خاتون کے انتخاب پر استوار ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کو سکون، محبت اور رحمت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
”اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھی سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (جاکر) آرام پاؤ اور اس نے تمھارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔“ [الروم: 21]
یہ آرام اور سکون صرف اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب بیوی اچھی اور نیک ہو ، رسول اللہ ﷺ نے بھی نکاح میں دین کو ترجیح دینے کی تلقین کی ہے۔ سیدنا أبو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ
”عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کر ، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کومٹی لگے گی ( یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی )۔“ [صحیح بخاری: 5090]
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ اچھی بیوی کا انتخاب صرف ظاہری عوامل کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ دین داری کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔ کیونکہ ایک دین دار عورت ہی اپنے شوہر اور بچوں کے لئے نیکی اور خیر کا ذریعہ بن سکتی ہے۔   اگر ماں دین دار اور صالح ہو تو وہ اپنی اولاد کی تربیت اسلامی اصولوں پر کرے گی۔ اس کے برعکس اگر ماں نافرمان یا دین سے غافل ہو تو اس کا اثر اولاد پر پڑے گا۔   کیونکہ سیدنا أبو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ
”ہر بچہ فطرت ( اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔“ [صحیح بخاری: 1358]
حضرت فاطمہ الزہرہ  اور حضرت خدیجہ  جیسی عظیم خواتین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھروں میں نہ صرف اپنے شوہروں کا ساتھ دیا بلکہ اپنی اولاد کی ایسی تربیت کی جو رہتی دنیا تک مشعل راہ بنی رہے گی۔
ایک اچھی بیوی کا کردار نہ صرف گھریلو ماحول کو خوشگوار بناتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس لیے نکاح سے پہلے بیوی کے انتخاب میں دین، اخلاق اور سیرت کو ترجیح دینا ضروری ہے تاکہ اولاد کی تربیت بہترین بنیادوں پر ہو سکے اور وہ ایک کامیاب اور صالح انسان بن سکے۔
2۔ نرمی اور محبت سے پیش آنا:
اولاد کی تربیت میں نرمی اور شفقت کا رویہ اپنانا والدین کے لیے اسلام کی تعلیمات میں ایک بنیادی اصول ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہمیں بے شمار مثالیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے بچوں کے ساتھ کس طرح نرمی اور محبت کا معاملہ فرمایا۔ سیدنا انس  کہتے ہیں:
خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي: أُفٍّ، وَلاَ: لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلاَ: أَلَّا صَنَعْتَ
میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال تک خدمت کی لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اورنہ کبھی یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ [صحیح بخاری: 6038]
اسی طرح بچے سے کوئی غلطی ہوجاتی تو نبیﷺاسے ڈانٹتے نہیں تھے ، بلکہ پیار سے سمجھاتے تھے، پھر پیار سے سمجھانے کا اثر ساری زندگی رہتا تھا ، سیدنا عمر بن ابی سلمہ کہتے ہیں:
كُنْتُ غُلاَمًا فِي حَجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ يَدِي تَطِيشُ فِي الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا غُلاَمُ، سَمِّ اللَّهَ، وَكُلْ بِيَمِينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ» فَمَا زَالَتْ تِلْكَ طِعْمَتِي بَعْدُ
میں بچہ تھا اوررسول اللہ ﷺ کی پرورش میں تھا اور ( کھاتے وقت ) میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا ۔ اس لیے آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”بیٹے ! بسم اللہ پڑھ لیا کر ، داہنے ہاتھ سے کھایا کر اور برتن میں وہاں سے کھایاکر جو جگہ تجھ سے نزدیک ہو۔“ چنانچہ اس کے بعد میں ہمیشہ اسی ہدایت کے مطابق کھاتا رہا۔ [صحیح بخاری: 5376]
اس کے علاوہ بھی نبی مکرمﷺکی سیرت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر معاملے میں نرمی اختیار کرنی چاہئے ، آقائے کائناتﷺفرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الأَمْرِ كُلِّهِ
”اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی اور ملائمت کو پسند کرتا ہے۔“ [صحیح بخاری: 6024]
سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ
”نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو زینت بخش دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی نکال دی جاتی ہے اسے بدصورت کر دیتی ہے۔“ [صحیح مسلم: 6602]
سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ
”اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو درشت مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا، وہ اس کے علاوہ کسی بھی اور بات پر اتنا عطا نہیں فرماتا۔“[صحیح مسلم: 6601]
سیدنا جریر بن عبداللہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
مَنْ حُرِمَ الرِّفْقَ حُرِمَ الْخَيْرَ أَوْ مَنْ يُحْرَمْ الرِّفْقَ يُحْرَمْ الْخَيْرَ
”جو شخص نرم مزاجی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے محروم ہوا۔“ [صحیح مسلم: 6600]
سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
إِذَا أَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِأَهْلِ بَيْتٍ خَيْرًا أَدْخَلَ عَلَيْهِمْ الرِّفْقَ
”جب اللہ تعالیٰ کسی گھرانے کے لوگوں سے خیر کا ارادہ فرمالیتا ہے تو ان میں نرمی پیدا فرما دیتا ہے۔“ [مسند احمد: 24427 صحیح]
بچوں کے ساتھ نرمی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچوں پر ضرورت کے وقت بھی سختی نہ کی جائے، لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین ہونا نہایت ضروری ہے کہ بچوں کو سزا دیتے ہوئے حکمت سے کام لینا انتہائی ضروری ہے؛ لہذا یہ بالکل غلط ہو گا کہ بچے کو ہر غلط حرکت پر سزا دی جائے، بلکہ سزا صرف ایسی جگہ ہو گی جہاں پر نرمی کا فائدہ نہ ہو، یعنی جہاں پر زبانی کلامی نصیحت اور منع کرنے یا کہنے سے فائدہ نہ ہو۔
3۔ شرعی احکامات کا خیال رکھنا:
أولاد کی تربیت کرتے ہوئے شرعی احکامات کا خاص خیال رکھیں ، أولاد میں بری عادات اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ہم واضح شرعی احکامات کا خیال نہیں رکھتے ، مثال کے طور پر شریعت نے کہا ہے کہ بچے جب سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کردو ، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص  کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ
”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“۔ [ابوداؤد: 495 حسنہ الالبانی]
اس حدیث کے تحت شارح سنن ابی داؤد الشیخ مولانا عمر فاروق سعیدی﷾لکھتے ہیں:
”جب بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر الگ الگ کر دئیے جائیں، چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا بہنیں، یا بھائی بہن ملے جلے۔ اس حکم شریعت کی حکمت۔۔۔ واللہ أعلم۔۔ یہ ہو سکتی ہے کہ شعور کی ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو ایسی مجلس و محفل سے دور کر دیا جائے۔ جس سے ان کے خیالات اور عادات و اطوار کے بگڑنے اور پراگندہ ہونے کا خطرہ ہو۔ گویا کہ یہ نبوی حکم منکرات کے اثر سے بچنے اور اولاد کو بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ نیز اس حدیث سے نماز کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ نماز کے سوا کوئی دوسرا ایسا شرعی عمل نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ حکم ہو کہ سات سال کی عمر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس کے کرنے کی تاکید کی جائے۔ اور دس سال کی عمر کو پہنچ کر نہ کرنے کی صورت میں مارا پیٹا جائے۔“
4۔ وقت دینا:
اولاد کو وقت دینا تربیت اولاد کا ایک نہایت اہم اصول ہے، اور اس کی اہمیت کو اسوہ حسنہ کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل اور تعلیمات سے یہ ثابت کیا کہ اولاد کی تربیت میں ان کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
حضرت محمد ﷺ کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ آپ نے نہ صرف اپنی بیویوں اور ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا، بلکہ اپنی اولاد کے ساتھ بھی بہت محبت اور وقت گزارتے تھے۔ آپ کی زندگی میں بچوں کے ساتھ ہمدردی، محبت اور رہنمائی کی جتنی مثالیں ملتی ہیں، وہ ہمیں سکھاتی ہیں کہ اولاد کو اپنی توجہ دینے سے نہ صرف ان کی صحیح تربیت ہوتی ہے بلکہ ان میں اچھے اخلاق اور کردار بھی پروان چڑھتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے، بات کرنے اور ان کی ضروریات کا پورا خیال رکھنے کا اہتمام کیا۔ حضرت علی  اور حضرت فاطمہ  کی تربیت میں آپ کی شرکت اور ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے میں کبھی بھی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺنے نہ صرف انہیں عقلی و روحانی رہنمائی دی بلکہ جسمانی اور نفسیاتی ضروریات کا بھی بھرپور خیال رکھا۔
لہٰذا، اسوہ حسنہ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اولاد کو وقت دینا نہ صرف ان کی بہترین تربیت کا ضامن ہے بلکہ یہ ان کے مستقبل کے لیے بھی ایک سرمایہ ثابت ہوتا ہے۔ اس سے بچوں میں محبت، احترام، اور اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے، جو ان کی زندگی کی بنیاد بنتی ہے۔
5۔ اسلامی ماحول دینا:
تربیت أولاد کا ایک اہم ترین أصول یہ ہے کہ آپ اپنی أولاد کو اسلامی اور نیکی والا ماحول فراہم کریں ، کسی بھی گاؤں ، دیہات ، شہر ، ٹاؤن اور ہاسنگ سوسائٹی میں گھر بناتے وقت یہ ضرور دیکھیں کہ یہاں میری أولاد اور میرے بچوں کو ماحول کیسا ملے گا؟ کیا یہاں اچھا مدرسہ ہے؟ کیا یہاں مسجد ہے؟ آس پاس رہنے والے لوگ دیندار ہیں یا دین بیزار؟ کیونکہ ماحول کا تربیت میں بہت زیادہ کردار ہوتا ہے۔ سیدنا ابراہیم   کی سیرت کا مطالعہ کریں،سیدنا ابراہیم   نے اللہ تعالیٰ سے اولاد مانگی۔
رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ
”اے میرے رب! مجھے (لڑکا) عطا کر جو نیکوں سے ہو۔“ [الصافات: 100]
تو اللّٰہ تعالیٰ نے سیدنا اسماعیل   کی شکل میں اولاد عطا فرما دی۔  جب اللہ تعالی نے حکم دیا کہ ابراہیم اپنی بیوی کو اور اپنے بیٹے کو بیت اللہ کے پاس جنگل بیابان میں چھوڑ دو تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور وہاں چھوڑ دیا اور اس کا مقصد یہ بیان کیا:
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
”اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں اور انھیں پھلوں سے رزق عطا کر، تاکہ وہ شکر کریں۔“ [ابراھیم: 37]
اولاد کے لئے اچھے ماحول کا انتخاب کیا کہ یہاں رہیں تو نماز ادا کریں۔
6۔ أولاد کے لئے خصوصی دعائیں کرنا:
اولاد کے لئے خصوصی دعائیں کرنا ایک اہم تربیتی اصول ہے، کیونکہ یہ والدین کے دلوں میں محبت اور شفقت کو بڑھاتا ہے۔ دعا کے ذریعے والدین اپنے بچوں کی حفاظت، کامیابی اور ہدایت کی درخواست کرتے ہیں، جو کہ ایک روحانی قوت کا کام کرتی ہے۔ یہ دعائیں نہ صرف بچوں کی روحانیت کو پروان چڑھاتی ہیں، بلکہ ان کے دلوں میں اللہ کی محبت اور اعتماد بھی پیدا کرتی ہیں۔  ہم اگر انبیاء کرام﷨کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ وہ اپنی أولاد کے لئے کثرت سے دعائیں کرتے تھے ، سیدنا ابراہیم  کی کئی دعائیں ہمیں قرآن سے ملتی ہیں جو انہوں نے اپنی أولاد کے لئے کی ہیں:
❄وَّاجْنُبْنِىْ وَبَنِىَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ
”اور مجھے اور میرے بیٹے کو بتوں کی پوجا سے دور رکھیے۔“ [اِبراہیم : 35]
❄رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ
”اے میرے رب! مجھے توفیق دیجیے،کہ میں نماز قائم کروں اور میری نسل کو (بھی اس کی توفیق ملے)۔ اے میرے رب! میری دعا آپ کے حضور قبول ہو۔“ [اِبراہیم:40]
❄رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَۖ وَاَرِنَا مَنَاسِكَـنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ
”اے ہمارے رب: ہمیں ایسی توفیق دیجئے کہ ہم (سچے) مسلم (یعنی آپ کے حکموں کے فرمانبردار) ہو جائیں اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنی فرمانبردار بنایئے اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا دیجئے اور ہماری توبہ قبول کیجئے۔ بے شک آپ ہی نہایت توبہ قبول کرنے والے، نہایت رحم فرمانے والے ہیں۔“ [البقرۃ:128]
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رحمٰن کے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ یہ دعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا
”اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرمائیے اور ہمیں متقی لوگوں کا امام بنائیے۔“ [الفرقان: 74]
علامہ عبد الرحمن سعدی ﷫کہتے ہیں:
”قُرَّةَ أَعْيُنٍ یعنی انہیں ایسا بنا دے کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ عباد الرحمن کی تمام صفات اور کیفیات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان کی نگاہ ہمیشہ بلند رہتی ہے انہیں اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک انہیں اپنی اولاد اللہ تعالی کی اطاعت گزاری میں نظر نہ آ جائے، علم و عمل کا پیکر نہ بن جائیں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ اہل و عیال کی بہتری کے لیے دعا بھی ہے، پھر یہ صرف اہل و عیال کے لیے دعا نہیں ہے بلکہ خود ان کی اپنی ذات کے لیے بھی دعا ہے؛ کیونکہ آخر کار اس کا فائدہ والدین کو ہی ہو گا یعنی براہ راست محنت کے بغیر پھل ، اور ایسے پھل کو تحفہ کہتے ہیں اسی لیے ان عباد الرحمن نے اسے ہبہ یعنی تحفہ قرار دیا اور کہا:  هَبْ لَنَا پھر اس دعا کا فائدہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ سارے مسلم معاشرے کو ان کا فائدہ ہوتا ہے؛ کیونکہ اگر مذکورہ لوگوں کی اصلاح ہو گئی تو ان کی وجہ سے بہت سے تعلق داروں کو فائدہ ہو گا ، اور لوگ ان سے مستفید ہوں گے۔“ [تيسير الكريم المنان في تفسير كلام الرحمن: ص 587 ]
ایک اور شاندار دعا قرآن کریم سے ملتی ہے ، جو ہر والدین کو عموماً اور چالیس سال کی عمر سے زیادہ شخص کو بالخصوص کرتے رہنا چاہئے:
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
”اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دے، بے شک میں نے تیری طرف توبہ کی اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں۔“ [الاحقاف: 15]
❄❄❄❄❄