واقعہ معراج عمل کا درس اور عبرت کی راہیں
﴿إنَّ الحَمْدَ لِلہِ نَحمَدُہُ وَنَسْتَعِينُہُ، مَن يَہْدِہِ اللہُ فلا مُضِلَّ لہ، وَمَن يُضْلِلْ فلا ہَادِيَ لہ، وَأَشْہَدُ أَنْ لا إلَہَ إلَّا اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِيکَ لہ، وَأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسولُہُ، يَا أَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ، يَا أَ يُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَارِجَالاً  کَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيبًا،        يَاأَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن يُطِعْ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا، أما بعدُ فإنَّ خيرَ الحديثِ کتابُ اللہِ وخيرَ الہديِ ھديُ محمدٍ ﷺ وشرَّ الأمورِ محدثاتُھا وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ وکلُّ ضلالۃٍ في النارِ.﴾
سورۃ الاسراء آیت نمبر 1 میں ہے:
اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِي بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِيَہُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ.1﴾
’’ پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔‘‘
٭  شق صدر… دلوں کو برائیوں سے پاک کریں۔
صحیح البخاری  349 میں ہے:
﴿أنَّ رَسولَ اللہِ ﷺ قالَ: فُرِجَ عن سَقْفِ بَيْتي وأَ نَا بمَکَّۃَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ ﷺ، فَـفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَہُ بمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بطَسْتٍ مِن ذَہَبٍ مُمْتَلِئٍ حِکْمَۃً وإيمَانًا، فأفْرَغَہُ في صَدْرِي، ثُمَّ أطْبَقَہُ، ثُمَّ أخَذَ بيَدِي، فَعَرَجَ بي إلی السَّمَاءِ الدُّنْيَا.﴾
’’ آنحضرتe نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں  مکہ میں تھا۔ پھر جبریلu اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔‘‘
سورۃ محمد آیت نمبر 24 میں ہے:
﴿أَ فَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلی قُلُوبٍ أَقْفالُہا.24﴾
یہ لوگ قرآن مجید پر تدبر اور غور و فکر کیوں نہیں کرتے کہیں ان کے دلوں پر تالے تونہیں لگ گئے؟
سنن ترمذی حدیث نمبر  3334 حسنہ الا ٔلبانی میں ہے:
﴿إن العبدَ إذا أخطأ خطيئۃُ نُکِتتْ في قلبہِ نُکتۃً سوداءَ فإذا ہو نزعَ واستغفرَ وتابَ سُقلَ قلبہُ وإن عادَ زيدَ فيہا حتی تعلو قلبہُ وہو الرانُ الذي ذکرَ اللہُ کَلّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُواْ يَکْسِبُونَ.﴾
’’رسول اللہe نے فرمایا: ’’بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہو جاتی ہے  ( سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے ) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا يکسبون ’’یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ ( چڑھ گیا ) ہے‘‘ (المطففین: ۱۴ )، میں کیا ہے۔‘‘
مقام غور : جس نبی کا دل پہلے ہی صاف اور معطر تھا اسے پھر آب زم زم کے ساتھ دھو کر دھویا اور ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ ایک ہم ہیں کہ گناہ کر کر کے دل کالے ہو چکے ہیں، کیا ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ شب معراج منا لیں اور دلوں کا زنگ اتارنے کی کوشش ہی نہ کریں؟
٭  براق کی سواری ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر  3207 میں ہے:
﴿وأُتِيتُ بدَابَّۃٍ أبْيَضَ، دُونَ البَغْلِ وفَوْقَ الحِمَارِ: البُرَاقُ.﴾
’’میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا جس  کا نام براق ہے۔‘‘
ترمذی حدیث نمبر  3131۔ صححہ الا ٔلبانی
﴿أنَّ النبيﷺ أُتِيَ بالبراقِ ليلۃَ أسري بِہِ ملجمًا مسرجًا فاستصعبَ عليْہِ فقالَ لَہُ جبريلُ أبمحمَّدٍ تفعلُ ہذا فما رَکبَکَ أحدٌ أَکرمُ علی اللہِ منْہُ قالَ: فارفضَّ عرقًا.﴾
’’جس رات آپe کو معراج حاصل ہوئی آپ کی سواری کے لیے براق لایا گیا۔ براق لگام لگایا ہوا تھا اور اس پر کاٹھی کسی ہوئی تھی، آپ نے اس پر سوار ہوتے وقت دقت محسوس کی تو جبرائیلu نے اسے یہ کہہ کر جھڑکا: تو محمدe کے ساتھ ایسا کر رہا ہے، تجھ پر اب تک ان سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی معزز شخص سوار نہیں ہوا ہے، یہ سن کر براق پسینے پسینے ہو گیا۔‘‘
صحیح مسلم حدیث نمبر 164 … البراق کے بارے میں ہے:
﴿يَقَعُ خَطْوُہُ عِنْدَ أقْصَی طَرفِہِ.’’اتنا تیز رفتار کہ جہاں تک نظر جائے وہاں اس کا قدم لگتا۔‘‘ ﴿قال الشيخ صالح المنجد حفظہ اللہ لم يثبت في حديث، لا مرفوع ولا موقوف – فيما علمنا – أن البراق کان لہ جناحان.﴾
کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہوتا کہ براق کے دو پر تھے۔ انتہی.
مقام غور: پھر کتنے ستم کی بات ہے کہ براق کی خیالی تصویر بنا کر عورت کا چہرہ بنا دیا جاتا ہے۔ کیا اس پر ہمارے حبیب کریمe سوار ہوئے تھے؟ استغفر اللہ العظيم.
صحیح مسلم حدیث نمبر  162 / 411 میں ہے:
٭  شراب حرام ہے
بیت المقدس میں پہنچ کر نبی کریمe نے دو رکعات پڑھیں جب باہر نکلے تو حضرت جبرائیلu دو برتن لے کر آئے۔
﴿فَجاءَنِي جِبْرِيلُ ﷺ بإناءٍ مِن خَمْرٍ، وإناءٍ مِن لَبَنٍ، فاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، فقالَ جِبْرِيلُ ﷺ:  اختَرتَ الفِطرَۃَ،  ثُمَّ عُرِجَ بنا إلی السَّماءِ.﴾
’’  جبریلu میرے پاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا لے آئے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا تو جبریلu نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے۔ ‘‘
صحیح البخاری حدیث نمبر  3437 میں ہے:
﴿أما إنَّکَ لو أخَذْتَ الخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُکَ.﴾
’’اگر آپ شراب کو پکڑ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے۔‘‘
سنن ترمذی حدیث نمبر 3049 میں ہے:
﴿فدُعِيَ عمرُ فقُرِئَت علَيہِ، ثمَّ قالَ: اللَّہمَّ بيِّنَ لَنا في الخمرِ بيانَ شفاءٍ، فنزلتِ الَّتي في المائدۃِ: إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ إلی قولِہِ فَہَلْ أَنْتُمْ مُنْتَہُونَ فدُعِيَ عمرُ فقُرِئَت علَيہِ فقالَ: انتَہَينا انتَہَينا.﴾
’’حضرت عمرt نے کہا : اے اللہ! ہمارے لیے شراب کا حکم صاف صاف بیان فرما دے۔ تو سورۃ المائدہ کی آیت إنما يريد الشيطان أن يوقع بينکم العداوۃ والبغضاء في الخمر والميسرسے فہل أنتم منتہون ۳؎ تک نازل ہوئی، عمرt پھر بلائے گئے اور آیت پڑھ کر انہیں سنائی گئی، تو انہوں نے کہا: ہم باز رہے ہم باز رہے۔
صحیح البخاری حدیث نمبر 2464 میں ہے:
﴿ الراوي: أنس بن مالک. کُنْتُ سَاقِيَ القَوْمِ في مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَۃَ، وکانَ خَمْرُہُمْ يَومَئذٍ الفَضِيخَ، فأمَرَ رَسولُ اللہِ ﷺ مُنَادِيًا يُنَادِي: أَلَا إنَّ الخَمْرَ قدْ حُرِّمَتْ قالَ: فَقالَ لي أَبُوطَلْحَۃَ: اخْرُجْ، فأہْرِقْہَا، فَخَرَجْتُ فَہَرَقْتُہَا،  فَجَرَتْ في سِکَکِ المَدِينَۃِ، فَقالَ بَعْضُ القَوْمِ: قدْ قُتِلَ قَوْمٌ وہي في بُطُونِہِمْ، فأنْزَلَ اللہُ: ﴿ليسَ علَی الَّذِينَ آمَنُوا وعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيما طَعِمُوا﴾ [المائدۃ: 93] الآيَۃَ.﴾
’’حضرت انس بن مالکt نے بیان کیا میں ابوطلحہt کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے ( پھر جونہی شراب کی حرمت پر آیت قرآنی اتری ) تو رسول کریمe  نے ایک منادی سے ندا کرائی کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا ( یہ سنتے ہی ) ابوطلحہt نے کہا کہ باہر لے جا کر اس شراب کو بہا دے۔ چنانچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہا دی۔ شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی، تو بعض لوگوں نے کہا، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حالت میں قتل کر دیئے گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’ وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے، ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ جو پہلے کھا چکے ہیں ( آخر آیت تک )۔‘‘
مقام غور: نبی کریمe نے شراب کو چھوڑا اور دودھ اختیار کیا۔ صحابہ کرامy  نے شراب کی حرمت کا سنا تو فورا ترک کر دی مدینہ کی گلیوں میں بہا دی حتی کہ شراب والے برتن توڑ دیئے۔ کیا امت بھی شراب سے توبہ تائب ہوتی ہے؟
٭  میرے حضور کا شان۔ بنے نبیوں کے امام
صحیح مسلم حدیث نمبر 172 میں ہے:
﴿وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَۃٍ مِنَ الأَنْبِيَاءِ فَإِذَا مُوسَی قَائِمٌ يُصَلِّی فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّہُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَۃَ  وَإِذَا عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْہِ السَّلاَمُ قَائِمٌ يُصَلِّي أَقْرَبُ النَّاسِ بِہِ شَبَہًا عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ وَإِذَا إِبْرَاہِيمُ عَلَيْہِ السَّلاَمُ قَائِمٌ يُصَلِّی أَشْبَہُ النَّاسِ بِہِ صَاحِبُکُمْ –يَعْنِي: نَفْسَہُ- فَحَانَتِ الصَّلاَۃُ فَأَمَمْتُہُمْ.﴾
’’اور میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰu تھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، وہ گٹھے ہوئے پھرتیلے بدن کے گھنے بالوں والے شخص تھے، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں۔ اور عیسیٰ ابن مریم (i ) کو دیکھا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفیt ہیں۔ اور ( وہاں ) ابراہیمu بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں، آپ نے اپنی ذات مراد لی، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی۔‘‘
٭  آسمانوں کی سیر… پہلے آسمان پر استقبال:
صحیح بخاری حدیث نمبر 3207 میں ہے:
﴿فَانْطَلَقْتُ مع جِبْرِيلَ حتَّی أَ تَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، قيلَ: مَن ہذا؟ قالَ جِبْرِيلُ: قيلَ: مَن معکَ؟ قالَ: مُحَمَّدٌ، قيلَ: وقدْ أُرْسِلَ إلَيْہِ؟ قالَ: نَعَمْ، قيلَ: مَرْحَبًا بہ، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فأ تَيْتُ علَی آدَمَ، فَسَلَّمْتُ عليہ، فَقالَ: مَرْحَبًا بکَ مِنَ ابْنٍ ونَبِيٍّ.﴾
’’ میں اس پر سوار ہو کر جبریلu کے ساتھ چلا۔ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبریل۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ محمد (e ) پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں، پھر میں آدمu کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، آؤ پیارے بیٹے اور اچھے۔‘‘
٭  دوسرے آسمان پر استقبال
﴿فأ تَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَۃَ، قيلَ مَن ہذا؟ قالَ: جِبْرِيلُ، قيلَ: مَن معکَ؟ قالَ: مُحَمَّدٌ، قيلَ: أُرْسِلَ إلَيْہِ، قالَ: نَعَمْ،     قيلَ: مَرْحَبًا بہ، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فأتَيْتُ علَی عِيسَی، ويَحْيَی فَقالَا: مَرْحَبًا بکَ مِن أخٍ ونَبِيٍّ.﴾
’’اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ کون صاحب ہیں؟ کہا کہ جبریل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں؟  کہا کہ محمدe، سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں۔ اب ادھر سے جواب آیا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں۔  اس کے بعد میں عیسیٰ اور یحییٰ i  سے ملا، ان حضرات نے بھی خوش آمدید، مرحبا  کہا اپنے بھائی اور نبی کو۔‘‘
٭  تیسرے آسمان پر استقبال۔
﴿فأ تَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَۃَ، قيلَ: مَن ہذا؟ قيلَ: جِبْرِيلُ، قيلَ: مَن معکَ؟ قيلَ: مُحَمَّدٌ، قيلَ: وقدْ أُرْسِلَ إلَيْہِ؟ قالَ: نَعَمْ، قيلَ: مَرْحَبًا بہ، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فأتَيْتُ علَی يُوسُفَ، فَسَلَّمْتُ عليہ قالَ: مَرْحَبًا بکَ مِن أخٍ ونَبِيٍّ.﴾
’’پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟ جواب ملا جبریل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے؟ کہا کہ محمدe، سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں، اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے آنے والے کیا ہی صالح ہیں، یہاں یوسفu سے میں ملا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو میرے بھائی اور نبی۔‘‘
٭  چوتھے آسمان پر استقبال۔
﴿فأ تَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَۃَ، قيلَ: مَن ہذا؟ قالَ: جِبْرِيلُ، قيلَ: مَن معکَ؟ قيلَ مُحَمَّدٌ، قيلَ: وقدْ أُرْسِلَ إلَيْہِ؟ قيلَ: نَعَمْ، قيلَ: مَرْحَبًا بہ ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فأ تَيْتُ علَی إدْرِيسَ، فَسَلَّمْتُ عليہ، فَقالَ: مَرْحَبًا بکَ مِن أخٍ ونَبِيٍّ.﴾
’’ یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا، کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبریل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں؟ کہا کہ محمدe ہیں۔ پوچھا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ جواب دیا کہ ہاں، پھر آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے کیا ہی اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں ادریسu سے ملا اور سلام کیا، انہوں نے فرمایا، مرحبا، بھائی اور۔‘‘
٭  پانچویں آسمان پر استقبال۔
﴿فأ تَيْنَا السَّمَاءَ الخَامِسَۃَ، قيلَ: مَن ہذا؟ قالَ: جِبْرِيلُ، قيلَ: ومَن معکَ؟ قيلَ: مُحَمَّدٌ، قيلَ: وقدْ أُرْسِلَ إلَيْہِ؟ قالَ: نَعَمْ، قيلَ: مَرْحَبًا بہ ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فأتَيْنَا علَی ہَارُونَ فَسَلَّمْتُ عليہ، فَقالَ: مَرْحَبًا بکَ مِن أخٍ ونَبِيٍّ.﴾
’’یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟  جواب دیا کہ جبریل، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟  جواب دیا کہ محمدe، پوچھا گیا، انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں، آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں۔ آنے والے کیا ہی اچھے ہیں۔ یہاں ہم ہارونu سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، مبارک، میرے بھائی اور نبی، تم اچھی کشادہ جگہ آئے۔‘‘
٭  چھٹے آسمان پر استقبال ۔
﴿فأ تَيْنَا علَی السَّمَاءِ السَّادِسَۃِ، قيلَ: مَن ہذا؟ قيلَ جِبْرِيلُ، قيلَ: مَن معکَ؟ قيلَ: مُحَمَّدٌ، قيلَ: وقدْ أُرْسِلَ إلَيْہِ مَرْحَبًا بہ ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فأتَيْتُ علَی مُوسَی، فَسَلَّمْتُ عليہ، فَقالَ: مَرْحَبًا بکَ مِن أخٍ ونَبِيٍّ، فَلَمَّا جَاوَزْتُ بَکَی، فقِيلَ: ما أبْکَاکَ: قالَ: يا رَبِّ ہذا الغُلَامُ الذي بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الجَنَّۃَ مِن أُ مَّتِہِ أفْضَلُ ممَّا يَدْخُلُ مِن أُمَّتِي.﴾
’’یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی سوال ہوا، کون صاحب ؟ جواب دیا کہ جبریل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں ؟ کہا کہ ’’ ہاں محمدe ہیں ‘‘ پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا تھا؟کہا ہاں، کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں حضرت موسیٰ u  سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے، جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا، بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ ! یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی، اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے، میری امت کے جنت میں داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔‘‘
٭  ساتویں آسمان پر استقبال۔
﴿فأ تَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَۃَ، قيلَ مَن ہذا؟ قيلَ: جِبْرِيلُ، قيلَ مَن معکَ؟ قيلَ: مُحَمَّدٌ، قيلَ: وقدْ أُرْسِلَ إلَيْہِ، مَرْحَبًا بہ ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فأتَيْتُ علَی إبْرَاہِيمَ فَسَلَّمْتُ عليہ، فَقالَ: مَرْحَبًا بکَ مِنَ ابْنٍ ونَبِيٍّ.﴾
’’اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں؟  جواب دیا کہ جبریل، سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں؟ جواب دیا کہ محمدe  پوچھا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ مرحبا، اچھے آنے والے۔ یہاں میں ابراہیمu سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بیٹے اور نبی، مبارک، اچھی کشادہ جگہ آئے۔‘‘
٭  بیت المعمور کی زیارت:
صحیح البخاری حدیث نمبر 3207 میں ہے:
﴿فَرُفِعَ لي البَيْتُ المَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقالَ: ہذا البَيْتُ المَعْمُورُ يُصَلِّي فيہ کُلَّ يَومٍ سَبْعُونَ ألْفَ مَلَکٍ، إذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إلَيْہِ آخِرَ ما عليہم.﴾
’’اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبریلu سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا۔‘‘
٭  سدرۃ المنتہی کیسی ہے؟
صحیح البخاری حدیث نمبر 3207 میں ہے:
﴿ورُفِعَتْ لي سِدْرَۃُ المُنْتَہَی، فَإِذَا نَبِقُہَا کَأ نَّہُ قِلَالُ ہَجَرَ ووَرَقُہَا، کَأنَّہُ آذَانُ الفُيُولِ.﴾
’’ اور مجھے سدرۃ المنتہیٰ بھی دکھایا گیا، اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام ہجر کے  مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان۔‘‘
٭  کیا معراج کے موقع پر نبی کریمe نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا؟
صحیح البخاری حدیث نمبر 4855 میں ہے:
﴿ يَحکي مَسْروقُ بنُ الأجدَعِ أ نَّہُ سأل أمَّ المُؤمِنينَ قُلتُ لِعَائِشَۃَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا: يا أُمَّـتَاہْ، ہلْ رَأَی مُحَمَّدٌ ﷺ رَبَّہُ؟ فَقالَتْ: لقَدْ قَفَّ شَعَرِي ممَّا قُلْتَ، أيْنَ أنْتَ مِن ثَلَاثٍ  مَن حَدَّثَکَہُنَّ فقَدْ کَذَبَ.﴾
’’مسروق بن میں نے حضرت عائشہr سے پوچھا: اے ایمان والوں کی ماں ! کیا حضرت محمدe نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ حضرت عائشہ صدیقہr  نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟‘‘
1 ﴿مَن حَدَّثَکَ أنَّ مُحَمَّدًا ﷺ رَأَی رَبَّہُ فقَدْ کَذَبَ،
جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے ، پھر انہوں نے آیت تلاوت کی۔
{لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ يُدْرِکُ الْأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ۔الأنعام: 103، پھر انہوں نے آیت تلاوت کی:
{وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَہُ اللہُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ۔ الشوری: 51.
اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو، جو شخص یہ کہتا ہو کہ حضرت محمدe نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت لاتدرکہ الأبصارسے لے کر من وراء حجاب‏  تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو۔‘‘
2 ﴿ومَن حَدَّثَکَ أ نَّہ يَعْلَمُ مافي غَدٍ فقَدْ کَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا} [لقمان: 34].
’’اور جو شخص تم سے کہے کہ آنحضرتe آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے آیت وما تدري نفس ماذا تکسب غدا‏یعنی ’’اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔‘‘ کی تلاوت فرمائی۔
3 ﴿ومَن حَدَّثَکَ أ نَّہ کَتَمَ فقَدْ کَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {يَا أَيُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْکَ مِنْ رَبِّکَ} [المائدۃ: 67] الآيَۃَ،
’’ اور جو شخص تم میں سے کہے کہ آنحضرتe نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت، تلاوت کی  ياأيہا الرسول بلغ ماأنزل إليک من ربک‏  یعنی اے رسول ! پہنچا دیجیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ ‘‘
 ولَکِنَّہُ رَأَی جِبْرِيلَ عليہ السَّلَامُ في صُورَتِـہِ مَـرَّتَيْنِ.
ہاں آنحضرتe نے حضرت جبرائیلu کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔‘‘
صحیح مسلم حدیث نمبر 178 میں ہے:
﴿الراوي: أبو ذر الغفاري سَأَ لْتُ رَسولَ اللہِ ﷺ، ہلْ رَأَيْتَ رَبَّکَ؟ قالَ: نُورٌ أنَّی أراہُ.﴾
’’حضرت ابوذر غفاریt سے بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریمe سے پوچھا کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا؟تو آپe نے فرمایا وہ نور میں کیسے دیکھ سکتا تھا۔‘‘
٭  پانچ نمازوں کا تحفہ۔
صحیح البخاری حدیث نمبر 3887 میں ہے:
﴿قَالَ: (موسی عليہ السلام)إنَّ أُمَّتَکَ لا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ کُلَّ يَومٍ، وإنِّي قدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ، وعَالَجْتُ بَنِي إسْرَائِيلَ أشَدَّ المُعَالَجَۃِ، فَارْجِعْ إلی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: سَأَلْتُ رَبِّي حتَّی اسْتَحيَيْتُ.﴾
’’پھر مجھ پر روزانہ پچاس نمازیں فرض کی گئیں میں واپس ہوا اور موسیٰu کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کس چیز کا آپ کو حکم ہوا؟ میں نے کہا کہ روزانہ پچاس وقت کی نمازوں کا۔ موسیٰu نے فرمایا لیکن آپ کی امت میں اتنی طاقت نہیں ہے۔ اس سے پہلے میرا واسطہ لوگوں سے پڑ چکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے۔ اس لیے آپ اپنے رب کے حضور میں دوبارہ جائیے اور اپنی امت پر تخفیف کے لیے عرض کیجیے۔‘‘
چنانچہ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں دوبارہ حاضر ہوا اور تخفیف کے لیے عرض کی تو دس وقت کی نمازیں کم کر دی گئیں۔ پھر میں جب واپسی میں موسیٰu کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پھر وہی سوال کیا میں دوبارہ بارگاہ رب تعالیٰ میں حاضر ہوا اور اس مرتبہ بھی دس وقت کی نمازیں کم ہوئیں۔ پھر میں موسیٰu کے پاس سے گزرا اور تو انہوں نے وہی مطالبہ کیا میں نے اس مرتبہ بھی بارگاہ رب تعالیٰ میں حاضر ہو کر دس وقت کی نمازیں کم کرائیں۔ موسیٰu کے پاس سے پھر گزرا انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا پھر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا تو مجھے دس وقت کی نمازوں کا حکم ہوا میں واپس ہونے لگا تو آپ نے پھر وہی کہا اب بارگاہ الٰہی میں حاضرہوا تو روزانہ صرف پانچ وقت کی نمازوں کا حکم باقی رہا۔ موسیٰu کے پاس آیا تو آپ نے دریافت فرمایا اب کیا حکم ہوا؟ میں نے موسیٰu کو بتایا کہ روزانہ پانچ وقت کی نمازوں کا حکم ہوا ہے۔ فرمایا کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی میرا واسطہ آپ سے پہلے لوگوں سے پڑ چکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے۔ اپنے رب کے دربار میں پھر حاضر ہو کر تخفیف کے لیے عرض کیجیے۔ نبی کریمe نے فرمایا رب تعالیٰ سے میں بہت سوال کر چکا اور اب مجھے شرم آتی ہے۔ اب میں بس اسی پر راضی ہوں۔ نبی کریمe نے فرمایا کہ پھر جب میں وہاں سے گزرنے لگا تو ندا آئی ’’میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا۔‘‘
صحیح مسلم حدیث نمبر 162 میں ہے:
﴿يا مُحَمَّدُﷺ، إنَّہُنَّ خَمْسُ صَلَواتٍ کُلَّ يَومٍ ولَيْلَۃٍ، لِکُلِّ صَلاۃٍ عَشْرٌ، فَذلکَ خَمْسُونَ صَلاۃً.﴾
’’اے محمد (e ) یہ دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں ہر نماز کا دس گنا ثواب ہے تو پانچ پڑھنے پر پچاس نمازوں کا ثواب ملے گا۔‘‘
مقام غور ! نماز کی فرضیت پر قرآن مجید اور احادیث کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔ شب معراج منانے والے کیا اس شر دیئے گئے نمازوں کے تحفے کا پاس کرتے ہیں؟ کیا پانچ وقت کی باجماعت نماز ادا کرتے ہیں یا سال بعد شب معراج منا لینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں؟
صحیح مسلم حدیث نمبر 173 میں ہے:
﴿لَمَّا أُسْرِيَ برَسولِ اللہِ ﷺ، انْتُہي بہ إلی سِدْرَۃِ المُنْتَہَی،  فَأُعْطِيَ رَسولُ اللہِ ﷺ ثَلاثًا: أُعْطِيَ الصَّلَواتِ الخَمْسَ، وأُعْطِيَ خَواتِيمَ سُورَۃِ البَقَرَۃِ، وغُفِرَ لِمَن لَمْ يُشْرِکْ باللہِ مِن أُمَّتِہِ شيئًا، المُقْحِماتُ.﴾
’’ پھر رسول اللہe کو تین چیزیں عطا کی گئیں: پانچ نمازیں عطا کی گئیں، سورۃ بقرہ کی آخری آیات عطا کی گئیں اور آپ کی امت کے ( ایسے ) لوگوں کے (جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا ) جہنم میں پہنچانے والے ( بڑے بڑے) گناہ معاف کر دیے۔‘‘
مقام غور !   نماز کی فرضیت پر قرآن مجید اور احادیث کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔ شب معراج منانے والے کیا اس شر دیئے گئے نمازوں کے تحفے کا پاس کرتے ہیں؟ کیا پانچ وقت کی باجماعت نماز ادا کرتے ہیں یا سال بعد شب معراج منا لینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں؟
٭  مجرموں اور بے عملوں کا انجام۔
لوگوں کی پکڑیاں اچھالنے سے رک جائیں ۔
 ابو داود 4878۔ صححہ الا ٔلبانی
﴿لما عُرِجَ بي مررتُ بقومٍ لہم أظفارٌ من نُحاسٍ يخْمِشون وجوہَہم وصدورَہم , فقلتُ: من ہؤلاء يا جبريلُ؟ قال: ہؤلاء الذين يأکلون لحومِ الناسِ، ويقعون في أعراضِہم.﴾
’’حضرت انس بن مالکt بیان کرتے ہیں، رسول اللہe  نے فرمایا:’’ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے جو اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا: اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ وہ ہیں جو دوسرے لوگوں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے ہیں۔‘‘
مقام غور! کیا لوگوں کے خون مال جائیداد اور عزتیں ہم سے محفوظ ہیں؟
٭  خطباء عظام اور قراء کرام کے لیے انتباہ۔
 الترغيب والترہيب. صححہ الألبانی
﴿أَتيتُ ليلۃَ أُسرِيَ بي علی قومٍ تُقرَضُ شِفاہُہم بمقاريضَ من نارٍ، فقلتُ: مَن ہؤلاءِ يا جبريلُ؟ قال: خطباءُ أُمَّتِک الذين يقولون ما لا يفعلون، ويقرؤون کتابَ اللہِ ولا يعملون بہ﴾
’’جب مجھے اسراء اور معراج کروایا گیا میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں، میں نے جبریلu سے پوچھا یہ کون ہیں؟ یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں جو وعظ کرتے تھے مگر خود عمل نہیں کرتے تھے، قرآن مجید پڑھتے تھے مگر اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔‘‘
٭  شب معراج میں دیا گیا وظیفہ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر 3462۔ صحیح میں ہے:
﴿لَقيتُ إبراہيمَ ليلۃَ أُسْريَ بي فقالَ: يا محمَّدُ، أقرئ أمَّتَکَ منِّي السَّلامَ وأخبِرْہُم أنَّ الجنَّۃَ طيِّبۃُ التُّربۃِ عذبۃُ الماءِ، وأ نَّہا قيعانٌ، وأنَّ غِراسَہا، سُبحانَ اللہِ والحمدُ للہِ ولا إلَہَ إلَّا اللہُ واللہُ أَکْبرُ.﴾
رسول اللہe نے فرمایا: ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیمu سے ملا، ابراہیمu نے فرمایا: ’’اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتا دینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی  ( زرخیز )  ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے ۱؎ اور اس کی باغبانی: سبحان اللہ والحمد للہ ولا إلہ إلا اللہ واللہ أکبرسے ہوتی ہے۔
٭  جھٹلانے والے ضد پہ قائم رہے تسلیم کرنے والا صدیق اکبر بن گیا۔t
معراج سے واپسی پر قریش مکہ اور سرداران قریش نے کہا کہ اگر واقعی آپ راتوں رات سارا منظر نامہ دیکھ آئے ہیں تو بتائیں بیت المقدس کیسا تھا اس کے احوال بتائیں ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 3886 میں ہے:
(لَمَّا کَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجرِ فَجَلَا اللہُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُہُمْ عَنْ آيَاتِہِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْہِ.)
جب قریش نے ( معراج کے واقعہ کے سلسلے میں ) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے۔
السلسلۃ الصحيحۃ حدیث نمبر 3550 میں ہے
﴿لما أُسرِيَ بالنبيِّ إلی المسجدِ الأقْصی، أصبح يتحدَّثُ الناسُ بذلک، فارتدَّ ناسٌ ممن کانوا آمنوا بہ، و صدَّقوہ، وسَعَوْا بذلک إلی أبي بکرٍ، فقالوا: ہل لک إلی صاحبِک يزعم أنہ أُسرِيَ بہ الليلۃَ إلی بيتِ المقدسِ؟
قال: أو قال ذلک؟ قالوا: نعم، قال: لئن کان قال ذلک لقد صدَقَ، قالوا: أو تُصَدِّقُہ أنہ ذہب الليلۃَ إلی بيتِ المقدسِ وجاء قبل أن يُصبِحَ؟ قال: نعم إني لَأُصَدِّقُہ فيما ہو أبعدُ من ذلک، أُصَدِّقُہ بخبرِ السماءِ في غُدُوِّہ أو رَوْحِہ، فلذلک سُمِّي أبو بکٍر الصِّديقَ.﴾
’’حضرت عائشہr  کہتی ہیں کہ: جب نبی کریمe  کو مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا،لوگ اس کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ آپ پر جو لوگ ایمان لائے تھے اور آپ کی تصدیق کی تھی ان میں سے کچھ لوگ مرتد ہو گئے اور دوڑتے ہوئے حضرت ابو بکرr  کے پاس آئے کہنے لگے: اپنے ساتھی کو دیکھو، اس کا خیال ہے کہ اسے رات کے وقت بیت المقدس لے جایا گیا ہے؟ حضرت ابو بکرt  نے کہا: کیا اس نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ حضرت ابو بکرt  نے کہا: اگر اس نے یہ بات کہی ہے تو اس نے سچ کہا۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ وہ رات کے وقت بیت المقدس گیا اور صبح ہونے سے پہلے آگیا؟ حضرت ابوبکرt  نے کہا: ہاں، میں تو اس سے بڑی بات کی تصدیق کرتا ہوں، میں صبح یا شام کو آسمان سے آنے والی خبر کی بھی تصدیق کرتا ہوں، اسی وجہ سے حضرت ابو بکرt  کا نام صدیق ہوا۔‘‘
السلسلۃ الصحيحۃ. صحیح
﴿فقال القومُ:  أمَّا النَّعتُ ؛ فواللہِ ! لقد أصاب.﴾
’’یہ سن کر کفار کہ نے کہا نشانیاں تو صحیح بتا رہا ہے۔‘‘
٭…٭…٭