تعریف میں مبالغہ آرائی ممنوع ہے
عن أبي بَكْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِندَ النَّبِيِّ ﷺ قال: فَقَالَ: وَيُحَك قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبَكَ مِرَارًا، إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لا مَحالَة فَلْيَقُلْ: أحسبُ فُلانَا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ وَلَا أَزَكَّى عَلَى اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذَاكَ، كَذَا وَكَذَا. (اخرجه مسلم.)
صحیح مسلم: كتاب الزهد والرقائق باب النهي عن المدح إذا كان فيه إفراط وخيف منه فتنة علي…)
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ ﷺ نے کئی بار فرمایا ہائے تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹی تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹی، جب تم میں سے کوئی اپنے دوست کی تعریف کرنا ہی چاہے تو یوں کہے میں ایسا ایسا سمجھتا ہوں اور میں اللہ پر کسی کی صفائی و پاکیزگی نہیں بیان کرتا اور اللہ تعالی ہی خوب جانتا ہے اگر وہ حقیقت میں ایسا سمجھتا ہے۔
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُلاً يُثْنيِ عَلٰى رَجُلٍ وَيُطْرِيْهِ فِي المِدْحَةِ، فَقَالَ: لَقَدْ أَهْلَكْتُمْ أَوْ قَطَعْتُمْ ظَهْرَ الرَّجُلِ (متفق عليه).
(صحیح بخاريگ كتاب الأدب، باب ما يكره من التمادح، صحيح مسلمگ كتاب الزهد والرقائق، باب النهي عن المدح إذا كان فيه إفراط و خيف منه فتنة على…)
ابو موسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے بارے میں سنا کہ وہ یک آدمی کی تعریف میں مبالغہ کر رہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس آدمی کو ہلاک کر دیا یا اس کی پیٹھ کو کاٹ دیا۔
عَنِ المَقدَادِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَخْشِي فِي وُجُوهِ الْمَدَاحِيْنَ التَّرَابَ (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلمگ كتاب الزهد والرقائق، باب النهي عن المدح إذا كان فيه إفراط وخيف منه فتنة على..)
مقداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مداحوں کے چہروں پر مٹی پھینکنے کا حکم دیا ہے۔
تشریح:
اسلام میں کسی کی ہمت افزائی اور تشویق و ترغیب کے لئے اس کے اعمال خیر کی کسی حد تک مدح وستائش کی اجازت ہے۔ لیکن آج کے ماحول میں جو مدح وستائش کی جارہی ہے یہ قطعا جائز نہیں کیونکہ اس میں بڑے لوگوں اور اہل ثروت افراد کی بے جا تعریف کر کے ان سے پیسے اینٹھے جاتے ہیں۔ شعراء اس معاملے میں بہت ہی آگے ہیں جب وہ کسی کی تعریف پر اتر آتے ہیں تو ان کی تعریف میں آسمان وزمین کے قلابے ملا دیتے ہیں جو کسی طرح جائز نہیں۔ رسول اکرم ﷺ کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی گئی تو آپ ﷺ نے کئی بار فر مایا ہائے تو نے اپنے بھائی کی گردن کائی، جب تم میں سے کوئی اپنے دوست کی تعریف کرتا ہی چاہے تو یوں کہے میں ایسا ایسا سمجھتا ہوں اور اللہ تعالی ہی علیم و خبیر ہے۔ نیز جولوگ مدح وستائش میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور اسے عادت بنارکھی ہے ایسے افراد کے چہروں پر آپ ﷺ نے مٹی ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بے جا کسی کی تعریف کرنے سے بچائے۔
فوائد:
٭ تعریف میں مبالغہ کرنا منع ہے۔
٭ کسی کی تعریف کرنی ہو تو اس طرح کہے: میں ایسا ایسا سمجھتا ہوں اور اللہ تعالی ہی خوب جانتا ہے۔
٭ تعریف کرنے والوں کے چہروں پر مٹی پھینکنے کا حکم ہے۔
٭ کسی کی بے جا تعریف کرنا اس کو ہلاک کرتا ہے۔
٭٭٭٭