یہ علماء، دین اسلام کے حقیقی پہرے دار

علماء کرام اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ»
’’لوگوں میں سے کچھ افراد اللہ والے ہوتے ہیں۔‘‘
صحابہ کرام نے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟
اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟
فرمایا:
«هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ، أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُهُ»
(ابن ماجہ : 215)
’’ قرآن والے ،وہی اللہ والے اور اس کے خاص بندے ہیں۔‘‘

قرآن والے یعنی قرآن پڑھنے والے، یاد کرنے والے، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اس کا فہم حاصل کرنے والے، اس پر عمل کرنے والے، اور اس کی تبلیغ کرنے والے، یہ سب قرآن والوں میں شامل ہیں۔

یہ اللہ کے خاص بندے ہی اس کے دین کے محافظ ہیں

آج ہمارے پاس جو دین اسلام اپنی محفوظ ترین شکل میں موجود ہے اور اتنا صاف شفاف موجود ہے کہ اس کی راتیں بھی اس کے دنوں کی طرح روشن اور صاف ہیں اور صدیاں گزرنے کے باوجود اس کا ایک ایک جزء اپنی اصل شکل میں موجود اور محفوظ ہے قرآن مجید کی حفاظت کے ساتھ ساتھ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی حیرت انگیز حفاظت کا اہتمام کیا گیا ہے، تو اس سب کے پیچھے علماء کرام کی محنتیں ہیں

امت کے حقیقی اور بے لوث رہنما

علماء کرام کی محنت اور امت کی بروقت رہنمائی کس قدر زیادہ ہے کہ دنیا میں پیش آنے والا جدید سے جدید قضیہ، نت نئے واقعات، جدید ایجادات اور معاشرے میں سلگتے ہوئے بے شمار مسائل میں سے کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جہاں امت کو رہنمائی دیے بغیر اندھیرے میں چھوڑ دیا ہو

مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب رحمہ اللہ کی مایہ ناز تصنیف "الشمس والقمر” پڑھ کر دیکھیں تو بڑے بڑے پی ایچ ڈی سکالر دھنگ رہ جاتے ہیں کہ ایسے مشکل اور انوکھے موضوع پر ایک معاشرتی اور روایتی مولوی صاحب نے کمال کا مضمون لکھ دیا ہے

"جدید فقہی مسائل” نامی ایک کتاب مبشر حسین لاہوری صاحب کی تصنیف ہے، جس کا قاری یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ یہ کسی بڑے پروفیسر کی کتاب ہے یا مدرسے کے فارغ کسی آدمی نے لکھی ہے

دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم، جدید بینکنگ کے مسائل، ٹریڈ-مارکیٹ، اور لین دین کے بیسیوں مسائل میں امت کی بھر پور رہنمائی علماء کرام کی مرہون منت ہے

ہسپتال کی دنیا میں پیش آنے والے بیسیوں نئے مسائل اور ان کا حل
پچھلے دنوں خنزير کے دل کو انسانی جسم میں ٹرانسپلانٹ کرنے کا اشو سامنے آیا تو فوراً علماء کرام نے قوم کے سامنے اس کی شرعی رہنمائی پیش کر دی

موبائل-فون کی جدید دنیا اور اس کے متعلق شرعی و اخلاقی نقطہ نظر سے رہنمائی

ٹائنز کمپنی نے اپنا پرکشش جال پھینکا تو ینگ جنریشن بڑی تیزی سے اس کا شکار ہونے لگی تب علماء ہی تھے جنہوں نے قوم کو بتایا کہ اس خطرے سے دور رہیں

وراثت کی تقسیم کے پیش آمدہ جملہ مسائل اور شریعت کے بتائے ہوئے حصص کو ریاضی اور حساب کتاب کے اصولوں کے عین مطابق تقسیم کرنا

مستشرقین، ملحدین، منکرینِ حدیث کے اعتراضات کا بھر پور اور دندان شکن جواب

الغرض کون سا جديد مسئلہ ہے جس پر علماء ومحدثین نے سیر حاصل بحث نہ کی ہو اور امت مسلمہ کی بروقت رہنمائی نہ کی ہو

5 فروری کا دن آتا ہے تو 90 فیصد مساجد میں یکجہتی کشمیر کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے
14 اگست کے موقع پر اکثر خطبات آزادی اور پاکستان کے موضوع پر ہوتے ہیں
اسی طرح نیو ہیپی ایئر، ویلینٹائن ڈے، ایپرل فول جیسے کرنٹ اشوز اور حساس موضوعات پر گفتگو منبر و محراب سے سنائی دیتی ہے

طلبہ کی خاطر قاضی بننے سے انکار کردیا

"نواب سکندر بیگم مرحومہ والیہ بھوپال اپنے مدار المہام منشی جمال الدین مرحوم کے ساتھ دہلی آئیں اور میاں صاحب سے عہدہ قضائے ریاست کے قبول کرنے کی استدعا کی مگر آپ نے ملازمت سے قطعا انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں تو وہاں کا قاضی القضاۃ ہو کر امیرانہ ٹھاٹھ سے مسند لگائے حاکم بنا بیٹھا رہوں گا؛ یہ غریب طلبا چٹائی کے بیٹھنے والے مجھ کو کہاں ڈھونڈتے پھریں گے”
(الحیاۃ بعد المماۃ، ص ۱۳۱)

مدرسہ کی خاطر سرکاری ڈیوٹی چھوڑ دی

مولانا عبد الرشید مجاہدہ آبادی حفظہ اللہ کہتے ہیں
: میں عربی ٹیچر بھرتی ہوگیا تھا، اس زمانے میں 70 روپے تنخواہ مقرر ہوئی، لیکن میرے شیخ میاں محمد باقر کو پتہ چلا، تو انہوں نے سختی سے منع کیا کہ مسجد و مدرسہ اور دین کے کام کو نہیں چھوڑنا۔ لہذا میں سب چھوڑ کر مسجد میں آگیا۔

فرض شناس اور ذمہ دار علماء

استاد محترم عتیق اللہ سلفی صاحب حفظہ اللہ استاد جی عبداللہ امجد چھتوی صاحب رحمہ اللہ کی وفات پر فرمارھے تھے کہ انھوں نے بائیس سال ستیانہ میں دوران تدریس ایک بھی چھٹی نہ کی

حفظ و ناظرہ قرآن کی کلاسیں اور علماء کرام

ابھی کل کی بات ہے وطن عزیز پاکستان میں مختلف اخبارات میں یہ خبر چھپی ہے کہ دنیا بھر کی سینکڑوں ٹاپ یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کا نام نہیں ہے جبکہ دوسری طرف وطن عزیز کے اسلامی مدارس کی دنیا بھر میں اچھی ناموری اور بہترین آؤٹ پٹ ہے صرف اسی سال کی رپورٹ لے لی جائے تو لاکھوں طلبہ اور طالبات نے قرآن حفظ کیا ہے

موازنہ کریں سکول کی تعلیم کیلئے 6، 6گھنٹے پھر ٹیوشن پھر ہوم ورک اور اس کے ساتھ ساتھ والدین بہن بھائی،چچا،ماموں کی ہیلپ، مگر پھر بھی 15,20سال پڑھنے کے باوجود اردو تک پڑ ھنی نہیں آتی، قرآن کیلئے آدھا گھنٹہ، ایک استاد 60,70 بچے، فی بچہ آدھا منٹ، لیکن استاد پھر بھی قرآن پڑھنے کے قابل بناتا ہے ساتھ کلمے نماز،دعائیں بھی یاد کراتا ہے، اگر بچہ فل ٹائم دے تو حافظ قاری بناتا ہے کمال ہے، کیا یہ سب کسی محنت اور خلوص کے بغیر ہی ہے؟؟

اربوں ڈالر کے بجٹ رکھنے والی بڑی بڑی این جی اوز بھی اتنا بڑا کام نہیں کر رہیں

اس وقت وطن عزیز پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد طلبہ مدارس میں پڑھ رہے ہیں جن کی تعلیم، رہائش اور خوراک بالکل مفت ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ علماء کرام اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے تاجروں، وڈیروں اور سرداروں کے پاس جا جا کر اور روپے روپے کی بھیک مانگ مانگ کر دین اسلام کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے یہ لوگ حفاظت دین کے لیے چنیدہ ہیں

روسی ریاستوں کی مثال

روس میں حفاظت قرآن کے لیے علماء و طلبہ کا شاندار کردار اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے
روس کی طرف سے ان ریاستوں میں اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور تعلیم تعلم پر سخت پابندی تھی صورتحال اس قدر شدید تھی کہ اگر کسی گھر سے قرآن مجید مل جاتا تو سیدھی سیدھی پھانسی کی سزا سنائی جاتی تھی 90 سال گزر گئے تھے ان کی تین نسلوں نے اپنی آنکھوں سے قرآن نہیں دیکھا تھا
مگر
آفرین ہے دین کے ان پہریداروں نے پہرے داری کا حق ادا کر دیا
قرآن کو دیکھے بغیر سینہ بسینہ نسل در نسل زبانی منتقل کرتے رہے حالت یوں بن چکی تھی کہ کتنے لوگ ایسے تھے کہ جنہیں اوپر سے دیکھ کر تو نہیں لیکن زبانی مکمل قرآن یاد تھا

ایک مسئلے کو درست کروانے کے لیے 28 کلومیٹر سفر کیا

علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ایک شخص چار فرسخ (28 کلو میٹر سے کچھ زائد فاصلہ) طے کر کے مسئلہ پوچھنے کی غرض سے ہمارے ایک استاد کے پاس آیا اور مسئلہ دریافت کیا۔
ہمارے شیخ نے مسئلہ بتا دیا اور جب وہ شخص واپس پلٹ گیا تو استاد محترم نے اس مسئلہ پر غور و خوض کیا تو معلوم ہوا کہ اس شخص کو مسئلہ بتانے میں غلطی لگی ہے۔
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہمارے استاد محترم غلطی واضح ہونے کے بعد پیدل چل کر اس شخص تک پہنچے اور اسے اس غلطی سے آگاہ کیا۔اس کے بعد جب بھی ان سے مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ جواب دینے میں توقّف کرتے اور فرماتے:
مجھ میں چار فرسخ پیدل چلنے کی قوت نہیں ہے۔
تعظيم الفتيا لابن الجوزي ص ٩١

ایک اجنبی شخص نے قرآن کی تفسیر سمجھنے کے لیے کس قدر تکلیف برداشت کی

مولانا ابوالکلام رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
غالبا دسمبر ۱۹۱۸ء کا واقع ہے کہ میں رانچی میں نظر بندتھا۔ عشا کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکا تو مجھ محسوس ہوا کوئی شخص پیچھے آرہا ہے۔ مڑ کے دیکھا تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑا تھا

آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟“ ہاں جناب میں بہت دور سے آیا ہوں”
پوچھا :” کہاں سے؟”
بتایا :”سرحد پار سے”
پوچھا :یہاں کب پہنچے ؟”
بتایا :آج شام کو پہنچا۔ میں بہت غریب آدمی ہوں۔ قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا۔ وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے۔ انہوں نے نوکر رکھ لیا۔ اور آگرہ پہنچادیا ۔ آگرہ سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں

مولانا فرمانے لگے :
افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی ؟”
تو کہنے لگا :
اس لیے کہ آپ سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک حرف پڑھا ہے”
وہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکا یک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا، میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پرڈالے۔ اس نے یقین واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔

مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ لیکن اگر میرے حافظہ نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ
کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔
۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ء
تفسیر ترجمان القرآن (جلد اول)

ایک حدیث کے لیے مہینہ بھر سفرکیا

جابر رضی اللہ عنہ نے مہینہ بھر ایک حدیث کے لیے سفر کیا
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ : بَلَغَنِي حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَرَيْتُ بَعِيرًا، ثُمَّ شَدَدْتُ عَلَيْهِ رَحْلِي، فَسِرْتُ إِلَيْهِ شَهْرًا، حَتَّى قَدِمْتُ عَلَيْهِ الشَّامَ، فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ ، فَقَالَ لِلْبَوَّابِ : قُلْ لَهُ : جَابِرٌ عَلَى الْبَابِ، فَقَالَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ : قُلْتُ : نَعَمْ، فَخَرَجَ يَطَأُ ثَوْبَهُ، فَاعْتَنَقَنِي، وَاعْتَنَقْتُهُ، فَقُلْتُ : حَدِيثًا بَلَغَنِي عَنْكَ، أَنَّكَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقِصَاصِ، فَخَشِيتُ أَنْ تَمُوتَ، أَوْ أَمُوتَ قَبْلَ أَنْ أَسْمَعَهُ
بخاری فی الأدب المفرد
وأحمد فی مسندہ 16042
إسناده حسن والحديث صحیح

امام بخاری رحمہ اللہ کی محنت شاقہ

‏حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں

” وقد كان البخاريُّ يستيقظُ في الليلةِ الواحدة من نومه ، فيوقد السراج ويكتب الفائدة تمر بخاطره ، ثم يطفئ سراجه ، ثم يقوم مرة أخرى وأخرى ، حتى كان يتعدد منه ذلك قريباً من عشرين مرة ”
[البداية والنهاية (11/31)]
"امام بخاری رحمہ اللہ ایک ہی رات میں جب ذہن میں کوئی بات آتی تو اپنی نیند سے بیدار ہوتے چراغ روشن کرتے اور وہ بات لکھتے پھرچراغ بجھا دیتے پھر ایک اور مرتبہ اٹھتے پھر ایک اور مرتبہ اٹھتے حتی کہ ایسا تقریباً بیس مرتبہ کرتے”

صرف تشہد سیکھنے کے لیے شام سے مدینہ کا سفر

ایک شخص شام سے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا؛ آپ نے پوچھا:
تمھیں کون چیز یہاں لائی؟
کہنے لگا:
میں تشہد سیکھنے کے لیے آیا ہوں.
یہ سن کر سیدنا عمر رونے لگے، یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی؛
پھر فرمایا:
والله إنِّي لأرجو من الله أن لا يعذِّبك أبدا.
[بدائع الصَّنائع،2:1]
بخدا! مجھے خدا سے امید ہے کہ وہ تمھیں کبھی عذاب سے دوچار نہیں کرے گا!

ایک طالب علم کی خودداری کا عظیم واقعہ

استاذِ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

بندہ(عبد السلام) عرض کرتا ہے کہ میرے والد حافظ محمد ابوالقاسم رحمہ اللہ نے مجھے اپنے طالب علمی کے زمانے کا واقعہ سنایا کہ وہ ان دنوں فیروز پور کے ایک گاؤں ’’لکھوکی ‘‘ میں پڑھتے تھے، والد فوت ہو چکے تھے،گھر میں غربت تھی اور سردی کے موسم میں قمیص بھی نہیں تھی۔ فرماتے تھے کہ میں نے وہ چھ ماہ قمیص کے بغیر دوہر (دوہرا کھیس) لپیٹ کر گزار دیے، کسی کو پتا تک نہیں چلنے دیا کہ میرے پاس قمیص نہیں، پھر والدہ نے روئی وغیرہ کی چنائی سے حاصل ہونے والی کچھ رقم بھیجی تو انھوں نے قمیص بنائی۔
[اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہُ وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمَھْدِیِّیْنَ]

تعلیم کے لیے ڈیڑھ لاکھ درہم خرچ کر دیے حتی کہ جوتا بھی باقی نہ رہا

امام داؤد بن رشید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أن يحيى بن معين خلف له أبوه ألف ألف درهم وخمسين ألف درهم ، فأنفقه كله على الحديث ، حتى لم يبق له نعل يلبسه!.
شرح علل الترمذي لابن رجب٢١٩/١
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کے باپ نے انکے لئے ساڈھے دس لاکھ درہم چھوڑے انہوں نے سارے کے سارے علم حدیث پر خرچ کر دیے یہاں تک کہ انکے پاس پہننے کے لئے جوتا تک باقی نہ بچا

ایک کتاب کے لیے مکان بیچ دیا

چھٹی صدی کے ایک حنبلی عالم ” امام ابن الخشاب رحمہ اللہ ( متوفی 567 ھ) جنہیں کتابوں سے حد درجہ عقیدت اور انہیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ ان کے بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ موصوف نے ایک دن ایک کتاب 500 درہم میں خریدی۔ قیمت ادا کرنے کےلئے کوئی چیز نہ تھی۔ تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مکان بیچنے کا اعلان کیا۔ اس طرح سے اپنے شوق کی تکمیل کی۔
( ذیل طبقات الحنابلہ 251/2 )

یہود و نصاریٰ کے مقابلے میں امت مسلمہ کا فخر

امت مسلمہ کے لیے یہ بہت فخر کی بات ہے کہ یہود و نصاریٰ کے مقابلے میں ہمارا اسلامی لٹریچر اور متن بہت زیادہ محفوظ ہے، صدیاں بیتنے کے باوجود آج ہماری مقدس کتاب من و عن محفوظ شکل میں موجود ہے اس کے پیچھے انہی علماء اور حفاظ کا کردار ہے
اگر دنیا سے اس کے تمام نسخے بھی غائب کر دیے جائیں، تو بھی اس کی حفاظت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ جب کہ پہلی تمام کتابوں کا دارومدار لکھے ہوئے نسخوں پر تھا اور پیغمبر یا ایک آدھ شخص کے سوا ان کا کوئی حافظ ہونا ثابت نہیں۔ اس لیے ان میں کمی بیشی اور تحریف و تصحیف ممکن تھی اور واقع بھی ہوئی، جیسا کہ بائبل میں جمع شدہ نوشتے اس کی واضح دلیل ہیں

یک جرمن مستشرق ڈاکٹر کا تبصرہ

ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر نے الاصابہ فی احوالِ الصحابہ کتاب کے انگریزی مقدمہ میں لکھا ہے
"کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے مسلمانوں کی طرح علم الرجال کا شاندار علم ایجاد کیا ہو جس کی بدولت آج پانچ لاکھ آدمیوں کے حالات زندگی ہمارے سامنے ہے”

علماء کرام فتنوں کے سامنے سیسہ پلائئ دیوار

علماء ہر قسم کے اور ہر سائز کے فتنوں کے سامنے سیسہ پلائئ دیوار بن جاتے ہیں ۔ قادیانیت مرزائیت جیسی لعنت ، انکار حدیث کا پرویزی فتنہ ۔تحقیر حدیث رسول کا فتنہ اسی طرح سیاسی فتنوں جیسا کہ سوشلزم کا فتنہ ۔ جمہوریت کا فتنہ اور آج کل لبرلزم کا فتنہ ۔ کھسرے پن کا فتنہ ( ٹرانسجینڈر ) کے پھیلاؤ اور اس قسم کے بے شمار فتنوں کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہونے والے علماء ربانی ہی ہیں ۔

مرزا قادیانی کا اعتراف

دیکھیے مرزا قادیانی کیسے اقرار و اعتراف کرتا ہے
وہ لکھتا ہے :
"اگر یہ علماء موجود نہ ہوتے تو اب تک اس ملک کے تمام باشندے جو مسلمان کہلاتے ہیں، مجھے قبول کر لیتے۔”
(مرزا غلام احمد قادیانی/ روحانی خزائن: 20۔66)

مرزا جہلمی کا فتنہ اور علماء کرام

مرزا جہلمی کے فتنے کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں شروع میں مرزا کی چتر زبانی اور تلبیس نے بہت سے نوجوانوں کو اپنی جہالت کی لپیٹ میں لے لیا تھا
مگر جب علماء کرام نے اس فتنے کو بھانپتے ہوئے اس کا تعاقب کیا تو اب صورتحال یہ ہے کہ مرزا کے دجل اور فریب کو بچہ بچہ جان چکا ہے
گویا کل کی طرح آج بھی حقیقت یہی ہے کہ "اگر یہ علماء موجود نہ ہوتے تو اب تک تمام لوگ جہلمی فتنے کا شکار ہو چکے ہوتے”

دجال کا فتنہ اور علماء کرام کا کردار

دجال کے فتنے کے خلاف بھی علماء کرام ہی میدان میں اتریں گے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ يَخْذُلُهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ
میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پرغالب رہے گی ، ان کی مددنہ کرنے والے انہیں کو ئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں لکھا ہے
” لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ يُقَاتِلُونَ ". وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ.
صحيح البخاري | كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ | بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ

امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا :
وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ
یعنی وہ اہلِ علم ہیں

امام ترمذی نے کہا میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ میں نے علی بن مدینی کوکہتے سنا :
هُمْ أَهْلُ الْحَدِيثِ
ترمذی :2229 ،صحيح
وہ حدیث کے ساتھ تعلق رکھنے والے علماء ہیں

معلوم ہوا کہ ہمیشہ سے علماء حق کے دفاع کیلئے قتال کرتے رہیں گے

اور سنن ابی داؤد میں ہے
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ، ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ ، حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ
سنن ابی داؤد 2484
سیدنا عمران بن حصین ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق کے لیے قتال کرتا رہے گا اور وہ اپنے مقابل آنے والوں پر غالب رہیں گے حتیٰ کہ ان کا آخری گروہ مسیح دجال سے لڑائی کرے گا ۔ “

یعنی دجال سے وہی لڑیں گے جو ہمیشہ سے قتال کرتے آ رہے ہوں گے
اور قتال ہمیشہ سے وہی کرتے آ رہے ہیں جو علماء ہیں
تو نتیجہ یہ نکلا کہ دجال کے خلاف علماء ہی لڑیں گے

My PDF