توبہ کی اہمیت

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَی اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا﴾ (التحريم:8)

گذشتہ جمعے بات ہو رہی تھی کہ ماہ رمضان المبارک مختلف اور متعدد ناموں اور نسبتوں سے جانتا اور پہچانا جاتا ہے، رمضان المبارک شهر القرآن، شهر التقوى، شهر النصير، شهر التوبه اور شهر التزكية والتربية وغیرہ کے ناموں سے معروف و مشہور ہے۔

ان ناموں کی ماہ رمضان کے ساتھ نسبت کا مطلب ہے کہ ان ناموں کو، ان موضوعات و عناوین کو رمضان المبارک سے ایک خصوصی تعلق حاصل ہے، لہذا رمضان المبارک میں ان ناموں میں پوشیدہ معانی پر خصوصی توجہ ہونی چاہیے۔

رمضان المبارک کے خطبات جمعہ میں ان شاء اللہ انہی موضوعات کو زیر بحث لایا جائے گا اور یہی باتیں موضوع سخن ہوں گی۔

تاہم آج کے موضوع کے لیے تو بہ کا عنوان منتخب کیا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالی کی طرف کوچ کرتے ہوئے جو مر حلے اور منزلیں طے کرنا ہوتی ہیں ان میں سے سب سے پہلی اسب سے آخری اور سب سے اہم منزل تو بہ کی منزل ہے، کوئی شخص کسی صورت میں بھی اس سے مستقلی نہیں ہے، بلکہ جو شخص جس قدر زیادہ تو بہ کرنے والا ہے اسی قدر اللہ تعالی کے ہاں زیادہ معزز و مکرم ہے۔

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ انسان اللہ کی جانب سفر پر گامزن ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰی رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِۚ۝۶﴾ (الإنشقاق:6)

’’ اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اُس سے ملنے والا ہے ‘‘

دنیا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر حسی سفر ہے ہر آدمی محسوس کرتا ہے، کتنا فاصلہ طے کر لیا، کتنا ابھی باقی ہے، راستے میں کچھ کچھ فاصلے پر لب سڑک، سنگ میل، (Milestone) نصب کئے گئے ہوتے ہیں جن پر باقی ماندہ مسافت درج ہوتی ہے۔ پرانے وقتوں میں اس طرح سنگ میل تو نصب نہیں ہوتے تھے، البتہ منزل کے نام سے مسافت کا تعین ہوتا تھا، اور منزل عموماً دن رات کے سفر کے بعد، یا صرف دن کے سفر کے بعد جہاں پڑاؤ ڈالتے تھے اس کو کہا جاتا تھا۔ بیچ میں تھوڑی دیر ستانے کے لیے تو یقینًا جگہ جگہ رکتے ہوں گے۔ اسی طرح ایک سفر انسان اللہ تعالی کی طرف بھی مسلسل طے کرتا چلا جا رہا ہے، اس میں کہیں کوئی وقفہ نہیں ہے، کوئی پڑاؤ نہیں ہے، انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر مسلسل سفر پر رواں دواں ہے مگر اس سفر کو حواس خمسہ سے محسوس نہیں کیا جاسکتا ۔ البتہ اس کی کچھ علامات ہیں جن سے انسان واضح طور پر جان سکتا ہے۔

انسان پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہونے کے بعد نشوونما کے مراحل طے کرتا ہے، جو کہ دیکھے اور محسوس کئے جاسکتے ہیں، بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا یہ اس معنوی سفر کی علامات ہیں۔

ان علامات سے اُس سفر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، بلکہ یقینی علم حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ کفار اہل جہنم کے جواب میں کہ جب وہ جہنم میں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں گے کہ:

﴿رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ ؕ﴾(فاطر:37)

’’اے ہمارے رب ہمیں یہاں سے نکال لے تا کہ ہم نیک عمل کریں، اُن اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہتے تھے۔‘‘

تو انہیں جواب دیا جائے گا۔

﴿اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَآءَكُمُ النَّذِیْرُ ؕ﴾(فاطر:37)

’’ کہا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا، اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آچکا تھا۔‘‘

یہاں ﴿جَاءَ كُمُ النَّذِيرُ﴾ ’’تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آچکا تھا۔‘‘  کے معنی میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں خبردار کرنے والا اور متنبہ کرنے والا کا معنی ہے: بڑھا یا۔ یعنی بڑھاپا اس بات کی واضح علامت ہے کہ تمہارا یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ تو ان علامات سے واضح طور پر جانا جاسکتا ہے کہ انسان ایک سفر پر رواں ہے۔ تو جس طرح حسی سفر پر جاتے ہوئے راستے میں سنگ میل آتے ہیں، اسی طرح اس معنوی مگر حقیقی سفر پر بھی راستے میں کچھ سنگ میل ہیں، کچھ منازل ہیں کہ بخیر و عافیت منزل پر پہنچنے کے لیے ان منازل سے گزرنا پڑتا ہے اور تو بہ اُن منازل میں سے سب سے پہلی ، سب سے آخری اور سب سے اہم منزل ہے۔ تو بہ، جیسا کہ پہلے عرض کیا، اس سے کسی انسان کو مفر نہیں ہے، کوئی اس سے منتقلی نہیں ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا:

(كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ)) (سنن ابن ماجه:4251)

’’ہر بنی آدم خطا کار ہے اور خطا کاروں میں سے سب سے اچھے انسان وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں ۔‘‘

 اور کثرت سے تو بہ کرنا اللہ تعالی کے ہاں محبوب اور پسندیدہ عمل ہے کہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ (البقره:222)

’’اللہ تعالی بہت زیادہ تو یہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

 تو بہ کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے وہ حدیث سامنے رکھیں جس میں آپ ﷺ قسم کھا کر بات ارشاد فرماتے ہیں کہ: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ لَمْ تُدْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ)) (صحیح مسلم: 2749)

’’فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم لوگ گناہ نہ کرو، تو اللہ تعالی تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ ایک ایسی قوم کو لے آئے جو گناہ کرتے ہوں اور پھر اللہ تعالی سے بخشش و مغفرت طلب کرتے ہوں اور اللہ تعالی انہیں معاف کرتا ہو۔‘‘

اس حدیث میں تو بہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے نہ کہ گناہ کی ترغیب یا اس کی اہمیت کو کم کرنا ہے، گناہ کے ذریعے یقینًا اللہ تعالی کا قرب حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے منع فرما رکھا ہے، اور ان پر انواع و اقسام کے عذابوں کی وعید بھی فرما رکھی ہے، اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لیے، بالخصوص صحابہ کرام کے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور کفر و فسق اور نافرمانی کو نا پسندیدہ بنا دیا ہے۔ تو اس حدیث میں اللہ تعالی کی وسعت رحمت کا بیان ہے، تو یہ کی ترغیب ہے اور بندوں کو مایوسی سے بچانے کا مژدہ ہے ۔ اس حدیث میں دراصل یہ بتایا گیا ہے کہ کسی انسان کا فطرنا گناہ سے بچنا ممکن نہیں ہے الا یہ کہ کسی پر اللہ تعالی کا فضل خاص ہو جائے ۔

تو توبہ کی بات ہو رہی تھی کہ اللہ تعالی کی طرف سفر کرنے والوں کے لیے کامیابی کے ساتھ سفر طے کرنے کے لیے سب سے اہم منزل تو بہ کی منزل ہے۔

توبہ کی فضیلت اور اس کی ضرورت واہمیت قرآن وحدیث میں جابجا مذکور ہے، تو یہ کی اہمیت اس حدیث کی روشنی میں بہت وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے کہ تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور خطا کاروں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو بہت زیادہ تو یہ کرنے والے ہیں۔

تو جب صورت حال یہ ہو کہ فطرنا گناہ سے بچنا انسان کے لیے محال ہو اور اس پر مستزاد یہ ہے انسان نہایت ہی طاقت ور ، شریر اور سرکش دشمنوں کے درمیان گھرا ہو تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کے پاس گناہ سے بچنے کے امکانات کسی قدر کم رہ جاتے ہیں اور یہ کہ انسان کو توبہ کی کس قدر اشد ضرورت ہو سکتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان کو جیسا کہ علماء کرام فرماتے ہیں: التوبة بعدد الانفاس انسان کو سانسوں کی تعداد کے برابر توجہ کی ضرورت ہے یعنی ہر سانس کے ساتھ تو بہ کی ضرورت ہے۔

اس کثرت اور شدت سے توبہ و استغفار کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے کے لیے آپ ﷺ کا وہ فرمان سامنے رکھیئے کہ جس میں آپﷺ  فرماتے ہیں: ((يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ فَإِنِي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مرةٍ)) (صحيح مسلم: 2702)

’’فرمایا: لوگو! اللہ کے حضور توبہ کرو، میں دن میں سو مرتبہ اس کے حضور تو بہ کرتا ہوں۔‘‘

اور ایک حدیث میں فرمایا:

((وَاللهِ إِنِّي لَاسْتَغْفِرُ الله وَأتُوبُ إِلَيْهِ فِي اليوم أكثر من سبعين مرة)) (صحيح البخاري:6307)

’’اللہ کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ کے حضور تو بہ واستغفار کرتا ہوں۔‘‘

جب آپ ﷺ کا توبہ و استغفار کے حوالے سے یہ حال ہے کہ جن کے گناہ ہی نہیں ہیں تو پھر ہمیں تو یہ واستغفار کی کسی قدر ضرورت ہو سکتی ہے سمجھنا مشکل نہیں رہتا ۔

اسی طرح جب نیک کام کرنے کے بعد بھی ہمیں استغفار کرنے کا حکم ہے جیسا کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد تین بار "استغفر اللہ کہنے کا حکم ہے تو گناہ جو دن بھر ہم سے سرزد ہوتے رہتے ہیں، کہ جن میں سے بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے گناہ ہونے کا ہمیں علم بھی نہیں ہوتا، تو ایسی صورت میں ہمیں کسی قدر تو بہ واستغفار کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ہم سب بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔

اور توبہ واستغفار کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک اور بات ذہن میں رکھیں کہ تو بہ واستغفار کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی گناہ ہی سرزد ہوا ہو تو تو یہ کی جاتی ہے، بلکہ غفلت، کمی اور کوتاہی اور کما حقہ عبادت نہ کر پانے پر بھی تو بہ لازم نہرتی ہے، جیسا کہ نمازوں کے بعد تین بار استغفر اللہ کہنے کا حکم ہے اور یہ کہ اللہ تعالی کی نعمتوں پر جس قدر شکر بجالانا ضروری ٹھہرتا ہے وہ نہ کر پائیں ، جو کہ حقیقت ہے کہ نہیں کر پاتے تو اُس پر بھی تو بہ و استغفار ضروری ہوتا ہے۔

عبادت کو کما حقہ ادا نہ کر پانے پر اعتراف قصور کے طور پر تو بہ کرنا بھی اللہ کے مخلص و شکر گزار بندوں کا شیوہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((يُوضَعُ الْمِيزَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَلَوْ وَزِنَ فِيهِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ لَوَسِعَتْ))

’’قیامت کے دن ایسا تر از و نصب کیا جائے گا کہ اگر اس میں زمین و آسمان بھی وزن کیے جائیں تو ان کے لیے بھی کشادہ ہوگا ۔‘‘

((فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ يَا رَبِّ لِمَنْ يَزِنُ هَذَا؟))

’’فرشتے عرض کریں گے: اے ہمارے رب! یہ کسی کا وزن کرنے کے لیے ہے؟‘‘

((فَيَقُولُ الله تَعَالَى: لِمَنْ شِئْتُ مِنْ خَلْقِي))

’’تو اللہ فرمائیں گے میں اپنی مخلوق میں سے جس کا چاہوں گاوزن کروں گا۔‘‘

((فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ سُبْحَانَكَ مَا عَبَدَنَاكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ))

’’تو فرشتے کہیں گے تو پاک ہے، ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکتے۔‘‘

((ويوضع الصِّرَاطَ مِثْلَ حَدَّ الْمُوسَى))

’’پل صراط لگایا جائے گا، جو استرے کی دھار جیسا باریک ہوگا۔‘‘

((فَتَقُولُ الْمَلائِكَةُ مَنْ تُجِيرُ عَلَى هَذَا))

’’فرشتے عرض کریں گے کہ اس پر سے کس کو گزارنا ہے؟‘‘

((فَيَقُولُ مَنْ شِئْتُ مِنْ خَلْقِي))

’’تو اللہ فرما ئیں گے کہ میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا ۔‘‘

((فَيَقُولُونَ: سُبْحَانَكَ مَا عَبَدَنَاكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ))

(مستدرك حاكم:8739)

’’تو فرشتے کہیں گے، اے اللہ تو پاک ہے، ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر پائے۔‘‘

اندازہ کیجئے فرشتے وہ مخلوق ہیں جن کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں:

﴿ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ﴾

’’وہ اللہ کے حکم کی کبھی نافرمانی نہیں کرتے۔‘‘

اس کے باوجود فرشتے کہہ رہے ہوں گے کہ ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر پائے۔ اور انسان دو رکعت اضافی نفل ادا کر لے، کوئی نفلی روزو رکھ لے تو پھولے نہیں سماتا ، وہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ وہ بہت نیک ہے، یہ اللہ کی شان اس کی عظمت اور اس کے حقوق سے لا علمی اور جہالت کی باتیں ہیں۔

تو انسان جو اپنی فطری کمزوریوں کے ساتھ ساتھ دو انتہائی طاقت ور اور سرکش دشمنوں کے درمیان گھرا ہوا ہے، اس کے لیے سرے سے گناہوں سے بچنا ناممکن ہے، اس لیے تو بہ و استغفار کی اشد ضرورت ہے۔

تو توبہ اللہ کی طرف جانے والے راستے کی پہلی منزل ہے مگر یہ منزل کچھ اور منزلوں کی محتاج ہے، یعنی اس منزل تک پہنچنے کے لیے کچھ اور منزلوں سے گزرنا ہوگا ۔

توبہ کی توفیق حاصل ہونے کے لیے اللہ تعالی کے فضل کے بعد کچھ اور منزلیں طے کرنا بھی ضروری ہے، اور ان میں سے ایک منزل ہے: ’’مَنْزِلَةُ الیقظة‘‘ بیداری کی منزل۔

انسان دنیا میں کوئی بھی کام کرنا چاہے تو وہ کب کر سکتا ہے؟ بیدار ہونے کے بعد! سویا ہوا انسان کچھ نہیں کر سکتا، صرف خواب دیکھ سکتا ہے۔ تو جب تک انسان خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتا تو بہ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔

تو بہ رٹی رٹائی چند دعاؤں کو زبان سے ادا کر دینے کا نام نہیں ہے، کچی تو یہ وہ ہے، جو دل کی گہرائیوں سے نکلے، کچی تو یہ وہ کہ جب وہ زبان پر آئے تو آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جا ئیں، انسان اللہ کے خوف سے کانپ اٹھے ، اس کا جسم لرز جائے۔

جب اسے ایمان کا وہ درجہ حاصل ہو اور اس پر وہ کیفیت طاری ہو کہ:

﴿إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ﴾ (الانفال:2)

’’جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں ۔‘‘

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰی ذِكْرِ اللّٰهِ ؕ﴾ (الزمر:23)

’’اللہ کا کلام سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔‘‘

تو کسی گناہ کے بعد سچی تو بہ کے لیے کچھ ایسی ہی کیفیت درکار ہوتی ہے۔

اور ایک دوسری آیت میں وہ کیفیت کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ:

﴿اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْ ؕ﴾ (التوبة:110)

’’الا یہ کہ ان کے دل پارہ پارہ ہو جائیں ، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔  اس قدر شدید غم اور ندامت ہو کہ آدمی کو محسوس ہونے لگے کہ شدت غم سے کہیں اُس کا دل پھٹ نہ جائے ۔‘‘

تو جب تک آدمی کو احساس گناہ نہیں ہوتا ، اس پر شرمندگی اور ندامت نہیں ہوتی ، اس وقت تک اس کی تو بہ بچی تو بہ کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔

تو پہلے بیدار ہونا ہوگا، تو بہ کی ضرورت کا احساس کرنا ہوگا، پھر کہیں جائے تو یہ کی راہ ہموار ہوتی ہے، جب انسان بیدار ہوتا ہے تو اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے، اس پر بنی اسرائیل کے واقعات میں سے ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔

بنی اسرائیل کی حکایات و واقعات کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ:

((حَدَثُوا عَن بني إسرائيل ولا حرج))

’’بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘

((فَإِنَّهُ كَانَتْ فِيهِمُ الْأَعَاجِيبُ )) (سلسلة الصحيحة:2926)

’’کہ ان میں بڑے بڑے عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے ہیں ۔‘‘

 ((كَانَ رَجُلٌ مِنْ مُلُوكِ بَنِي إِسْرَائِيلَ ، قَدْ أَعْطِي طُولَ عُمْرٍ وَ كثرة مال))

’’بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں ایک بادشاہ گزرا ہے اسے اللہ تعالی نے لمبی عمر اور کثرت مال و اولاد سے نوازا، بیٹے عطا کئے ۔‘‘

اُس کا ہر بیٹا جب بڑا ہوتا ، بالغ ہو جاتا تو درویشانہ لباس پہن کر پہاڑوں کی طرف نکل  جاتا درویشوں کے ساتھ رہ کر عبادت کرتا، با لاآخر وہیں فوت ہو جاتا۔

آخری عمر میں اللہ تعالی نے اسے ایک اور بیٹا عطا کیا، اس بار اس نے اپنے وزیروں مشیروں کو جمع کیا اور اور کہا لگتا ہے کہ اب میرا وقت قریب آ گیا ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں میرا بیٹا بھی اپنے بھائیوں کے نقش قدر پر نہ چل نکلے اور میرا کوئی وارث نہ رہے، لہذا اس کو بچپن سے ہی دنیا کا گرویدہ بنا دو،  دنیا کی نعمتیں اس کے سامنے ڈھیر کر دو، یہ دنیا کی رونق اور زیب و زینت میں کھو کر رہ جائے اور درویشی کا اس کے دل میں خیال تک نہ آئے۔ بادشاہ کے حکم پر انھوں نے محل کے گرد چھ چھ کلو میٹر کی مسافت پر دیوار بنادی۔ چنانچہ وہ بھی جب بڑا ہوا تو دیوار کو دیکھ کر کہنے لگتا ہے، اس یوار کے پیچھے کوئی دوسری دنیا ہے، میں دیکھنا چاہتا ہوں ، انھوں نے ادھر اُدھر اس کا دل بہلا کر اسے روک لیا۔ اس نے نکلنے کی بڑی کوشش کی مگر بادشاہ کے حواریوں نے اسے نکلنے نہ دیا۔

 اگلے سال پھر ایسا ہوا، اس سے اگلے سال پھر ایسا ہوا، بادشاہ کو بتایا گیا بادشاہ نے کہا:

ٹھیک ہے اسے نکلنے دو۔

دروازو کھولا گیا، ایک مصیبت زدہ کسی بیماری میں مبتلا شخص پر نظر پڑی ، پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا یہ مصیبت زدہ ہے۔ کہا: کیا یہ مصیبت کچھ لوگوں پر آتی ہے اور کچھ پر نہیں آتی، یا سب پر آسکتی ہے انھوں نے کہا سب پر آ سکتی ہے۔

کہا میری اس شاہانہ زندگی کے باوجود بھی آسکتی ہے کہا آسکتی ہے ۔ تو انھوں نے کہا:

’’کہا یہ زندگی تو پھر گدلی اور غیر شفاف ہے ۔‘‘

 پھر ایک شخص پر نظر پڑی، بوڑھا اور کمزور اس کی رالیں اس کے سینے پر ٹپک رہی تھیں، پوچھا کون ہے؟ کیا بوڑھا ہے۔ پوچھا بوڑھا کیا ہوتا ہے، بتایا گیا، پھر اس نے وہی سوال کیا کہ کیا یہ سب پر آتا ہے، ہاں میں جواب ملا۔ اس نے پھر وہی جملہ کہا۔

پھر ایک جنازہ گزرا، پوچھا کیا ہے، بتایا گیا جنازہ ہے، کہا اس کو بیٹھاؤ، اس سے بات کرو۔ جواب دیا، یہ بیٹھ نہیں سکتا یہ بات نہیں کر سکتا یہ مر چکا ہے۔ پوچھا کیا یہ موت سب پے آتی ہے؟ کہا ہاں سب پر آتی ہے ۔ کہا تو تم لوگ یہ چیزیں مجھ سے چھپا رہے تھے اگر یہ مصیبتیں اور یہ موت مجھ پر اچانک آجاتی اور مجھے پتہ بھی نہ ہوتا تو میرا کیا بنتا؟ (المجالسه وجواهر العلم:2868)

 اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم میں سے کسی کو اس بات کی فکر ہے اور کیا ہم نے کبھی اس دن کے لیے تیاری کی فکر کی ہے!

اللہ تعالی ہمارے دلوں میں اس کی فکر پیدا کر دے اور اس دن کی تیاری کے لیے عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

…………………