یوم عرفہ اور حجۃ الوداع

﴿وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۝﴾ (آل عمران:97)
آج یوم عرفہ ہے اور عرفہ کا دن ایک نہایت ہی مبارک دن ہے، یہ دن مبارک اس لیے ہے کہ وقوف عرفہ حج کا رکن اعظم ہے، ارکان حج میں سے اس رکن کی خصوصی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے بھی کر سکتے ہیں کہ تنہا اس رکن کو حج کا نام بھی دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا:
((اَلْحَجُّ عَرَفَة)) (ترمذي ، كتاب الحج:889)
’’حج وقوف عرفات ہے۔‘‘
حالانکہ وقوف عرفات کے علاوہ حج کے دیگر ارکان بھی ہیں، واجبات بھی ہیں سنتیں بھی ہیں، مگر یوم عرفہ کی اہمیت کے پیش نظر اس پر لفظ حج کا اطلاق کیا گیا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے نماز میں سورہ فاتحہ کی اہمیت کو صلاۃ کہ کر ظاہر کیا گیا، حدیث میں ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ فرماتے ہیں:
((قَسَمْتُ الصَّلٰوةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْن))(مسلم ، كتاب الصلاة:880)
’’میں نے صلاۃ کو یعنی نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے آدھا آدھا اور اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔‘‘
تو عرفہ کا دن نہایت ہی اہمیت والا دن ہے، اس کی اہمیت اور فضیلت اور اس کی خیر و برکت کے بارے میں آپ جانتے ہی ہیں کہ اس ایک دن کا روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں،
((يُكَفِّرُ السَّنَةِ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَة)) (مسلم ، كتاب الصيام:1162)
’’گذشتہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔‘‘
اس کی برکت و فضیلت کا ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیے کہ سب سے زیادہ جو کسی دن میں لوگوں کو جہنم سے آزادی ملتی ہے تو وہ یہی عرفہ کا دن ہے، حدیث میں ہے، آپ مسلمﷺنے
((مَا مِنْ يَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَة))
’’کوئی دن ایسا نہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ عرفات کے دن سے زیادہ لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتے ہوں ۔‘‘
((وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ فَيَقُولُ مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ)(مسلم ، كتاب الحج:1348)
’’اور اللہ تعالی اس روز اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے اور پھر ان پر فخر کرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا ہے، یہ لوگ بھلا مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
امام عبد البر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
((وَهٰذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُمْ مَغْفُورٌ لَهُمْ لِأَنَّهُ لَا يُبَاهِي بِأَهْلِ الْخَطَايَا وَالذُّنُوبِ إِلَّا مِنْ بَعْدِ التَّوبَةِ وَالغُفْران والله اعلم.)التمهيد ، ج:1، ص:120)
’’آپ ﷺکا یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ اس روز حاجیوں کو بخش دیا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی ان کے گناہوں کی مغفرت کیے بغیر تو ان پر فخر نہیں کرتے ہوں گے، واللہ اعلم ۔‘‘
اسی طرح ایک حدیث میں یوم عرفہ کو عید سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَام وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ)) (ترمذي، كتاب الصوم:773)
’’فرمایا: عرفہ کا دن، قربانی کا دن اور ایام تشریق ہم مسلمانوں کی عید اور کھانے پینے کے دن ہیں۔‘‘
اور یوم عرفہ کی فضیلت کا ایک اور انداز دیکھئے کہ اللہ تعالی سے مانگی جانے والی دعاؤں میں سے سب سے بہتر دعاء وہ قرار پائی جو یوم عرفہ میں کی جاتی ہے، حدیث میں ہے،
آپ ﷺنے فرمایا:
((خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ))
’’سب سے بہترین دعاء عرفہ کے دن کی دعاء ہے ۔‘‘
((وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي))
’’اور بہترین کلمات، جو میں نے کہے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام نے کہے۔‘‘
((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)) (ترمذي ، كتاب الدعوات:3585)
تو یہ وہ دعاء ہے جو عرفہ کے دن مانگی جاتی ہے اور یہ دعا اللہ تعالی کی ثنا پر مشتمل ہے اور یہی وہ دعاء ہے جو آپ ﷺنے اور آپ ﷺسے پہلے دیگر انبیاء علیہم السلام نے مانگی تو اس دعاء کے سب سے بہتر اور عمدہ ترین ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے۔
حج کے سب سے اہم رکن یوم عرفہ کی اہمیت اور فضیلت ہم نے جانی اور آج چونکہ یوم عرفہ ہے، اس وقت حجاج کرام میدان عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہو رہے ہوں گے، چنانچہ آج ہم یوم عرفہ ہی سے متعلق چند باتیں ان شاء اللہ سنیں گے اور ان میں بالخصوص آپﷺ کے حجتہ الوداع کے حوالے سے ہی بات ہو گی ، ان شاء اللہ۔ آپ ﷺ نے جو حج کیا، اسے حجتہ الوداع کہا جاتا ہے، یعنی الوداعی حج اور وہ آپ ﷺ کا ہجرت کے بعد پہلا اور آخری اسلامی حج تھا اور الوداعی حج تھا۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ آخری ہونے اور الوداعی ہونے میں فرق ہے، اس کے معنی و مفہوم میں فرق ہے اس کی اہمیت میں فرق ہے، آپ ﷺ کے حج کو الوداعی حج کیوں کہا گیا اور اس کے الوداعی ہونے کی کیا اہمیت ہے؟ آئیے جانتے ہیں:
آپ ﷺ نے جب حج فرمایا تو اس انداز سے کہ لوگوں کو الوداع کہہ رہے تھے، چنانچہ صحابہ کرام میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ آپ ﷺ الوداعی حج فرما رہے ہیں۔ حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں،
((وَقَفَ النَّبِي يَوْمَ النَّحْرِ بينَ الْجَمَرَاتِ فِي الْحَجَةِ الَّتِي حَجَّ بِهٰذَا وَقَالَ هٰذَا يَوْمُ الْحَجَّ الْأَكْبَرِ))
’’ دوران حج ، قربانی کے دن آپﷺ جمرات کے درمیان تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: آج حج اکبر کا دن ہے۔‘‘
یہاں حج اکبر کا مفہوم وہ نہیں ہے جو عمومًا سمجھا جاتا ہے کہ حج اگر جمعہ کے دن پڑے تو وہ حج اکبر ہوتا ہے بلکہ یہاں حج کو حج اکبر عمرے کے مقابلے میں کہا گیا ہے کہ عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے۔
((فَطَفِقَ النَّبِيُّ يَقُولُ اللَّهُمَّ اشْهَدُ))
’’اور آپ ﷺنے فرمانا شروع کر دیا: اے اللہ ! تو گواہ رہنا۔‘‘
((وَوَدَعَ النَّاسَ)) ’’اور لوگوں کو الوداع کیا۔‘‘
((فَقَالُوا هٰذِهِ حَجَّةُ الْوَدَاعِ)) (بخاري ، كتاب الحج:1742)
’’ تو لوگوں نے کہا کہ یہ تو الوداعی حج ہے ۔‘‘
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ صحابہ کرام رضی ا للہ تعالی عنہم کو کیسے محسوس ہوا اور انہوں نے کیسے انداز و لگایا کہ آپ ﷺ کا وہ حج الوداعی حج ہے؟ تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کے متعدد اور واضح اشارے ملے، مثلاً: ایک تو گفتگو کے انداز سے محسوس ہوا کہ آپ ﷺگویا الوادعی حج کر رہے ہیں اور الوداعی خطاب فرما رہے ہیں جیسا کہ اس سے پہلے بھی ایک بار آپ ﷺنے خطاب فرمایا، جو نہایت ہی پر اثر فکر انگیز اور دل گیر تھا، ایسا کہ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ))
’’کہ آپ ﷺ م نے ایک بار ہمیں اک نہایت ہی بلیغ وعظ فرمایا جس سے دل دہل گئے اور آنکھیں پرنم ہوگئیں ۔‘‘
((فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُمُوَدِعٍ فَأَوْصِنَا) (ترمذي ، كتاب العلم:2676)
’’ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (س)! یہ تو گویا الوداعی وعظ معلوم ہوتا ہے، آپ (ﷺ) ہمیں کوئی وصیت فرمائیے! پھر آپ ﷺنے انہیں وصیت فرمائی، تو اسی طرح حج کے موقع پر بھی آپ ﷺ کا کچھ ایسا ہی انداز تھا۔
آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی عام شخص بھی اپنے اہل خانہ سے، اپنے دوست و احباب سے اور اپنے چاہنے والوں سے جدا ہو رہا ہوتا ہے، رخصت ہو رہا ہوتا ہے، تو وہ ان سے خاص نصیحت کی باتیں کرتا ہے، جسے وہ چاہتا ہے کہ وہ لوگ بعد میں ان باتوں کو یاد رکھیں اور اپنے لیے رہنمائے زندگی بنالیں اور پلے باندھ لیں اور وہ انہیں اپنے علم اور تجربات کا نچوڑ بتاتا ہے اور اس انداز سے بتاتا ہے کہ اس کی باتوں سے خلوص، ہمدردی اور خیر خواہی ٹپک رہی ہوتی ہے، اور آپ ﷺ جو کہ رحمہ العالمین ہیں اور ایسے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں کہ اس بات کی گواہی خود اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں:
﴿عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲۸﴾ (التوبہ:128)
’’تمہارا ضرر اور نقصان ان پر گراں گزرتا ہے، تمہاری فلاح و منفعت کے وہ بڑے حریص ہیں، ایمان والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہیں۔‘‘
تو جب آپ ﷺ کی ہمدردی اور خیر خواہی کی عام حالات میں یہ کیفیت ہو تو پھر وقت رخصت و مفارقت آپﷺ کی ہمدردی اور خیر خواہی کا کیا عالم ہوگا ! آپ ﷺلوگوں کی بھلائی اور منفعت کے کس قدر شدید خیر خواہ تھے کہ خطاب کے وقت حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:
((استَنْصِتِ النَّاسَ)) (بخاري ، كتاب العلم:121)
’’لوگوں سے کہو کہ بات توجہ سے اور کان لگا کر سنیں ۔‘‘
اور فرمایا:
((لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِب)) (بخاري ، كتاب العلم:105)
’’جو موجود ہیں وہ ان لوگوں تک پیغام پہنچائیں جو موجود نہیں ہیں ۔‘‘
اندازہ کیا آپ نے کہ آپ ﷺلوگوں کے فائدے اور منفعت کے لیے کس قدر حریص اور شدید خواہشمند تھے۔
چنانچہ صحابہ کرام کو اندازہ کرنا مشکل نہ تھا کہ وہ آپ ﷺ کا الوداعی خطاب ہے۔
اسی طرح اور بہت کی علامات تھیں، جن میں سے8 ہجری کو فتح مکہ ہونا، 9 ہجری کو لوگوں کا جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا اور وفود کا آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کراسلام قبول کرنا یا جزیہ دینا، اس سے پہلے رمضان المبارک میں آپﷺ کا دس دن اعتکاف
کرنا اور آخری سال20 روز اعتکاف کرنا اور جبریل علیہ السلام کو رمضان المبارک میں ایک بارقرآن پاک سنانا اور آخری سال2 بار سنانا۔
اور جب آیت:
﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ﴾ (المائده:3)
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین قبول کر لیا ہے۔‘‘
میدان عرفات میں نازل ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رونے لگے،
((فَقِيلَ لَهُ مَا يُبْكِيكَ ؟))
’’پوچھا گیا کہ رونے کا سبب کیا ہے؟‘‘
تو فرمایا ؟((إِنَّهُ لَيْسَ بَعْدَ الْكَمَالِ إِلَّا التَّقْصَانُ)) (البداية والنهاية: 5/189)
’’دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے۔‘‘
کمی واقع ہونے لگتی ہے گویا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھانپ گئے کہ اب وقت رخصت ہے۔
اسی طرح حج کے موقع پر عید کے بعد ایام تشریق میں جب سورۃ النصر نازل ہوئی۔
﴿اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ۝﴾ (النصر:1)
تو بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اس سے بھی آپ ﷺ کا قرب اجل ہی مراد لیا تھا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ عُمَرُ يُدْخِلْنِي مَعَ أَشْيَاخَ بَدْرٍ فَقَالَ بعْضُهُمْ لِمَ تُدْخِلُ هٰذَا الْفَتَى مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ فَقَالَ عُمَرُ إِنَّهُ مِمَّنْ قَدْ عَلِمْتُمْ قَالَ: فَدَعَاهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ وَدَعَانِي مَعَهُمْ قَالَ: وَمَا رُئِيْتُهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيهُمْ مِنِّي ، فَقَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي قَوْلِ اللهِ تَعَالَى ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ﴾ فَقَالَ بَعْضُهُمْ أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لا نَدْرِي أَوْ لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ شَيْئًا فَقَالَ لِي يَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَكٰذَاكَ تقُولُ قُلْتُ لَا قَالَ فَمَا تَقُولُ قُلْتُ هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ اللهُ لَهُ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ) . فَتْحُ مَكَّةَ، فَذَاكَ عَلَامَهُ أَجَلِكَ ﴿فَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾ فَقَالَ عُمَرُ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ)) (بخاري، كتاب المغازي:4294)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مجھے اپنی مجلس میں بدری صحابہ یعنی جنگ بدر میں شریک ہونے والے بزرگوں کی محفل میں بھی بٹھالیا کرتے تھے، اس پر بعض لوگ کہنے لگے آپ اس نوجوان کو ہماری مجلس میں کیوں بلاتے ہیں؟ اس کے جیسے تو ہمارے بچے بھی ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا یہ تو اُن لوگوں میں سے جن کا علم و فضل تم جانتے ہو، چنانچہ پھر ایک روز حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان بزرگوں کو بلایا اور مجھے بھی ان کے ساتھ بلالیا، میں سمجھ گیا کہ مجھے اس لیے بلایا ہے تا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ میری صلاحیت و قابلیت ان کو دکھا سکیں، پھر سورۃ النصر تلاوت کر کے انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ اس سورت سے کیا سمجھے ہو؟ کسی نے کہا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس فتح و کامرانی پر اللہ تعالی کی حمد بیان کریں اور استغفار کریں اور بعض نے کوئی جواب نہ دیا، پھر مجھ سے پوچھا کہ اے ابن عباس کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ کہا پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اس میں آپ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالی آپﷺ کو بتارہے ہیں کہ فتح حاصل ہوگئی اب بس اللہ کی حمد بیان کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا میں بھی وہی سمجھتا ہوں۔‘‘
تو یہ تو اشارے تھے کہ جس سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب چونکہ آپ ﷺکا وقت رخصت قریب ہے، اس لیے آپ ﷺ کا یہ حج حجتہ الوداع اور آپ کا خطبہ خطبہ الوداع ہے۔
مگر اس کے علاوہ آپ ﷺنے مختلف اور متعدد مقامات پر واضح طور پر بھی بتلادیا تھا کہ اب وقت رخصت قریب ہے جن میں سے صرف دو ایک کا ذکر کروں گا۔
ایک یہ کہ آپ ﷺنے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن بھیجا اور انہیں رخصت کرتے وقت کچھ نصیحتیں فرما رہے تھے، حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی سواری پر سوار اور آپ کی ان کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے جا رہے تھے اور نصیحتیں فرماتے جا رہے تھے، جب نصیحتیں فرما چکے تو پھر آخر میں فرمایا:
((يَا مُعَادُ إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هٰذَا))
’’اے معاذ! قریب ہے کہ اس سال کے بعد تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو سکے ۔‘‘
((لَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي وقَبْرِي))
’’اور شاید تمہارا میری اس مسجد یا میری قبر کے پاس گزر ہو۔‘‘
((فَبَكَى مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِراقِ رَسُولِ اللهِ))
’’تو حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺکی جدائی کے غم سے رونے لگے ۔‘‘
((ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ نَحْوَ الْمَدِينَةِ))
’’پھر آپﷺ مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہوئے ۔‘‘
((فَقَالَ: إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي المُتَّقُونَ مَن كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا))(ابن حبان:648)
’’اور فرمایا: مجھ سے تعلق و نسبت کے لحاظ سے سب سے قریب متقی لوگ ہیں، وہ جو بھی ہوں جہاں بھی ہوں ۔‘‘
یعنی نبی کریمﷺ کی صحبت کا شرف حاصل ہونا یقینا اک بہت بڑا شرف اور اعزاز ہ ہے اور انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے بڑا درجہ ہے۔ مگر جو لوگ اس شرف سے محروم ہیں، وہ بھی آپ ﷺکی معنوی قربت کا شرف حاصل کر سکتے ہیں، اگر وہ متقی بن جائیں، چاہے وہ کسی بھی شہر اور علاقے کے رہنے والے ہوں اور کسی بھی رنگ، نسل، قبیلے اور برادری سے ان کا تعلق ہو۔
تو آپﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے قرب اجل کے بارے میں صاف اور واضح الفاظ میں بتا دیا۔
اسی طرح حج کے موقع پر آپﷺ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
((يَا أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ عَامِي هٰذَا)) (النسائي ، مناسك الحج: 3062)
’’ لو گو!تم حج کے طریقے سیکھ لو مجھے معلوم نہیں، شاید میں اس سال کے بعد حج نہ کر سکوں ۔‘‘
آج کی اس گفتگو میں پہلے ہم نے یوم عرفہ کی فضیات اور اہمیت کے بارے میں جانا تا کہ ہم اس کی برکتوں سے مستفید ہو سکیں اور پھر اس کے بعد خطبہ مجھ الوداع کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی، کیونکہ الوداعی خطاب اور الوداعی نصیحت اپنے اندر ایک خصوصی اہمیت رکھتی ہے، کہ وہ نصیحتوں کا نچوڑ ہوتی ہے، خیر اور بھلائی کا خلاصہ ہوتی ہے۔
تو خطبہ حجۃ الوداع سننے سے پہلے اس کی اہمیت کو سمجھنا ضروری تھا تا کہ ان باتوں کی ان نکات کی اور ان بنیادی اصولوں کی اہمیت سمجھ میں آجائے جو آپﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں بیان فرمائے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہکم نے بھی محسوس کیا کہ وہ الوداعی خطاب ہے اور اسے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ان کا اس حج کو حجۃ الوداع کہنا اس بات کی دلیل ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا کہنا کہ:
((فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّهَا لَوَصِيَّتُهُ إِلَى أُمَّتِهِ)) (بخاري ، كتاب الحج:1739)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ آپ کا قیام کی اپنی امت کے لیے وصیت ہے ۔‘‘
اور آپﷺ کا لوگوں تک پیغام پہنچانے کے لیے بے قرار ہونا اور اسے مختلف طریقوں اور ذریعوں سے پہنچانے کی کوشش کرتا۔
ایک تو لوگوں کو خاموش کرواتے ہوئے غور سے سننے کی تاکید کرنا اور پھر پاؤں رکاب میں رکھ کر کھڑے ہو کر اور اونچے ہو کر فرمانا کہ:
((أَلَا تَسْمَعُوْنَ؟)) (ابن حبان:4563)
’’سنتے ہو کہ نہیں ؟‘‘
اور پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا آپ ﷺکے خطاب کو لفظ بلفظ آگے دور بیٹھے ہوئے لوگوں کو سنانا۔
رافع بن عمر و المزنی رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں:
((رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَخْطُبُ النَّاسَ بِمِنٰى حِيْنَ ارْتَفَعَ الضُّحَى عَلٰى بَغْلَةٍ شَهْبَاءَ وَعَلِيٌّ يُعبِّرُ عَنْهُ وَالنَّاسُ بَينَ قَاعِدٍ وَ قَائِمٍ)) (ابو داود ، كتاب المناسك:1956)
’’میں نے آپ ﷺ کو منٰی میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا سرمئی رنگ کی خچر پر ، جب سورج کی روشنی طلوع ہوئی اور اسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آگے لوگوں تک پہنچاتے، لوگ کچھ بیٹھے ہوئے اور کچھ کھڑے تھے ۔‘‘
اور پھر ان سب سے بڑھ کر خود اللہ تعالی کا وہ پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے خصوصی اہتمام کرنا اور وہ یوں کہ اللہ تعالی کا وہ آواز لوگوں کو اپنے اپنے خیموں اور گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک بھی پہنچادینا۔
حدیث میں ہے، عبد الرحمن بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ بِمِنًى فَفَتَحَ اللهُ أَسْمَاعَنَا))
’’آپ ﷺنے منی میں ہمیں خطاب فرمایا، تو اللہ تعالی نے ہمارے کان کھول دیئے۔‘‘
((حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَسْمَعُ مَا يَقُولُ وَنَحْنُ فِي مَنَازِلِنَا)) (النسائى ، مناسك الحج:2996)
’’آپﷺ جو کچھ فرما رہے تھے، ہمیں سنائی دے رہا تھا حتی کہ ہم اپنی اپنی منزلوں میں تھے۔‘‘
یعنی جو لوگ کسی عذر کی بناء پر خطبہ سننے کے لیے حاضر نہ ہو سکے، وہ اپنے اپنے خیموں اور اپنی اپنی جگہوں میں تھے کہ وہاں تک بھی اللہ تعالی نے نبی کریمﷺ آواز پہنچا دی۔ تو اللہ تعالی کی طرف سے خطبہ حجتہ الوداع کو لوگوں تک پہنچانے کا خصوصی اہتمام کر دیا گیا۔ اور آخر میں آپﷺ نے لوگوں سے دریافت فرمایا، فرمایا:
((أَلَا يَا أُمَّتَاهُ هَلْ بَلَّغْتُ)) (ابن ماجة ، كتاب المناسك:174)
’’خبردار! اے میری امت کے لوگو! کیا میں نے تمہیں اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دیا۔‘‘
((ثَلَاثَ مَرَّاتٍ))
’’آپﷺ نے تین بار در یافت فرمایا۔‘‘
((قَالُو: نَعَمْ))
’’صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا، ہاں اللہ کے رسولﷺ آپ ﷺ نے اللہ تعالی کا
پیغام پہنچا دیا۔
((قَالَ: أَللّٰهُمَّ اشْهَدْ ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ)) (ابن ماجة ، كتاب المناسك:174)
’’آپ ﷺنے فرمایا: اللہ گواہ رہنا، تین بار فرمایا۔‘‘
تو یہ سب باتیں آپ ﷺکے حج کو حجۃ الوداع ، اور خطبہ کو خطبہ الوداع سمجھنے کی طرف واضح اشارہ تھیں۔ تو آج ہم نے خطبہ حجتہ الوداع کی اہمیت کو جانا اور سمجھا اور کل عید کے خطبے میں خطبہ الوداع میں سے ان شاء اللہ چند باتوں کا ذکر بھی سنیں گے۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………..