توحید کی دعوت دینا فرض عین ہے

73۔ابو تمیمہ اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس آیا………. یا (ابو تمیمہ)  بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ  کے پاس حاضر تھا کہ ایک آدمی آیا…. اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں؟

آپﷺ نے فرمایا: ((نعم)) ’’ہاں‘‘

اس نے کہا: آپ لوگوں کو کسی چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا:

((أَدْعُوْ إِلَى اللهِ وَحْدَهُ، مَنْ إِذَا كَانَ بِكَ ضُرٌّ، فَدَعَوْتَهُ، كَشَفَهُ عَنْكَ، وَمَنْ إِذَا أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ أَنْبَتَ لَكَ، وَمَنْ إِذَا كُنْتَ فِي أَرْضِ قَفْرٍ، فَأَضْلَلْتَ فَدَعَوْتَهُ، رَدَّ عَلَيْكَ))

’’میں اس اللہ وحدہ کی طرف بلاتا ہوں کہ جب تمھیں کوئی دکھ پہنچے اور تم اسے پکارو تو وہ تمھارا دکھ تم سے دور کر دے، اگر تمھیں خشک سالی کا سامنا ہو، تم اس سے دعا کرو تو وہ تمھاری کھیتیاں اگا دے۔ جب تم کسی صحرا یا ویران اور بنجر زمین میں ہو اور تمھاری سواری گم ہو جائے اور تم اسے پکارو تو تمھیں تمھاری سواری واپس پہنچا دے۔‘‘

ابو تمیمہ کہتے ہیں کہ وہ آدمی (آپ کی گفتگو سن کر) مسلمان ہو گیا۔(أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 16616، 20636، وأبو داود:4984)

توضیح و فوائد: اس حدیث سے ان سے انفرادی دعوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور آج کے ج بھی یہ اسلوب دعوت توحید پھیلانے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ مزید برآں یہ بھی معلوم ہوا کہ توحید الہی کی دعوت دینے والے کو خود اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے۔

74۔سیدنا ربیعہ بن عباد دیلی رضی اللہ تعالی عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ  کو دیکھا کہ آپ ہجرت مدینہ

سے پہلے منٰی میں لوگوں کے پاس ان کی اقامت گاہوں میں جاتے اور فرماتے:

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا))

’’لوگو! بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اس وقت آپ کے پیچھے پیچھے ایک اور آدمی بھی چلتے ہوئے کہہ رہا تھا: لوگو! یہ شخص تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنے آباء و اجداد کا دین چھوڑ دو۔

سیدنا ربیعہ بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا:یہ آدمی کون ہے؟ بتایا گیا:یہ ابولہب ہے۔ (أَخْرَجَهُ أَحمدُ:16024، والحاكم:1/15)

توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعوت توحید دیتے وقت مخالفین سے الجھنا نہیں چاہیے بلکہ ہمدردانہ اور احسن انداز میں دعوت جاری رکھنی چاہیے۔ دلائل مضبوط ہوں تو مخالفت کرنے والے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔

75۔سیدنا حارث بن حارث عائذی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا:یہ لوگ کیسے جمع ہوئے ہیں؟ اس نے کہا:یہ لوگ اپنے ایک بے دین شخص کے پاس جمع ہوئے ہیں۔ اچانک میں نے دیکھا کہ وہ نبی کی ﷺتھے اور لوگوں کو توحید و ایمان کی دعوت دے رہے تھے۔ (أَخْرَجَهُ البخاري في التاريخ الكبير:2396)

76۔ سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے (شاہ روم) ہرقل کے نام جو خط لکھا اس میں (لکھا تھا:

((بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَهِ وَرَسُولِهِ إِلٰى هِرَقْلَ عَظِيمٍ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ الله أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْأَرِيسِيِّينَ) (أَخْرَجَهُ البُخاري: 7، 2941، ومُسْلِمٌ:1773)

’’اللہ کے نام سے جو بہت زیادہ رحم کرنے والا، ہمیشہ مہربانی کرنے والا ہے، اللہ کے بندے اور اس  کے رسول محمد (ﷺ) کی طرف سے شاہ روم ہر قل کے نام، اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی أَمَّا بعد! میں تمھیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کر لو، سلامتی میں رہو گے، اسلام قبول کر لو، اللہ تمھیں دوہرا اجر دے گا اور اگر تم نے منہ موڑ لیا تو عام لوگوں کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْـًٔا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝﴾

’’اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان ایک جیسی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے، پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو (صاف) کہہ دیں، (تم) گواہ رہو کہ ہم فرماں بردار ہیں۔‘‘

77۔سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے کسری، قیصر، نجاشی اور ہر متکبر بادشاہ کو اللہ تعالی کی بندگی کی طرف دعوت دیتے ہوئے خطوط ارسال فرمائے۔(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1774)

78۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا نبیﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہو گیا تو نبی ﷺاس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر اس سے فرمایا:

((اسلم)) ’’مسلمان ہو جاؤ‘‘

اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا:ابو القاسمﷺ کی بات مان لو، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا، پھر نبیﷺ یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لے آئے: ((اّلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ)) ’’اللہ کا شکر ہے جس نے اس لڑکے کو آگ سے بچا لیا۔ ‘‘( أَخْرَجَهُ البخاري:1356)

79۔ سیدنا سہل بن سعد انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺنے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو غزوہ خیبر کی طرف روانہ کرتے ہوئے فرمایا:

((فَوَاللهِ لَأَنْ يَّهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَّاحِدًا خَيْرٌ لَّكَ مِنْ أَنْ يَّكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ)) (أَخْرَجَه البخاري:3009، 3701، ومُسْلِمٌ:2406)

’’اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ تمھارے ذریعے سے ایک شخص کو بھی مسلمان کر دے تو وہ تمھارے لیےسرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔“

توضیح و فوائد: دعوت توحید انبیاء کا مشن ہے جس کی نوح علیہ السلام نے دن اور رات کی تمیز اٹھا کر لگا تار ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دعوت دی۔ آخر الزمان نبی ﷺ نے مکہ کے گلی کوچوں، طائف کی سنگلاخ وادیوں اور مدینہ کے بازاروں میں اس کی صدا بلند کی اور جاتے جاتے دعوت توحید کی ذمہ داری اس امت کو سونپ گئے۔ آج اس امت میں شرک مختلف بھیس بدل کر لوٹ آیا ہے، اس لیے توحید کا پیغام عام کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے نبوی محنت اور درد مندی کی ضرورت ہے، اس دعوت کی اساس یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ ہم ہر انسان پر رحم کھائیں گے اور اسے جہنم سے بچانے کی کوشش کریں گے۔ یہ جذبہ جس قدر صادق ہوگا توحید کا پیغام اسی قدر مؤثر ہوگا۔ توحید کا پیغام اور روشنی عام ہو گی تو شرک و جہالت کی تاریکی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ نبی اکرم ﷺ نے عام آدمی سے لے کر بڑی سے بڑی سلطنت کے فرماں رواؤں تک یہ پیغام پہنچایا اور کسی ایک شخص کی بھی ہدایت کا ذریعہ بننے کو بہت بڑی سعادت اور حصول جنت کا وسیلہ قرار دیا۔

…………………