تین نعمتیں (دل)
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا﴾[بنی اسرائیل:36]
قلب سلیم میں شجاعت اور بیمار دل میں بزدلی
گذشتہ دو خطبوں میں دو عظیم نعمتوں: کان اور آنکھ کے درست استعمال اور غلط استعمال کا بیان تھا۔ اور آج اس عظیم نعمت کے حوالے سے بات ہوگی۔ جو نعمت پورے بدن میں ایک اہم بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے بارے امام الانبیاء خاتم النبین سید ولد آدم جناب محمد رسول اللہ کی ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا:
(أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ إِذا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتُ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ الَا وَهِيَ الْقَلْبُ) [صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب فضل من استبر الدين (52)]
’’لوگو! خبر دار! جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا بدن درست ہوتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے خبردار! وہ ٹکڑا ’’دل‘‘ ہے۔‘‘
غور کیجئے پسلیوں کے نیچے انتہائی محفوظ مقام پر لگایا گیا یہ دھڑکتا ہوا پرزہ اور چھوٹا سا قطعہ تم کسی قدر حساس عضو ہے یہ وہ پرزہ ہے کہ جسمانی اور روحانی دونوں حوالوں سے یہ جسم انسانی میں بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص کو معلوم ہو جائے کہ میں دل کا مریض ہوں۔ اس کی زندگی کے مزے کر کرے ہو جاتے ہیں وہ ہر وقت موت کو اپنے سر پر منڈلات ہے۔ بڑی پابندی کے ساتھ طبیب اور معالج کے پاس جاتا ہے۔ حتی الامکان دوائی اور پرہیز کا اہتمام کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب دل روحانی طور پر بیمار ہو جائے بری طرح میر جائے۔ تمام روحانی بیماریاں اس میں پیدا ہو جائیں اور یہ روحانی تندرستی اور صحت سے محروم ہو جائے۔ پھر انسان اس کے علاج کے لیے فکر مند نہیں ہوتا نہ علاج کرواتا ہے نہ دوائی لیتا ہے نہ پرہیز کرتا ہے بلکہ اپنے بگڑے ہوئے بیمار دل کی ہر بات مانتا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کا سارا بدن روحانی بیماریوں کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ اور سارے بدن کے افعال ٹیڑھے ہو جاتے ہیں اس کی چال، اس کی گفتار، اس کی سیرت اس کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، دیکھنا سننا، بولنا پکڑنا اس کی وضع قطلع شکل و صورت لباس و حجامت ہر چیز بگڑ جاتی ہے۔ اور یہی دھڑکتا ہوا دل جب روحانی طور پر توانا و تندرست ہوتا ہے تو سارا بدن توانا و تندرست ہوتا ہے اس کے نتیجے میں بدن کے تمام افعال درست اور صحیح ہوتے ہیں پھر ہاتھوں کی پکڑ قدموں کی چال، زبان کی گفتار، آنکھوں کی بینائی، کانوں کی شنوائی، کھانا پینا، سونا جاگنا، وضع قطع، شکل و عقل، شعار ولباس، خلوت و جلوت، خوشی و غمی اور ظاہر و باطن سب کچھ اللہ کی شریعت کے مطابق درست اور صحیح ہو جاتا ہے۔
آج اس بات پر غور کرتا ہے کہ تندرست دل (جسے رب کائنات نے قلب سلیم اور قلب غیب کا نام دیا ہے) (الشعراء 88-88 – ق: 33) اس کی خصلتیں اور علامتیں کیا ہیں۔ اور بیمار دل (جسے قرآن کریم میں بار بار ’’في قلوبهم مرض‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے) اس کی بری خصلتیں اور بیماریاں کیا ہیں؟ سب سے پہلے میں تندرست دل ’’قلب سلیم‘‘ کی خصلتیں اور علامتیں بیان کرتا ہوں۔
قلب سلیم کی علامات
پہلی علامت
تندرست اور توانا دل نور ایمان سے روشن اور منور ہوتا ہے۔
﴿مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ؕ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ﴾ (النور: 35)
’’(اس دل کی) مثال جس میں (ایمان و توحید کا) نور موجود ہے ایک طاق کی طرح ہے جس میں چراغ ہو وہ چراغ شیشے میں ہو شیشہ بھی ایسا گویا کہ وہ چمکتا نارہ ہے اور وہ چراغ اس بابرکت زیتون کے تیل سے جلایا گیا ہو جو ایسے پودے سے حاصل ہو جو نہ شرقی ہے نہ غربی ہے (بلکہ وہ سارا دن دھوپ والی جگہ میں اگا ہے) ایسے پودے کا تیل تو آگ کے چھوئے بغیر ہی چمکتا اور روشنی دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ روشنی کے اوپر روشنی ہے (اسی طرح مؤمن کا وہ دل جس میں ہدایت کا نور موجود ہو ایمان کی چمک اور روشنی موجود ہو وہ منور روشن اور چمکدار ہوتا ہے اس میں ایک تو فطری روشنی ہوتی ہے اور دوسری قرآن و سنت سے حاصل کردہ ایمان و ہدایت کی روشنی ہوتی ہے)۔‘‘
یعنی یہ دل تمام ارکان ایمان، ایمان بالله، ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب، ایمان بالرسل، ایمان بالآخرہ اور ایمان بالقدر کے حوالے سے تصدیق اور پختہ یقین والا ہوتا ہے۔﴿ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا﴾ کا مصداق ہوتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو روز روشن سے بھی زیادہ حق اور بیچ ماننے والا ہوتا ہے۔ وہ قرآن وسنت سے ٹکرانے والی آنکھوں دیکھی چیز اور کانوں سنی بات کو ٹھکر اسکتا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی بات کو غلط نہیں کہہ سکتا اور اس کا نام شرح صدر ہے اور ایسا دل قلب سلیم اور قلب منیب ہے۔
اللہ رب العزت نے فرمایا
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ۚ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ؕ كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ [الأنعام:126]
’’ پس جس شخص کو اللہ تعالی سیدھے راستے پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے اور جس کو بے راہ رکھنا چاہے اس کے سینہ کو بہت تنگ کر دیتا ہے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہے اسی طرح اللہ تعالی ایمان نہ لانے والوں پر ناپاکی مسلط کر دیتا ہے۔‘‘
غور کیجئے ایمان اور ہدایت سے پر دل اور سینے کو کشادہ اور روشن کہا گیا ہے اور جو دل اور سینہ ایمان و ہدایت سے خالی ہے اسے ناپاک گندا اور پلید کہا گیا ہے۔
دوسری علامت: دل کا نرم ہوتا:
یہ بڑی جامع قسم کی علامت اور خصلت ہے یعنی دل احکام الہیہ کو قبول کرنے والا ہو۔ اور دل کی نرمی کے اسباب یہ ہیں:
1۔ کلام الہی میں تدیر و تشکر کرنا۔
2۔ نصیحت و موعظت پر کان لگانا۔
3۔ اپنی غلطیوں کو یاد کر کے نادم و پشیمان ہونا۔
4۔ انابت الی اللہ (اللہ کی طرف توبہ ورجوع کرنا)۔
5۔ کثرت نوافل
6۔ دنیا سے بے نیازی و بے رغبتی رکھنا۔
7۔ موت اور آخرت کو یاد کرنا۔
8۔ خشیت الہی۔
9۔ ذکر و محبت الہی کرتا۔
10۔ رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی سیرت کا مطالعہ کرنا۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس قدر نرم دل تھے قرآن وحدیث کے ہر حکم کی فوری تعمیل کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کو ایک شخص پر سخت غصہ آیا پاس حضرت حر بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ بیٹھے تھے انہوں نے فورًا آیت پڑھی:
﴿خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ﴾ [الأعراف: 199)
’’در گزر سے کام لو بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
(وَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِيْنَ تَلَاهَا عَلَيْهِ)
’’اللہ کی قسم! جب حر نے یہ آیت پڑھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے تجاوز نہیں کیا‘‘
یعنی ادھر آیت مکمل ہوئی ادھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا غصہ کافور ہو گیا، پھر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت بیان کرتے ہیں:
(وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللهِ) [صحيح البخاري، كتاب التفسير، باب خذ العفو و امر بالعرف و أعرض عن الجاهلين (4642) (7286)]
’’کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کتاب اللہ کے (اوامر و نواہی پر) فورًا عمل کرنے والے تھے۔‘‘
تیسری علامت: دل کا اللہ کے ذکر سے سکون پکڑنا:
﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ [الرعد: 28]
’’جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہیں۔‘‘
یعنی قلب سلیم (روحانی طور پر تندرست اور توانا دل) وہ ہے جس کی غذا اللہ کا ذکر ہے جس کی تسکین ذکر الہی سے ہوتی ہے اور ذکر کو وسیع نظر سے دیکھا جائے تو قرآن و سنت پر عمل کرنا اور پورے دین پر عمل کرنا ذکر میں شامل ہے جس کا دل اللہ کے ذکر سے قرآن و سنت اور عبادت واطاعت سے سکون پکڑے ہشاش بشاش ہو اور ایسے دل کو ہی نفس مطمئنہ کہا گیا ہے:
﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُۗۖ۲۷
ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ۲۸
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ۲۹
وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ (الفجر: 27 تا 30)
’’اے اطمینان والی روح! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش۔ پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا۔‘‘
اللہ اکبر! اس سے بڑی کامیابی و کامرانی اور سعادت و خوش بختی کیا ہے کہ بندہ رب پر راضی ہو اور عرش والا بندے پر راضی ہو۔ لیکن یہ عظیم کامیابی صرف ان لوگوں کو حاصل ہو گی کہ جن کے دل اللہ کے ذکر سے اور دین پر عمل سے سکون پکڑتے ہیں سنن ابی داؤد میں حدیث ہے۔ جب نماز کا وقت ہوتا کئی دفعہ رسول اللہﷺ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کر کے فرماتے:
(أَرِحْنا يَا بِلالُ! فَنَادِ بالصلوة)
’’بلال اٹھو اذان کہو اور ہمیں راحت پہنچاؤ یعنی ہمیں نماز پڑھ کے راحت حاصل ہو سکون ملے۔‘‘
یہ ہے نفس مطمئنہ، یہ ہے قلب سلیم کہ نماز سے راحت حاصل ہو نماز سے سکون ملے، نماز سے قرار آئے اور نماز سے دل ٹھنڈا ہو۔ یہ نفس ’’نفس مطمئنہ‘‘ ہے اور یہ دل قلب سلیم اور قلب منیب ہے۔
چوتھی علامت: دل میں شرم و حیاء کا ہونا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ایمان کی قریبا 60 شاخیں ہیں۔ سب سے افضل شاخ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہنا ہے اور سب سے ادنٰی شاخ تکلیف دینے والی چیز کو راستے سے ہٹاتا ہے نیز شرم و حیا بھی ایمان کی شاخ ہے‘‘[صحیح مسلم، الإيمان، باب بيان عدد شعب الإيمان و أفضلها و آدناها (35) و بخاری (9)]
یعی دل میں شرم و حیا کا ہونا ایمان کی علامت ہے کیونکہ شرم و حساء وہ عمدہ خصلت ہے جس کی بنا پر گناہوں، بے حیائیوں اور نافرمانیوں سے بچتا ہے، اچھے کام کرنا ہے اور برائیوں سے دامن بچا کر رکھتا ہے۔
اور دوسری روایت ہے: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
(کانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا وَكَانَ إِذَا كَرِهَ شَيْئًا عَرَفْنَاهُ فِي وَجْهِهِ)[صحی مسلم کتاب الفضائل، باب کثرۃ الحیاء(6032]
’’نبی ﷺ پردے مین رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ با حیا تھے۔ جب آپ کسی مکروہ کام کو دیکھتے توہم اسے آپ کے چہرے ( کے اثرات) سے پہچان لیتے تھے۔‘‘
یہ رسول اللہ ﷺ کے دل کی کیفیت تھی کہ آپ کا دل شرو حیاء سے پُر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے کبھی بھی عادۃ یا تکف کر کے فحش کلامی نہیں کی تھی۔ آپ شرم و حیاء کے پیکر تھے۔
پانچویں علامت:
دل کیں دنیا جہان کی ہر چیز سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا ہونا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص میں تین خصلتیں ہیں وہ ان کی وجہ سے ایمان کی حلاوت محسوس کرے گا۔‘‘
پہلی خصلت:
(من کان اللہ و رسوله احب اليه مما سواهما)
’’الله اور اس كى رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں۔‘‘
دوسری خصلت:
(وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلّٰهِ)
’’وہ کسی شخص سے محبت کرے تو محض اللہ کی رضا کے لیے کرے۔‘‘
تیسری خصلت:
(وَمَنْ يَّكْرَهُ أَنْ يَّعُوْدَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ اَنْقَدَهُ اللهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ یُّلْقٰى فِي النَّارِ) [صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب حب الرسول من الإيمان (16)]
’’کسی شخص کو اللہ نے کفر سے محفوظ رکھا ہے تو وہ کفر میں واپس جانے کو اس قدر برا جانے جس قدر وہ اس بات کو برا جانتا ہے کہ اسے آگ میں ڈالا جائے۔‘‘
غور فرمائیے! اس چیز کو ایمان کی مٹھاس، شیرینی، حلاوت اور مزہ قرار دیا گیا ہے کہ دل میں سب سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہو۔ اور دنیا جہان کی باقی تمام چیزوں کی محبت اس کے تابع ہو۔
چھٹی علامت: دل کا مسجد کے ساتھ معلق (لٹکا ہوا) ہونا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’سات (انسان) ہیں جن کو اللہ تعالی اپنے سائے میں جگہ عنایت فرمائے گا جس روز اس کے سائے کے علاوہ دوسرا کوئی سایہ نہ ہو گا۔‘‘
ان سات آدمیوں میں سے ایک وہ ہے:
(وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقَ بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتّٰى يَعُودَ إِلَيْهِ) [صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب الصدقة باليمين (1423)]
’’ایسا شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ معلق ہے جب بھی وہ مسجد سے نکلتا ہے تو مسجد کی جانب واپس آنے کی فکر میں رہتا ہے۔‘‘
یعنی اس کے دل میں مسجد کی محبت ہے اس کا دل مسجد میں لگتا ہے اور مسجد میں سکون پکڑتا ہے۔ وہ نماز پڑھ کے (دنیاوی ضرورتوں اور مجبوریوں کی خاطر) مسجد سے نکلتا تو ہے لیکن اس کا دھیان مسجد کی طرف ہے اور ایسے شخص کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ نمونہ پیش کرتا ہوں۔ راوی بیان کرتا ہے:
(مَا نُودِيَ بِالصَّلَاةِ مِنْ أَرْبَعِينَ سَنَةٌ إِلَّا وَسَعِيدٌ فِي الْمَسْجِدِ) [تهذيب الهذيب ترجمه سعيد بن المسبب رحمه الله]
’’چالیس سال یہ چیز دیکھی گئی کہ جب بھی مسجد میں نماز کے لیے اذان کہی گئی، اذان کے وقت جناب سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کو مسجد میں پایا گیا۔‘‘
یہ ہے وہ دل جو مسجد سے چمٹا ہوا اور اللہ کے گھر کے ساتھ لٹکا ہوا ہے۔ لیکن آج ہر مسجد میں ایک بڑی تعداد ان نمازیوں کی ہے جن کا اذان کے وقت مسجد میں ہونا تو کجا وہ تو تکبیر اولی سے محروم نماز سے پہلے کی سنتوں سے محروم اور فرض نماز کی 2 یا 3 رکھتیں امام کے ساتھ پانے سے محروم ہوتے ہیں۔
ساتویں علامت: دل کا جذبہ سخاوت سے معمور ہونا:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بھلائی کے لحاظ سے رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ سب سے زیادہ رمضان میں سخاوت کرتے تھے۔ جبریل رمضان میں آپﷺ سے ملاقات کرتے تو آپﷺ انہیں قرآن سناتے۔ جب آپ ﷺ سے جبریل ملاقات کرتے تو آپ نیکی میں تیز آندھی سے زیادہ سخی ہوتے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب أجود ما كان النبيﷺ يكون في رمضان (1902) و صحیح مسلم (2308) و ابن حیان (3440) و ابن ابی شیبه (102/9) و ابن خزیمه (1889)]
دوسری روایت میں ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی معیت میں چل رہا تھا۔ آپﷺ پر دھاری دار نجرانی چادر تھی جس کے کنارے موٹے تھے (راستے میں) آپ کو ایک دیہاتی ملا اس نے آپ کی چادر (پکڑ کر) زور سے کھینچی۔ نبی ﷺ دیہاتی کے سینے کے قریب آ گئے میں نے دیکھا کہ دیہاتی کے اس قدر سختی سے چادر کھینچنے سے رسول اللہﷺ کی گردن مبارک پر چادر کے کنارے کی رگڑ کا نشان پڑ گیا تھا۔ بعد ازاں اس دیہاتی نے کہا اے محمدﷺ! آپ کے پاس اللہ تعالی کا جو مال ہے اس میں سے مجھے کچھ عطا کریں۔ (اس کی اس بات پر) نبی ﷺ نے اس کی جانب التفات کیا اور آپ مسکرائے۔ پھر اسے کچھ عطا کرنے کا حکم دیا۔[صحيح البخاري، كتاب اللباس، باب البرود والحبرة والشملة (5809)]
صحیح بخاری میں ہے: حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب وہ رسول اللہﷺ کی معیت میں جنگ حنین سے واپس آ رہے تھے (ایک مقام پر) دیہاتی لوگ آپ ﷺ سے لپٹ گئے وہ آپﷺ سے مال غنیمت مانگ رہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ کیکر کے درخت کی جانب پناہ حاصل کریں۔ آپ کی درخت میں الجھ گئی۔ نبی ﷺ کچھ دیر رکے اور فرمایا: ’’مجھے میری چادر لوٹا دو اگر میرے پاس ان درختوں کی تعداد کے برابر بھی مویشی ہوتے تو میں انہیں تم میں تقسیم کر دیتا اور تم مجھے بخیل، غلط بیانی کرنے والا اور چھوٹے دل والا نہ پاتے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الجهاد، باب الشجاعة في الحرب والجبن، رقم: (2821)]
یہ تین واقعات صرف بطور نمونہ ذکر کیے ہیں ورنہ آپ کی جو دو سخا اس قدر زیادہ تھی کہ کسی لمبی نشست کے اندر بھی اسے احاطہ تقریر میں لانا اور کسی موٹی کتاب میں اسے ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ بہر حال جذبہ سخاوت قلب سلیم اور قلب منیب کی نمایاں شناخت اور پہچان ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الحشر میں فرمایا:
﴿وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ [الحشر:9]
’’وہ لوگ (یعنی انصار مدینہ) ذاتی ضرورت حاجت اور بھوک پر دوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے ہیں (یہ لوگ بخل اور طمع سے بچا لیے گئے ہیں) اور جو لوگ نفس کے بخل اور طمع سے بچا لیے جائیں وہی کامیاب ہیں۔‘‘
آٹھویں علامت: دل میں خشیت الہی، خوف الہی اور تقویٰ ہو:
اللہ رب العزت نے سورہ الملک میں فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَّأَجْرٌ كَبِيْرٌ﴾[الملک:12]
’’بے شک جو لوگ اپنے پروردگار سے غائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور بڑا ثواب ہے۔‘‘
سورہ یسین میں فرمایا:
﴿اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ۚ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ كَرِیْمٍ﴾ [یسین:11]
’’بس آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت پر چلے اور رحمن سے بے دیکھے ڈرے سو آپ اس کو مغفرت اور باوقار اجر کی خوش خبریاں سنا دیجئے۔‘‘
سورہ نور میں ہے:
﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۵۲﴾ [النور:52]
’’جو بھی اللہ تعالی کی اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں وہی نجات پانے والے ہیں۔‘‘
سورہ نازعات میں ہے:
﴿وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیۙ۴۰
فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰی﴾ [النازعات: 40-41]
’’ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہو گا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔‘‘
بخاری و مسلم میں ہے:
(أنَا وَاللهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَٰهِ وَاتْقَاكُمْ لَهُ)
’’اللہ کی قسم! میں تم سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے لیے تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں۔‘‘
دوسری روایت میں ہے:
(التقواى ههنا) (تین بار)
دل اور سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ”تقویٰ یہاں ہوتا ہے یعنی تقوی اور خشیت الہی کا مرکز دل ہے۔‘‘[1]
نویں علامت: دل میں عاجزی و انکساری ہو (یعنی تکبر نہ ہو):
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اہل مدینہ کی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑتی وہ جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی (آپ اس کی ضرورتیں پوری کر دیا کرتے تھے) آپ بالکل اس بات میں عار محسوس نہیں کرتے تھے کہ یہ تو لونڈی ہے میں اس کے ساتھ کیوں چلوں یہ تو بے وقعت ہے۔ نہیں آپ عاجزی والے تھے کسی کی تحقیر نہیں کرتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت کی عقل میں کچھ خلل تھا۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے آپ ﷺ سے کچھ کام ہے۔ آپﷺ نے اس سے کہا: اے ام فلاں! دیکھو! جس گلی میں بھی تم چاہتی ہو (میں جانے کے لیے تیار ہوں) تاکہ تمہارے لیے تمہارے کام کو پورا کروں۔ چنانچہ آپ راستے میں اس کے ساتھ الگ رہے حتی کہ جو کام اس نے کہنا تھا کہہ دیا۔[صحیح مسلم، كتاب الفضائل، باب قربه من الناس و تبركهم به، رقم: 6044]
آج کمزور عقل والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا یہ تکبر ہے عاجزی یہ ہے کہ کمز ور عقل والوں کی بات سنی جائے اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے
جامع ترندی میں ہے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص سے مصافحہ کرتے تو اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک وہ شخص اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیتا اور آپ اپنے چہرے کو کسی شخص سے اس وقت تک نہ پھیرتے جب تک کہ وہ شخص اپنا چہرہ نہ پھیر لیتا تھا۔ نیز آپ کو بھی اس حال میں نہیں دیکھا گیا کہ آپ ﷺ کسی ساتھی کے آگے گھٹنے دراز کیے بیٹھے ہوں۔[جامع الترمذي، كتاب صفة القيامة والرقائق، باب تواضعه مع جليسه، رقم: 2490]
اس روایت کی سند میں اگرچہ کچھ کلام ہے لیکن دوسری صحیح احادیث سے اس کی تائیدہ ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپﷺ کا دل کس قدر عاجزی والا تھا اور آپ متکبر نہیں تھے۔
بخاری شریف کی حدیث ہے: حضرت اسود رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ نبی ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: آپ ﷺ اپنے گھر والوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مشغول رہتے تھے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو آپ نماز کے لیے چلے جاتے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب الأذان باب من كان في حاجة اہلہ.. الخ، رقم: 676]
کیسی عاجزی و انکساری ہے، کہ سید الرسل ہونے کا اعزاز سید ولد آدم ہونے کا امتیاز مقام محمود پر فائز ہونے کا بلند مقام، لیکن عاجزی اس قدر زیادہ کہ گھر میں گھر والوں کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔….
اور ایک حدیث میں ہے:
(أَنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا) [مسند احمد (256/6) (6194) و ابن حبان حسن (5675) صحيح البخاري، كتاب الأدب باب الانبساط إلى الناس رقم 6129]
’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ہمارے ساتھ خلط ملط ہو جایا کرتے تھے یعنی امتیازی رہن سہن کی بجائے ہمارے ساتھ مل جل کر رہتے تھے۔‘‘
دسویں علامت: دل میں خیر خواہی اور ہمدردی کا ہونا:
یہ نبوی صفت ہے: اللہ رب العزت نے سورہ توبہ میں فرمایا:
﴿لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ [التوبه:128]
’’تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری معفرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے۔ جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔‘‘
اور سورۃ الاعراف میں ہے: حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں:
﴿اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَكُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [الأعراف:62]
’’تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں۔‘‘
حضرت ہود علیہ السلام فرماتے ہیں:
﴿اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ﴾ [الأعراف:68]
’’تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا امانتدار خیر خواہ ہوں۔‘‘
حضرت صالح علیہ السلام فرماتے ہیں:
﴿فَتَوَلّٰی عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ﴾ [الأعراف:79]
’’اس وقت (صالح علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلئے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچا دیا تھا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔‘‘
حضرت شعیب علیہ السلام فرماتے ہیں:
﴿فَتَوَلّٰی عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ ۚ فَكَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠﴾ [الأعراف:93]
’’اس وقت شعیب علیہ السلام ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی۔ پھر میں ان کافرلوگوں پر کیوں رنج کروں۔‘‘
غرضیکہ ہمدردی و خیر خواہی نبوی صفت ہے کہ دل لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی سے پر ہو لوگوں کو دینی و دنیاوی خیر اور بھلائی پہنچانے کے جذبات سے سرشار ہو لوگ طعنے دیں، برا کہیں الزامات لگائیں، لیکن یہ لوگوں کی ہمدردی و خیر خواہی کرے……۔
اور مسلم شریف میں ہے:
(الدِّينُ النَّصِيْحَةُ قِیْلَ: لِمَنْ قَالَ: (لِلّٰهِ وَلِكِتَابِهٖ وَلِرَسُولِهٖ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ وَعَامَّتِهِمْ) [صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان أن الدين النصيحة (55) و أبوداؤد (4944) و احمد (102/4)]
’’دین نصیحت اور خیر خواہی ہے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا: کس کے لیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے لیے اور اس کی کتاب کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور مسلمان عوام کے لیے۔‘‘
اللہ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول سے خیر خواہی کا مطلب ان پر درست ایمان رکھنا ہے اور اس کے ساتھ ان کے حقوق ادا کرتا ہے۔ اور مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام الناس سے خیر خواہی کا مطلب ان کے حقوق ادا کرنا اور اچھے کاموں میں ان کی اعانت کرنا اور برے کاموں میں ان کی درست رہنمائی کرنا اور برائی سے روکتا ہے۔ اسی طرح دین سے دور حکمرانوں اور عام لوگوں کو دعوت دین دینا اور انہیں دین کی طرف مائل کرنا بہت بڑی ہمدردی اور خیر خواہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اللہ میں یہ خیر خواہی اس قدر زیادہ تھی کہ اللہ رب العزت نے یہاں تک فرما دیا:
﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤی اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا﴾ [الكهف:6]
’’کیا آپ لوگوں کے ایمان قبول نہ کرنے اور دین کی طرف نہ آنے کے دکھ میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہیں؟‘‘
یعنی یہ دکھ اور صدمہ آپ پر اس قدر غالب ہے کہ یہ آپ کی جان ہی نہ لے لے۔
لیکن آج یہ خیر خواہی دلوں میں نہیں رہی آج دنیاوی اعتبار سے کس حد تک خیر خوابی موجود ہے؟ کسی کی 10 روپے کی چیز گر پڑے دس افراد آواز دینے والے ہوتے ہیں۔ بھیّا! آپ کی چیز گر پڑی ہے لیتے جاؤ لیکن کوئی بے نماز ہو کر جہنم کا ایندھن بن رہا ہے کوئی شرکیہ کفریہ عقائد کی وجہ سے جہنم کا کوئلہ بن رہا ہے لیکن کوئی آواز دینے والا نہیں۔ کوئی خیر خواہ اور ہمدرد نہیں۔ الا ماشاء اللہ۔
حالانکہ اصل خیر خواہی اور ہمدردی یہی ہے۔
بہرحال یہ دل کی وہ اچھی علامات اور خصلتیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دل قلب سلیم اور قلب منیب ہے۔ اللہ ہمیں ان تمام صفات سے متصف فرمائے۔
بیمار دل کی نشانیاں
پہلی نشانی:
دل میں کفر شرک اور نفاق کا پایا جانا دل کی سب سے خطرناک بیماری ہے ﴿ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ [البقرة:10)
یہ بیماری تمام دیگر امراض قلب کی جڑ اور بنیاد ہے۔ کہ دل میں پختہ ایمان اور یقین کی بجائے شک و شبہ اور تردو تذبذب ہے یا کھلا انکار اور شرک ہے۔ اللہ رب العزت نے سورہ توبہ میں منافقوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ فَهُمْ فِیْ رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ﴾ [التوبة:45]
’’اور ان کے دل شک وریب میں پڑے ہوئے ہیں، اس لیے وہ اپنے شک وریب میں ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔‘‘
جب دل میں یہ بیماری پیدا ہو جائے تو ایمان کا کھو کھلا دعوی کرنے والا بھی اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی اور بیہودہ گوئی کرنے لگتا ہے:
سورۃ الاحزاب میں ہے:
﴿ وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا﴾ [الأحزاب:12]
"”اور اس وقت منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کا) روگ تھا کہنے لگے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا فریب کا ہی وعدہ کیا تھا۔‘‘
غور کیجئے! معمولی ساجھٹکا لگا، چھوٹی سی آزمائش آئی۔ جب کافروں نے جتھہ بندی کر کے مدینہ منورہ پر حملہ کیا بس منافقوں کا خبث باطن ظاہر ہونے لگا اور وہ کہنے لگے: اللہ اور اس کے رسول نے (معاذ اللہ) مدد کا جھوٹا وعدہ ہی کیا تھا۔
اور سورۃ الانفال میں ہے:
﴿اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ [الأنفال:49]
’’جبکہ منافق کہہ رہے تھے اور وہ بھی جن کے دلوں میں روگ تھا کہ انہیں تو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے جو بھی اللہ پر بھروسہ کرے اللہ تعالی بلا شک و شبہ غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
جب مسلمان بے سرو سامانی کے عالم میں، تھوڑی سی تعداد میں معرکہ بدر کے لیے میدان میں اترے تو بیمار دل منافق لوگوں نے کہا: انہیں ان کے دین نے دھوکے میں یعنی جب دل پختہ ایمان اور یقین سے عاری و خالی ہو اور شکوک و شبہات سے ڈال دیا ہے۔
یعنی جب دل بختہ ایمان اور یقین سے عاری و خالی ہو، اور شکوک و شبہات سے پُر ہو تو وقتًا فوقتًا اسلام دشمنی کا اظہار ان کی زبانوں سے ہو ہی جاتا ہے۔
دوسری نشانی:
دل کا سخت ہونا کہ آیت اور حدیث اثر ہی نہ کرے: سورہ بقرہ میں ہے:
﴿ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ [البقرة:74]
بنو اسرائیل نے بے شمار معجزات دیکھئے اللہ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں، لیکن اس کے باوجود ان کے دل سخت رہے اور وہ احکام الہیہ کو ٹالتے رہے (تو رب کائنات نے انہیں جھنجھوڑتے ہو فرمایا: ”تمہارے دل (اتنی ساری نشانیاں دیکھنے کے باوجود) سخت ہو گئے پس وہ پتھروں کی طرح سخت ہو گئے بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو گئے جبکہ بعض پھر ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹ پڑتی ہیں اور بعض پھر ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض پتھر ایسے ہیں جو اللہ کے خوف سے اونچی جگہ سے نیچے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘
یعنی پتھروں میں اللہ کی پہچان اور معرفت موجود ہے وہ خشیت الہی سے پھٹ جاتے اور گر پڑتے ہیں، لیکن یہ گوشت خون۔ جب سخت دل ہو جاتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکتا۔ یہ نہ گڑ گڑاتا ہے نہ روتا ہے نہ اللہ کی بارگاہ میں رکوع و سجود میں گرتا ہے۔ اور کوئی آیت اور حدیث اس کے دل پر اثر نہیں کرتی۔ کوئی نصیحت و موعظت اس کے دل پر مؤثر نہیں ہوتی بلکہ جب دل سخت ہو جائے تو انسان اللہ کے دین کو ماننے کی بجائے تحریف کرنے لگتا ہے۔ سورہ مائدہ میں ہے:
﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةً ۚ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ۙ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ﴾ [المائدة:13]
’’پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت نازل فرما دی اور ان کے دل سخت کر دیئے کہ وہ کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے۔‘‘
تیسری نشانی:
دل کا توحید اور قرآن سے نفرت کرنا:
﴿وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ۚ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ﴾ [الزمر:45]
’’جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا (اور کا ذکر) کیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘
آج کئی کلمہ گو مسلمان بھی دل کی اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ اللہ کی توحید سے نفرت کرتے ہیں اور جب پیروں، فقیروں اور ملنگوں کا مبالغہ آمیز تذکرہ کیا جاتا ہے تو خوشی سے جھومتے اور اچھلتے ہیں۔ اور سورہ لقمان میں ہے:
﴿وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَا كَاَنَّ فِیْۤ اُذُنَیْهِ وَقْرًا ۚ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ [لقمان:7]
’’جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔‘‘
آج یہ کیفیت بہت سارے مسلمانوں کی ہو چکی ہے کہ قرآن سننے سے اکتائے ہوئے اور کنارہ کش ہیں، لیکن گانوں، غزلوں اور قوالیوں پر کان لگائے ہوئے اور رقص کنا ہیں …
چوتھی نشانی:
دل کا شرم و حیاء سے خالی ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعُ مَا شِئْتَ) [صحیح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار (3484) وابوداود (4797 و ابن ماجه (4183) و احمد (273/5]
’’پہلے نبیوں کی باتوں میں سے جو باتیں لوگوں نے یاد رکھی ہیں ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب تجھ میں حیاء نہ رہے تو جو مرضی کر۔‘‘
یعنی حیاء برائی، فحاشی اور عریانی سے روکنے والی چیز ہے تو جب دل شرم وحیاء سے خالی ہو جائے تو انسان بے لگام ہو جاتا ہے اور بڑی دیدہ دلیری سے برائیاں اور گناہ کرتا ہے۔
آج دلوں سے شرم و حیاء کے نکل جانے کا ہی نتیجہ ہے کہ معاشرہ ڈراموں اور گندی محبتوں کی لپیٹ میں ہے شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں نسوانی حسن کی نمائش، مودی کا اہتمام، گھونگھٹ اتروائی اور گھنٹا پکڑنے کی رسمیں۔ یہ سب شرم و حیاء اور غیرت کے مفقود ہونے کی بناء پر ہے۔
پانچویں نشانی:
دل کا دنیا کے مال و متاع کی محبت سے پُر ہونا اور عورتوں کی ناجائز محبت میں مخمور ہونا، طبی لوگوں کے نزدیک بھی عشق پیچا دل کی خطرناک بیماری ہے:
﴿فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ﴾ [الأحزاب:32] سے یہی اشارہ ملتا ہے۔ بلکہ دنیا کی محبت میں مبالغہ اور عورتوں کا بے تحاشا عشق کفر و شرک تک پہنچا دینے والی چیز ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں دل سے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کلیہ ختم ہو جاتی ہے اور انسان صرف اور صرف خواہش نفس کا پجاری بن کے رہ جاتا ہے۔
چھٹی نشانی: بخل اور طمع:
یہ بھی دل کی خطرناک بیماری ہے جس کے نتیجے میں انسان بہت سارے اجر و ثواب سے محروم رہتا ہے: سورہ آل عمران میں ہے:
﴿وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْ ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ [آل عمران:180]
’’اور جو لوگ اس (مال) میں بخل کرتے ہیں جو تے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے وہ اس بخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں، بلکہ وہ ان کے لیے بہت برا ہے یہ بخل کے ذریعے بچایا ہوا مال قیامت کے دن ان کی گردنوں کا طوق بنایا جائے گا اور آسمانوں اور زمین کی وراثت اللہ ہی کے لیے ہے (سارے عارضی مالک فناء ہو جائیں گے صرف اللہ ہی مالک اور وارث ہوگا) اور اللہ تمہارے عملوں سے خوب باخبر ہے۔‘‘
اور حدیث میں ہے:
(وَاتَّقُوا الشَّحَّ فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ) [صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم (2578) و احمد (223/3)]
’’(لوگو) لالچ اور بخل سے بچ جاؤ کیونکہ بجل نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر کے رکھ دیا تھا۔‘‘
حقیقت ہے بخل اور طمع کی وجہ سے خون سفید ہو جاتا ہے مال و منال کے حرص و طمع کی بناء پر سگے بھائی، عزیز واقارب اور دوست احباب خون کے پیاسے اور دشمن بن جاتے ہیں۔
ساتویں نشانی:
دل کا شیطانی اڈوں، سینما گھروں، تھیڑوں، کھیل کے میدانوں اور بری مجلسوں میں خوش رہنا۔ جب دل روحانی طور پر بیمار ہو جاتا ہے تو اس کے جذبات بگڑ جاتے ہیں یہ صاف ستھرے پاکیزہ ماحول (درس خطبہ مسجد اور اچھی مجلس) کی بجائے گندے، نجس اور پلید ماحول میں خوش رہتا ہے۔ جس طرح رب کائنات نے سورۃ التوبہ میں منافقوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: کہ منافق درس قرآن کی مجلس سے نظریں بچا کر نکل جاتے ہیں۔ (اچھی مجلسوں میں ان کا دل خوش نہیں رہتا۔)
آٹھویں نشانی:
دل میں بغض اور کینہ پیدا ہونا:
(لَا تَبَاغَضُوا) [صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم (2564) وابوداود (4582) والترمذي (1927)]
’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔‘‘
دوسری حدیث میں ہے:
(إِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ) [جامع الترمذی (1927)]
’’آپس میں بغض اور عدادت مونڈھ دینے والی چیز ہے جو جسم سے دین کو مونڈھ کر رکھ دیتی ہے۔‘‘
کیونکہ باہمی بغض و عناد اور عداوت کے نتیجے میں قتل و غارت، غیبت و چغلی اور سب و شتم جیسی بدترین برائیاں جنم لیتی ہیں اور معاشرے کا امن تباہ ہو جاتا ہے۔
نویں نشانی: دل میں حسد کا پیدا ہوتا:
یہ ایسی خطرناک بیماری ہے جس سے بڑی خطرناک بیماریاں جنم لیتی ہیں حسد انسان کو کفر و شرک پر آمادہ کرتا ہے اور جادو ٹونے جیسے شیطانی عمل پہ لگا دیتا ہے۔ یہودو نصاری نے اور مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی نبوت ورسالت کا انکار محض حسد کی بناء پر کیا جس طرح کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ اس کی صراحت موجود ہے۔
اور آج بھی حسد نے معاشرے کو جہنم نظیر بنا رکھا ہے لوگ حسد کی بناء پر سالہا سال لڑتے اور جادو ٹونے کے شیطانی عمل میں محو رہتے ہیں اس لیے قرآن کریم کی سورۃ الفلق میں جادو اور حسد کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے۔
﴿وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِۙ۴
وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠﴾ [الفلق:4،5]
’’اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شرسے (تیری پناہ چاہتا ہوں) اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔‘‘
دسویں نشانی: ضمیر کا مر جانا:
اللہ رب العزت نے ہر دل میں ضمیر رکھا ہے جو انسان کو فطری طور پر برائی سے روکتا ہے لیکن گناہوں کی بھر مارے یہ ضمیر مر جاتا ہے تو انسان اللہ کی بغاوت پر دلیر اور جراءت مند ہو جاتا ہے پھر علی الاعلان رشوت لیتا، چھیڑ چھاڑ کرتا جو کھیلتا اور ہر قسم کا گناہ کرتا ہے۔
دل پر نقطه:
رسول اللہﷺ نے ضمیر مرنے کی کیفیت اس طرح بیان فرمائی کہ جب ابن آدم گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے پھر اگر توبہ کرے تو وہ نقطہ مٹ جاتا ہے۔ اور اگر پھر گناہ کرئے توبہ نہ کرئے تو سیاہ نقطے لگتے جاتے ہیں حتی کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔[جامع الترمذي، كتاب تفسير القرآن، باب و من سورة ويل للمطففين (33،34) وابن ماجه (4244) و ابن حبان (1771)]
یہ ہے ضمیر کا مر جانا کہ گناہوں کی کثرت اور برائیوں کی بھر مار سے دل کی روشنی بجھ جاتی ہے دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ ضمیر مردہ ہو جاتا ہے، پھر انسان بے پرواہ اور بے حجاب ہو کر علانیہ گناہ اور نافرمانی کرتا ہے آج معاشرے میں برائی اور بدی کا راج اسی مردہ ضمیری کا نتیجہ ہے۔
اور یہ مردہ ضمیری انسان کو ایسا غافل بنا دیتی ہے کہ انسان سرتا پاؤں گناہوں کی دلدل میں ڈوب کر بھی یہ دعوی کرتا ہے کہ میرا دل بڑا صاف اور عمدہ ہے عورتیں بے پردہ ہو کر دعوی کرتی ہیں جی پردہ تو دل کا ہوتا ہے ہمارا دل صاف ہے۔ یاد رکھئے جب دل صاف ہو گا تو بدن پر اللہ کی شریعت نافذ ہو گئی انسان چلتا پھرتا اسلام نظر آتا ہے لیکن جب ضمیر مر جائے تو انسان بے دین ہو کر بلند بانگ دعوے کرتا ہے۔
آخری بات:
آج لوگوں نے اصطلاحیں بدل ڈالی ہیں بیمار دل لوگوں کو زندہ دل کا لقب دے دیا ہے ہر وقت کھیل کود کے شوقین، قلموں ڈراموں کے رسیا اور گانے بجانے کے پجاریوں کو زندہ دل کہا جا رہا ہے یہ تو مردہ دل اور بیمار دل لوگ ہیں زندہ دل تو وہ ہے
جس کا دل قلب سلیم اور قلب منیب ہو جس کی تفصیل آپ سن چکے ہیں۔ اللہ ہمیں حقیقی زندہ دل بنائے، اور دل کی روحانی و جسمانی بیماریوں سے محفوظ رکھے۔
اسی طرح آج کئی لوگ بیمار دل ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دل جلا کہلوانے اور لکھوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھی مردہ ضمیری کی ہی ایک شکل ہے اللہ ہمارے ضمیر بیدار کرے اور ہمیں نور ایمان سے منور محبت رسول سے پر اور بصیرت و ہدایت بھرا ہوا دل عطاء فرمائے۔
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ)