ذات برادری کا تکبر، امن و سلامتی کا تنزل

﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)

شیطان اپنے انسان دشمنی منصوبے میں جو جو چالیں اور تدبیریں اور حربے آزماتا ہے۔ ان میں سے ایک لوگوں کو مختلف طریقوں سے فخر و مباہات اور غرور و تکبر پر ابھارتا اور اکسانا بھی ہے جبکہ فخر وغرور اور تکبر کے اسباب ودوافع میں سے ایک اپنی اپنی قوم، قبیلے اور برادری کی محبت بھی ہے، چنانچہ لوگ اپنے اپنے قبیلے برادری کی محبت سے سرشار ہو کر اور اس میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے فخر و غرور کرنے اور دوسروں کو حقیر جاننے لگتے ہیں۔ یہ عمل اور یہ طرز فکر بذات خود کس قدر گھٹیا اور حقیر ہے، گذشتہ خطبات میں اس کا کچھ ذکر ہوا اور آئندہ بھی مزید اس پر ان شاء اللہ بات ہوگی، تاہم آج کی گفتگو میں قبیلے اور برادری کے مثبت پہلو اور اس کے فوائد و منافع اور ضرورت واہمیت کا ذکر کریں گے، ان شاء اللہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان اس دنیا کی زندگی میں معاشرے سے الگ تھلگ رہ کر زندگی نہیں گزار سکتا، دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر اور گھل مل کر رہنا انسان کی فطری ضرورت اور مجبوری ہے۔

کوئی شخص تنہا اور اکیلے زندگی نہیں گزار سکتا، جو شخص تن تنہا ہو کہ اس کے ماں باپ، بہین بھائی ، دوست و احباب ، رشتہ دار اور عام انسان اس کے آس پاس اور ارد گرد نہ ہوں تو اس کی زندگی  یقینًا  ناقص اور ادھوری ہوگی اور انسان اس تنہائی کے سبب اداس، رنجیدہ اور غمگین رہے گا۔

دنیا تو دنیا ہے، انسان کی اخروی زندگی بھی سوشل ہے، وہاں بھی لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہیں گے بلکہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے، ملاقاتیں ہوں گی، بازار لگیں گے حتی کہ لوگ جہنمیوں کو بھی دیکھیں گے۔

﴿ مُّتَّكِـِٕیْنَ فِیْهَا عَلَی الْاَرَآىِٕكِ ؕ﴾ ( الكهف:31)

’’اہل جنت ، وہاں اونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ۔‘‘

﴿عَلَی الْاَرَآىِٕكِ یَنْظُرُوْنَۙ۝۲۳﴾ (المطففين:35)

’’اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں ، دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘

﴿عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍۙ۝۱۵

مُّتَّكِـِٕیْنَ عَلَیْهَا مُتَقٰبِلِیْنَ۝۱﴾(الواقعة:15، 16)

’’مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‘‘

وہ چاہیں گے تو جنت میں بیٹھے جہنمیوں کو بھی دیکھ سکیں گے۔

فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَّسَاءَلُوْنَ ) (الصافات:50)

’’جنتی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر حالات پوچھیں گے یعنی دنیا میں گزرے ہوئے حالات کا تذکرہ کریں گے۔‘‘

﴿قَالَ قَآىِٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّیْ كَانَ لِیْ قَرِیْنٌۙ۝۵۱

یَّقُوْلُ اَىِٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ۝۵۲﴾ (الصافات:51، 52)

’’ان میں سے ایک کہے گا کہ میرا ایک ہمنشین تھا جو مجھ سے کہا کرتا تھا کہ کیا تو بھی قیامت پر یقین رکھنے والوں میں سے ہے ؟‘‘

﴿ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ۝۵۳﴾ (الصافات:53)

’’جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیوں کا پنجر اور ڈھانچہ بن جائیں گے تو ہمیں جزا وسزا دی جائے گی ؟‘‘

یعنی طنزًا اور استہزاءً کہا کرتا تھا کہ جنت ، جہنم ، حور و قصور یہ تو سب مولویوں کی باتیں ہیں کیا تم بھی ان باتوں کو مانتے ہو!

﴿قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ۝۵۴﴾(الصافات:54)

’’کہے گا کہ کیا اب آپ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ صاحب اب کہاں ہیں ؟‘‘

﴿فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ۝۵۵﴾ (الصافات:55)

’’یہ کہہ کر جونہی وہ جھک کر دیکھے گا تو جہنم کی گہرائی میں اس شخص کو دیکھ لے گا۔‘‘

﴿قَالَ تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِیْنِۙ۝۵۶﴾ (الصافات:56)

’’اسے مخاطب کر کے کہے گا اللہ کی قسم تو تو مجھے تباہ کر دینے والا تھا۔‘‘

﴿ وَ لَوْ لَا نِعْمَةُ رَبِّیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ۝﴾ (الصافات:57)

’’اگر میرے رب کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو آج میں بھی ان لوگوں میں ہوتا جو یہاں پکڑ کر لائے گئے ہیں۔‘‘

اندازہ کریں کہ آخرت میں انسان کی سماعت اور قوت گویائی اور بینائی کس قدر طاقتور اور مضبوط ہو گی ، وہاں ہزاروں میل کے فاصلے پر بھی کسی چیز کو دیکھنے کے لیے ٹیلی ویژن اور ٹیلی فون کی ضرورت نہیں ہوگی۔

تو بات ہو رہی تھی کہ دنیا تو دنیا رہی انسان آخرت میں ، جنت میں بھی سوشل ہیں ہوگا ، جبکہ دنیا کہ جسے اللہ تعالی نے اسباب کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے، بالا ولی اس میں مل جل کر رہنے کی ضرورت ہے۔

دنیا میں مل جل کر رہنے کی ضرورت کئی وجہ سے ہے، ایک تو اس وجہ سے کہ لوگ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، ہر شخص کسی نہ کسی انداز میں دوسروں کی خدمت کر رہا ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالی نے دنیا میں نظام مقرر فرما رکھا ہے، جیسا کہ فرمایا:

﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ؕ وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝۳۲﴾(الزخرف:32)

’’دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو ایک دوسرے لوگوں پر ہم نے بدر جہا فوقیت دی ہے، تا کہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں ۔‘‘

 یعنی اللہ تعالی نے سب کچھ کسی ایک آدمی کو نہیں دیا اور نہ کسی کو سب کچھ سے محروم کیا ہے، بلکہ کسی کو کوئی چیز دی تو کسی دوسری چیز سے اس کو محروم کر دیا اور یہ حکمت اس لیے ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بے نیاز نہ ہوں، ہر ایک کسی نہ کسی معاملے میں دوسرے کا محتاج ہے، حتی کہ چاہے محض انسان کی موجودگی کا ہی دوسروں کو فائدہ ہو، آپ جانتے ہیں کہ جہاں انسان کی دوسری ضروریات ہیں وہاں یہ بھی اس کی ایک ضرورت ہے کہ کوئی اس سے بات کرے، اس کے پاس بیٹھے ، اسے کمپنی دے، اس سے دل کو خوشی ہوتی ہے، رونق ہوتی ہے، وحشت دور ہوتی ہے۔ جہاں سنسان، اجاز اور سنانا ہو وہاں آدمی پر ایک ڈر اور خوف سا طاری ہو جاتا ہے۔

اگر لوگ بالکل ناپید ہو جائیں تو انسان پر دہشت طاری ہو جائے ، جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا:

((اَللّٰهُمَّ أَهْلِكِ الْمُنَافِقِينَ))

’’اے اللہ ! منافقوں کو تباہ و برباد کر دے، انہیں بلاک کر دے۔‘‘

(( فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي لَوْ هَلَكَ الْمُنَافِقُونَ لَاسْتَوْحَشْتُمْ فِي طُرُقَاتِكُمْ مِنْ قِلَّةِ السَّالِكِ)) (مدارج السالكين:364/1)

’’فرمایا: بھتیجے اگر سارے منافق ہلاک ہو گئے تو راستوں پر چلنے والوں کی کمی کی وجہ سے تمہیں وحشت ہونے لگے گی ، اداسی اور خوف سا طاری ہو جائے گا۔‘‘

تو دنیا میں محض انسان کی موجودگی ہی سے دوسرے انسانوں کو اک فائدہ ہوتا ہے۔

یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا میں لوگوں سے مل جل کر رہنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے کام آئیں اور کام لیں۔

دنیا میں جہاں بے شمار قسم کے کام اور ضرورتیں ہیں، جو ایک دوسرے کے تعاون سے پوری ہوتی ہیں، چاہے کسی معاوضے میں ہی ہوتی ہوں، مگر کچھ ضرورتیں ایسی ہیں کہ جو عموماًبالا معاوضہ اور صرف رشتہ داروں کے ذریعے ہی پوری ہوتی ہیں، ان میں سے ایک اخلاقی مدد اور تعاون ہے ، آدمی کی حفاظت اور اسے ظلم و زیادتی سے بچاتا ہے۔

جیسا کہ شعیب علیہ السلام کی قوم نے شعیب علیہ السلام سے کہا:

﴿ قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ﴾ (هود:91)

’’کہنے لگے اے شعیب ! تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں ۔‘‘

﴿ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًا ۚ ﴾ (هود:91)

’’اور ہم دیکھتے ہیں کہ تو ہم میں ایک کمزور آدمی ہے۔‘‘

﴿ وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ ؗ ﴾ (هود:91)

’’اگر تیری برادی نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کر چکے ہوتے۔‘‘

اور قبیلے اور برادری کے ہونے کے دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ ایک یہ فائدہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی ظلم و زیادتی سے محفوظ رہتا ہے یا کم از کم اسے ظلم کے خلاف اپنی برادری کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ حمایت کے لیے رشتہ دار ہی کیوں؟ مسلم معاشرے کے دوسرے لوگ مظلوم کی حمایت کیوں نہ کریں؟

حکم تو یہی ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ کسی کو اس پر ظلم کرنے دے مگر اس حکم پر عمل تو آدمی کے ایمان کی مضبوطی اور اس کی انصاف پسندی کے مطابق ہوتا ہے لیکن اپنی برادری کے کسی فرد کا دفاع اور حمایت فطری اور جذباتی ہے، جو قربت اور رشتہ داری کی وجہ ہوتا ہے اور اس میں اکثر و بیشتر انصاف پسندی سے کام نہیں لیا جاتا ہے۔ بلکہ کسی کا دفاع صرف اور صرف قبیلے اور برادری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے چاہے وہ سچا ہو یا چھوٹا ، جو کہ اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں عربوں کے ہاں اصول تھا کہ:

(أنصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا ))

’’کہ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔‘‘

مگر اسلام نے آکر ان الفاظ کو برقرار رکھا البتہ اس کا مفہوم بدل کر انصاف پسندی کے تقاضوں کے مطابق کر دیا کہ تمہارا بھائی اگر ظالم ہے تب بھی اس کی مدد کرو مگر اس صورت میں اس کی مدد یہ ہوگی کہ اسے ظلم کرنے سے روکو۔

لوگوں کو قبیلوں اور برادریوں میں تقسیم کرنے میں کئی حکمتیں ہیں، جن میں سے ایک انتظامی ضرورت بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ پوری دنیا کے لوگ کسی ایک جگہ پر ایک ہی خاندان بن کر تو نہیں رہ سکتے ، کروڑوں اور اربوں افراد ایک فیملی بن کر نہیں رہ سکتے ، انتظامی طور پر بہت سی مشکلات پیش آئیں گی۔ لازمی ہے کہ انہیں چھوٹے چھوٹے یونٹس میں خاندانوں میں تقسیم کیا جاتا، جو کہ آپس میں پہچان کا ذریعہ بنتا ۔ مگر وہ چیز کہ جسے اللہ تعالی نے محض تعارف کا ذریعہ بنایا، شیطان نے اسے لوگوں کے سامنے تفاخر اور تنافر کا ذریعہ بنا کر پیش کیا، اور پھر اس تفاخر و تنافر کے نتیجے میں جو خون ریزی ہوئی اور فتنہ و فساد پر پا ہوا اور ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ قبیلے اور برادری کے جذباتی اور فطری فوائد کے ساتھ ساتھ ہماری شریعت نے بھی قبیلوں کے افراد کے آپس میں حقوق اور ذمہ داریاں بیان فرمائی ہیں۔

مثلا ایک ہے دیت کا مسئلہ۔

کہ اگر کسی شخص سے مقتل خطا ہو جاتا ہے، یعنی قتل کرنے کی نیت نہیں تھی مگر کسی وجہ سے قتل ہو گیا تو اس کی دیت عاقلہ پر ہوگی ، اور عاقلہ سے مراد آدمی کے خاندان کے باپ کی طرف سے مرد افراد ہیں کہ ان میں سے جو بالغ ہوں اور مسلمان ہوں وہ اس کی دیت ادا کریں گے، اور ان کی مالی حیثیت کے مطابق ان پر دیت کا حصہ مقرر ہوگا، مگر افسوس کہ قبیلہ و برادری جو کہ تعارف اور تعاون کا اک ذریعہ تھا اسے آج فخر و مباہات ، لوگوں کو حقیر سمجھنا اور قبائلی برتری کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔

قبائلی برتری کے عقیدے اور نظریے کا لازمی نتیجہ ظلم و نا انصافی ، لوگوں کو کم تر ، کمی کمین، گھٹیا اور حقیر سمجھتا ہے، اس عقیدے کی بنیاد پر اصول بنائے جاتے ہیں اور ظالم کا دفاع کیا جاتا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:

((أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَحْرُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ))

’’قریش محرومیہ عورت کے معاملے میں کہ جس نے چوری کی تھی بڑے فکر مند تھے۔‘‘

((فَقَالُوا وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ))

’’تو انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں آپ سے کون بات کرے گا۔‘‘

 ((فَقَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِيءُ عَلَيْهِ إِلَّا أَسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللهﷺ))

’’تو کہنے لگے کہ اسامہ بن زید ہی ان کے علاوہ جو کہ آپﷺ کے چہیتے ہیں، بھلا کون جرأت کر سکتا ہے ۔‘‘

((فَكَلَّمَهُ أَسَامَةٌ ))

’’تو حضرت اسامہ نے آپ ﷺسے بات کی ۔‘‘

((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ))

’’تو آپ ﷺنے فرمایا: کیا تم حدود اللہ میں سے کسی حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟‘‘

((ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ))

’’پھر آپ ﷺنے اُٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا۔‘‘

((ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيْفُ تَرَكُوْهُ))

’’پھر فرمایا تم سے پہلے لوگوں کو اس بات نے تباہ کیا کہ جب ان میں سے کوئی معزز  چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے ۔‘‘

((وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا)) (بخاری:4308)

’’اور جب کوئی کمزور شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کر دیتے ، اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد ﷺبھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں ۔‘‘

 تو اپنے رشتہ داروں کو، اپنے قبیلے اور برادری کو پسند کرنا اور ان سے محبت رکھنا ان کی خیر خواہی کرنا نہ صرف یہ کہ معیوب نہیں بلکہ مطلوب ہے، صلہ رحمی کا حکم ہے، قطع رحمی سے منع کیا گیا ہے۔

آباء و اجداد سے محبت اک فطری محبت ہے۔ قرآن پاک نے اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کی نفی نہیں کی بلکہ صحیح سمت بتلائی ہے۔

﴿فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا ؕ ﴾(البقره:200)

’’پھر جب تم ارکان حج ادا کر لو تو اللہ تعالی کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے ، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔‘‘

حج سے فارغ ہونے کے بعد اسلام سے پہلے عرب اپنے اپنے آباء واجداد کا بڑے فخر سے اور بڑھا چڑھا کر ذکر کیا کرتے تھے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں، اس طرح اللہ کا ذکر کرو جس طرح اپنے آباء کا ذکر کرتے تھے بلکہ اسے سے بھی زیادہ۔

آباء واجداد کی محبت ایک فطری محبت ہے، ان کے ذکر میں یوں تو قباحت نہیں مگر خطرہ ہے کہ اگر جھوٹی تعریف کی تو دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے مرتکب اور سچی تعریف کی تو فخر و غرور میں مبتلا ہو جائیں گے۔

خود آپ ﷺنے فرمایا ہے کہ

(( أنا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ ))

’’ میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں اور کوئی فخر نہیں ہے ۔‘‘

((وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ)) (ابن ماجة:4308)

’’اور میں ہی ہوں کہ قیامت کے دن جس کی قبر سب سے پہلے کھلے گی اور کوئی فخر نہیں ہے ۔‘‘

اندازہ کیجئے ، آپ سے کی تواضع اور انکساری کا یہ عالم کہ تمام مخلوقات میں سب سے بڑا مقام و مرتبہ، اور ایسا مقام بلند کہ:

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

والا معاملہ ہونے اور بہت سی خصوصیات حاصل ہونے کے باوجود کسی قسم کا کوئی فخر و غرور نہیں ہے، جب کہ عموماً لوگوں کا یہ حال ہے کہ کوئی تھوڑا سا استثنا حاصل ہونے پر انداز گفتگو بدل جاتا ہے ، چال ڈھال بدل جاتی ہے اور بعض تو حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔

بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی کو اپنی برادری اچھی لگتی ہے یہ ایک فطری چیز ہے کہ جو قریب ہوتا ہے وہ زیادہ اچھا لگتا ہے، اپنا ہم وطن دوسرے ملک والے سے زیادہ اچھا لگتا ہے، اپنا ہم شہر دوسرے شہر والے سے، اپنے گاؤں اور محلے کا رہنے والا اور زیادہ، اپنا پڑوسی اور زیادہ اور پھر رشتہ دار اور زیادہ اچھا لگتا ہے، اسی طرح رشتہ داروں میں سب سے قریبی اپنی اولادہ اس کے بعد ماں باپ، اس کے بعد بہن بھائی اور اس کے بعد دوسرے رشتہ دار۔ یہ فطری باتیں ہیں، ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن رشتہ داروں کے حقوق ہیں، مسلمان ہونے کے حقوق ہیں، ان میں کسی کی بھی حق تلفی ہوگی تو ظلم ہوگا۔ اسلام سب کے حقوق متعین کرتا ہے، اور انہی پر چل کر امن اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے ورنہ نفرتیں اور کدورتیں اور فتنہ و فساد ہوگا۔

وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

……………….