وقت کی اہمیت اور قدرو قیمت
﴿ وَ الْعَصْرِۙ۱
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ۲
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْ۠رِ۳﴾ (سورة العصر:1۔ 3)
اس حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو بے شمار انعامات سے نواز رکھا ہے، قرآن پاک نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے۔
﴿ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ؕ ﴾ (النحل:18)
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو گے تو نہ گن پاؤ گے۔‘‘
اللہ تعالی کی ہر نعمت اپنی جگہ یقینًا ایک نہایت ہی اہم نعمت ہے، مگر کچھ نعمتیں ایسی ہیں جو زیادہ اہم ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو سب سے اہم ہیں، اور پھر ان میں سے کچھ ایسی ہیں کہ کوئی ایک کسی ایک پہلو سے سب سے اہم ہے اور کوئی دوسری کسی دوسرے پہلو سے سب سے اہم ہے۔
مثلا: نعمت ہدایت ایک ایسی نعمت ہے جو حقیقی کامیابی کے لحاظ سے سب سے اہم ہے، مگر دوسری طرف ایک اور نعمت ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں اس کے وجود پر موقوف ہیں، یعنی اگر وہ نعمت موجود ہے تو کسی اور نعمت کا وجود ہو سکتا ہے اور اگر وہ نعمت حاصل نہیں ہے تو دنیا کی کوئی نعمت حاصل نہیں ہو سکتی اور دو ہے نعمت عمر، یعنی زندگی ، اگر انسان زندہ ہے تو اس کے لیے نعتیں ہو سکتی ہیں، چھوٹی یا بڑی، تھوڑی یا زیادہ۔ لیکن اگر وہ زندہ نہیں ہے تو اسے دنیا کی کوئی بھی نعمت حاصل نہیں ہو سکتی۔
اگر چہ انسان کے پاس نعمت ہدایت نہ ہو، نعمت مال، نعمت اولاد اور نعمت علم بھی اسے حاصل نہ لیکن پھر بھی اسے بے شمار دیگر نعمتیں حاصل ہو سکتی ہیں، لیکن اگر زندگی کی نعمت نہ ہو تو پھر کسی بھی نعمت کا وجود ممکن نہیں ہے۔ تو اس لحاظ سے زندگی کی نعمت انسان کے پاس سب سے قیمتی اور عزیز ترین نعمت ہے، کہ اس نعمت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ان معنوں میں زندگی کی اہمیت تو سبھی سمجھتے ہیں، مگر حقیقت میں زندگی کی اہمیت کیا ہے،
بلکہ اس سے بھی پہلے خود زندگی کیا ہے، شاید بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ اگر زندگی کا مفہوم پوچھا جائے کہ زندگی کا مطلب کیا ہے، تو شاید اکثر لوگ یہی جواب دیں گے کہ زندگی کا مطلب ہے کہ انسان کے جسم میں روح موجود ہے، روح جسم سے الگ نہیں ہوئی ، آدمی چلنے پھرنے اور سننے بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے، حالانکہ یہ تو زندگی کی چند ظاہری علامات ہیں، مگر خود زندگی کیا ہے، اس کی حقیقت سے شاید اکثر لوگ واقف نہیں ہیں ۔ تو زندگی کیا ہے؟ زندگی مرور زمانہ کا نام ہے، زندگی گزرتے ہوئے مہ و سال، ساعات ولحات اور دقائق وثوانی ہیں۔ زندگی وقت ہے اور وقت انسان کی حقیقی عمر اور زندگی ہے۔
جیسا کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((إِبْنَ آدَمَ إِنَّمَا أَنْتَ أَيَّامٌ))
’’اے ابن آدم تم ایک مجموعہ ایام ہو۔‘‘
((وَكُلَّمَا ذَهَبَ يَوْمٌ ، ذَهَبَ بَعْضُك )) (الزهد الأحمد بن حنبل، ص:225)
’’جیسے ہی کوئی ایک دن ختم ہوا تو تمھارے وجود کا ایک حصہ بھی ختم ہوا۔‘‘
اور امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَقْتُ الإِنسان هو عمره في الحقيقة)) (الداء والدواء:358)
’’وقت ہی انسان کی حقیقی عمر ہے۔‘‘
انسان کی عمر کا حساب وقت کے گزرنے کے حساب سے ہی ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی میں جتنا وقت گزر چکا ہوتا ہے وہی اس کی عمر ہوتی ہے۔ انسان کی ساری کی ساری زندگی وقت کے ساتھ ہی مربوط و مسلک ہے وقت کو الگ کر کے زندگی کا کوئی تصور اور کوئی حقیقت نہیں ہے۔
تو معنی یہ ہوا کہ وقت ہی انسان کی حقیقی عمر اور زندگی ہے، جسے اپنی زندگی پیاری ہے اسے یقینًا وقت بھی پیارا ہوگا، جسے زندگی کی قدر ہے، اسے یقینًا وقت کی قدر ہوگی اور وقت کی قدر کا مطلب: اس کے ایک ایک منٹ اور ایک ایک سیکنڈ کی قدر ہے۔ وقت کو حرکت اور تغیر سے ناپا جاتا ہے، وہ حرکت اور تغیر دن اور رات کا ہو، یا زمین کے سورج کے گرد چکر کاٹنے کا ہو، وقت کی رفتار اور اس کی مقدار کا تعین کرتا ہے۔ حرکت اور تغیر و تبدل حسی بھی ہوتا اور معنوی بھی ، جو تغیر حسی ہے وہ ہر شخص آسانی دیکھ سکتا ہے اور دیکھتا بھی ہے، کائنات میں بھی اور خود اپنی ذات میں بھی۔ پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک انسان میں کس قدر تغیر پایا جاتا ہے، ہر شخص واضح طور پر دیکھتا ہے، اسی طرح کا ئنات میں بھی اسے تغییر نظر آتا ہے، اور جو تغیر معنوی ہے، یعنی تغیر تو موجود ہے مگر حواس خمسہ کے ذریعے محسوس نہیں کیا جاتا وہ بھی ایک حقیقت ہے اور دلائل کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰی رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِۚ۶﴾ (الإنشقاق:6)
’’ اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، پس اس سے ملنے والا ہے۔‘‘
اب انسان ظاہری طور پر تو اپنے رب کی طرف چلتا ہوا نظر نہیں آتا، مگر حقیقت میں اور نتائج کے اعتبار سے تو وہ اپنے اس سفر پر مسلسل اور بلا انقطاع رواں دواں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ وقت کو زندگی سمجھنے میں انسان کو بڑی دقت اور دشواری پیش آتی ہے، کیونکہ وہ زندگی جسم میں چلتی ہوئی اُن سانسوں کو ہی سمجھتا ہے جو روح کی شکل میں اس میں موجود ہوتی ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو حیران ہوں گے کہ قرآن و حدیث میں زندگی کی تعبیر کے لیے وقت ظاہر کرنے والے کس کثرت سے کس قدر مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان میں سےچند ایک ملاحظہ فرمائیے:
((دهر، عصر ابد، احقاب، اجل، امد، حين، ساعة، حول، سنة، عام، شهر، يوم، شتاء، صیف، ليل نهار فجر، ظهر، عصر، مغرب، عشاء))
اور دیگر بہت سے الفاظ ہیں۔ قرآن و حدیث میں کثرت سے ان الفاظ کا استعمال ایک تو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انسان کی عمر اور زندگی حقیقت میں وقت سے تعبیر ہے اور دوسرے یہ کہ وقت کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے عمومی اور کلی طور پر وقت کی قسم کھائی اور متعدد بار جزوی اوقات کی قسمیں بھی کھائی:
﴿ وَ الْعَصْرِۙ۱
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ۲﴾ (العصر: 1-2) زمانے کی قسم انسان در حقیقت بڑے خسارے میں ہے۔‘‘
﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْ۠رِ۳﴾(العصر: 3)
’’سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘
اس مختصرسی سورت کی اہمیت کہ جسے اللہ تعالی نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے اس قدر ہے کہ یہ نہایت جامع ہے، گویا کہ خلاصہ ہے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس سورت کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ((لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ هَذِهِ السُّورَةَ لَكَفَتْهُمْ (تفسير ابن كثير / سورة العصر ))
’’ اگر لوگ اس سورت پر غور کریں تو یہی اُن کی ہدایت کے لیے کافی ہے۔‘‘
اس سورت میں قسم کے ساتھ آغاز فرمایا اور قسم بھی زمانے کی ، وقت کی، کہ جس میں تمام جزوی اوقات بھی داخل ہیں، اور پھر انسان کی زندگی کے خلاصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا حل بیان فرما دیا۔ اور زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ زندگی میں انسان کی تمام تر کوششوں کا نتیجہ صرف دو ہی صورتوں میں نکلتا ہے کہ یا تو وہ کامیاب ہوتا ہے یا نا کام۔
کامیاب کون ہوتا ہے اور ناکام کون! پہلے تو نا کام ہونے والوں کا ذکر فرمایا اور اس انداز سے فرمایا کہ اکثریت ناکام ہونے والوں کی ہے، اور پھر کامیاب ہونے والوں کا تذکرہ فرمایا اور ان کی صفات بیان فرمائیں۔ یعنی کامیابی اور ناکامی کا تعلق وقت کی قدر اور ناقدری سے ہے، جنہوں نے وقت کی قدر جانی، اس سے استفاد کیا وہ کامیاب ہوئے اور جنہوں نے وقت کی ناقدری کی ، اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا وہ نا کام ہوئے۔
تو وقت انسان کا سب سے قیمتی اور عزیز ترین سرمایہ ہے تو پھر ظاہر ہے کہ جو چیز جس قدر زیادہ قیمتی اور عزیز ہوتی ہے اسی قدر اس کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے، چنانچہ شاعر امام این ھبیرۃ رحمہ اللہ) نے کیا خوب کہا ہے:
وَالْوَقْتُ أَنْفُسُ مُا عَنِيَتْ بِحِفْظِه
وَأَرَاهُ أَسْهَلَ مَا عَلَيْكَ يَضِيعُ
’’سب سے نفیس اور سب سے بہترین چیز کہ جس کی حفاظت تجھ سے مطلوب ہے: وقت ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ تم سے سب سے آسانی سے ضائع ہونے والی چیز بھی وہی ہے۔‘‘
اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کہ وقت ہی انسان کی حقیقی عمر ہے، قرآن وحدیث میں مزید بیسیوں دلائل ہیں۔ مگر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہوئے آگے بڑھ کر وقت کی اہمیت پر بات کرتے ہیں۔
وقت کی اہمیت قرآن وحدیث میں بھی بہت زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور سلف صالحین تعلیم کے عمل سے بھی اس کی اہمیت کا علم ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ کفار جب جہنم میں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ
﴿رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلْ﴾ (فاطر:37)
’’اے ہمارے رب ہمیں یہاں سے نکال لے، تا کہ ہم نیک عمل کریں، ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے۔‘‘
تو انہیں جواب دیا جائے گا۔
﴿ اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَآءَكُمُ النَّذِیْرُ ؕ﴾ (فاطر:37)
’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا؟ اور تمہارے پاس منتبہ کرنے والا بھی آچکا تھا۔‘‘
اور مشہور تابعی حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((إِعْلَمُوا أَنَّ طُولَ الْعُمُرِ حُجَّةٌ، فَنَعُوْذُ بِاللَّهِ أَنْ نُغَيَّرَ بِطُولِ العُمُر)) (تفسير ابن كثير / سورة فاطر / الآية:37)
’’جان لو کہ لمبی عمر انسان پر حجت ہے، پس ہم اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہمیں لمبی عمر کا طعنہ دیا جائے ۔‘‘
اسی طرح وہ حدیث جس میں آپ ﷺنے فرمایا:
((أَعْذَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى امْرِي ، أَخَّرَ أَجَلَهُ حَتَّى بَلَّغَهُ سِتِّينَ سنة)) (صحيح البخاري:6419)
’’اللہ تعالیٰ نے اُس شخص کا عذر تمام کر دیا اور بہانہ ختم کر دیا جس کی زندگی کو مؤخر کیا یہاں تک کہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔‘‘
یعنی ساٹھ سالوں میں کتنے مہینے، کتنے ہفتے ، کتنے دن اور کتنے گھنٹے تھے، اسے آخرت کا خیال نہ آیا، دل میں تو بہ کی فکر پیدا نہ ہوئی ، اب کوئی عذر نہیں چلے گا۔
اور پھر وہ حدیث جو انسان کی طرف سے فطرتا وقت کی بے قدری پر دلالت کرتی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((نِعْمَتَانِ مَغْبُونَ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصَّحَةُ وَالْفَرَاعُ))
(صحيح البخاری ، کتاب الرقاق:6412)
’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے حوالے سے بہت سے لوگ خسارے اور گھاٹے میں ہیں اور وہ ہیں: صحت اور فراغت ۔‘‘
صحت و تندرستی اور فارغ البالی کو بہت بڑی نعمتیں قرار دیا، مگر ساتھ ہی فرمایا کہ بہت سے لوگ ان کی قدر نہیں جانتے ، ان سے استفادہ نہیں کرتے۔
اور ایک حدیث میں ہے۔
((لَا تَزُولُ قَدَمًا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عمرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيْمَ اَبْلَاهُ، وَ مَالَهُ مِنْ اَيْنَ اِكْتَسَبَهُ وَفِيْمَ اَنْفَقَهُ وَ مَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِم)) (السلسلة الصحيحة:946)
’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں اپنی جگہ سے ہل نہ پائیں گے یہاں تک اس سے پانچ سوال نہ کر لیے جائیں۔ اس کی عمر کے متعلق کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کی جوانی کے بارے میں اسے کہاں کھپایا، اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کتنا عمل کیا ۔‘‘
اور یہ حدیث تو وقت کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے گویا حرف آخر ہے، جس میں آپﷺ نے فرمایا: ((إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَفِي يَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ ، فَإِن اسْتَطَاعَ أَنْ لَّا يَقُوْمَ حَتّٰى يَغْرِسُهَا فَلْيَفْعَلْ)) (مسند احمد:12981، الأدب
المفرد ، كتاب الاعتناء بالدنيا:4)
’’ اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو پھر اگر دو یہ کر سکے کہ وہ نہ اٹھے یہاں تک کہ اسے لگا دے ، تو ایسا کرلے ۔‘‘
وقت کی اہمیت یوں تو بہت سے لوگوں کو ہے اور بہت سی قوموں کو ہے اور جو قومیں حکمرانی کرتی ہیں، وہ وقت کی قدر و قیمت جان کر اور اس سے استفادہ کر کے ہی اس مقام پر پہنچتی ہیں، مگر وقت کی قدر و قیمت جیسی قرآن و حدیث کو مطلوب ہے اسلام جس قدر کی تاکید اور امید کرتا ہے وہ دین کے لحاظ سے اور آخرت کے لحاظ سے ہے۔
علم کے حوالے سے وقت کی قدر و قیمت جاننے کے واقعات اگر سنیں تو انسان دنگ رہ جاتا ہے دو ایک واقعات سنتے ہیں۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((قَدِمَ سُفْيَانُ الثوري البصرة))
’’سفیان ثوری رحمہ اللہ بصرہ تشریف لائے ۔‘‘
((فَلَمَّا نَظَرَ إِلَى حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ لَهُ: حَدَّثَنِي حَدِيثَ أَبِي الْعُشَرَاءِ عَنْ أَبِيهِ))
’’جب انھوں نے حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کو دیکھا تو کہا مجھے ابو العشراء والی حدیث بیان کیجیے ۔‘‘
((فَقَالَ حماد: حدثني أبو الْعُشَرَاءِ عَنْ أَبِيهِ الْحَدِيثَ))
’’تو حماد رحمہ اللہ نے کہا: مجھے ابو العشراء نے اپنے والد سے یہ حدیث بیان کی ہے اور پھر حدیث بیان کی ۔‘‘
((فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الْحَدِيثِ، أَقْبَلَ عَلَيْهِ سُفْيَانُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَاعْتَنَقَهُ))
’’جب حماد رحمہ اللہ حدیث بیان کر کے فارغ ہوئے تو امام سفیان الثوری رحمہ اللہ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر انھیں سلام کیا اور معانقہ کیا ۔‘‘
((فَقَالَ مَنْ أَنْتَ ؟))
’’تو حماد بن سلمہ رحمہ اللہ نے کہا: آپ کون ہیں ؟‘‘
((قَالَ: أَنَا سُفْيَانُ))
’’کہا: میں سفیان ہوں ۔‘‘
((قَالَ: ابْنُ سَعِيدٍ))
’’کہا: سفیان ابن سعید ؟‘‘
((قَالَ: نَعَمْ))
’’کہا: ہاں‘‘
((قَالَ: الثَّورِيُّ؟))
’’کہا: الثوری ؟‘‘
(( قَالَ: نَعَمْ))
’’کہا: ہاں‘‘
((قَالَ: أَبُو عَبْدِ اللهِ))
’’کہا: ابو عبد الله‘‘
((قَالَ: نَعَمْ))
’’کہا: ہاں‘‘
((قَالَ: فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تُسَلَّمَ عَلَى ثُمَّ تَسْأَلُ عَنِ الْحَدِيثِ))
’’کہا: اس بات میں کیا چیز مانع تھی کہ آپ پہلے مجھے سلام کرتے اور پھر حدیث کے بارے میں پوچھتے ؟‘‘
((قَالَ: خَشِيتُ أَنْ تَمُوتَ قَبْلَ أَنْ أَسْمَعَ الْحَدِيثَ مِنْكَ)) (الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع ، ج:2، ص:182)
’’کہا: مجھے ڈرتھا کہ اس سے پہلے کہ میں آپ سے حدیث سنوں ، آپ فوت ہو جائیں۔‘‘
غور فرمائیں کہ وقت کی قدردانی کا یہ کیسا انوکھا اور حیران کن انداز ہے، تاہم وقت کی قدر کے حوالے سے کچھ اس طرح کے دیگر علماء کرام کے بہت سے واقعات ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں بھی وقت کی قدر و قیمت جاننے ، سمجھنے اور اس سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
…………..