وتر کی اہمیت

عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: اِجْعَلُوْا آخِرَ صَلَاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا (متفق عليه).

(صحيح بخاري: كتاب العيدين، باب ليجل أخر صلاته وتراً صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين و قصرها، باب صلاة الليل مثنى مثنى والوتر ركعة من أمر الليل)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا وتر کو رات کی آخری نماز بناؤ۔

وَعَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ صَلاةِ اللَّيْلِ فَقَالَ رَسُولُ الله : صَلَاةَ اللَّيْلِ مَثْنٰى مَثْنٰى، فَإِذَا خَشِى أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى. (متفق عليه).

(صحیح بخاری: كتاب العيدين، باب ما جاء في الوتر، صحيح مسلم : كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل مثنى مثنى والوتر ركعة من آخر الليل)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے،  وه اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔

وَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كُلِّ اللَّيْلِ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ وَانْتَهٰى وِتُرهُ إلَى السَّحَرِ. (متفق عليه).

(صحيح بخاري: كتاب العيدين، باب ساعات الوتر، صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل وعدد ركعات النبيﷺ)

عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں وتر پڑھی ہے اور اخیر میں آپ کی وتر صبح کے قریب ہوتی۔

وَعَنْ جَابِرٍ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهُ مَنْ خَافَ أَلَّا يَقُوْمَ مِنْ آخِرْ اللَّيْلِ فَلْيُوْتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمَعَ أَنْ يَّقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرَ آخِرَ اللَّيلِ، فَإِنَّ صَلاةَ آخِرِ اللَّيلِ مَشْهُودَةً وَذَلِكَ أفضَلُ. (اخرجه مسلم).

(صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب من خاف أن لا يقوم من آخر الليل فليوتر أوله.)

 جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کو خوف ہو کہ آخر شب میں نہ اٹھ سکے گا تو اول شب میں عشاء کے بعد وتر پڑھ لے اور جسے آخر شب میں اٹھنے کا طمع ہو تو چاہئے کہ وتر آخر شب میں پڑھے۔ اس لئے کہ شب کے آخری وقت کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔

تشریح:

رسول اکرم ﷺ کی سنتوں میں سے وتر کی نماز بھی ہے۔ آپ کے وتر کی نماز کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے چاہے آپ سفر میں ہوں یا حضر میں، ہر حال میں وتر کا اہتمام کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی وتر کی نماز کی ترغیب دی ہے۔ اس کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے طلوع فجر تک رہتا ہے اور اس کی کم سے کم تعداد ایک رکعت ہے اور یہ رات کی آخری نماز ہے اسے اگر رات کے آخری حصہ میں پڑھا جائے تو زیادہ افضل ہے۔ اللہ تعالی ہمیں وتر کی نماز کی حفاظت کرنے اور اس پر مداومت کرنے کی توفیق بخشے۔

فوائد:

٭ وتر کی نماز کی کافی فضیلت اور اہمیت ہے کیونکہ آپ ﷺ سفر و حضر ہر حالت

میں اسے پڑھتے تھے۔

٭ وتر کی نماز کی تعداد کم سے کم ایک رکعت ہے۔

٭ وتر کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے طلوع فجر تک رہتا ہے۔

٭ وتر کی نماز کو رات کے آخری حصہ میں ادا کرنا افضل ہے۔

٭٭٭٭