توحید باری تعالیٰ کی معرفت میں رائے زنی اور جاہلوں کی تقلید حرام ہے

249۔سیدنا  ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

((أَخَذَ الله الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ، يَعْنِي: عَرَفَةً، فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ كُلَّ ذُرِّيَّةٍ ذَرَاهَا، فَنَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ قِبَلًا))

’’اللہ تعالی نے وادی نعمان، یعنی عرفہ میں سیدنا آدم علیہ السلام کی پشت سے عہد لیا، اس طرح سے کہ ان کی پشت سے اس کی اولاد کو نکالا جنھیں اس نے پیدا کرنا تھا، پھر ان کے سامنے انھیں سرخ چیونٹیوں کی طرح پھیلایا، پھر ان سے آمنے سامنے بات کی۔ ‘‘

پھر پوچھا:

﴿وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ؕ قَالُوْا بَلٰی ۛۚ شَهِدْنَا ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ۝ اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّیَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ۝﴾

 (الأعراف:7: 172، 173)

’’کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں، انھوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم گواہی دیتے ہیں۔ (اللہ تعالی فرماتے ہیں) یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔ یا تم یہ نہ کہو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم تو ان کے بعد ان کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں، پھر کیا تو ہمیں اس قصور میں ہلاک کرتا ہے جو گمراہ لوگوں نے کیا تھا۔‘‘ (أخرجه أحمد:2455)

توضیح و فوائد:  اللہ تعالیٰ کی توحید ہو یا دیگر احکام و مسائل، سب میں راہ نمائی اللہ کی کتاب اور رسول اکرمﷺ کی حدیث ہی سے لینی چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ ؔ۫ عَلٰی بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ؕ ﴾

’’(اے نبی) کہہ دیجیے! یہی میری راہ ہے، میں اور میرے پیروکار اللہ کی طرف بصیرت اور دلیل کی بنا پر بلاتے ہیں۔‘‘ (یوسف 108: 12)

 اس لیے دینی احکام میں دلیل کے بغیر رائے زنی سے بچنا چاہیے۔ ایسا کرنا حرام اور گمراہی ہے۔ اسی طرح اندھا دھند شخصی تقلید بھی حرام ہے۔ آج امت مسلمہ کی گمراہی کا یہی سب سے بڑا سبب ہے۔

250۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

((إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا)) (أخرجه البخاري: 100، 7307، و مسلم: 2673)

’’اللہ تعالی تمھیں علم دے کر پھر اسے یونہی نہیں چھین لے گا بلکہ علم اس طرح اٹھائے گا کہ علماء حضرات فوت ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ ہی علم اٹھ جائے گا، پھر جاہل لوگ رہ جائیں گے۔ ان سے فتویٰ لیا جائے گا تو وہ محض اپنی رائے سے فتوی دے کر دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے۔‘‘

 توضیح و فوائد:  اللہ تعالی کی معرفت ہی اصل علم ہے اور اس ذات عالی کی معرفت یہ ہے کہ انسان توحید پر کار بند ہو۔ توحید فطرت ہے اور اس کے دلائل بے شمار ہیں جبکہ شرک کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں کی، اس لیے توحید کا علم نہ رکھنے والا جاہل ہے، خواہ وہ عصری علوم وفنون میں مہارت تامہ رکھتا ہو۔

125۔  عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا:

((تَفَتَرِقَ أُمَّتِي عَلَى بِضْعِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً أَعْظَمُهَا فِتْنَةً عَلٰى أُمَّتِي قَوْمٌ يَقِيسُونَ الأُمُوْرُ بِرأْیِهِمْ، فَيُحِلُّونَ الْحَرَامَ، وَيُحْرِّمُونَ الْحَلَالَ)) (أخرجه  الحاكم: 547/3، والخطيب في تاريخه: 307/13، وفي الفقيه والمتفقه: 180/1)

’’میری امت ستر سے کچھ زائد فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ ان میں سے فتنے اور آزمائش کے لحاظ سے میری امت پر سب سے بڑا گروہ وہ لوگ ہوں گے جو امور اور معاملات کو اپنی رائے سے قیاس کریں گے، وہ نتیجے میں حرام کو حلال قرار دیں گے اور حلال کو حرام‘‘

……………..