ترک نصیحت، باعث فضیحت

﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کچھ عرصے سے شیطان کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے تا کہ شیطان جو کہ تمام برائیوں کی جڑ اور تمام فتنہ وفساد کا ایک بنیادی باعث اور محرک ہے، اس کے بارے میں جانکاری حاصل کر کے اس کی چالوں، اس کی سازشوں، اس کے حیلوں ، اس کی مکاریوں ، اس کے دھوکوں اور اس کے فتنوں سے بچنے کی کوشش کر سکیں۔
اگر کوئی شخص واقعی شیطان کے شرسے بچنا چاہتا ہو اور سنجیدگی سے اس کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
مگر دوسری طرف یہ بھی اک حقیقت ہے کہ شیطان اتنی آسانی سے انسان کو کامیاب ہونے نہیں دے گا ، روڑے ضرور اٹکائے گا اور ممکن حد تک اسے ناکام کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہم شیطان کے بارے میں گفتگو کریں اس سے بچنے کی فکر کریں اور وہ خاموش رہے، ممکن نہیں ہے، اس کی کوشش ہوگی کہ بات لوگوں کے کانوں تک پہنچنے سے اگر روک نہیں سکتا تو کم از کم اسے لوگوں کے دلوں تک پہنچنے نہ دے۔
چنانچہ کچھ ایسے ہی ہوا، اس نے کچھ لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال دیا کہ خطبے میں جو شیطان کی چالوں کا ذکر ہو رہا ہے تو اس کا مقصد اصل میں فلان فلاں کو مطعون کرنا ہے۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے آکر مجھ سے کہا کہ لگتا ہے آپ نے ہمیں نشانہ بنایا ہے۔
حالانکہ بات ایسی نہیں، اور ایسی ہو بھی تو بھی اس میں ان کا فائدہ ہی ہے نقصان ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ یقینًا نصیحت ہی سننے کے لیے مسجد میں آتے ہیں، قصے کہانیاں نہیں، اور نصیحت تو کڑوی ہی ہوتی ہے اور نصیحت اپنی پسند اور خواہش کے مطابق نہیں ہوتی بلکہ حقیقت کے مطابق ہوتی ہے۔ تو چونکہ شیطان کی چالوں میں سے یہ بھی ایک چال ہے کہ وہ نصیحت کا رخ ہی موڑ دیتا ہے، اس کو اک دوسرا مطلب پہنا دیتا ہے، اس کو ذاتی مسئلہ بنا کر پیش کر دیتا ہے
اور پھر آدمی کے غرور اور اس کی نفرت اور انا کو ابھارتا ہے۔ لہٰذا مناسب ہوگا، اگر نصیحت کی ضرورت واہمیت ، اس کے فوائد اور اس کے طریقہ کار کا ذکر ہو، اور ترک نصیحت اور عدم قبول نصیحت کے نقصانات کی بات ہو جائے تو سب سے پہلے نصیحت کے ضمن میں چند بنیادی با تین ذہن نشین کرلیں کہ نصیحت انسانی معاشرے کی اصلاح اور فلاح کے لیے اک ناگزیر محمل ہے، نصیحت اسلامی معاشرے کا طرۂ امتیاز اور خاصہ ہے کہ غیر اسلامی معاشروں میں ذاتی معاملات میں دخل اندازی تصور کیا جاتا ہے، ترک نصیحت کسی بھی انسانی معاشرے کے بگاڑ اور خرابی اور پھر تباہی و بربادی کا بنیادی سبب ہے، اور نصیحت سراسر ہمدردی اور خیر خواہی ہے۔
تو آئیے اب بدلائل نصیحت کی ضرورت واہمیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں گذشتہ قوموں پر عذاب الہی کے نزول، اللہ تعالی کی لعنت کے مستحق ٹھہر نے اور ان کے تباہ و برباد ہونے کے اسباب میں سے ایک بنیادی سبب یہ بیان فرمایا گیا
کہ وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے۔
﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۝﴾ (المائده: ۷۸)
’’بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوئے ، ان پر داؤد اور عیسی علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی ہے۔ یعنی زبور اور انجیل میں اس لعنت کا ذکر ہوا۔ اور سبب یہ تھا کہ وہ نافرمانیاں کرتے اور حد سے بڑھ جاتے تھے۔‘‘
﴿كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ۝۷۹﴾ (المائده:79)
’’وہ ایک دوسرے کو برائی سے روکتے نہ تھے، جو کچھ بھی وہ کرتے تھے بہت برا تھا۔‘‘
اور حدیث میں ہے، حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
((إِسْتَيْقَظَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّوْمِ مُحْمَرًّا وَجْهَهُ يقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرِّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ))
’’ایک روز آپ ﷺ نیند سے اس حال میں بیدار ہوئے کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا، اور آپ فرمارہے تھے ’’لا إله الا الله‘‘ عربوں کی تباہی اس بلا سے ہوگی جو قریب آگئی ہے، آج یا جوج و ماجوج کی دیوار سے اتنا سوراخ ہو گیا۔‘‘
((وَ حَلَّقَ بِاصْبَعِهِ الإِبْهَامِ وَالَّتِي تَلِيْهَا))
’’اور یہ آپ ﷺنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کو ملاتے ہوئے فرمایا۔ ‘‘
((قَالَتْ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ! أَنْهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ))
’’حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کہا، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! کیا اس کے باوجود کہ ہم میں نیک لوگ موجود ہوں، پھر بھی ہلاک ہو جائیں گے؟‘‘
((قَالَ نَعَمْ إِذَا كَثرَ الْخَبَثُ)) (بخاري:3346)
’’فرمایا: ہاں جب بدکاری اور خباثت بڑھ جائے گی تو ۔‘‘
اور خرابی اور بگاڑ جو ابتداء چند افراد سے شروع ہوتی ہے، اگر لوگوں میں اصلاح اور خیر خواہی کا مادہ موجود ہو اور وہ ایسے افراد کو وعظ ونصیحت کرتے رہیں تو بگاڑ اگر فوری طور پر رکے گا نہیں تو کم از کم پھیلے گا بھی نہیں۔ تو یوں وہ کثرت محبت کے زمرے میں نہیں آئے گا ، لیکن اگر خاموش رہیں گے تو اس بگاڑ کی لپیٹ میں وہ نیک لوگ جنہوں نے خاموشی میں عافیت سمجھی وہ بھی ضرور آئیں گے۔
اس کی مثال حدیث میں کچھ یوں ملتی ہے کہ کچھ لوگ کشتی پر سوار ہوئے ، کچھ اوپر والے حصے میں اور کچھ نیچے والے حصے میں۔ نیچے والوں کو پانی لینے کے لیے اوپر کے حصے میں آنا پڑتا تھا، تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم نیچے ہی سوراخ کر کے پانی لے لیا کریں۔ اب اوپر والے نیچے والوں کو اگر کشتی میں سوراخ کرنے سے نہ روکیں گے تو کشتی ڈوبنے کی صورت میں یقینًا وہ بھی ساتھ ہی ڈوب جائیں گے۔ اسی طرح معاشرے میں شخصی آزادی کے نام سے برائی کرتے جانے اور اس پر نصیحت نہ کرنے کا نتیجہ یقینًا بدکاری اور خیاشت کی کثرت اور اس کے نتیجے میں عذاب الہی کا نزول ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں بہت وضاحت کے ساتھ گذشتہ قوموں کی تباہی کے اسباب میں سر فہرست اس سبب کا ذکر کیا گیا ہے کہ لوگ برائی سے کیوں نہ روکتے تھے، جیسا کہ گذشتہ قوموں کی ہلاکت اور تباہی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
﴿فَلَوْ لَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِیَّةٍ یَّنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْهُمْ ۚ وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُتْرِفُوْا فِیْهِ وَ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۝﴾ (هود:116)
’’پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسے اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم ، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیئے گئے تھے اوروہ مجرم بن کر رہے ۔‘‘
پھر آگے ایک اٹل قانون بیان فرما دیا، فرمایا:
﴿وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ۝﴾ (هود:117)
’’اور تیرا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے، حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں ۔‘‘
تو آپ نے دیکھا کہ نصیحت و خیر خواہی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر معاشرے کی اصلاح کے لیے کسی قدر ضروری اور لازمی ہے اور ترک نصیحت کا انجام کیا ہے۔ یہ تو تھا قرآن وحدیث کی روشنی میں نصیحت و موعظت کی ضرورت و اہمیت اور اس کی افادیت کا ذکر اور عدم نصیحت کا انجام اب دنیاوی لحاظ سے بھی اگر اس کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے برائی کی سنگینی کو سجھنا اور اصلاح کی ضرورت کو جاننا ہوگا ، اگر یہ بات سمجھ آجائے تو پھر آدمی اصلاح کی فکر بھی کرتا ہے اور برائی سے بچنے کی کوشش بھی کرتا اور پھر نصیحت کڑوی نہیں بلکہ میٹھی لگنے لگتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی شخص کو کوئی خطرناک جسمانی بیماری لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرتا ہے، اسے کسی شدت سے اپنے علاج کی فکر ہوتی ہے، وہ ایکسرے کرواتا ہے ہی ٹی سکین کرواتا ہے، MRI کرواتا ہے، پھر جب بیماری ڈائیگنوز ہو جائے تو کینسر کے علاج کے لیے ریڈی ایشن کرواتا ہے، اس سے بھی آرام نہ آئے تو Chemotherapy (کیمو تھراپی) کرواتا ہے جس کے Painfull side effects ہو سکتے ہیں۔
اور اگر سرجری کی ضرورت ہو تو ڈاکٹر ز چیر پھاڑ کر دیتے ہیں، مگر کوئی شخص نہ صرف یہ کہ برا نہیں مناتا بلکہ انہیں معاوضہ بھی دیتا ہے، شکر یہ بھی ادا کرتا ہے اور ادب و احترام بھی کرتا ہے، اس لیے کہ وہ بیماری کی سنگینی کو سمجھ رہا ہوتا ہے، مگر دین کے معاملے میں بعض لوگ مسجد میں آجانا بھی احسان کرنا سمجھ رہے ہوتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس نصیحت ایک احسان ہے جس کا کوئی انسان بدلہ نہیں چکا سکتا ، صرف اللہ تعالی ہی اس کا اجر دے سکتے ہیں۔
نصیحت کو غنیمت جانیں ، اس دور میں کہ جہاں اکثر و بیشتر آپ کو تھپکیاں دے دے کر سلانے والے ہی نظر آئیں گے اور مسلمان تو پہلے ہی سو رہے ہیں۔ اوپر سے لور یاں اور تھپکیاں کتنی گہری نیند میں ڈال دیں گی اور پھر شیطان کتنا خوش ہوگا کہ وہ لوگوں کے دین اور ایمان کو تباہ کر رہا ہے اور مولوی صاحب انہیں بیدار اور خبردار کرنے کے بجائے تھپکیاں دے کر سلا رہے ہیں۔
اس لیے اپنی حقیقی کامیابی کو سامنے رکھیں اور اپنے حقیقی مخلص اور ہمدرد کو سمجھیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر جو آپ کی بیماری کو چھپائے اور آپ کو صرف Pain killer دے کر گھر بھیج دے، آپ کا مخلص ہو سکتا ہے؟
یقینًا نہیں! آپ کا مخلص ، آپ کا ہمدرد اور خیر خواہ وہ ڈاکٹر ہے جو بیماری کو صحیح ڈائیگنوز کرے اور پھر قطع نظر اس کے کہ بات آپ کو اچھی لگتی ہے یا بری ، آپ کو بیماری کی سنگینی سے آگاہ کرے، اور پھر اس کے مطابق علاج تجویز کرے۔ اور یاد رکھیں کہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا ، اپنے مخلص اور خیر خواہ کو پہچاننا ہو تو قاعدہ یہ ہے کہ ((صَدِيْقُكَ مَنْ صَدَقَكَ، لَا مَنْ صَدَّقَكَ)) محاورہ ہے کہ’’ تمہارا دوست وہ ہے جو تم سے سچ بولے نہ کہ تمہاری تصدیق کرے ‘‘ یعنی جو چاپلوسی کرتے ہوئے تمہاری ہاں میں ہاں ملاتا رہے وہ تمہارا دوست نہیں ہے، وہ ٹائم پاس کر رہا ہے۔
اور حدیث میں ہے کہ
(( مَنْ أُفْتِي بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلٰى مَنْ أَفْتَاهُ وَمَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِأَمْرِ يَعْلَمُ أَنَّ الرُّشْدَ فِي غَيْرِهِ فَقَدْ خَانَهُ)) (ابوداود:3657)
’’جس شخص کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کو کسی ایسی چیز کا مشورہ دے اور رہنمائی کرے کہ جس کے بارے میں وہ جانتا ہو کہ اس سے بہتر دوسری چیز ہے تو اس نے اس سے خیانت کی ۔‘‘
اس لیے سچی اور کھری بات کہنے والا ہی مخلص اور ہمدرد ہو سکتا ہے، اور نصیحت تو آپ جانتے ہیں کہ کڑوی ہی ہوتی ہے لیکن اگر آدمی نصیحت کی قدر و قیمت کو سمجھتا ہو تو پھر اسے بری نہیں لگتی۔ نصیحت فطرح انسان پر ناگوار گزرتی ہے مگر اسے ہر حال میں قبول کرنا ہوگا، کیوں کہ نصیحت کو نا پسند کرنا بہت بڑی بدبختی اور دل کی سختی کی علامت ہے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ۝﴾ (الحديد:16)
’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے پکھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا ئیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزرگئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں ۔‘‘
تو عرصہ دراز تک نصیحت و موعظت سے دور رہنے کی وجہ سے دل سخت ہو جاتے ہیں اور دلوں کی سختی بدنصیبی کی علامت ہے، اور یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ نصیحت کو نا پسند کرنے کی وجہ تکبر، غرور اور ہٹ دھرمی اور نخوت ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُ ؕ وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ۝﴾ (البقرة:206)
’’اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرہ تو اسے اپنی عزت اور وقار کا خیال اس گناہ پر جما دیتا ہے۔“
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم نصیحت کی قدر کریں اسے غنیمت جانیں اور اس پر عمل پیرا ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنواریں ۔ نصیحت سے اعراض کرنا اللہ تعالی کو سخت نا پسند ہے چنانچہ اللہ تعالی نے ایسے شخص کو گدھے سے تشبیہ دی ہے ، جیسا کہ فرمایا
﴿فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِیْنَۙ۝ كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌۙ۝ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍؕ۝۵۱﴾ ( المدثر:49 تا 51)
’’انھیں کیا ہو گیا ہے کہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں ، گویا کہ وہ بد کے ہوئے کرتے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگے ہوں ۔“
اور یاد رکھیں کہ نصیحت کو ٹھکرا دینے والے کو لوگ بھی پسند نہیں کرتے ، جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((مَا أَوْرَدْتُ الْحَقَّ وَالْحُجَّةَ عَلَى أَحَدٍ فَقَبِلَهَا مِنِّي إِلَّا هِبْتُهُ وَاعْتَقَدْتُ مَوَدَّتَهُ ، وَلا كَابَرَنِي أَحَدٌ عَلَى الْحَقِّ ، وَدَفَعَ الحُجَّةِ الصَّحِيحَة إِلَّا سَقَطَ مِنْ عَيْنِيْ وَرَفَضَتْهُ)) (حلية الأولياء و طبقات الاصفياء ج:9، ص:117)
’’میں جو کسی کے سامنے حق اور دلیل و حجت پیش کرتا ہوں اور وہ اسے مجھ سے قبول کر لیتا ہے تو مجھ پر اس کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور دل میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے ، اور جب کوئی حق پیش کرنے پر میرے سامنے بڑکپن کا مظاہرہ کرتا ہے اورصحیح دلیل کو ٹھکرا دیتا ہے تو وہ میری نظروں سے گر جاتا ہے اور میں اسے ٹھکرا دیتا ہوں اور اس سے کنارہ کش ہو جاتا ہوں ۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………