توحید عین فطرت ہے

سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(( مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ)) (أخرجه البخاري« 1359، ومسلم« 2658، واللف له)

’’ہر بچے کی پیدائش فطرت(اسلام اور توحید)  پر ہوتی ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے(اپنے ماحول میں ڈھال کر) یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسا کہ حیوانات کے بچے صحیح سلامت پیدا ہوتے ہیں، کیا تم نے (پیدائشی طور پر) ان کے جسم کا کوئی حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے؟“

سیدنا ابوہریر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:  اگر تم چاہو تو (سورہ روم کی) یہ آیت پڑھ لو:

﴿فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ؕ﴾ ’’اللہ کی اس فطرت کے مطابق، جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش (فطرت)  کو کسی طرح بدلنا (جائز) نہیں۔“

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپﷺنے فرمایا: ((فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُشَرِّكَانِهِ))

’’بچے کے والدین اسے یہودی، عیسائی اور مشرک بنا دیتے ہیں۔

صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:

((إِلَّا عَلٰي هٰذَهِ الْمِلَّةِ)) ’’(اور ہر پیدا ہونے والا بچہ)  دین اسلام پر ہوتا ہے۔‘‘

توضیح و فوائد:مطلب یہ کہ عقیدہ توحید انسان کی فطرت اور مزاج میں شامل ہے اور فطرت پر پیدا ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے دیکھنے، سننے، بولنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں عطا فرمائیں اسی طرح اللہ تعالی نے اسے اپنی معرفت کی صلاحیت بھی عطا کی۔

اس کے لیے زیادہ غور و فکر اور تعلیم کی ضرورت نہیں، بشرطیکہ فطرت شرک و کفر کی نجاست سے مسخ نہ ہو جائے، پھر آپ نے ایک مثال سے سمجھایا کہ جس طرح جانور پیدائشی طور پر صحیح سلامت پیدا ہوتے ہیں۔ بعد ازاں لوگ باطل نظریات اور مختلف مقاصد کی وجہ سے ان کے کان وغیرہ کاٹ دیتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ پیدا ہی اسی طرح ہوتے ہیں، حالانکہ وہ بے عیب پیدا ہوتے ہیں، ٹھیک یہی حالت انسان کی ہے۔ انسان بھی شرک و کفر پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسلام اور عقیدہ توحید ہی پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے ماں باپ کا رویہ، روایتیں اور ماحول اس کی فطرت (اسلام اور توحید)  کو مسخ کر کے شرک کی نجاستوں سے آلودہ کر دیتا ہے۔

سیدنا عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ تعالی عنہ یال بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا:

((أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حَلَالٌ وَإِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمْ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوا بِي مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا وَإِنَّ اللَّهَ نَظَرَ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَمَقَتَهُمْ عَرَبَهُمْ وَعَجَمَهُمْ إِلَّا بَقَايَا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ))(أخرجه مسلم: 2865)

’’لوگو سنو! میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ان باتوں کی تعلیم دوں جو تمھیں معلوم نہیں اور اللہ تعالی نے آج مجھے ان کا علم عطا کیا ہے، (اللہ تعالی نے فرمایا ہے:) ہر مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا (اس کی قسمت میں لکھا) ہے، وہ اس کے لیے حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف (اسلام اور توحید پر یکسو) پیدا کیا، پھر شیاطین ان کے پاس آئے اور انھیں ان کے دین ((سلام اور توحید)  سے دور کر دیا اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا، اسے ان کے لیے حرام کر دیا اور ان (بندوں) کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ انھیں شریک ٹھہرائیں جن کے متعلق میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے (نبی اکرمﷺ کی بعثت سے پہلے)  زمین والوں کی طرف نظر فرمائی تو اہل کتاب کے بچے کھچے لوگوں کے سوا باقی سارے عرب و عجم پر سخت ناراض ہوا۔‘‘

 توضیح و فوائد:  عرصہ دراز تک لوگ توحید کی فطری صلاحیت کی بنا پر موحد ہی رہے ان کے پاس کوئی نبی اور رسول نہیں آیا، پھر زمانے کے الٹ پھیر اور زندگی کی رفتار کے ساتھ ساتھ عقیدہ توحید میں خلل آنے لگا اور رفتہ رفتہ حلال و حرام کا فطری تصور ماؤف ہو گیا، یعنی ختم ہوتا چلا گیا تو اللہ تعالی نے اپنے انبیاء و رسول مبعوث فرمائے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اور رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے بنی اسرائیل اور دیگر اقوام میں اس قدر بگاڑ پھیل گیا کہ سوائے چند اہل کتاب کے ساری دنیا کفر و شرک میں ڈوب گئی جس پر اللہ تعالی سخت ناراض ہوئے، چنانچہ اللہ تعالی نے بھولی بھٹکی انسانیت پر رحم فرماتے ہوئے سید الانبیاء محمدﷺ کو احیائے توحید کے لیے مبعوث فرمایا۔

سیدنا عبد الرحمن بن ابزٰی  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ صبح و شام یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

((أَصْبَحْنَا عَلٰى فِطْرَةِ الْإِسْلَامِ، وَعَلٰى كَلِمَةِ الْإِخْلَاصِ، وَعَلٰى دِينِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ. وَعَلٰى مِلَّةِ أَبِينَا إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا، وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ). (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:  15363، والنسائي في الكبرى 9831.)

’’ہم نے فطرت اسلام، کلمۂ اخلاص (توحید)، اپنے نبی سیدنا محمدﷺ کے دین اور اپنے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر صبح کی، جو یک سو (موحد) اور فرماں بردار تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔“

 سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک انصاری شخص کو حکم دیا کہ جب وہ (سونے کے لیے) اپنے بستر پر لیٹے تو یہ دعا پڑھے:

((اَللّٰهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ. وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ. لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.)) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ: 6315، ومسلم: 2710، ومسند أحمد: 18515 واللفظ له)

’’اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کر دی اور اپنا چہرہ تیری طرف کر دیا۔ اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا اور اپنی پشت تیری طرف جھکا دی۔ یہ سب کچھ تیری ملاقات کا شوق رکھتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے کیا۔ تیرے سوا نہ کوئی پناہ گاہ ہے اور نہ مقام نجات۔ میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی کو مان لیا جسے تو نے مبعوث فرمایا۔‘‘

(رسول اللہ علیم نے فرمایا: جو شخص سونے سے پہلے یہ کلمات پڑھے) ((فَإِنْ مَّاتَ، مَاتَ عَلٰى الْفِطْرَةِ)) ’’پھر اسی رات فوت ہو جائے تو وہ فطرت اسلام پر فوت ہوگا۔‘‘

 5۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺ (دشمن پر)  طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے، اگر اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے تھے۔ (ایک موقع پر ایسا ہوا کہ)  نبی اکرمﷺ نے ایک آدمی کو اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَر کہتے ہوئے سنا تو فرمایا: ((عَلَى الْفِطرة)) ’’یہ شخص فطرت (اسلام) پر ہے۔‘‘

پھر اس نے کہا: أَشْهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ. تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ((خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ)) ’’تو آگ سے بچ گیا ہے۔‘‘ یہ الفاظ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔ (أخرجه مسلم:382)

توضیح و فوائد:  اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے والے کو فطرت پر قرار دینے کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص کسی دلیل یا دعوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ فطری صلاحیت اور اپنے باطن کے داخلی ادراک و احساس کی بنا پر توحید کی صدا لگا رہا ہے۔

…………