وحدت ادیان ایک امتحان

﴿ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ؕ ﴾(البقره:217)
یہ دور فتنوں کا دور ہے، اور یہ بات آپ کا نے آج سے 14 سو سال پہلے بیان فرمائی ہے کہ:
((لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا بَلاءٌ وَفِتْنَةٌ)) (ابن ماجة ، كتاب الفتن:4035)
’’اب دنیا میں سوائے مصیبتوں اور فتنوں کے کچھ باقی نہیں رہا۔‘‘
تو اُس دور کو آپ ﷺنے فتنوں کا دور قرار دیا، بہت سے فتنوں کے نام لے کر پیش گوئیاں فرمائیں اور اک کثیر تعداد فتنوں کے بغیر نام لیے پیش گوئی فرمائی، ایسی کثیر تعداد کہ ان کی بارش کے قطروں سے تشبیہ فرمائی، فرمایا:
((فَإِنِّي لَأَرَى الْفتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَوَقْعِ الْقِطَرِ))(بخاري ، كتاب الفتن:7060)
’’فرمایا: میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کے قطروں کی طرح کرتا دیکھ رہا ہوں۔‘‘
اور یہ بھی پیش گوئی فرمائی کہ وہ فتنے بہت ہی تاریک ہوں گے ایسے تاریک کہ ((كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِم)) (مسلم ، کتاب الایمان:118)
’’تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے۔‘‘
یعنی حق و باطل میں تمیز کرنا مشکل ہوگا اور صحیح اور لحاظ میں تفریق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اور وہ بہت شدید بھی ہوں گے، ایسے شدید کہ لوگ کفر و ایمان کے بیچ صبح و شام الٹ پلیٹ ہو رہے ہوں گے،
((يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا)) (مسلم ، کتاب الایمان:118)
’’آدمی صبح مؤمن ہوگا تو شام کو کافر ، یا شام کو مؤمن اور صبح کو کافر ‘‘
چنانچہ آپ ﷺ نے امت کو ان فتنوں سے خبردار کیا اور رہنمائی فرمائی کہ فتنوں کے دور میں کیا کرنا ہے اور ان سے کسی طرح بچنا ہے۔
اور وارثان﷭ علم دین علماء امت اور داعیان دین اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا ئیں، انہیں ان فتنوں سے خبردار کریں کہ جن کی نشاندہی آپ ﷺنے فرمائی ہے اور ان فتنوں کی بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں نشاندہی کریں جن کا آپ ﷺنے مجمل ذکر فرمایا۔
علماء کرام ہر دور میں اپنی ذمہ دریاں نبھاتے چلے آئے ہیں اور قیامت تک ان شاء اللہ جھاتے چلے جائیں گے، چاہے وہ اک چھوٹا سا طائفہ ہی کیوں نہ ہو قلیل تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں اور یہ بھی آپﷺ کی پیش گوئی ہے، فرمایا:
((لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِّنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ يَّخْذُلُهُمْ حَتّٰى يَأْتِي أَمْرُ الله)) (ترمذي ، كتاب الفتن:2229)
’’فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہے گا، انہیں کوئی رسوا کرنے کی کوشش کرنے والا اور کوئی مخالفت کرنے والا کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا، وہ اس طریقے پر رہیں گے حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجائے، یعنی قیامت قائم ہو جائے۔‘‘
اور امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ اس گروہ کے متعلق فرماتے ہیں:
((إِنَّ لَمْ يَكُونُوا أَهْلُ الْحَدِيثِ فَلَا أَدْرِي مَنْ هُمْ) (شرف اصحاب الحديث ، ص:27)
’’کہ وہ اگر اہل حدیث نہیں ہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں ؟‘‘
تو علماء کرام اپنی ذمہ داریاں نبھاتے چلے آئے ہیں اور ان شاء اللہ قیامت تک نبھاتے چلے جائیں گے۔
اس گفتگو سے اس بات کا اندازہ ہو جانا چاہیے کہ فتنوں کا جاننا کتنا ضروری ہے اور کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ فتنوں کے معاملے کو ہلکا نہیں جاننا چاہیے بلکہ اس سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تا کہ ان سے بچا جا سکے۔ جیسا کہ حضرت
حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ جو فرماتے ہیں:
(( كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ عَنِ الْخَيْرِ وَكُنتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِ مَخَافَةَ أَن يُّدْرِكُنِي)) (بخاري ، كتاب المناقب:3606)
’’لوگ آپ ﷺسے خیر کی باتیں دریافت کیا کرتے تھے اور میں شر اور فتنوں سے متعلق پوچھا کرتا تھا، اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں میں ان میں گھر نہ جاؤں۔‘‘
فتنوں کے متعلق ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے جو کہ گذشتہ کئی خطبات میں عرض کی گئی ہے کہ فتنوں کا سمجھ میں آنا یقینا آسان بات نہیں ہے اور انہیں سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ فتوں کے ساتھ تو بڑے بڑوں کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں اور بڑے بڑے عقلمند اور دانشور حیران و ششدر رہ جاتے ہیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((تَكُونُ فِتْنَةٌ تَعْرُجُ فِيهَا عُقُولُ الرِّجَالِ))
’’فتنہ آتا ہے تو لوگوں کی عقلیں اُڑا لے جاتا ہے ۔‘‘
(حَتّٰى مَا تَكَاُد تَرٰى رَجُلًا عَاقِلًا)) (رواه نعيم في الفتن: 1/62)
’’حتی کہ کوئی ایک عقل مند آدمی ملنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
((تُنزَعُ عُقُولُ أَكْثَرِ ذَلِكَ الزَّمَانِ))
’’اس دور کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھین لی جائیں گی ۔‘‘
((وَيَخْلُفُ لَهُ هَبَاءٌ مِنَ النَّاسِ لَا عُقُولَ لَهُمْ))(ابن ماجة ، كتاب الفتن:3959)
’’اور پیچھے پراگندہ ذروں کی حیثیت کے لوگ رہ جائیں گے جو بے عقل ہوں گے۔‘‘
اور ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
((كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانَ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِي، يُغَرَ بَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرَبَلَةًوَ تَبْقَى حجُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ)) (ابن ماجة ، كتاب الفتن:3957)
’’فرمایا: تمہارا کیا حال ہوگا، جب ایسا وقت آئے گا، جب لوگ چھلنی میں چھان پھٹک لیے جائیں گے اور باقی چھانن اور بھو سا رہ جائے گا۔‘‘
اس لیے فتنوں کو اپنی عقل و دانش کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا، وہ صرف اور صرف علم دین کی روشنی میں اور اللہ تعالی کی خصوصی رحمت کے سہارے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
ہمارے جیسے کسی عام آدمی کا فتنوں کی حقیقت کو سمجھنا آسان کام نہیں ہے، ہم پر تو اللہ تعالی کا یہ بھی بہت بڑا احسان ہوگا اگر کسی کے بتانے اور سمجھانے پر بھی ہمیں سمجھ میں آجائے کہ فلاں چیز واقعی فتنہ ہے۔ کسی فتنے کے سمجھ نہ آنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ چیز ، وہ فتنہ عام ہو چکا ہوتا ہے، لوگوں کی ضرورت یا ان کے دل کی آواز بن چکا ہوتا ہے، ان کے دلوں میں گھر کر چکا ہوتا ہے، اس سے اک گہری دلچپسی اور وابستگی قائم ہو چکی ہوتی ہے، اس سے اک تعلق خاطر استوار ہو چکا ہوتا ہے، وہ اس کے دل کی دھڑکن بن چکا ہوتا ہے، اس کے خون میں سرایت کر چکا ہوا ہے، وہ اس کا دیوانہ ہو چکا ہوتا ہے۔ تو ایسی صورت حال میں کسی کا فتنوں کی حقیقت کو سمجھنا یقینا آسان نہیں ہوتا ، اور اس کی ایک مثال ٹی وی کا فتنہ ہے، اور یہ فتنہ یوں ہمارے رگ وپے میں سرایت کر گیا ہے کہ عوام تو عوام رہے، وہ لوگ بھی جو نمازیں پڑھتے ہیں اور خود کو دین دار سمجھتے ہیں، ان میں سے کتنے لوگ ہیں جو ٹی وی کوفتہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، شاید ہزار میں سے کوئی ایک ہو جو ٹی وی کو فتنہ سمجھتا ہو باقی سب اس کی ضرورت کے قائل اور اس کے جائز اور حلال ہونے کے دعویدار بلکہ مفتی ہوں گے۔ تو اس سے اندازاہ کر سکتے ہیں کہ فتنوں کو سمجھنا اور ان سے بچنا کس قدر مشکل اور دشوار ہے۔
اسی طرح اس دور کی کئی تحریکیں اور کئی جماعتیں علی وجہ بصیرت کہتا ہوں اور قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں کہتا ہوں کہ وہ اس دور کے بڑے فتنوں میں سے ایک فتنہ ہیں۔ مگر کون اسے سمجھنے اور ماننے کو تیار ہوگا!
ٹی وی کا فتنہ کئی لحاظ سے نہ صرف یہ کہ اک فتنہ ہے بلکہ بہت بڑا فتنہ ہے، ٹی وی انسان کو بے حیائی سکھاتا ہے، فحاشی پھیلاتا ہے، بداخلاقیوں کے نئے نئے طریقے متعارف کرواتا ہے، لوگوں میں گناہ کی جرأت پیدا کرتا ہے، لوگوں کے عیبوں کو ظاہر کرتا اور ان کی پگڑیاں اچھالتا ہے، لوگوں کو آپس میں لڑاتا اور نفرتیں پیدا کرتا ہے، ٹی وی اینکر پرسنز اور ٹاک شوز میں باتیں کرتے نام نہاد دانشور لوگوں کو دین سے بے زار کرتے اور اسلام کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں اور فتنوں سے متعلق واضح طور پر آپ ﷺکی پیش گوئی کا مصداق نظرآتے ہیں۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((سَيَأتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ))
’’آپ ﷺنے فرمایا: عن قریب لوگوں پر ایسا وقت آئے گا جس میں ہر طرف دھوکہ ہی دھو کہ ہوگا، جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچ کو جھوٹا۔‘‘
((وَيُؤتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيَخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ))
’’خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا۔‘‘
((وَيَنطِقُ فِيْهَا الرُّوَيْبَضَةُ))
’’اور رو بیضہ بولے گا۔‘‘
((قِیْلَ: وَمَا الرُّوَيْبَضَةُ))
’’عرض کیا گیا، اے اللہ کے رسول ! رو یبضہ کیا ہے‘‘
((قَالَ: الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ)) (ابن ماجة ، كتاب الفتن:4036)
’’فرمایا: گھٹیا اور کمین شخص عوام الناس کے معاملات میں باتیں کرے گا۔‘‘
اس میں اپنی رائے اور فتوی دے گا یعنی ایک ایسا شخص کہ جس کا وہ شعبہ نہیں ہے، جس کے پاس اس کا علم نہیں ہے، وہ عوام کے معاملات میں اپنی خود ساختہ دانشورانہ رائے دینے لگے تو وہ رو پیشہ کہلائے گا۔
عوام الناس کی بھلائی اور خیر خواہی کی بات کرنے کا اہل کون ہے، صرف علماء کرام ۔ ہاں کسی ایسے شعبے میں کہ جس کا وہ اختصاص رکھتے ہوں، بات کر سکتے ہوں ، مگر دین کے معاملے میں بغیر علم کے بات کرنے والا شخص آپﷺ کے فرمان کے مطابق گھٹیا اور کمینہ ہے۔
لوگوں کو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ ٹاک شوز میں سیاست پر باتیں ہوتی ہیں، مگر حقیقت میں سیاست پر کم اور دین پر زیادہ ہوتی ہیں، مگر عوام سمجھ نہیں پاتے کہ ان کی کسی بات کی دین پر زد پڑ رہی ہوتی ہے۔
اب کسی چینل پر کوئی صاحب کہہ رہے تھے کہ ملالہ ہماری ہیروئن اور ہماری لیڈر ہیں، اور ہم ہمہ دینیت پر یقین رکھتے ہیں، یعنی وحدت ادیان کا عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ سراسر گمراہی ہے۔
اب بظاہر اس بات میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اگر کسی کو بھی اپنا لیڈر یا اپنی لیڈر مانتا ہے تو کسی دوسرے کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے مگر یہاں اس شخص کی یہ بات اپنی ذات کے حوالے سے نہیں تھی، بلکہ وہ گویا پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے کہہ رہا تھا، اور اس کی اس بات سے سادہ لوگوں کی ذہن سازی ہو رہی تھی کہ تم بھی اس کو اپنا لیڈر مانو ، اور تم بھی وحدت ادیان کا عقیدہ رکھو۔
اب اس پر کیا تبصرہ کروں ، صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جس قوم کی ذہنی پستی کا یہ عالم ہو کہ وہ ایسے بچوں کو اپنا رہنما بنا لیں کہ جو دین سے بالکل نابلد ہوں، اس کے عروج کی مستقبل قریب میں کوئی کرن نظر نہیں آتی۔
بہت پہلے مولانا حالی مرحوم امت کی اس حالت پر گریہ زاری کر گئے ہیں۔
فرماتے ہیں:
پستی کا کوئی گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کا نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا ہمارے جو اترتا دیکھے
یعنی دریا میں مد بھی ہوتا ہے اور جز ربھی، یعنی اتار چڑھاؤ، مگر ہمارا دور یا تو ایسا اترا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ دریا میں کبھی چڑھاؤ بھی ہوتا ہے، اسلام نے ایک ایک شعبے میں، ایک ایک اور چھوٹی چھوٹی بات میں بھی رہنمائی فرمائی ہے اور یہ تو بہت بڑی بات اور بہت بڑا شعبہ ہے کہ مسلمان قوم کا لیڈر اور رہنما کیسا ہونا چاہیے۔ اس کی تو اک تفصیل ہے، مگر لوگ سنتا نہیں چاہتے کیونکہ انہوں نے جو اپنے اپنے بت تراش رکھتے ہیں وہ ان کی محبت سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
رہنما کا مطلب ہے، رہنمائی دینے والا اور یہ یقینی اور حتمی بات ہے کہ مسلمان قوم کا عروج اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنا لیڈ ر کسی با کردار، با حیا اور با عمل مسلمان کو نہیں بنا لیتے ۔ دین کو پس پشت ڈال کر اک صالح اور مثالی معاشرے کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہے۔مسلمان قوم کے رہنما کا ان صفات سے متصف ہونا ضروری ہے جو قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے ہیں، جو رہنما ان صفات سے متصف نہ ہو گا، اس کے دل میں دین کے لیے کیا تڑپ ہو گی اور وہ کن خطوط پر قوم کی رہنمائی کرے گا۔ مسلمان قوم کی ترقی میں دین کے علم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور دین کا علم علماء کرام سے ملے گا۔
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
بچوں کو اور دین سے نابلد لوگوں کو ملک و قوم کی باگ ڈور سونپ دینا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، کیوں کہ وہ نا اہل ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَا ضُیِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ))
’’جب امانت ضائع کی جائیگی ، اس وقت قیامت کا انتظار کر ۔‘‘
((قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللهِ (﷩﷩ﷺ))
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! امانت کیسے ضائع کی جائے گی ؟
((قَالَ: إِذَا أَسْنِدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ)) (بخاري ، کتاب الرقاق:6496)
’’فرمایا، جب معاملہ ان کے سپرد کیا جائے گا یعنی حکومت ان لوگوں کو دی جائے گی جو اس کے اہل نہ ہوں تو قیامت کا انتظار کر ۔‘‘
اسی طرح نا اہل لوگوں سے علم حاصل کرنا بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُلْتَمْسَ الْعِلْمُ عِنْدَ الْأَصَاغِرِ) (صحيح الجامع:2207)
’’قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ علم چھوٹے لوگوں سے سیکھا جانے لگے گا۔‘‘
اصاغر سے اگر چہ اہل بدعت ، کم علم اور بغیر دلیل کے محض اپنی رائے سے فتوی دینے والے لوگ مراد ہیں، مگر اپنے اپنے فن میں ماہر، تجربہ کار اور سند سمجھے جانے والے علماء کرام کی موجودگی میں کم علم لوگ بھی مراد لیے جا سکتے ہیں ، گویا کہ بڑے بڑے علماء کرام کے ہوتے ہوئے کم علم لوگوں سے علم حاصل کرنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَتَاهُمُ الْعِلْمُ مِنْ قِبَلِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ وَ أَكَابِرَهُمْ))
’’اس وقت تک لوگ خیر اور عافیت میں ہوں گے جب تک وہ کبار صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ سے علم حاصل کرتے رہیں گے۔‘‘
((فَإِذَا أَتَاهُمُ الْعِلْمُ مِنْ قِبَلِ أَصَاغِرِهِمْ، فَذٰلِكَ حِينَ هَلَكُوا)) (الزهد والرقائق لابن المبارك ، ج:1، ص: 281)
’’اور اگر ان کے چھوٹوں کے پاس سے علم آنے لگا تو یہ وہ وقت ہوگا جب لوگ ہلاک ہوں گے۔‘‘
جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے دور میں یہ حال تھا، جبکہ اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم سارے کے سارے عدول ہیں (مقدمة ابن الصلاح ، ص:56) تو ہمارے دور میں کیا حال ہوگا۔ اگر ہمیں لا علم لوگوں کے حوالے کر دیا گیا تو ۔
تو ٹی وی دانشوروں کی بات ہو رہی تھی، ایک نام نہاد دانشور کی یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ ملک میں ہمہ دینیت کا ماحول ہونا چاہیے۔
ہمہ دینیت کیا ہے؟ شاید اکثر لوگ اس لفظ سے ہی واقف نہ ہوں، مگر حقیقت میں یہ عقیدہ اسلام کی نفی ہے، ہمہ دینیت حقیقت میں لادینیت ہے، ہمہ دینیت کا مطلب ہے وحدة الأديان، یعنی یہ عقیدہ کہ تمام دین ایک جیسے ہی ہیں بالخصوص یہودیت ، عیسائیت اور اسلام ایک ایسا عقیدہ اور اس جیسے دیگر بہت سے عقائد و نظریات باطلہ کہ جن کا پر چار کسی اسلامی ملک کے چینلز سے ہو رہا ہو اور ایسا ملک کہ جس کے عوام دین سے کوئی خاص واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں، تو اس کا کیا انجام ہو سکتا ہے ، انداز و کرنا مشکل نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کے عقائد باطلہ سے محفوظ فرمائے ، اور مملکت پاکستان اور تمام بلاد اسلامیہ کو اغیار کی چالوں ، ان کی سازشوں اور پراپیگنڈوں سے محفوظ فرمائے اور دین خالص پر قائم و دائم رکھے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………….