وقت کی اہمیت و ضرورت

﴿وَ الْعَصْرِۙ۝۱
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ۝۲
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْ۠رِ۝۳﴾ (سورة العصر )
دو جمعے پہلے وقت کی اہمیت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ وقت انسان کی حقیقی عمر ہے، لہٰذا اس کی قدر آدمی کو اتنی ہی عزیز ہونی چاہیے جتنی کہ اسے اپنی جان عزیز ہے اور جو وقت کی ناقدری کرتا ہے وہ حقیقت میں اپنی جان کا دشمن ہے، وقت کی ناقدری اور اس کا ضیاع اپنے آپ کو بتدریج اور غیر محسوس انداز میں قتل کرنے کے مترادف ہے۔ پہلے تو وقت کی اہمیت کو سمجھنا ہی ایک بہت بڑا اور شکل ترین کام ہے اور پھر وقت کی اہمیت اگر سمجھ آہی جائے تو اس کی حفاظت ایک دوسرا بڑا کام ہوتا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی غالب اکثریت وقت کی اہمیت کو نہیں بجھتی ، اس کی قدروقیمت نہیں جانتی۔ وقت کی اہمیت دنیا کے حساب سے تو بہت لوگ جانتے ہوں گے، جیسا کہ مقولہ مشہور ہے کہ Time is Money وقت ہی پیسہ ہے۔ دولت اور پیسے کی اہمیت اور قدر و قیمت کو لوگ چونکہ خوب سمجھتے ہیں اس لیے وقت کا دولت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے یہ اصطلاح گھڑ لی کہ Time is Money۔ اب اس محاورے کی رو سے وقت کی کیا قیمت لگا ئیں گے مثلا چند سیکنڈز کی ڈالرز میں کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ سو ڈالرز ، ہزار ڈالرز، ایک لاکھ ڈالرز اس سے زیادہ کیا ہوگی۔ بلکہ اس میں بھی مبالغہ ہے، کیونکہ دنیا میں شاید کوئی ایسا کام نہیں ہے، جس کے چند سیکنڈز کی قیمت لاکھوں ڈالرز ہو۔ آئیے اب وقت کی حقیقی قیمت معلوم کرتے ہیں اور وقت کی حقیقی قدر و قیمت صرف اور صرف دین کی روشنی میں ہی متعین ہو سکتی ہے، اُس کا کوئی دوسرا معیار اور پیمانہ ہرگز نہیں ہے۔ اور نہ ہی کوئی اور پیمانہ اتنا درست ہو سکتا ہے جو اس کی صحیح صحیح قیمت معلوم کر سکے۔ قرآن پاک میں ہے، اللہ تعالی مشرکین کی روح قبض کئے جانے کے وقت کا منظر پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ۝۹۹ لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ ﴾(المؤمنون: 99۔ 100)
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے تو کہتا ہے: اے میرے رب! مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دے جیسے میں چھوڑ آیا ہوں، امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عینہ فرماتے ہیں کہ کافر و مشرک کا وقت موت اس تمنا اور درخواست ﴿ لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا﴾ کا مطلب ہے امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا۔
((يريد اشهدان لا اله الا الله)) (تفسير القرطبي / المؤمنون ، آية:100)
’’وہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور وحدانیت پر ایمان لائے اور گواہی دے۔‘‘
مگر اللہ فرماتے ہیں:
﴿ كَلَّا ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا ؕ وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۱۰۰ ﴾
’’ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ ہک رہا ہے، اب ان کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک ۔‘‘
اب جو شخص کفر اور شرک کی حالت پر مرے، اس کے جہنمی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور وہ بھی کوئی دو چار دن کے لیے نہیں بلکہ (خالدين فيها) ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
ایک ایسا شخص جو ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنمی قرار پایا ہو، اسے اپنی زندگی کے وقت میں سے دو سے پانچ سیکنڈز اگر ایسے مل جاتے جن کی اُس نے قدر جانتے ہوئے کلمہ پڑھ لیا ہوتا تو وہ ان چند سیکنڈز کی قدر جاننے کے مقابل ہمیشہ ہمیش کے لیے جنتی قرار پاتا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ)) (ابوداود:3116)
’’ جس کی زبان پر آخری کلمات: لا الہ الا اللہ ہوں وہ جنت میں داخل ہوگا ۔‘‘
اب ’’لا اله الا الله‘‘ کہنے میں کتنا وقت لگتا ہے ؟ یہی کوئی دو تین سیکنڈ زمان دو تین سیکنڈز کی قیمت اور ویلیو کا اندازہ لگا میں کہ ایسے دو تین سیکنڈز انسان کو جہنم کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر جنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز کر دینے والے ہیں۔
تو معنی یہ ہوا کہ انسان کی زندگی کے اوقات اتنے قیمتی ہیں کہ اُس کے صرف دو تین سیکنڈز اسے ایک انتہا سے اٹھا کر دوسری انتہاء پر پہنچا دیتے ہیں۔
آپ شاید سوچتے ہوں کہ دو تین سیکنڈز کی اتنی بڑی قیمت تو ایک کافر کے لیے ہے، مسلمان کے لیے نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کے لیے بھی اتنی ہی بڑی قیمت ہے۔ جہنم کی آگ سے دو تین سیکنڈز تک بچنے کے لیے اگر آدمی پوری دنیا اس کے عوض دے سکتا ہو تو ہرگز ہرگز ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔ لیکن اگر کسی نے دو تین سیکنڈز کی قدر جانی ہو تو اسے جہنم سے بچنے کے لیے پوری دنیا دینے کے بجائے قدر جانتے ہوئے وہ دو تین سیکنڈز ہی کافی ہوں گے۔
آپﷺ نے فرمایا:
((خُذُوا جُنَّتَكُمْ))
’’اپنا بچاؤ کرلو، اپنی ڈھال بنا لو!‘‘
((قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنْ عَدُوٍّ قَدْ حَضَرَ ؟))
’’ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول سے کام کسی دشمن کے حملہ آور ہونے سے؟‘‘
قال: ((لا)) ’’فرمایا نہیں۔‘‘
((بَلْ جُنَّتَكُمْ مِنَ النَّارِ))
’’بلکہ جہنم سے بچنے کے لیے ڈھال اختیار کر لو۔‘‘
((قولُوا: سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ للهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أكبر ))
’’سبحان الله، والحمد لله ، لا الہ الا اللہ، اور اللہ اکبر کہو۔‘‘
((فَإِنَّهُنَّ يَأْتين يوم القيامة منجيات، ومُقَدِّماتٍ وَهُنَّ الْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ)) (صحيح الجامع:3214)
’’کہ یہ کلمات آدمی کو جہنم سے بچانے کے لیے ڈھال بنیں گے اور آگے آگے ہوں گے اور یہی کلمات باقیات الصالحات ہیں ۔‘‘
تو ایک مسلمان کے لیے بھی زندگی کے اوقات اور لمحات اتنے ہی قیمتی ہیں، وقت کی قیمت دیگر بہت سی احادیث سے بھی ظاہر ہوتی ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ عُرِسَتْ لَهُ نَخْلَةٌ فِي الْجَنَّة)) (سنن ترمذی ، کتاب الدعوات: 3463)
’’جو شخص سبحان اللہ و بحمدہ کہے اس کے لیے جنت میں ایک کھجور کا درخت لگا دیا جاتا ہے۔‘‘
وقت کی قیمت جاننے کے لیے ہم نے چند آیات و احادیث سنیں، جو کہ وقت کی حقیقی قدر و قیمت بتلاتی ہیں، ہمارے اسلاف نے وقت کی کس طرح قدر جانی، اس کے چند نمونے گذشتہ خطبے میں ہم نے سنے، چند ایک اور ملاحظہ فرمائیے۔
امام ابن عقیل رحمہ اللہ (431 ھ ) ایک بہت بڑے امام گزرے ہیں، ان کی بہت سی تصانیف میں سے ایک تصنیف الفنون کے نام سے ہے جو کہ800 جلدوں پر مشتمل ہے۔ وہ وقت کی کسی طرح قدر اور حفاظت کرتے تھے، فرماتے ہیں:
((إِنِّي لا يَحِلُّ لِي أَنْ أَضَيْعَ سَاعَةً مِن عُمْرِي))
’’میں اپنی عمر کی ایک گھڑی بھی ضائع کرنا جائز نہیں سمجھتا۔‘‘
((حَتَّى إِذَا تَعَطَّلَ لِسَانِي عَنْ مُذَاكَرَةِ أَوْ مُنَاظَرَةٍ، وَيَصْرِي عَنْ مُطالعة))
’’حتی کہ جب میری زبان ذکر و مذاکرہ اور بحث و مباحثہ سے عاجز آجاتی ہے اور میری آنکھ مطالعے کی سکت نہیں رکھتی ۔‘‘
((أُعْمِلْتُ فِكْرِي فِي حَالِ رَاحَتِي وَأَنَا مُسْتَطْرِحٌ))
’’میں آرام کرنے کی حالت میں لیٹے لیٹے اپنی سوچ کو کام میں لاتا ہوں ۔‘‘
((فَلَا أَنْهَضُ إِلَّا وَقَدْ خَطَرَ لِي مَا أَسَطُرُهُ))
’’اور جب اٹھتا ہوں تو کوئی نہ کوئی نکتہ میرے ذہن میں آچکا ہوتا ہے جسے میں قلم بند کر سکوں ۔‘‘
((وَإِنِّي لَأَجِدُ مِنْ حِرْصِي عَلَى الْعِلْمِ وَأَنَا فِي عَشْرِ الثَّمَانِينَ أَشَدَّ مِمَّا كُنْتُ أَجِدُهُ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِينَ سنة))
’’اور میں جبکہ80 کے دہاکے میں ہوں، اپنے اندر علم کے لیے اس سے زیادہ شوق اور رغبت پاتا ہوں جو مجھے میں کے دہاکے میں ہوتے ہوئے ہوا کرتی تھی۔‘‘
((وَأَنَا أَفَصِّرُ بِغَايَةِ جُهْدِي أَوْقَاتَ أَكْلِي))
’’اور میں پوری کوشش کر کے اپنے کھانے کے اوقات بھی کم کرتا ہوں ۔‘‘
((حَتَّى أَنَّني أَخْتَارُ سَفَ الكَعْكِ وَتَحَسَّيْهِ بِالْمَاءِ عَلَى الْخُبْزِ الأجل مَا بَيْنَهُمَا مِنْ تَفَاوُتِ الْمَضْعَ ))
’’حتی کہ میں ایک اس کو پیس کر پانی میں بھگو کر کھانے کو روٹی کھانے پر ترجیح دیتا ہوں ان دونوں میں چہانے کے فرق کی وجہ سے ۔‘‘
یعنی روٹی کو کھانے کے لیے اسے چبانا پڑتا ہے اور اس میں وقت صرف ہوتا ہے، جبکہ پانی حلق میں اتارتے ہوئے اتنا وقت نہیں لگتا۔
((تَوَ فَرًا عَلَى مَطَالَعَةِ)) (صلاح الأمة في علو الهمة:169/4)
’’ اور ایسا اس لیے کرتا ہوں تا کہ وہ وقت جو روٹی چہانے میں صرف ہوتا ہے مطالعے کے لیے بچا سکوں ۔‘‘
ہمارے اسلاف کے ہاں وقت کی قدر کا یہ ایک نمونہ ہے، اُن لوگوں نے ہماری خیر خواہی کے لیے، ہم تک دین پہنچانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، اپنی راحت اور آرام قربان کیا۔ تکلیفیں اٹھا ئیں، مشقتیں نہیں اور ہم! ہم نے اپنے وقت کی قدر تو نہ کی ، مگر ان لوگوں کی قدر بھی نہ کی جنہوں نے ہمارے لیے وقت کی قدر کی اور قربانیاں دیں۔ اس مختصری گفتگو میں ہم نے یہ جانا کہ وقت انسان کی حقیقی عمر ہے اور وقت اتنا ہی قیمتی ہے جتنی کہ انسان کی زندگی قیمتی ہے اور وقت کی ناقدری کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ ہم نے یہ بھی جانا کہ قرآن و حدیث وقت کی قدر کی بہت زیادہ ترغیب دیتے اور تاکید کرتے ہیں اور یہ کہ ہمارے اسلاف نے وقت کی قدر کے ہمارے لیے عالیشان نمونے چھوڑے ہیں۔ ہم نے یہ حقیقت بھی جانی کہ لوگوں کی غالب اکثریت وقت کی قدر نہیں جانتی۔ اب سوال یہ ہے کہ وقت کی ناقدری کی وجوہات کیا ہیں اور وقت کی کس کس طرح نا قدری ہوتی ہے کن کن طریقوں سے وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ وقت کی قدر نہ جاننے کی بنیادی وجہ تو دین سے لاعلمی اور دوری ہے اور وقت کے ضیاع کی متعدد وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اغیار کی نقالی ہے۔ آج دنیا میں وقت کے ضیاع کی بہت سی شکلوں اور صورتوں میں سے ایک صورت تفریح اور اینٹرٹینمنٹ کے حوالے سے ہے۔ اور اس کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ ہے کہ لوگوں کے پاس فارغ البالی بہت ہے، فارغ البالی دنیا کے مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جو کہ بہت سے فتنوں کا باعث بنتا ہے۔
مغرب نے بہت عرصہ پہلے بھانپ لیا تھا کہ علم تمدن و عمرانیات (Sociology ) کا ایک بہت بڑا مسئلہ فارغ البالی ہے، چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے اس علم کی با قاعدہ بنیاد رکھی جس کا نام تفریحی علم تمدن ہے اور یہ علم تمدن، عمرانیات کی یعنی سوشیالوجی کی ایک فرع اور برائی ہے۔ (Sociology of Leisure ) چنانچہ انہوں نے اس فراغ کو پُر کرنے کے لیے تفریح، کھیل کود اور اینٹرٹیمنٹ کی نئی نئی راہیں نکالیں۔ وہ تمام راہیں بظاہر تفریح کا سامان ہیں مگر حقیقت میں وہ انسانی اخلاق کو تباہ و پر باد کرنے والی ہیں مگر افسوس کہ مسلمان بھی ان سے متاثر ہو کر انہی راہوں پر چل پڑے ہیں حالانکہ مسلمان کے پاس فارغ وقت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسلام میں فراغت کا مطلب دنیوی اشغال سے یا دینی اشغال سے فارغ ہوتا ہے، جس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اب باقی کا وقت کھیل کود میں یا انٹر ٹینمنٹ میں گزارا جائے۔
بلکہ اسلام ہمیں ہدایات دیتا ہے کہ:
﴿ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْۙ۝۷
وَ اِلٰی رَبِّكَ فَارْغَبْ۠۝۸﴾ (انشراح:7،8)
’’لہذا جب تم فارغ ہو تو عبادت کی مشقت میں لگ جاؤ اور اپنے دین کی طرف راغب ہو۔‘‘
تو تفریح کے نام سے یقینًا وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور اس کے اخلاقی طور پر جو نقصانات ہیں وہ الگ ہیں۔ دینی لحاظ سے بھی بہت زیادہ نقصانات ہیں۔
اسلام میں تفریح کا ایک الگ تصور ہے، اور اس کے کچھ قواعد وضوابط ہیں۔ مثلاً: تفریح کے لیے ایک ذریعہ کھیل ہے، اور کھیل اگر شرعی قواعد وضوابط سے ہٹ کر ہو تو اس کے نقصانات کیا ہو سکتے ہیں!
ملاحظہ کیجئے: کھیل کے دوران نماز کا وقت ہو اور آپ کھیل چھوڑ دیں اس کا تصور ہی نہیں ہے مگر کیا تفریح کے وقت نماز چھوڑی جاسکتی ہے؟ یقینًا نہیں ، غور فرمائیے: جنگ خندق کے دوران مشرکین کے گھیراؤ کی وجہ سے عصر کی نماز میں تاخیر ہوگئی۔
حدیث میں ہے کہ:
((حَبَسَ الْمُشْرِكُونَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى احْمَرَّتِ الشَّمْسُ ))
’’رسول اللہﷺ کو مشرکین مکہ نے نماز عصر سے روک دیا یہاں تک کہ سورج سرخ ہو گیا۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى، صَلَاةِ العصرِ ، مَلا اللهُ أَجْوَافَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا))
(صحيح مسلم ، کتاب المساجد ومواضع الصلاة:628)
’’پھر رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ” انھوں نے ہمیں نماز عصر سے مشغول کر دیا ہے، اللہ تعالی ان کے پیٹوں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھرے۔‘‘
تو یہ سب باتیں وقت کی ضرورت و اہمیت اور اس کی قدر و قیمت پر دلالت کرتی ہیں، اللہ تعالی ان اوقات کو ، ان ساعات ولمحات کو جو کہ زندگی کی اساس اور بنیاد اور اس کی اکائی ہیں ہمارے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی اور نجات کا ذریعہ بنائے ۔ آمین
……………………