اُمت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق
اہم عناصر خطبہ :
اُمت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق :
1۔ اللہ کا بندہ اور رسول ماننا
2۔ توقیرو احترام کرنا
3۔ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محبت کرنا
4۔ اسوئہ حسنہ پر عمل کرنا
5۔ اطاعت کرنا
6۔ اختلافی مسائل میں فیصل تسلیم کرنا
7۔ قرآن وحدیث پر عمل کرنا
8۔ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنا
محترم حضرات !
سابقہ خطبۂ جمعہ میں ہم امام الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل ومعجزات اور آپ کی بعض خصوصیات کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنے عظیم الشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کی امت پر کو ن کون سے حقوق ہیں ؟ توآئیے آج کے خطبۂ جمعہ میں انہی حقوق پر قرآن وحدیث کی روشنی میں گفتگو کرتے ہیں۔
1۔ اللہ کا بندہ اور رسول ماننا
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت پر سب سے پہلا حق یہ ہے کہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا بندہ اور اس کا آخری رسول مانے۔ اوریہی وہ بات ہے جس کا ہر مسلمان کلمہ ٔ شہادت پڑھتے ہوئے اقرار کرتا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں ۔ ‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنزَلْنَا ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
’’ لہٰذا تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس نور ( قرآن ) پر بھی جو ہم نے نازل کیا ہے ۔اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے خوب با خبر ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے :
﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾

 ’’کہہ دیجئے ! اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوںجو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے ، اُس کے بغیر کوئی معبود نہیں ۔ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے ۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول ‘ نبی امی پر ایمان لاؤ، جو اللہ اور اس کے ارشادات پر ایمان لاتا ہے ۔ اور اس کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پا لو ۔ ‘‘
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا اور آپ جو دین لے کر آئے اسے سچے دل سے قبول کرنا فرض ہے کیونکہ اسی پر ہر انسان کی نجات موقوف ہے ۔ یاد رہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دیکھنے کے بعدآپ پر ایمان لانے والوں کو ایک مرتبہ اور آپ کو دیکھے بغیر آپ پر ایمان لانے والوں کو سات مرتبہ خوشخبری سنائی ۔
جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( طُوْبٰی لِمَنْ رَآنِیْ وَآمَنَ بِیْ وَطُوْبٰی سَبْعَ مَرَّاتٍ لِمَنْ لَّمْ یَرَنِیْ وَآمَنَ بِیْ ))
’’ خوشخبری ہے اس شخص کیلئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا ۔ اور سات مرتبہ خوشخبری ہے اس شخص کیلئے جس نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا ۔ ‘‘
اور جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی شریعت پر ایمان نہیں لاتا وہ یقینا جہنمی ہے۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ أَحَدٌ مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّةِ یَہُوْدِیٌّ وَلَا نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِیْ أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ))
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! اس امت کا کوئی شخص چاہے یہودی ہو یا نصرانی ، میرے بارے میں سنے اور پھر اس حالت میں اس کی موت آ جائے کہ وہ اس شریعت پر ایمان نہ لایا جسے دے کر مجھے مبعوث کیا گیا ہے تو وہ یقیناجہنم والوں میں سے ہے ۔ ‘‘
واضح رہے کہ ہم پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بندہ ( بندگی کرنے والا ) اس لئے کہتے ہیں کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بندہ قرار دیا ہے ۔ ارشاد باری ہے :
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى
’’ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی ۔ ‘‘
اورخود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی ارشاد گرامی ہے کہ
((  إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ ))
’’ میں ایک بندہ ہی ہوں ، لہٰذا تم بھی یہی کہو کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ ‘‘
بنا بریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی مقام دینا ہو گا جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے ۔اور جو آپ نے اپنے بارے میں خود بیان فرمایا ہے ۔اور جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بندہ مانیں گے تو ان کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان فرق واضح ہو جائے گا ۔ اور جس طرح لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں مبالغہ آرائی کرکے آپ کو اللہ تعالیٰ کے مقام تک پہنچادیتے ہیں اس کی بھی نفی ہو جائے گی ۔
2۔ تعظیم و توقیر کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت پر دوسرا حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی جائے اور دل وجان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کیا جائے ۔ اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نام کے ساتھ پکارنے ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اونچی آواز میں گفتگو کرنے سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو منع کردیا گیا اور انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرنے کی سختی سے تلقین کی گئی۔
فرمان الٰہی ہے : ﴿ لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا﴾
’’ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تم اس طرح مت بلاؤ جیسا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ ‘‘
اور فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
’’ اے ایمان والو ! نبی کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کے سامنے بلند آواز سے اس طرح بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے بلند آواز سے بات کرتے ہو ، ورنہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں گے اور تمہیں اس کا احساس تک نہ ہو گا ۔ ‘‘
اس آیت ِ کریمہ کے شانِ نزول کے متعلق حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو تمیم کا ایک قافلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ ان پر قعقاع بن معبد رضی اللہ عنہ کو امیر بنائیے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ، آپ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو امیر بنائیے ۔ تب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا :آپ نے تو بس میری مخالفت ہی کرنی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں ، میں آپ کی مخالفت نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اس کے بعد ان دونوں کے مابین تکرار ہوئی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں ۔ اسی موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ﴾
حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر پست آواز میں بات کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ آپ نے کیا کہا ہے ۔ ‘‘
اور حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جن کی آواز فطری طور پر بلند تھی ان کے متعلق حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہونا بند کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں جا کر ان کی خبر لے آؤں۔ [صحیح مسلم میں اس بات کی صراحت ہے کہ جو شخص حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی خبر لینے گیا تھا وہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے اور یہ ان کے پڑوسی بھی تھے ]پھر جب یہ آدمی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں سر جھکائے (پریشان ) بیٹھے ہیں۔ اس نے پوچھا : آپ کو کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : میرا بہت برا حال ہے کیونکہ میری آواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی ہے۔ اس لئے میرا عمل ضائع ہو چکا ہے اور اب میں جہنم والوں میں سے ہوں ۔ ان کا یہ جواب سن کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور آپ کو ان کے متعلق خبر دی کہ وہ ایسے ایسے کہہ رہے ہیں ۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان کے پاس دوبارہ بھیجا کہ جاؤ انھیں خوشبری سناؤ کہ آپ جہنم والوں میں سے نہیں بلکہ جنت والوں میں سے ہیں ۔ ‘‘
ان دونوں واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کا شدید احترام کرتے تھے اور ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انھیں یہ بات ہرگز گوارا نہ تھی کہ ان کی آواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی ہو۔
اللہ تعالیٰ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر واحترام کرنے والوں کو بشارت سناتے ہوئے فرماتا ہے :
﴿فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
’’ لہٰذا جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی تعظیم اور مدد کرتے ہیں اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو ان پر اتارا گیا ہے ، ایسے لوگ ہی کامیابی پانے والے ہیں ۔ ‘‘
نیز فرمایا:﴿إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ‎﴿٨﴾‏ لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
’’ یقینا ہم نے تجھے گواہی دینے والا ، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ ( اے مسلمانو ) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ، اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو ۔ اور صبح وشام اس ( اللہ ) کی تسبیح بیان کرو ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر اور تعظیم کس طرح کرتے تھے اس کی ایک جھلک قصۂ صلحِ حدیبیہ میں نظر آتی ہے ۔
حضرت عروۃ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ‘ جو اس وقت مشرک تھے اور قریش کے نمائندہ بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے ، وہ جب قریش کے پاس واپس لوٹے تو انھوں نے کہا :
(أَیْ قَوْمِ وَاللّٰہِ لَقَدْ وَفَدْتُّ عَلَی الْمُلُوْكَ وَوَفَدْتُّ عَلٰی قَیْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِیِّ وَاللّٰہِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہُ أَصْحَابُہُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم مُحَمَّدًا وَاللّٰہِ إِنْ یَتَنَخَّمُ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِیْ کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَكَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ وَإِذَا أَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہُ وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْ یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمُوْا خَفَضُوْا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ وَمَا یُحِدُّوْنَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیْمًا لَّہُ )
’’ اے میری قوم ! اللہ کی قسم میں بڑے بڑے بادشاہوں سے مل چکا ہوں ، میں نے قیصر وکسری اور نجاشی جیسے بادشاہ دیکھے ہیں لیکن اللہ کی قسم میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کی اس کے ساتھی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ان کے ساتھی کرتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! اگر وہ کھنکھارتے بھی ہیں تو ان کے منہ سے نکلنے والا بلغم ان کے کسی ساتھی کی ہتھیلی میں ہی گرتا ہے جسے وہ اپنے چہرے اور اپنی جلدپر مل لیتا ہے۔ اور جب وہ کوئی حکم جاری کرتے ہیں تو ان کے ساتھی فورا اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو ان کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وضو والا پانی اسے مل جائے ۔ اور جب وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کے پاس اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اور ان کی تعظیم کی بناء پر ان کی نظروں سے نظر نہیں ملاتے ۔۔۔۔ ‘‘

برادرانِ اسلام ! یہ بات یاد رکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین امت تک پہنچایا اسے کامل تصور کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کو درست نہ سمجھا جائے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے ان پر عمل کیا جائے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے پرہیز کیا جائے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو زندہ کیا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ توحید کو خوب پھیلایا جائے ، شرک وبدعت کے خلاف جہاد کیا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنایا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی اور من گھڑت باتوں کو منسوب نہ کیا جائے۔
اِس موضوع کی مناسبت سے یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود سے زیادہ نہ ہو کیونکہ انہی حدود کے اندر رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم تو بجا ہے بلکہ ایمان کا حصہ ہے ، لیکن ان سے تجاوز کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ ))
’’ میری تعریف وتعظیم میں حد سے تجاوز نہ کرو ، جیسا کہ نصاری نے عیسی بن مریم ( علیہ السلام ) کی تعریف وتعظیم میں حد سے تجاوز کیا ۔ میں تو محض ایک بندہ ہوں ، لہٰذا تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو ۔ ‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان اختیارات کا مالک تصور کرنا جو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجت روا یا مشکل کشا ، یا غوث تصور کرنا حرام ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام اور تعظیم کی جو حد مقرر کردی گئی ہے اس سے تجاوز ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ‎﴿١٨٨﴾
’’ کہہ دیجئے کہ مجھے تو خود اپنے نفع ونقصان کا اختیار بھی نہیں ہے ، مگر اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ۔ میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان کیلئے جو ایمان لے آئیں ۔ ‘‘
نیز فرمایا :﴿قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٥٠﴾
’’ آپ ان سے کہئے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، نہ ہی میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں بلکہ میں تو پیروی کرتا ہوں اس چیز کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے ۔ آپ ان سے پوچھئے کہ کیا نا بینا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں ؟ پھر تم لوگ کیوں نہیں سوچتے ؟ ‘‘
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسرا حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی جائے ۔ اور اس طرح کی جائے کہ اس جیسی محبت اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کسی اور کے ساتھ نہ ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(( ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْإِیْمَانِ : أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا، وَأَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لَا یُحِبُّہُ إِلَّا لِلّٰہِ،وَأَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ ، کَمَایَکْرَہُ أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ ))
’’ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جو کسی شخص میں موجود ہوں تووہ ان کے ذریعے ایمان کی لذت اور اس کمے مٹھاس کو پا لیتا ہے ۔ ایک یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہو ۔ دوسری یہ کہ اسے کسی شخص سے محبت ہو تو محض اللہ کی رضا کی خاطر ہو ۔ اور تیسری یہ کہ اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح نا پسند ہو جیسا کہ جہنم میں ڈالا جانا اسے نا پسند ہے ۔ ‘‘
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اہل وعیال ، اپنے والدین اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ محبت کی جائے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَوَالِدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ))
’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتایہاں تک کہ وہ اپنی اولاد ، اپنے والد اور دیگرتمام لوگوں کی نسبت مجھ سے زیادہ محبت کرے ۔ ‘‘
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرنا ضروری ہے ۔ جیسا کہ عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔اسی دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:(یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ إِلَّا مِنْ نَّفْسِیْ) ’’اے اللہ کے رسول!آپ مجھے (دنیاکی)ہرچیزسے زیادہ محبوب ہیں، ہاں البتہ میری جان سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( لَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ،حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْكَ مِنْ نَفْسِكَ،فَقَالَ لَہُ عُمَرُ: فَأنَِّہُ الْآنَ وَاللّٰہ،لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ،فَقَالَ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم : اَلْآنَ یَا عُمَرُ))
’’ نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہاں تک کہ میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو جاؤں ۔‘‘
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ اب اللہ کی قسم ! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے عمر ! اب بات بنی ہے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا عملی اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎﴿٣١﴾ ’’ آپ کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ، اس طرح اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ، نہایت مہربان ہے۔ ‘‘
اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی دلیل آپ کی اتباع اور فرمانبرداری کرناہے ۔ لہٰذا جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی کرتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی بھی کرتا ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ محبت کے دعوے میں سچا ہے ۔ اور اگر وہ محبت کا دعوی تو کرتا ہو لیکن سنتِ نبویہ کا پیروکار نہ ہو تو اس کے متعلق یقین کرلینا چاہئے کہ وہ محبت کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
تَعْصِیْ الإِْلٰہَ وَأَنْتَ تُظْہِرُ حُبَّہُ ہٰذَا لَعَمْرُکَ فِیْ الْقِیَاسِ بَدِیْعُ
لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَأطَعْتَہُ إِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْعُ
’’ تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہو اور اس سے محبت کا دعوی بھی کرتے ہو ! یہ تو تمہاری زندگی کی قسم ! انتہائی نا معقول بات ہے ، اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اس کی فرمانبرداری کرتے کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے ۔ ‘‘
اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر شدید محبت تھی اِس کا اندازہ آپ حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے کر سکتے ہیں ۔ وہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا :
اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے میری جان سے اور اسی طرح میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔ اور میں جب گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو یاد کرتا ہوں ، پھر میں صبر نہیں کرسکتا یہاں تک کہ آپ کے پاس آؤں اور آپ کو دیکھ لوں ۔ اور میں جب اپنی موت اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ آپ جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو آپ کو انبیاء (علیہم السلام ) کے ساتھ ( اعلی درجات میں ) بھیج دیا جائے گا ۔ اور اگر میں جنت میں داخل ہوا تو مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ میں وہاں آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا !
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام ) یہ آیت لے کر نازل ہوئے:
﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ‎﴿٦٩﴾
’’ اور جو لوگ اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کریں گے وہ ( جنت میں ) ان کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے ۔ یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین اور یہ لوگ بڑے اچھے ساتھی ہو نگے ۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع ہی در اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی محبت کی دلیل ہے ۔ اور اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرنے والوں کو قیامت کے روز آپ کا ساتھ نصیب ہو گا کیونکہ ا س صحابی نے جب اس اندیشے کا اظہار کیا کہ شاید وہ جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ اگر تم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے تو تمہیں انبیاء علیہم السلام کا ساتھ ضرور نصیب ہو گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صرف محبت کا دعوی ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری بھی ضروری ہے ۔
نیز حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اسلام لانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید بغض رکھتا تھا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرنے لگا ۔۔۔۔ وہ فرماتے ہیں :(وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رَّسُوْلِ للّٰہِ صلي الله عليه وسلم وَلَا أَجَلَّ فِیْ عَیْنَیَّ مِنْہُ ، وَمَا کُنْتُ أُطِیْقُ أَنْ أَمْلأ عَیْنَیَّ مِنْہُ إِجْلاَلاً لَہُ ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَہُ مَا أَطَقْتُ ، لِأنِّیْ لَمْ أَکُنْ أَمْلأ عَیْنَیَّ مِنْہُ ۔۔۔۔)
’’ کوئی شخص ایسا نہ تھا جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب ہوتا ۔ اور نہ ہی کوئی ایسا تھا جس کا مقام ومرتبہ میری آنکھوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہوتا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام و مرتبہ کی وجہ سے میں اس بات کی طاقت نہ رکھتا تھا کہ میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھر جائیں ۔ اور اگر مجھ سے سوال کیا جائے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات بیان کروں تو میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ آپ کو دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں ہی آپ سے نہیں بھرتی تھیں۔۔۔ ‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن ِ مبارکہ کو زندہ کیا جائے اور لوگوں کو ان کی تعلیم دی جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( إِنَّ الْإِسْلاَمَ بَدَأَ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ غَرِیْبًا کَمَا بَدَأَ،فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ،وَمَنِ الْغُرَبَاءُ؟ قَالَ: (اَلَّذِیْنَ یُحْیُوْنَ سُنَّتِیْ وَیُعَلِّمُوْنَہَا عِبَادَ اللّٰہِ))
’’ بے شک اسلام کی ابتداء غربت اور بے چارگی میں ہوئی ہے اور یہ عنقریب اسی حالت میں لوٹ آئے گا جیسا کہ اس کی ابتداء ہوئی ہے ۔ لہٰذا غرباء کیلئے خوشخبری ہے ۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ غرباء کون ہوتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو میری سنت کو زندہ کریں گے اور اللہ کے بندوں کو اس کی تعلیم دیں گے ۔ ‘‘
4۔ اسوۂ حسنہ پر عمل کرنا
امت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چوتھاحق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین نمونہ تصور کرتے ہوئے تمام اقوال وافعال اور زندگی کے ہر شعبے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی جائے ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ‎﴾
’’ یقینا تمھارے لئے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں عمدہ نمونہ موجود ہے ، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور بکثرت اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہو ۔ ‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نمونۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی شخص اپنائے گا جس میں دو اوصاف ہو نگے ، ایک یہ کہ وہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھتا ہو۔ اور دوسرا یہ کہ وہ بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہو ۔اور یہ دونوں وصف ایسے ہیں جن سے آج بہت سارے مسلمان محروم ہیں۔اسی لئے ان کے دلوں میں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت بھی نہیں رہی ۔ اِس کے برعکس انھوں نے اور کئی لوگوں کو آئیڈیل شخصیات تصورکر رکھا ہے اور انہی کے اقوال وافعال ان کیلئے نمونہ اور قابلِ تقلید ہیں۔ولا حول ولا قوۃ إلا باﷲ۔ جبکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین نمونہ تصور کرتے تھے اور تمام اقوال وافعال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے تھے ۔الا یہ کہ کوئی عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہوتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ انھیں دل سے چاہتے تھے اور ان سے سچی محبت کرتے تھے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہنی تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں پہن لیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میں نے سونے کی انگوٹھی پہنی تھی ۔‘‘اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی اتار کر پھینک دی او ر فرمایا:(( إِنِّیْ لَنْ أَلْبَسَہُ أَبَدًا)) ’’اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ ‘‘ چنانچہ لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں ۔
لہٰذا ہمیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین نمونہ تصور کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کرنی چاہئے ، عقائد وعبادات میں ، اخلاق وکردار میں ، معاملات میں اور اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا چاہئے ۔۔۔۔ لیکن افسوس ہے کہ آج ہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے اور آپ سے محبت کا دعوی کرنے والے لوگوں کے روز مرہ معمولات پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولاتِ زندگی میں اور اِس دور کے اکثر مسلمانوں کے معمولاتِ زندگی میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔
عقائد کے باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اللہ تعالیٰ کو پکارنے والے اور اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرنے والے جبکہ آج کے بیشتر مسلمان غیر اللہ کو حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرتے اور اسے پکارتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کو نفع ونقصان کا مالک سمجھنے والے جبکہ آج کے اکثر مسلمان فوت شدہ بزرگانِ دین سے نفع کی امید بھی رکھتے ہیں اور ان سے نقصان کا خوف بھی کھاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر کو بھی سجدہ گاہ بنانے سے منع کرنے والے اور ایسا کرنے والوں پر لعنت بھیجنے والے جبکہ اِس دور کے مسلمان بزرگوں کی قبروں پر مزارات تعمیر کرتے اور اپنی مرادوں کیلئے ان کا رخ کرتے ہیں ۔۔۔۔
اور عبادات کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخری سانس تک نمازوں کی سختی سے پابندی کرنے والے جبکہ آج کے اکثر مسلمان پانچوں نمازوں کی پابندی نہیں کرتے اور (حی علی الصلاۃ،حی علی الفلاح)کی آواز سن کر بھی مسجدوں میں حاضر نہیں ہوتے ۔اور جو لوگ نمازیں پڑھتے ہیں ان میں سے بیشتر لوگ اپنی مرضی، یا اپنے مسلک کے مطابق پڑھتے ہیں جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ( تم نماز اُس طرح پڑھو جیسا کہ تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔) اور جب اپنی مرضی یا اپنے مسلک کے بتائے ہوئے طور طریقوں کے مطابق عبادت کرنی ہے تو بتائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کہاں رہ جاتی ہے !!
اور اخلاق وکردار کے باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی متواضع اور اپنے ساتھیوں میں گھل مل جانے والے اور تمام مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والے جبکہ آج کے کئی مسلمان غرور اور تکبر سے بھرے ہوئے اور اپنے مسلمان بھائیوں سے بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عفو ودر گذر کرنے والے اور اس کا سبق دینے والے اور فحش گوئی اور گالی گلوچ سے بچنے اور اس سے روکنے والے جبکہ اس دور کے مسلمان چھوٹی چھوٹی بات پر دست وگریباں اورایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہوئے اور ماں بہن کی گالیاں سناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں !
اور معاملات کے باب میں پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دھوکہ ، فراڈ ، خیانت اور رشوت وغیرہ سے منع کرنے والے جبکہ اِ س دور میں عالم یہ ہے کہ دھوکہ ، فراڈ اور خیانت جیسے برے اعمال مسلمانوں کی شناخت بن گئے ہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلال کمائی کا حکم دینے اور حرام کمائی سے منع کرنے والے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے کئی مسلمان حلال وحرام میں تمیز کئے بغیرہر طریقے سے مال ودولت کو جمع کرتے ہوئے اور جمع کئے ہوئے سرمائے کو سودی بنکوں میں محفوظ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں !
الغرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ چھوٹ گیا ہے اور اس کی جگہ پر در آمد شدہ نمونہ قابل ِ تقلید نمونے کی حیثیت اختیار کر گیا ۔ اور تو اور شکل وصورت اور وضع قطع میں بھی پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اب ایک عیب بن کر رہ گیا ہے اور جو شخص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شکل وصورت اور وضع وقطع اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے اور آپ سے محبت کا دعوی کرنے والے سو القاب سے نوازتے اور بھری محفل میں سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔
5۔ اِطاعت
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانچواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کی جائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حق یوں بیان فرمایا ہے:﴿وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ‎﴾
’’ اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرتے رہو ۔ اور (نافرمانی سے ) ڈرتے رہو اوراگر تم نے اعراض کیا تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صاف صاف پہنچادینا ہے ۔ ‘‘
نیز فرمایا : ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ
’’ جو رسول کی اطاعت کرتا ہے اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی ۔ ‘‘
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے ۔ اور اس کی تائید اِس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
حضرت فاطمۃ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ان کے خاوند ابو عمرو بن حفص رضی اللہ عنہ کہیں گھر سے باہر گئے ہوئے تھے ، اسی دوران انھوںنے انھیں آخری طلاق دے دی ۔ چنانچہ انھوں نے اپنے وکیل ( عیاش بن ابی ربیعۃ رضی اللہ عنہ ) کو ان کے پاس طلاق (نامہ) دے کر بھیجا اور ان کے ذریعے پانچ صاع کھجور اور پانچ صاع جَو بھی بھیجے لیکن انھیں یہ بات پسند نہ آئی ۔ [ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے کہا : کیا میرے لئے بس یہی نان ونفقہ ہے ؟ ] تو ان کے وکیل نے کہا : اللہ کی قسم ! ہمارے پاس تمہارے لئے کچھ بھی نہیں ۔ چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئیں اور انھیں پورے معاملے سے آگاہ کیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَیْسَ لَكَ عَلَیْہِ نَفَقَةٌ)) ’’ واقعتا تمہارے لئے ان پر کوئی نان ونفقہ لازم نہیں ہے ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر میں عدت گذارنے کا حکم دیا ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اُم شریک رضی اللہ عنہا وہ خاتون ہیں جن کے گھر میں میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا آنا جانا لگا رہتا ہے ، لہٰذا تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر میں عدت گذارو کیونکہ وہ نابینا ہیں اور تم ان کے گھر میں اپنا ( اضافی ) لباس اتار سکو گی ۔ اور جب تم عدت پوری کر لو تو مجھے اطلاع دینا ۔ ‘‘
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیںکہ جب میری عدت پوری ہو گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو جہم رضی اللہ عنہ نے میرے پاس شادی کا پیغام بھیجا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( أَ مَّا أَبُوْ جَہْمٍ فَلَا یَضَعُ عَصَاہُ عَنْ عَاتِقِهِ،وَأَمَّا مُعَاوِیَةُ فَصُعْلُوْكَ لَا مَالَ لَہُ،اِنْکَحِیْ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ)) ’’ رہے ابو جہم رضی اللہ عنہ تو وہ اپنے کندھے سے ڈنڈا ہی نہیں ہٹاتے ( یعنی وہ بہت سخت مزاج ہیں ۔) اور جہاں تک معاویہ رضی اللہ عنہ کی بات ہے تو وہ مفلوک الحال ہیں اور ان کے پاس مال نہیں ہے ۔ لہٰذا تم اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے شادی کر لو ۔‘‘
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو نا پسند کیا لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ مجھے یہی حکم دیا کہ میں اسامہ رضی اللہ عنہ سے ہی شادی کر لوں ۔
مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( طَاعَةُ اللّٰہِ وَطَاعَةُ رَسُوْلِهَ خَیْرٌ لَّكَ )) ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری تمہارے لئے بہتر ہے۔ ‘‘
چنانچہ میں نے ان سے شادی کر لی ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں اتنی خیر رکھ دی کہ مجھ پر اس دور کی خواتین رشک کرتی تھیں۔
اس قصہ سے یہ ثابت ہوا کہ اطاعت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم باعث ِ خیر وبھلائی ہے اور یہ بھی کہ اطاعت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم در اصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو حکم دیا کہ وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے شادی کر لیں اِس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کوئی آیت نازل نہیں کی تھی ۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لئے بہتر ہے ۔تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اطاعت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم در اصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جہاں اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم بھی دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ‎﴾‏
’’ اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو ۔ ‘‘
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ‎﴾
’’ اے ایمان والو ! اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا حکم مانو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لئے زندگی بخش ہو ۔ اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ۔ اور اسی کے حضور تم جمع کئے جاؤ گے ۔‘‘
 حضرت ابو سعید المعلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اِس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہو ا یہاں تک کہ میں نے نماز مکمل کر لی ، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (( مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِیَ؟)) ’’ تمہیں کس بات نے میرے پاس آنے سے منع کیا ؟ ‘‘
میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! میں نماز پڑھ رہا تھا ۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَلَمْ یَقُلِ اللّٰہُ :﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ))
’’ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: اے ایمان والو ! اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا حکم مانو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لئے زندگی بخش ہو ۔ ‘‘
 نیز فرمایا :﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
’’ اور جو کچھ تمہیں رسول دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ ۔ ‘‘
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان شرعی حجت اور واجب الاتباع ہے ۔
 اسی طرح یہ حدیث بھی اسی کی تائید کرتی ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
(( لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، اَلْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ ))
’’ اللہ تعالیٰ نے گودنے والی اور گدوانے والی ، خوبصورتی کیلئے چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے جو اس کی خلقت کو بدلتی ہیں ۔ ‘‘
یہ حدیث بنی اَسد کی ایک عورت کو پہنچی ‘ جسے ام یعقوب کہا جاتا تھا تو وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے فلاں فلاں عورت پر لعنت بھیجی ہے ؟
انھوں نے کہا:میں اس پر لعنت کیوں نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی اور جس پر اللہ کی کتاب میں بھی لعنت بھیجی گئی ہے ؟
اُم یعقوب نے کہا : میں نے پورا قرآن مجید پڑھ ڈالا ہے لیکن مجھے تو وہ بات نہیں ملی جو آپ نے کہی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:اگر تم نے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ بات ضرور مل جاتی۔ کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
’’ پیغمبر تمہیں جس بات کا حکم دیں تم اس پر عمل کرو اور جس سے منع کردیں اس سے باز آجاؤ ؟‘‘
ام یعقوب نے کہا : کیوں نہیں !
انھوں نے کہا : بس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاموں سے منع کردیا ہے ۔
ام یعقوب نے کہا : آپ کی بیوی تو یہ کام کرتی ہے !
انھوں نے کہا : جا کر دیکھو تو ؟
چنانچہ وہ گئیں تو انھیں ایسی کوئی بات نظر نہ آئی ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا :
اگر وہ ایسا کام کرتی تو میں اس کے قریب تک نہ جاتا۔
 حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(کُلُّ أُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبٰی،قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ،وَمَنْ یَّأْبٰی؟ قَالَ:مَنْ أَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّةَ،وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ أَبٰی)
’’ میری امت کے تمام لوگ جنت میں داخل ہو نگے سوائے اس کے جس نے انکار کردیا ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ انکار کون کرتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا انکار کردیا ۔‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اطاعت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ اِس ضمن میں کچھ واقعات ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(۱) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ہاتھ سے اتارا اور پھینک دیا۔ بعد ازاں ارشادفرمایا : (یَعْمِدُ أَحَدُکُمْ إِلٰی جَمْرَۃٍ مِنْ نَّارٍ فَیَجْعَلُہَا فِیْ یَدِہٖ)
’’ کیا تم میں سے کوئی شخص جہنم کا ایک انگارہ اٹھا کر اپنے ہاتھ میں رکھ لیتا ہے ! ‘‘
پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو اس آدمی سے کہا گیا : اپنی انگوٹھی اٹھا لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ ۔
اس نے کہا :لَا وَاللّٰہِ،لَا آخُذُہُ أَبَدًا وَقَدْ طَرَحَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم !
اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے میرے ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا ہے تو اللہ کی قسم ! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا ۔
(۲) حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَنْہَاکُمْ أَنْ تَحْلِفُوْا بِآبَائِکُمْ))
’’ بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپوں کی قسم اٹھاؤ ۔ ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرکے فرماتے ہیں :
فَوَاللّٰہِ مَا حَلَفْتُ بِہَا مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم نَہٰی عَنْہَا ذَاکِرًا وَلَا آثِرًا
یعنی میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کہ آپ نے اس سے منع کر دیا ہے ،تب سے میںنے کبھی ایسی قسم نہیں اٹھائی،نہ اپنی طرف سے اورنہ کسی کی طرف سے نقل کرتے ہوئے۔ (۳) حضرت عبد اللہ بن عامر بن ربیعۃ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے اور جب آپ ( سرغ ) مقام پر پہنچے تو آپ کو پتہ چلا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے ۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :

(( إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوْا عَلَیْہِ،وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوْا فِرَارًا مِنْہُ ))
’’ جب تم وبا کے بارے میں سنو کہ وہ کسی ملک میں پھیل چکی ہے تو اس میں مت جاؤ اور جب تم کسی ملک میں موجود ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے مت نکلو ۔ ‘‘
یہ حدیث سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ( سرغ ) سے ہی واپس لوٹ آئے ۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اپنی کسی رائے کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنتے تو فورا اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ۔
جیسا کہ یحییٰ بن سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انگلیوں کی دیت کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ ، اس کے ساتھ والی انگلی اور اسی طرح درمیان والی انگلی کی دیت دس اونٹ اور اس کے ساتھ والی انگلی کی نو اونٹ اور سب سے چھوٹی انگلی کی چھ اونٹ ہے لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ آل عمر بن حزم کی کتاب میں یہ حدیث موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انگلیوں کی دیت دس دس اونٹ مقرر فرمائی ہے تو انھوں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔
(۴) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حجر اسود کو بوسہ دیا تو فرمایا :
( أَمَا وَاللّٰہِ،إِنِّیْ لَأعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ،وَلَوْ لَا أَنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ)
’’ خبر دار ! مجھے یہ بات معلوم ہے کہ تم ایک پتھر ہو اور نہ تم نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ نفع ۔ اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارا بوسہ لیا ہے تو میں کبھی تمہارا بوسہ نہ لیتا ۔ ‘‘
پھر فرمانے لگے :(مَا لَنَا وَلِلرَّمَلِ،إِنَّمَا کُنَّا رَاءَ یْنَا الْمُشْرِکِیْنَ،وَقَدْ أَہْلَکَہُمُ اللّٰہُ،ثُمَّ قَالَ : شَیْئٌ صَنَعَہُ رَسُوْلُ اللّٰہُ صلي الله عليه وسلم فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَتْرُکَہُ )
یعنی ’’ اب ہم رمل کیوں کریں ! وہ تو در اصل ہم مشرکین کے سامنے ( اپنی طاقت ) کے اظہار کیلئے ہی کرتے تھے اور اب تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کردیا ہے ! پھر کہنے لگے : جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ، ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ اسے چھوڑ دیں ۔ ‘‘
6۔اختلافی مسائل میں فیصل
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت پر چھٹا حق یہ ہے کہ تمام اختلافی مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کی احادیث ِ مبارکہ کو فیصل تصور کرتے ہوئے ان کے سامنے سر تسلیم خم کردیا جائے اور ان کے مقابلے میں کسی کی رائے یا کسی کے مسلک کو کوئی اہمیت نہ دی جائے ۔
فرمان الٰہی ہے :
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‎﴾‏
’’ پس قسم ہے تیرے رب کی ! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم (فیصل) نہ مان لیں ، پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں اس سے وہ دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی محسوس نہ کریں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔ ‘‘
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی کے درمیان حرہ میں واقع پانی کی ایک نالی پر جھگڑا ہو گیا جس کے ذریعے وہ کھجوروں تک پانی پہنچاتے تھے ۔ چنانچہ انصاری نے کہا : پانی چھوڑ دو اور اسے آگے جانے دو ، لیکن حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا ۔ اب وہ دونوں اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اِسْقِ یَا زُبَیْرُ،ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلٰی جَارِكَ ))
’’ اے زبیر ! تم ( اپنے درختوں کو ) پانی پلا لو اور پھر اسے اپنے پڑوسی کے باغ میں چھوڑ دو ۔ ‘‘
تو انصاری صحابی کو سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! کیوں نہیں آخر وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا جو ہوا !
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اِسْقِ یَا زُبَیْرُ،ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتّٰی یَرْجِعَ إْلَی الْجُدُرِ ))
’’ زبیر ! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ اور جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے اسے اس کیلئے مت چھوڑو۔ ‘‘
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی کیس میں نازل ہوئی :
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‎﴾‏
اور صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حجر اسود کے استلام کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا:(رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَسْتَلِمُہُ وَیُقَبِّلُہُ )
’’ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ نے اس کا استلام کیا اور اسے بوسہ دیا ۔ ‘‘
اس آدمی نے کہا : آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں ازدحام میں پھنس جاؤں ( تو کیا پھر بھی میں استلام کروں؟) اور آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر لوگ مجھ پر غالب آجائیں ( تو کیا پھر بھی مجھے استلام کرنا ہو گا ؟ )
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
( اِجْعَلْ ’’أَرَأَیْتَ ‘‘ بِالْیَمَنِ،رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَسْتَلِمُہُ وَیُقَبِّلُہُ )
یعنی ’’ یہ جو تم کہہ رہے ہو کہ ’’ آپ کا کیا خیال ہے ‘‘ اسے یمن میں چھوڑ آؤ ، میں تو صرف اتنا جانتا ہوںکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ نے اس کا استلام کیا اور اسے بوسہ دیا ۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا علم ہو جائے تو پھر کسی کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی چاہے وہ رائے کسی صحابی کی کیوں نہ ہو لیکن بصد افسوس ! اس دور میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کے بارے میں صحیح احادیث سنائی جاتی ہیں تو وہ ان کے مقابلے میں اپنے علماء یا ائمہ کرام کی آراء پیش کرتے ہیں ! حالانکہ یہ اتنی بڑی جسارت ہے کہ جس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عذابِ الٰہی کے نازل ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا۔ جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے عروۃ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ اللہ سے نہیں ڈرتے کہ آپ حجِ تمتع کی رخصت دیتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا : اے عروۃ ! تم اپنی والدہ سے پوچھ لو ، عروۃ کہنے لگے : ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) نے تو تمتع نہیں کیا ! یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
(وَاللّٰہِ مَا أُرَاکُمْ مُنْتَہِیْنَ حَتّٰی یُعَذِّبَکُمُ اللّٰہُ ، نُحَدِّثُکُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ،وَتُحَدِّثُوْنَا عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ )
’’ اللہ کی قسم ! میں نہیں سمجھتا کہ تم باز آؤ گے یہاں تک کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو ، ہم تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہیں اور تم اس کے مقابلے میں ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) کی بات کرتے ہو ‘‘ ؟
اور دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
(أُرَاہُمْ سَیَہْلِکُوْنَ،أَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم وَیَقُوْلُوْنَ: قَالَ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ؟)
’’ میں سمجھتا ہوں کہ وہ عنقریب ہلاک ہو جائیں گے ، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں ) فرمایا اور یہ کہتے ہیں کہ ابو بکر وعمر (رضی اللہ عنہما ) نے ( یوں ) کہا ؟‘‘
حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا شدید رد عمل
(۱) سالم بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا تَمْنَعُوْا نِسَاءَ کُمُ الْمَسَاجِدَ إِذَا اسْتَأْذَنَّکُمْ إِلَیْہَا))
’’ اگر تمہاری خواتین تم سے مساجد میں جانے کی اجازت طلب کریں تو تم انھیںان میں جانے سے منع نہ کیا کرو ۔‘‘
یہ حدیث سن کر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے بلال بن عبد اللہ کہنے لگے:(وَاللّٰہِ لَنَمْنَعُہُنَّ) اللہ کی قسم ! ہم انھیں ضرور منع کریں گے ۔ تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور انھیں شدید برا بھلا کہا ، اتنا برا بھلا کہ میں نے آج تک انھیں کسی کو اتنا برا بھلا کہتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ اور انھوں نے فرمایا :(أُخْبِرُكَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم وَتَقُوْلُ: وَاللّٰہِ لَنَمْنَعُہُنَّ) میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں او رتم کہتے ہو : اللہ کی قسم ! ہم انھیں ضرور منع کریں گے !
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی:
(( اِئْ ذَنُوْا لِلنِّسَاءِ بِاللَّیْلِ إِلَی الْمَسَاجِدِ))
’’ عورتوں کو رات کے وقت مساجد میں جانے کی اجازت دے دیا کرو ‘‘
تو ان کے ایک بیٹے نے ‘ جس کا نام واقد تھا کہا : تب تو وہ اسے خرابی کا ذریعہ بنا لیں گی ! حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر مارا اور فرمایا :
(أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم وَتَقُوْلُ:لَا )
’’ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہاہوں اور تم کہتے ہو : نہیں ۔‘‘ [ حوالہ مذکور ] اس حدیث کے فوائد میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:(فیہ تعزیر المعترض علی السنة والمعارض لہا برأیہ، وفیہ تعزیر الوالد ولدہ وإن کان کبیرا) ’’ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو آدمی سنت پر اعتراض کرے اور اپنی رائے سے اس کے برعکس کوئی بات کرے تو اسے سزا دی جا سکتی ہے ۔ نیزاس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ والد اپنے بیٹے کو سزا دے سکتا ہے چاہے وہ بڑا کیوں نہ ہو ۔ ‘‘
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کی بناء پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ باوجودیکہ انتہائی سخت مزاج تھے اپنی بیویوں کو مسجد میں جانے سے منع نہیں کرتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی عشاء اور فجر کی نمازیں مسجد میں جا کر باجماعت پڑھتی تھیں ۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ مسجد میں آکر کیوں نماز پڑھتی ہیں جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے نا پسند کرتے ہیں اور بڑے ہی باغیرت ہیں ؟ وہ کہنے لگیں : پھر وہ مجھے منع کیوں نہیں کرتے ؟ انھوں نے کہا : انھیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہی آپ کو مسجد میں جانے سے منع کرنے نہیں دیتا :(( لا تَمْنَعُوْا إِمَاءَ اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ ))
’’ تم اللہ کی بندیوں کو مساجد میں جانے سے منع نہ کرو ۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگرچہ اپنی بیویوں کا مسجد میں جانا نا پسند کرتے تھے لیکن وہ انھیں منع نہیں کرتے تھے ۔ اس کی وجہ کیا تھی ؟ صرف یہ کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سن رکھی تھی کہ ’’ تم اللہ کی بندیوں کو مساجد میں جانے سے منع نہ کرو ۔‘‘ اسی بناء پر وہ انھیں مساجد میں جانے سے منع نہیں کرتے تھے ۔
(۲) عبد اللہ بن بریدۃ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک (رشتہ دار ) کو دیکھا کہ وہ پتھر یا کنکریاں اٹھا اٹھا کر پھینک رہا ہے تو انھوں نے کہا : ایسا مت کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے ( یا انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نا پسند فرماتے تھے ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( إِنَّہُ لَا یُصَادُ بِهِ صَیْدٌ،وَلَا یُنْکَاُ بِهِ عَدُوٌّ،وَلٰکِنَّہَا قَدْ تَکْسِرُ السِّنَّ وَتَقْفَأُ الْعَیْنَ))
’’ اس طرح نہ شکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے دشمن پر غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی کے دانت توڑدیں اور کسی کی آنکھ پھوڑ دیں ۔ ‘‘
اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اسی آدمی کو پھر دیکھا کہ وہ اسی طرح کنکریاں یا پتھر اٹھا اٹھا کر پھینک رہا ہے تو وہ کہنے لگے:

(أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم أَنَّہُ نَہٰی عَنِ الْخَذْفِ أَوْ کَرِہَ الْخَذْفَ وَأَنْتَ تَخْذِفُ لَا أُکَلِّمُكَ کَذَا وَکَذَا )
’’ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے یا اسے نا پسند کیا ہے اور تم پھر بھی اسی طرح کنکریاں پھینک رہے ہو ! میں تم سے اتنا عرصہ بات نہیں کرونگا ۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے کہا :(لَا أُکَلِّمُكَ أَبَدًا )
’’ میں تم سے کبھی بات نہیں کرونگا۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق دے۔ آمین
دوسرا خطبہ
7۔ قرآن وحدیث پر عمل کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت پر ساتواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت جو دو چیزیں امت کیلئے چھوڑ کر گئے انھیں خوب پڑھا جائے اور انہی دو چیزوں سے اسلامی تعلیمات اخذ کی جائیں ۔ او ر وہ ہیں : قرآن مجید اور صحیح اور ثابت شدہ سنت ِ مبارکہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ،لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ،وَلَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ))
’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ ان کے بعد ( یعنی اگر تم نے انھیں مضبوطی سے تھام لیا تو) کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔ ایک ہے کتاب اللہ ( قرآن مجید ) اور دوسری ہے میری سنت۔ اور یہ دونوں کبھی جدا جدا نہیں ہو نگی یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آئیں گی ۔ ‘‘
لہٰذا ہر عام وخاص پر واجب ہے کہ وہ دین کے احکام براہِ راست قرآن مجید اور احادیث نبویہ سے حاصل کرے ، یوں وہ گمراہی سے بچ جائے گا اور صراطِ مستقیم پر چلتا رہے گا ۔
8۔ کثرت سے درود شریف
امت پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آٹھواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھا جائے۔ فرمان الٰہی ہے : ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‎﴾
’’بے شک اللہ تعالیٰ ( فرشتوں کے سامنے ) نبی کی تعریف کرتا ہے اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو ۔ ‘‘
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں ، ہم درود کیسے بھیجیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم یوں کہا کرو:
(( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ،إِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ،اَللّٰہُمَّ بَارِك عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ،إِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ))
سب سے افضل درود یہی درود ابراہیمی ہے جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلایا تھا ۔ صحیح احادیث میں اِس درود شریف کے جو بھی الفاظ روایت کئے گئے ہیں ان میں سے جو چاہیں پڑھ سکتے ہیں ۔ اور درود کے سب سے زیادہ بابرکت الفاظ بھی وہی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زبانِ مبارک سے نکلے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر نہیں بولتے تھے۔جہاں تک مصنوعی درودوں کا تعلق ہے مثلا درود ہزارہ اور درود تاج وغیرہ تو ایسے درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے درود سے قطعا افضل نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مصنوعی درودوں میں وہ الفاظ ہیں جو یقینی طور پر شرکیہ ہیں ۔ لہٰذا ان سے احتراز کرنا از حد ضروری ہے ۔
اور درود بھیجنے کی فضیلت میں کئی احادیث ثابت ہیں ، یہاں ہم چند احادیث ذکر کرتے ہیں : 1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)) ’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ ‘‘ 2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً،صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ،وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ،وَرَفَعَ لَہُ عَشْرَ دَرَجَاتٍ))
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ،اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کرتا ہے ۔ ‘‘
3۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا،وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا،أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ))
’’ جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت بھی دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی ۔ ‘‘
لہٰذا درود شریف جس قدر ہو سکے زیادہ پڑھنا چاہئے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں تو آپ کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا : (( مَا شِئْتَ)) ’’ جتنا چاہو ‘‘ میں نے کہا : چوتھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( مَا شِئْتَ،فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّكَ)) ’’ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے ‘‘ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( مَا شِئْتَ،فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّكَ)) ’’ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔‘‘ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا شِئْتَ،فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّكَ)) ’’ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔‘‘
میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِذًا تُکْفٰی ہَمَّك،وَیُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكِ))
’’ تب آپ کی پریشانی دور کرنے کیلئے یہ کافی ہو گا اور آپ کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ ‘‘
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حقوق ادا کرنے ، آپ کی اطاعت کرنے اور آپ سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔اور روزِ قیامت ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور آپ کے ہاتھوں حوضِ کوثر کا پانی نصیب کرے۔ آمین