تَوَكَّلْ عَلَى اللهِ (اللہ پر بھروسہ )

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ؕ ﴾ (الطلاق:3)
’’یعنی (اللہ پر جو بھروسہ کرے گا اللہ اس کے لئے کافی ہو جائے گا۔)‘‘
توکل کے معنی ہیں کہ انسان کوششوں کے نتائج اور واقعات کے فیصلہ کو خدا کے سپرد کر دے۔ اسباب و علل کے پردے اس کے سامنے سے اٹھ جائیں۔ اور براہ راست ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں نظر آئے۔ بظاہر اسباب و علل گو ناموافق ہوں۔ مگر یہ غیر متزلزل یقین پیدا ہو کہ یہ ناموافق حالات ہمارے کام میں ذرہ بھر مؤثر نہیں ہو سکتے۔ بلکہ اصلی قوت و قدرت عالم اسباب سے ماورا ہستی کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کا استقلال، عزم، جرات و بیبا کی یہ تمام باتیں ایک اصل کے پر تو ہیں۔ اس کی بدولت مشکل سے مشکل اوقات میں بھی زمام صبر اس کے ہاتھ سے نہیں چھوتی۔ پر خطر سے پر خطر راستوں میں بھی جبن اور ضعف ہمت اس کے قلب میں راہ نہیں پاتا۔ شدید سے شدید حالات میں بھی اس کے دل پر مایوسی کا بادل نہیں چھا سکتا۔
توکل مسلمانوں کی کامیابی کا اہم راز ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ جب لڑائی یا کوئی اور مشکل کام پیش آئے تو سب سے پہلے اس کے متعلق مشورہ کر لو۔ اور اس عزم کے بعد کام کو پوری مستعدی اور تندہی کے ساتھ کرنا شروع کرو۔ اور خدا پر توکل اور بھروسہ رکھو۔ وہ تمہارے کام کا حسب خواہ نتیجہ پیدا کر دے گا۔ اگر نتیجہ اچھا نہ نکلے تو اس میں خدا کی حکمت و مصلحت اور مشیت سمجھو۔ اور اس سے مایوس نہ ہو۔ اور جب نتیجہ خاطر خواہ نکلے تو یہ غرور نہ ہو کہ یہ تمہاری تدبیر اور جدوجہد کا نتیجہ اور اثر ہے بکہ یہ سمجھو کہ خدا تعالی کا تم پر فضل و کرم ہوا۔ اور اسی نے تم کو کامیاب اور بامراد کیا۔ سورۃ آل عمران میں ہے:
﴿وَشَاوِرْ هُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكَّلِيْنَ إِنْ يَّنْصُرْ كُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَّحْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهٖ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (ال عمران: 159)
’’اور کام یا لڑائی میں اُن سے مشورہ لے لو۔ پھر جب پکا ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو بیشک اللہ تعالی توکل کرنیوالوں سے پیار کرتا ہے۔ اگر اللہ تمہارا مددگار ہو تو کوئی تم پر غالب نہ آسکے گا۔ اور اگر وہ تم کو چھوڑ دے تو پھر کون ہے جو اسکے بعد تمھاری مدد کر سکے۔ اور اللہ ہی پر چاہئے کہ ایمان والے بھروسہ رکھیں۔‘‘
ان آیات نے توکل کی پوری اہمیت و حقیقت ظاہر کر دی کہ توکل بے دست و پائی اور ترک عمل کا نہیں بلکہ اس کا نام ہے کہ پورے عزم وارادہ اور مستعدی سے کام کو انجام دینے کے ساتھ اثر اور نتیجہ کو خدا کے بھروسے پر چھوڑ دیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ خدا مددگار ہے تو کوئی ہم کو ناکام نہیں کر سکتا۔ اور اگر وہی نہ چاہے تو کسی کی کوشش اور مدد کارآمد نہیں ہو سکتی۔ اس لئے ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنے کام میں خدا پر بھروسہ رکھے کفار سے مسلسل لڑائیوں کے بعد یہ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر اب بھی یہ لوگ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ اور مصالحت کر لو اور یہ خیال نہ کرو کہ بد عہد کہیں دھو کہ نہ دے جائیں۔ خدا پر بھروسہ رکھو تو ان کے فریب کا داؤ
کامیاب نہ ہوگا۔
﴿ وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۶۱ وَ اِنْ یُّرِیْدُوْۤا اَنْ یَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ ؕ هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَۙ ﴾ (الانفال: 61 – 62)
’’اور اگر وہ صلح کے لئے جھکیں تو تو بھی جھک اور خدا پر بھروسہ رکھ۔ بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ تجھے دھوکہ دینا چاہیں تو کچھ پروا نہیں کہ تجھے اللہ کافی ہے۔ اس نے اپنی اور مسلمانوں کی نصرت سے تیری تائید کی۔‘‘
اسلام کی تبلیغ اور دعوت کی مشکلوں میں بھی خدا ہی کے اعتماد اور بھروسہ پر کام کرنے کی ہدایت کی ہے کہ وہ ایسی طاقت ہے جس کو زوال نہیں۔ اور ایسی ہستی ہے جس کو فنا نہیں فرمایا:
﴿ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا۝۵۶ قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّهٖ سَبِیْلًا۝۵۷ وَ تَوَكَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ﴾ (فرقان: 56-58)
’’اور میں نے تو (اے رسول ﷺ) تجھے خوشخبری سنانے والا اور ہوشیار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ کہہ دے کہ میں تم سے اس کے سوا (اپنے کام کی) مزدوری نہیں مانگتا جو چاہے اپنے پروردگار کا راستہ قبول کرے۔ اور اس زندہ رہنے والے پر بھروسہ کر جس کو موت نہیں۔‘‘
جس طرح ہمارے رسول ﷺ کو اور عام مسلمانوں کو ہر قسم کی مصیبتوں مخالفتوں اور مشکلوں میں خدا پر تو کل رکھنے کی ہدایت بار بار ہوئی ہے۔ آپ سے پہلے پیغمبروں کو بھی اس قسم کے موقعوں پر اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اور خود اولو العزم رسولوں کی زبانوں سے عملاً اس تعلیم کا اعلان ہوتا رہا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام جب تن تنہا سالہا سال تک کافروں کے نرغے میں پھنسے رہے تو انہوں نے پوری بلند آہنگی کے ساتھ اپنے دشمنوں کے درمیان یہ اعلان فرمایا:
﴿ وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ ۘ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَ تَذْكِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَعَلَی اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَ شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۷۱﴾ (يونس: 71)
’’اے پیغمبرﷺ! ان کو نوح کا حال سنا جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو! اگر میرا ر ہنا اور اللہ کی آیتوں کے ساتھ میرا نصیحت کرنا تم پر شاق گذرتا ہے تو اللہ پر میں نے بھروسہ کر لیا ہے تو تم اپنی تدبیر کو اور اپنے شریکوں کو خوب مضبوط کر لو۔ پھر تم پر تمھاری تدبیر چھپی نہ رہے پھر اس کو مجھ پر پورا کر لو اور مجھے مہلت نہ دو۔‘‘
غور کیجئے کہ حضرت نوح علیہ السلام دشمنوں کے ہر قسم کے مکر و فریب سازش اور لڑائی جھگڑے کے مقابلہ میں استقلال اور عزیمت کے ساتھ خدا پر توکل اور اعتماد کا اظہار کس پیغمبرانہ شان سے فرما رہے ہیں۔ حضرت ہود علیہ السلام کو جب اُن کی قوم اپنے دیوتاؤں کے قہر و غضب سے ڈراتی ہے تو وہ جواب میں فرماتے ہیں:
﴿ قَالَ اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَ اشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۙ۝۵۴ مِنْ دُوْنِهٖ فَكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۵۵ اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَی اللّٰهِ رَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ ؕ﴾ (هود: 54 – 55)
’’میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم گواہ رہو کہ اُن سے بیزار ہوں جن کو تم خدا کے سوا شریک ٹھہراتے ہو۔ پھر تم سب مل کر میرے ساتھ داؤ کر لو۔ پھر مجھے مہلت نہ دو۔ میں نے اللہ پر جو میرا پروردگار اور تمھارا پروردگار ہے بھروسہ کر لیا ہے۔‘‘
حدیثوں میں توکل کے متعلق بہت سی مثالیں ورق گردانی سے مل سکتی ہیں۔ لیکن ذیل میں رسول اللہ ﷺ کے چند واقعات توکل علی اللہ کے بارے میں لکھے جا رہے ہیں:
1۔ ہجرت کرتے وقت جب مکہ سے نکل کر آپﷺ نے مع حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ غارثور میں پناہ لی۔ قریش میں خون آشامی کے ساتھ اب اپنی ناکامی کا غصہ بھی تھا۔ اور اس لئے اس وقت ان کے انتقام کے جذبات میں غیر معمولی تلاطم ہو گیا۔ وہ آپ کے تعاقب میں نشان قدم کو دیکھتے ہوئے ٹھیک اس غار کے پاس پہنچ گئے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس پر خطر حالت میں کسی کے حواس بجا رہسکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے گھبرا کر عرض کی کہ یارسول اللهﷺ دشمن اس قدر قریب ہیں کہ اگر ذرا نیچے جھک کر اپنے پاؤں کی طرف دیکھیں گے تو ہم پر نظر پڑ جائے گی۔ لیکن آپﷺ نے روحانیت کی پر سکون آواز میں فرمایا: ’’ان دو کو کیا غم ہے جس کے ساتھ تیسرا خدا ہو۔‘‘ (بخاري و مسلم)
پھر جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا﴾ (توبة: 40)
’’غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
سینہ نبوت کے سوا اس روحانی سکون کا جلوہ اور کہاں نظر آسکتا ہے۔ قریش کے اس اعلان کے بعد جو محمدﷺ کو زندہ یا ان کا سرکاٹ کر لائے گا اُس کو سو اونٹ ملیں گے۔ سراقہ بن جعشم نے آپ ﷺ کا تعاقب کیا اور اس قدر قریب پہنچ گیا کہ وہ آپﷺ کو پا سکتا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بار بار گھبرا کر ادھر دیکھ رہے تھے۔ لیکن ایک دفعہ بھی آپ ﷺ نے مڑ کر نہیں دیکھا کہ سراقہ کس ارادہ سے آ رہا ہے۔ یہاں دل پر وہی سکینیت ربانی طاری تھی اور لب ہائے مبارک تلاوت قرآن مصروف تھے۔[1]
غزوہ نجد سے واپسی میں آپ نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ یہاں بہت سے درختوں کے جھنڈ تھے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم درختوں کے سائے میں ادھر اُدھر سور رہے تھے۔ آپ ﷺ بھی ایک درخت کے نیچے تنہا استراحت فرما ر ہے تھے۔ آپ ﷺ کی تلوار ایک درخت سے لٹکی ہوئی تھی کہ ناگاہ ایک بدو جو شاید اس موقع کی تاک میں تھا۔ چپکے سے آیا اور آپ ﷺ کی تلوار نیام سے باہر کی۔ اور آپﷺ کے سامنے آیا کہ دفعتاً آپ ﷺ بیدار ہوئے۔ دیکھا کہ ایک بدو تیغ بکف کھڑا ہے۔ بدو نے پوچھا: اے محمد ﷺ اب مجھ سے تم کو کون بچا سکتا ہے؟ ایک پر اطمینان صدا آئی کہ ’’الله‘‘[2]
خیبر میں جس یہودیہ نے آپ ﷺ کو زہر دیا تھا اُس سے آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی۔ اس نے جواب دیا کہ آپﷺ کے قتل کرنے کے لئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ خدا تم کو یہ طاقت نہیں دے گا۔[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب مناقب الانصار، باب هجرة النبي و اصحابه إلى المدينة:3906۔
[2] بخاري: كتاب الجهاد باب من علق سيفه بالشجرة في السفر عند القائلة: 407/1۔
[3] بخاري: کتاب الطب، باب ما يذكر في سم النبيﷺ۔ 5777۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احد اور حنین کے معرکوں میں جب میدان جنگ تھوڑی دیر کیلئے جاں نثاروں سے خالی ہو گیا تھا۔ آپ ﷺ کا استقلال، توکل علی اللہ وسکونیت کی معجزانہ مثال ہے۔ (ترمذی)
آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم خدا پر توکل کرتے جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو خدا تم کو ویسے روزی پہنچاتا جیسے پرندوں کو پہنچاتا ہے کہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر واپس آتے ہے۔[1]
اس حدیث سے بھی مقصود ترک عمل اور ترک تدبیر نہیں۔ کیونکہ پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں بٹھا کر یہ روزی نہیں پہنچائی بلکہ ان کو بھی اُڑ کر کھیتوں میں جانے اور رزق تلاش کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ جو لوگ خدا پر توکل اور سے محروم ہیں۔ وہ روزی کے لئے دل تنگ اور کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ اور اس کے حصول کے لئے ہر قسم کی بدی اور برائی کا ارتکاب کرتے ہیں حالانکہ اگر یہ انہیں یقین ہو کہ
﴿وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا﴾ (هود:6)
’’اور زمین میں کوئی رینگنے والا نہیں۔ لیکن اس کی روزی خدا کے ذمہ ہے۔‘‘
تو اس کے لئے چوری، ڈاکہ، قتل، بے ایمانی اور خیانت وغیرہ کے مرتکب نہ ہوتے۔ اور نہ ان کو دلی تنگی اور مایوسی ہوا کرتی۔ بلکہ صحیح طور سے وہ کوشش کرتے اور روزی پاتے۔ ان حدیثوں کا یہی مفہوم ہے جو قرآن پاک کی اس آیت میں ادا ہوا ہے:
﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾ (الطلاق:2)
’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے وہ اس کیلئے مشکل سے نکلنے کا راستہ کر دے گا۔ اور اس کو وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کو گمان تک نہ ہوگا۔ اور جو اللہ پر بھروسہ کرے گا تو وہ اس کو بس کافی ہے۔ بیشک اللہ اپنے ارادے کو پنہچ کر رہتا ہے۔ اس نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے۔‘‘
ایک بدوی اونٹ پر سوار ہو کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا اور سوال کیا یارسول اللہﷺ میں اونٹ کو یوں ہی چھوڑ کر خدا پر توکل کروں تو میرا اونٹ مجھ کو مل جائے گا یا اس کو باندھ کر؟ ارشاد ہوا کہ اس کو باندھ کر خدا پر توکل کرو۔ (ترمذی)
توکل کی تعلیم مسلمانوں کو اسلئے دی گئی کہ وہ بے جا پریشان نہ ہوں۔ انہیں اضطراب لاحق نہ ہو کیونکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب الزهد، باب الزهد في الدنيا: 268/3: مستدرك حاكم 318/4.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندے کی زندگی میں ایسے بہت سے مقامات آتے ہیں جہاں وہ مجبور ہوتا ہے۔ لہذا مجبوری کی حالت میں وہ بے چین نہ ہو بلکہ خدا کی طرف وہ اپنے معاملہ کو سپر د کر دے۔
یا بہت سے ایسے خطرات زندگی میں ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے احتیاط کرنے اور بچنے پر بھی بندہ بچ نہیں پاتا تو ایسے خطرات میں پڑ کر بے کار اپنی جان نہیں گھلانا چاہئے بلکہ مرضی الہی پر راضی رہ کر خدا ہی کو اپنا وکیل اور دستگیر جانا چاہئے۔ مصیبت کے ماروں کو سکون دینے والا، غم نصیبوں کو راحت بخشنے والا، فریادیوں کی پکار سنے والا وہی ہے۔ وہی پروردگار ہے اور اسی پر ہمارا توکل ہونا چاہئیے۔ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ۔
(اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي اُعْظِمُ شُكْرَكَ وَأُكْثَرُ ذِكْرَكَ وَاَتَّبِعُ نُصْحَكَ وَاَحْفَظُ وَصِيَّتَكَ۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصِّحَّةَ وَالْعِفَّةَ وَالْأَمَانَةَ وَحُسْنَ الْخُلُقِ وَالرِّضَاءَ بِالْقَدْرِ۔ اللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِي مِنَ الرِّیَاءِ وَلِسَانِي مِنَ الْكِذْبِ وَعَيْنِي مِنَ الْخِيَانَةِ فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِى الصُّدُوْرُ۔ اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْئَلْكَ مِنْ صَالِحٍ مَّا تُؤْتِي النَّاسَ مِنَ الأَهْلِ وَالْمَالِ وَالْوَلَدِ غَيْرِ الضَّالِ وَلَا الْمُضِلَّ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔