توبہ کی فضیلت

ارشاد ربانی ہے: ﴿وَتُوبُوْا إِلَى اللَّهِ جَمِيْعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (سوره نور آیت: 31)
ترجمہ: اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔
دوسری جگہ فرمایا: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا تُوبُوْا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا﴾ (سوره تحریم آیت:8)
ترجمہ: اے ایمان والو تم اللہ کے سامنےسچی خالص تو بہ کرو۔
عَنِ الْأَغَرِّ بْن يَسَارِ الْمُزَنِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ فَإِنِّي أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةً (رواه مسلم).
(صحيح مسلم: كتاب الذكر والدعاء والتربة والاستغفار، باب استحباب الاستغفار والاستكثار منه.)
اغر بن يسار مزنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! اللہ سے تو بہ کرو میں بارگاہ الہی میں روزانہ سو مرتبہ تو یہ کرتا ہوں۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : اللَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُم سَقَطَ عَلٰى بَعِيْرِهِ وَقَد أَضَلَّهُ فِي أَرْضِ فَلاةٍ . (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الدعوات، باب التوبة، صحيح مسلم كتاب التوبة، باب في الحض على التوبة والفرح بها)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی جنگل بیابان میں اپنا اونٹ گم کر کے پھر پا لیا ہو۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ قَالَ: كَانَ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةٌ وَتِسْعِينَ نَفْساً، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَم أَهْلِ الأرضِ فَدُلُّ عَلَى رَاهِبٍ فَآتَاهُ فَقَالَ : إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَ تِسْعِينَ نَفْسًا فَهَلْ لَهُ من توبة ؟ فَقَالَ : لا فَقَتَلَهُ فَكَملَ بِهِ مِائَةً، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلُّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوبَةٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَينَ التَّوبة؟ الطلق إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا فَإِنَّ بِهَا أَنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ تَعَالَى فَاعْبُدِ اللَّهَ تَعَالَى مَعَهُمْ وَلَا تَرْجِع إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوءٍ. فَانْطَلَقَ حَتّٰى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ المَوتُ فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلائِكَةُ الْعَذَابِ فَقَالَت مَلائِكَةُ الرَّحْمَةِ: جَاءَ تَائِباً مُقبلاً بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ، وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ العَذَابِ: إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ فَآتَاهُم مَلَكَ في صُوْرَة آدمىِّ فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ فَقَالَ: قِيْسُوا مَا بَينَ الْأَرْضَيْنِ فَإِلَى اَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَلَهُ، فَقَاسُوا فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ فَقَبَضَتْهُ مَلائِكَةُ الرَّحْمَةِ . (متفق عليه).
وَفِي رِوَايَةٍ فِي الصَّحِيحَ : فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي وَ إِلَى هَذِهِ أَن تَقرَّبِيْ.
(صحيح بخاري: كتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار، صحیح مسلم: كتاب التوبة، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں ایک شخص تھا، جس نے ننانوے (۹۹) قتل کئے تھے اس نے روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کی بابت لوگوں سے پوچھا، تو اسے ایک راہب (پادری) کا پتہ بتلایا گیا، اس نے اس سے جا کر پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کئے ہیں، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا: ’’نہیں‘‘ اس نے اس پادری کو بھی قتل کر کے سوکی تعداد پوری کر لی، اس نے پھر پوچھا کہ مجھے روئے زمین کا سب سے بڑا عالم بتلاؤ اسے ایک عالم کی نشاندہی کی گئی، اس نے اس سے جا کر پوچھا کہ اس نے سو آدمی قتل کئے ہیں کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس عالم نے کہا ہاں کون ہے جو اس کے اور اس کی توبہ کے درمیان حائل ہو؟ فلاں زمین پر چلا جا! وہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت کر اور اپنی زمین کی طرف واپس نہ آنا، وہ برائی کی زمین ہے۔ چنانچہ اس نے نیکوں کی اس بستی کی طرف سفر شروع کر دیا، ابھی اس نے آدھا راستہ ہی طے کیا تھا، کہ اسے موت آ گئی (اس کی روح کو لینے کے لئے) رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں ہی آگئے اور ان کے مابین جھگڑا شروع ہو گیا۔ ملائکہ رحمت نے کہا، وہ تائب ہو کر آیا دل کی پوری توجہ سے وہ اللہ کی طرف آیا ہے۔ عذاب کے فرشتے ہوئے، اس نے کبھی بھلا کام نہیں کیا (اس لئے عذاب کا مستحق ہے) ان فرشتوں کے مابین یہ جھگڑا جاری تھا کہ ایک فرشتہ آدمی کی شکل میں آیا، اسے انہوں نے اپنا حکم بنا لیا، اس نے فیصلہ دیا، دونوں زمینوں کے مابین مسافت کو ناپو (یعنی جس علاقے سے وہ آیا تھا وہاں سے یہاں تک کا فاصلہ اور یہاں سے نیکوں کے علاقے کا فاصلہ، دونوں کی پیمائش کرو) ان دونوں میں سے وہ جس کے زیادہ قریب ہو، وہی اس کا حکم ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے پیمائش کی تو انہوں نے اس کو اس زمین کو زیادہ قریب پایا جس کی طرف وہ ارادہ کئے جا رہا تھا، پس اسے رحمت کے فرشتوں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ نیز صحیح کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ اللہ نے اس زمین کو (جہاں سے وہ آرہا تھا) حکم دیا کہ تو دور ہو جا اور ارض صالحین کو جس کی طرف جارہا تھا) حکم دیا کہ تو قریب ہو جا۔
تشریح:
اللہ تعالی کے نزدیک تو بہ بڑا محبوب عمل ہے وہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا سبب ہے اللہ تعالی نے بیشمار آیتوں میں مومنین کو تو بہ کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے اللہ تعالی لوگوں کی توبہ سے خوش ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے خواہ وہ کتنے بڑے کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگو! اللہ سے توبہ واستغفار کرو میں بارگاہ الہی میں روزانہ سو مرتبہ تو بہ کرتا ہوں۔ نیز فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی جنگل بیابان میں اپنا اونٹ گم کر کے پھر پا لیا ہو۔ ہمیں ہر حال میں تو بہ واستغفار کرنا چاہئے اللہ تعالی ہمیں خالص دل سے تو بہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ خالص دل سے تو بہ کرنا ضروری ہے۔
٭ توبہ کرنے والے سے اللہ تعالی کافی خوش ہوتا ہے۔
٭ رسول ﷺ دن میں سو بار سے زیادہ استغفار کرتے تھے۔
٭٭٭٭