ذاتی نفع پر اجتماعی نفع کی ترجیح
 ذاتی نفع کی حد سے بڑی ہوئی حرص اور لالچ ملک و قوم کے لیے بڑا ناسور بن چکی ہے قوموں کی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات پائے جاتے ہیں کہ جب کسی ایک فرد یا چند افراد نے اپنے ذاتی مفاد کو قوم کے اجتماعی مفاد پر مقدم کیا تو پھر صدیوں اس کا نقصان دیکھنا پڑا اور دوسری طرف ایسی بھی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ جب وفا شعار لوگوں نے ذاتی منفعت پر اجتماعی منفعت کو ترجیح دی تو ملک و قوم کو کس قدر فوائد حاصل ہوئے
مثال کے طور پر جب لوگ رشوت جیب میں ڈال کر مجرم کو بری کر رہے ہوتے ہیں
 بدمعاش کو شریف لکھ رہے ہوتے ہیں  جونیئر کو سینئر بنا رہے ہوتے ہیں
نااہل کو سلیکٹ کر رہے ہوتے ہیں
اقربا کو ناجائز طریقے سے نواز رہے ہوتے ہیں
کمرہ امتحان میں نقل کروا رہے ہوتے ہیں
اس وقت اپنی جیب گرم کرتے ہوئے ذاتی فائدہ تو سمیٹ رہے ہوتے ہیں مگر قوم کو ناقابلِ یقین نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں
 ذاتی اقتدار کی ہوس نے وطن کو دو لخت کردیا
71 کا سانحہ ہمارے سامنے ہے جب اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس لے کر نہ صرف اپنے نشیمن کو دو لخت کروادیا تھا بلکہ نوے ہزار جوانوں کو دشمن کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا
اسی پر کسی شاعر نے کہا تھا
پھر اک حادثہ ہوا پھر اک کارواں لٹا
خود اس کے پاسبان تھے وہ جن کے درمیاں لٹا
بدستِ دشمناں نہیں بدستِ دوستاں لٹا
ہر اک صدی کے دشت میں ہمیشہ کارواں لٹا
ہمارے اپنے راہ زن ہمارے اپنے رہنما
ہمارے پیارے بھیڑیے ہمارے پیارے اژدہا
یہ بھی ذاتی مفاد کی پوجا ہوتی ہے کہ جب امانت دار افسر کا دور دراز تبادلہ، محض اس لیے کردیا جاتا ہے کہ یہ کھاتا ہے نہ کھانے دیتا ہے
اور جب پولنگ اسٹیشن پہ ایک شریف کے مقابلے میں دھونس اور دھاندلی سے بدمعاش کو کامیاب کروایا جاتا ہے
اور جب سیلاب، زلزلے اور وبائی آفات میں ریلیف کی بجائے صاف پانی، مچھر دانی اور ماسک کے ریٹ اپنی مرضی سے لگا رہے ہوتے ہیں
اور جب ایک ٹھیکیدار میٹیریل پورا نہ لگائے اور ایک نمبر کی بجائے ناقص میٹیریل استعمال کرکے پیسے بچا کر اپنی جیب میں ڈال لے تو وہ اپنی ذات کو تو فائدہ پہنچا رہا ہوتا ہے مگر اس کے بنائے ہوئے نالی، سولنگ، سڑک، پُل یا کسی بھی منصوبے کی وجہ سے ملک و قوم کے لوگ مستقل اذیت میں مبتلا رہتے ہیں
جبکہ اللہ تعالیٰ اجتماعی مفاد مدنظر رکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
 وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر :09)
اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو
اسلام اجتماعی خیر خواہی کا دین ہے
تمیم داری رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«الدِّينُ النَّصِيحَةُ»
’’ دین خیر خواہی کا نام ہے ۔ ‘‘
ہم  نے پوچھا :
کس کی (خیر خواہی؟)
 آپ نے فرمایا :
«لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ» (مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ، 196)
 ’’ اللہ کی ، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی ، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانون کی ( خیرخواہی۔) ‘‘
شورش کاشمیری رحمہ اللہ نے ذاتی نفع پر اجتماعی نفع کو ترجیح دی
 شورش کاشمیری ایک دن بھٹو صاحب کے پاس گئے تو بھٹو مرحوم نے کہا:
آکسفورڈ یونیورسٹی میں میری لڑکی اور لڑکا دونوں پڑھتے ہیں، آپ بھی اپنی لڑکی اور لڑکے کو بھیج دو، حکومت وظیفہ دے گی.
شورش نے کہا کہ میں مشرقی طرز کا آدمی ہوں، مغربی تہذیب میں اولاد کو بھیج کر خراب نہیں کرنا چاہتا.
تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ شادمان کالونی، لاہور میں دو پلاٹ پڑے ہیں ،تم کم ریٹ پر حکومت سے خرید لو اور ایک کو پیچ کر اپنا پلاٹ بنا لو.
تو شورش نے جواب دیا:
جناب سر چھپانے کے لئے جگہ موجود ہے، میں کوٹھی نہیں بنانا چاہتا۔
 شورش رحمة الله علیہ اپنے گھر واپس آئے اور سارا قصہ اپنی بیٹی کو سنا دیا. تو بیٹی نے کہا کہ: ابو بھٹو صاحب پلاٹ دے رہے تھے، لے لیتے، سرکاری زمین ہے ہم پیسے جمع کرا دیتے ہیں بات صرف اتنی ہے کہ وہ کوئی اور لے جائے گا، بس ہمیں رعایت ہی مل جاتی، آپ نے ہمارے مستقبل کے ساتھ زیادتی کی ہے.
تو جواب میں شورش رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ: دنیا یہیں رہ جائے گی، میں بھٹو مرحوم سے ایک ایسا تحفہ لیکر آیا ہوں جو قبر میں مجھے کام آئے گا بس یہ بات کہنی تھی۔
کچھ ہی دنوں بعد شورش رحمة الله بیمار ہوئے اور انتقال فرما گئے
آپ کی وفات کے پانچ دن بعد بھٹو نے شورش رحمہ الله کی قبر پر حاضری دی۔ اور شورش رحمہ الله علیہ کے گھر بھی تعزیت کے لئے گئے۔
 بھٹو مرحوم نے تعزیت کے دوران کہا کہ جنرل عبد العلی اور جنرل ظفر چودھری قادیانی ہیں، شورش رحمہ الله علیہ نے میرے پاس آ کر کہا تھا کہ آپ میرے بچوں کو آکسفورڈ یونیورسٹی نہ بھیجوائیں اور پلاٹ بھی مجھےنہ دیں، بس ان دو قادیانیوں کو ہٹا دیں۔ یہی تحفہ میں آپ سے لینے آیا ہوں، تو میں نے کہا تھا کہ میں ہٹا دوں گا اور میں نے جو وعدہ کیا تھا آج ہی میں نے ان دونوں جنرلوں کو فارغ کر دیا ہے۔
پیسے چھوڑ دیے مگر اپنی جمعیت اور عقیدہ نہ چھوڑا
خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
میں زمانۂ جاہلیت میں لوہار کا کام کیا کرتا تھا اور میرا عاص بن وائل (ایک مال دار کافر) پر کچھ قرض تھا۔ میں (ایک دن) تقاضے کے لیے اس کے پاس گیا، وہ کہنے لگا :
  لاَ أُعْطِيْكَ حَتّٰی تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
 ’’میں تمھارا قرض اس وقت تک ادا نہیں کروں گا جب تک تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رسالت سے انکار نہ کرو۔‘‘
خباب رضی اللہ عنہ نے کہا :
  لاَ أَكْفُرُ حَتّٰی يُمِيْتَكَ اللّٰهُ ثُمَّ تُبْعَثَ ؤ [بخاری، البیوع، باب ذکر الفین والحداد : ۲۰۹۱۔ مسلم، : ۳۵، 2795/36 ]
 ’’اللہ کی قسم! میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے) ہر گز انکار نہیں کروں گا، یہاں تک کہ اللہ تجھے موت دے، پھر دوبارہ زندہ کرے۔‘‘
امت کے وسیع تر مفاد کی خاطر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ خلافت سے دستبردار ہو گئے
عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد چھ افراد کو خلافت کے لیے نامزد کیا تھا کہ ان چھ میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا دیا جائے
عثمان، علی، طلحہ، زبیر سعد اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم اجمعین
اب ظاہر ہے کہ خلیفہ تو کسی ایک کو ہی بننا تھا اور باقی احباب کو اس سے دستبردار ہونا ہی تھا تو سب سے پہلے جس شخص نے اپنے آپ کو اس عہدے کی نامزدگی سے علیحدہ کیا وہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ مزید تین لوگوں سعد، طلحہ اور زبیر نے بھی اپنے آپ کو اس عہدے سے علیحدہ کر لیا اب پیچھے صرف دو افراد عثمان اور علی باقی رہ گئے جس کی وجہ سے سے انتخابِ خلیفہ کے اس عمل میں بے حد آسانی پیدا ہو گئی
اگر چھ کے چھ ہی خلافت کے امیدوار بنے رہتے اور اپنی اپنی مہم تیز کردیتے (جیسے آج کل ہوتا ہے) تو کس قدر مشکل پیش آتی
اور پھر مزید یہ کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کر لیا گیا تو علی رضی اللہ عنہ نے بجائے اس کے کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر، سینے میں حسد اور بغض لیے منتخب خلیفہ کے لیے مشکلات کھڑی کرتے، اٹھ کر سب سے پہلے امیرالمومنین کی بیعت کی اور پھر شہادت عثمان تک پوری اطاعت اور فرمانبرداری میں ہر شاہی حکم پر عمل بھی کیا
اسے کہتے ہیں ذاتی نفع پر اجتماعی نفع کو ترجیح دینا
امت کے وسیع تر مفاد کی خاطر حسن رضی اللہ عنہ خلافت سے دستبردار ہو گئے
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے کون واقف نہیں ہے سبحان اللہ بہت بڑی سلطنت کے خلیفہ تھے بڑی فوج رکھتے تھے خود بھی جوان تھے جسم میں گرم خون گردش کرتا تھا دولت بھی بے شمار تھی سلطنت، طاقت، صلاحیت، ذہانت الغرض بہت کچھ تھا لڑنا چاہتے تو لڑ سکتے تھے مدمقابل کو دبا سکتے تھے کوئی خوف اور ڈر نہ تھا
مگر
جب دیکھا کہ سامنے بھی اپنے ہی بھائی ہیں مسلمانوں کی ہی جماعت ہے سوچا اگر جنگ چھڑتی ہے پھر کوئی ادھر سے قتل ہو یا اُدھر سے بہرحال وہ امت کا ہی ایک فرد ہوگا دونوں صورتوں میں نقصان اپنا ہی ہے لھذا کسی طرح یہ جنگ رکنی چاہیے
قربان جائیں اس شہزادے صحابی پر نانا کی امت کو بڑی خون ریزی سے بچانے کے لیے اپنی سلطنت،قوت، طاقت، حکومت، فوج، اسلحہ الغرض سب کچھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جھولی میں رکھ کر خود خلافت سے دستبردار ہوگئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی قربانی دی اور وہ بھی بغیر کسی شرط کے
معاشرتی امن کی خاطر حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑنے والے کے لیے انعام
سیدنا ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا (أبي داود ،كِتَابُ الْأَدَبِ ،4800)
میں ذمہ دار ہوں ایک محل کا ‘ جنت کی ایک جانب میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھگڑا چھوڑ دے ‘ اگرچہ حق پر ہو
ذاتی رنج پر اسلامی خدمات کو ترجیح
معاویہ بن خدیج نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا اس لیے عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کی طرف سے بہت رنج تھا لیکن معاویہ افریقہ میں فتوحات اسلامی میں بڑی شہرت رکھتا تھا
عبدالرحمن بن شماسہ المہری کا بیان ہے کہ معاویہ کی ماتحتی میں میں نے افریقہ میں کام کیا تھا میں ایک دن ام المومنین سے ملنے گیا تو انہوں نے افریقی لشکر کے سالار کا حال پوچھا اور ساتھ ہی کہنے لگیں کہ میری طبیعت کا خیال نہ کرو بلکہ اس کی خوبیاں بیان کرو
عبدالرحمن نے عرض کیا کہ میدان جنگ میں کوئی گھوڑا یا اونٹ مر جاتا تو سالار لشکر فوراً متبادل گھوڑا یا اونٹ بھیج دیتے اور اگر کوئی غلام فرار ہوجاتا تو فورا متبادل غلام آجاتا
یہ سن کر ام المومنین فرمانے لگیں :
استغفراللہ اللھم اغفر لی ان کنت لابغضہ من أجل انہ قتل اخی وقد سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول :اللھم من رفق بامتی فارفق بہ ومن شق علیھم فاشقق علیہ
الاستیعاب ص 72
بحوالہ رحمۃ للعالمین ج 2 ص 159
ام حکیم بنت خالد اور ام حکیم بنت عبداللہ کا بیان ہے کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ طواف کعبہ میں شامل تھیں کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا تذکرہ چل نکلا دونوں نے اسے نازیبا الفاظ سے یاد کیا (کیوں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق کچھ غلط کہنے والوں سے حسان بھی متاثر ہوئے تھے) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تم اسے برا کہتی ہو اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا دیکھو تو سہی کہ حسان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے متعلق کیا کہا ہے
ھجوتَ محمداً فاحیتُ عنہ
وعنداللہ فی ذاک الجزاء
فإن ابی ووالدتی وعرضی
لعرض محمد منکم وقاء
بحوالہ رحمۃ للعالمین ج 2 ص 159
ذاتی اختلاف کی بنیاد پر اجتماعی اخوت کو نقصان نہ ہونے دیا
 خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص رضي الله عنهما میں کسی مسئلے کی وجہ سے اَن بَن تھی۔ ایک شخص نے سعد رضي الله عنه کے سامنے خالد رضي الله عنه کی غیبت کرنی چاہی(اب خالد چونکہ مسلمانوں کے مضبوط کمانڈر تھے اور خالد کی غیبتیں اور ان کے متعلق غلط فضا اور منفی تبصروں سے اسلامی جمعیت کو نقصان پہنچ سکتا تھا)
تو آپ نے فرمایا :
 ”باز رہو! ہمارا باہمی معاملہ ہماری دینی اخوت پر حاوی نہیں ہو سکتا۔“
 المصنف لابن أبي شيبة | ٢٦٠٤٨
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی تعریف پر عقیدہ کو ترجیح دی
 ربیع بنت معوذابن عفراء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (شادی کے موقع پر ہماری کچھ لڑکیاں نظمیں پڑھ رہی تھیں کہ) اتنے میں ان میں سے ایک لڑکی نے پڑھا
 وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ
 اور ہم میں ایک نبی ہے جو ان باتو ں کی خبر رکھتا ہے جو کچھ کل ہونے والی ہیں
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
 دَعِي هَذِهِ وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ (بخاری ،كِتَابُ النِّكَاحِ ،5147)
کہ یہ چھوڑ دو ۔ اس کے سواجو کچھ تم پڑھ رہی تھیں وہ پڑھو
عمر رضی اللہ عنہ نے ذاتی تعریف پر حقیقی تصویر کو ترجیح دی
‏ایک آدمی نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا :
 ما رأيتُ رجلًا خيرًا منك
میں نے آپ سے بہتر کوئی شخص نہیں دیکھا
تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کہا:
 رأيتَ أبا بكر؟
کیا تو نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے
اس نے کہا : نہیں
تو آپ نے فرمایا :
لو قلت: نعم، لجلدتك  فضائل الصحابة [ لأحمد (١٢٢)]
اگر تو "ہاں” کہتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا
ملک عبدالعزیز، آل سعود رحمہ اللہ کا واقعہ
سن 1363ھ کی بات ہے ایک شاعر ملک عبدالعزیز کے سامنے ان کی تعریفیں کرتے ہوئے کہنے لگا :
 "أنت أملنا وفيك الرجا”،
آپ ہی ہماری امیدوں اور آرزوؤں کا محور ہیں
تو یہ بات سن کر ملک کہا :
"تخسأ” دفع ہو
اور قریب بیٹھے شیخ حمد الجاسر کی طرف دیکھ کر انہیں کہا :
"قم علمه التوحيد يا ابن جاسر”.
سوانح الذكريات ٧٣٢/٢
اے ابن جاسر اسے توحید سکھاؤ
غلط فتویٰ جاری ہوگیا تو اپنی انا پر درستی کو ترجیح دی
امام عزالدين بن عبدالسلام اپنے زمانے کے بہت بڑے فقیہ تھے اور مقاصد شریعت پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔ حق گوئی میں اس قدر جری کہ حکام وقت کو بھی خاطر میں نہ لاتے اور علانیہ حق بات کہتے۔ امام کو سلطان العلماء کا لقب دیا گیا۔ ایک مرتبہ کوئی شخص امام سے کسی مسئلے میں فتوی لینے کے لیے آیا؛ آپ نے اسے فتوی دیا۔ جب وہ چلا گیا تو خیال آیا کہ فتوی دینے میں خطا ہو گئی ہے۔ امام نکلے اور شہر کی گلیوں میں اعلان کرنے لگے: لوگو! کل جس شخص کو عزالدين نے فلاں مسئلے میں فتوی دیا تھا، اسے اطلاع ہو کہ وہ جواب غلط ہے؛ اسے چاہیے کہ آ کر درست جواب سن لے!
نفعِ اسلام کی خاطر، شاگرد کی تعریف کرنے میں بخل سے کام نہ لیا
مجد الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ جنۃ الناظر ‘‘ لکھی اور اپنے استاد کی خدمت میں پیش کی تو شیخ رحمہ اللہ نے اس پر تحریر کیا:
’’ مجھے یہ کتاب فقیہ ، عالم اور امام نے پیش فرمائی۔‘‘
حالانکہ اس وقت مصنف کی عمر صرف سولہ برس تھی!
[ذیل الطبقات؛ بہ شکریہ شیخ صالح المنجد]
اجتماعی نفع کی خاطر اقرباء پروری کو پیچھے چھوڑ دیا
بیٹی کی قبر اور اجتماعی و شرعی حکم نامہ
 ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺷﺮﺣﺒﻴﻞ ﺑﻦ ﺣﺴﻨﺔ فرماتے ہیں :
 ﺭﺃﻳﺖ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻳﺄﻣﺮ ﺑﺘﺴﻮﻳﺔ اﻟﻘﺒﻮﺭ، ﻓﻤﺮ  ﺑﻘﺒﺮ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻫﺬا ﻗﺒﺮ ﺃﻡ ﻋﻤﺮﻭ بنت ﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻓﺄﻣﺮ ﺑﻪ ﻓﺴﻮﻱ
(تاريخ المدينة لابن شبة:٣/ ١٠١٨
،تاريخ أبي زرعة الدمشقى: ص:٤٣١ ،و٦٢٩  ،مصنف ابن أبي شيبة:(١١٧٩٥)صحيح)
میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ حکم دے رہے تھے کہ تمام اونچی قبریں برابر کردی جائیں برابری کے عمل کے دوران ایک قبر آئی جس کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ یہ آپ کی بیٹی ام عمرو کی قبر ہے تو آپ نے اسے بھی باقی قبروں کی طرح برابر کرنے کا حکم دیا
نفعِ عام کی خاطر اپنے انتہائی قریبی رشتوں پر بھی جرح کرنے سے نہ رکے
علي بن المديني رحمہ اللہ کی اپنے باپ کے خلاف گواہی
قال في أبيه :أنه ضعيف.
انہوں نے اپنے باپ کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف تھا
  (ميزان الاعتدال ) ٢/ ٤١٠،(المجروحين ) ٢/ ١٥.
 وكيع بن الجراح اپنے باپ کے متعلق محتاط رہتے
 كان اذا روى عن أبيه قرن معه أخر لأن والده كان على بيت المال.
وکیع جب اپنے باپ سے روایت کرتے تو اس کے ساتھ کوئی اور راوی بھی ملاتے کیونکہ ان کا باپ بیت المال کا نگران تھا
(فتح المغيث)٣/٣٢٢.
 أبو داود السجستاني کی اپنے بیٹے کے خلاف حق گوئی
 قال في إبنه عبد الله : كذاب.
انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ کے متعلق فرمایا کہ وہ کذاب یعنی جھوٹا تھا
(ميزان الاعتدال ) ٢/ ٤٣٣.
 شعبة بن حجاج کا اپنے بیٹے پر جرح کرنا
 قال في إبنه سعد : سميت ولدي سعدا فما سعد ولا أفلح.
انہوں نے اپنے بیٹے سعد کے متعلق فرمایا
میں نے اپنے بیٹے کا نام سعد رکھا لیکن وہ سعد یعنی خوشبخت ہوا نہ ہی کامیاب
(ميزان الاعتدال ) ٢/ ١٢٢.
 زيد بن أبي أنيسة اپنے بھائی کی جرح کرتے ہیں
 قال في أخيه يحي: لاتكتب عن أخي فإنه  كذاب
انہوں نے اپنے بھائی یحییٰ کے متعلق فرمایا
میرے بھائی سے روایات نہ لی جائیں کیونکہ وہ جھوٹا ہے
(ميزان الاعتدال ) ٤/٣٦٤.
جرير بن حميد الضبي کا اپنے بھائی پر تبصرہ
 قال في أخيه أنس : لا يكتب عنه فإنه يكذب في كلام الناس.
انہوں نے اپنے بھائی انس کے متعلق فرمایا
اس سے روایات نہ لکھی جائیں کیونکہ وہ لوگوں سے بھی جھوٹ بولتا ہے
(الجرح والتعديل )١/٢٨٩.
 شعبة بن حجاج اپنے سسرالی رشتہ دار کے بارے فرماتے ہیں
 قال في ختنه  هشام بن حسان القردوسي:لو حابيت أحدا لحابيت هشام بن حسان كان ختني ولم يكن يحفظ.
انہوں نے اپنے سسرالی رشتہ دار ھشام بن حسان کے متعلق فرمایا
اگر میں نے کسی راوی کے متعلق نرم گوشہ اختیار کرنا ہوتا تو اپنے سسرالی رشتہ دار ھشام کے متعلق نرم گوشہ اختیار کرتا وہ میرا سسرالی رشتہ دار ہے لیکن روایات یاد نہیں رکھتا تھا
(ميزان الاعتدال )٤/-٢٩٦ ٢٩٥.
أبو العروبة الحراني اپنی والدہ کے ماموں کے متعلق فرماتے ہیں
 قال في الحسين بن أبي السري العسقلاني : هو خال أمي؛ وهوكذاب.
انہوں نے حسین بن ابی السری عسقلانی کے متعلق فرمایا وہ میرے والدہ کا ماموں ہے اور کذاب ہے
(ميزان الاعتدال ) ١/ ٥٦٣.
 یحییٰ بن معین، محمد بن عثمان بن أبي شيبة سے فرمانے لگے "آپ کا چچا ضعیف ہے
امام ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں
  سألت يحي بن معين عن عمي القاسم ابن محمد: فقال لي عمك ضعيف يا ابن أخي.
میں نے یحییٰ بن معین سے اپنے چچا قاسم بن محمد کے متعلق پوچھا
 تو انہوں نے مجھے فرمایا
اے بھتیجے تیرا چچا ضعیف
(ميزان الاعتدال ) ٣/ ٣٧٩.
مسلمة بن قاسم اپنے ایک دوست کی تضعیف کرتے ہیں
 قال في العباس بن محبوب ابن شاصونة: ضعيف الحديث لا يكتب حديثه وكان لي صديقا
انہوں نے عباس بن محبوب کے متعلق فرمایا
وہ حدیث میں ضعیف ہے اس کی حدیث نہیں لکھی جا سکتی جبکہ وہ میرا دوست ہے
  (لسان الميزان ) ٣ / ٢٩٧.
 محدثین کی اس بےباک حق گوئی پر امام بیھقی رحمہ اللہ کا تبصرہ
امام بیھقی رحمہ اللہ نے فرمایا
( ومن أمعن النظر في اجتهاد أهل الحفظ في معرفة أحوال الرواة ومايقبل  من الأخبار ومايرد علم أنهم لم يألوا جهدا في ذلك حتى كان الابن يقدح في أبيه إذا عثر منه على ما يوجب رد خبره ؛ والأب في ولده ؛ والأخ في أخيه ؛ لاتأخذه في الله لومة لائم ولا تمنعه في ذلك شجنة  رحم ولاصلة مال والحكايات عنهم في ذلك كثيرة).
جو کوئی شخص راویوں کے حالات کی معرفت اور ان کی روایات کو قبول اور رد کرنے کے متعلق حفاظ ائمہ کی محنت میں غور و فکر کرے گا تو وہ جان لے گا انہوں نے اس سلسلے میں جانفشانی کرنے میں ذرا بھر کوتاہی نہیں بھرتی یہاں تک کہ بیٹا جب اپنے باپ میں کوئی ایسی چیز دیکھ لیتا جس سے اس کی روایت قابلِ قبول نہ رہتی تو وہ اس کی جرح کیا کرتا تھا اور اسی طرح باپ اپنے بیٹے کی اور بھائی اپنے بھائی کی
انہیں اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوتی تھی
اور نہ ہی انہیں اس سلسلے میں رشتہ داروں کی چاپلوسی یا مال کی طمع روک سکتی تھی
اور ان کی اس طرح کی حکایات بہت زیادہ ہیں
(دلائل النبوة ) ١/٧٤].
اپنے خلاف لکھی گئی کتاب پر خود ہی مقدمہ لکھا
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی كتاب "تاريخ الإسلام” علمی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، نامور عراقی محقق شیخ بشار عواد معروف حفظہ اللہ نے اس کتاب کی عمدہ تحقیق کی ہے، محقق موصوف نے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی شخصیت اور کتاب کے منہج کے متعلق "الذهبي ومنهجه في كتاب تاريخ الإسلام” کے نام سے ایک مستقل کتاب بھی ترتیب دی تھی، جس کے متعلق شیخ عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ نے ایک مقام پر لکھا ہے:
‏”خيرُ كتابٍ قرأتُه للمعاصرين على الإطلاق؛ هو كتاب (الذهبيّ ومنهجه في كتاب تاريخ الإسلام)”.
یعنی “(حافظ ذہبی سے متعلق) معاصر اہلِ علم کی کتب میں یہ کتاب سب سے بہتر ہے”۔
لیکن شیخ بشار کا یہ کام آج سے چالیس سال پرانا ہے، دن بدن وسائل کی جو فراوانی حاصل ہوتی جارہی ہے، وہ اس دور میں شیخ کو حاصل نہ تھی، اس بنا پر کتاب کے بعض مندرجات کی دوبارہ تحقیق کی بجا طور پر ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔
حال ہی میں شیخ بشار کے ایک شاگرد اور کئی کتب کے محقق استاذ ابو عبداللہ حسین بن عکاشہ حفظہ اللہ نے شیخ کی اس کتاب پر استدراک کرتے ہوئے "النكت الذهبية – نكت على كتاب الذهبي ومنهجه في تاريخ الإسلام” سے موسوم کتاب شائع کی ہے، جس میں استاذ کے ادب واحترام کا دامن تھامتے ہوئے نہایت دیانت کے ساتھ کتاب کا جائزہ لے کر اس میں دَر آئی اغلاط کی تحقیق وتصویب کی ہے۔
قابلِ تعجب بات یہ ہے کہ اپنی کتاب کے بعض مباحث پر نقد کے سلسلے میں لکھی گئی اس کتاب پر شیخ بشار عواد نے خود مقدمہ لکھ کر مؤلف کو ان کی تحقیق کی داد دی ہے، اس عمل میں شاگرد کی حوصلہ افزائی کے پہلو کے ساتھ علمی نقد وجرح کے حوالے سے اہلِ علم وطلبہ علم کے لیے وسعتِ ظرفی کا نمایاں درس بھی ہے اور علمی اختلاف میں آداب کی رعایت کا ایک اعلی نمونہ بھی!
اگر میری وجہ سے مسلمانوں کے مفاد میں ہونے والا معاہدہ کینسل ہونے کا خدشہ ہے تو میں اپنی جان کی قربانی دیتا ہوں
صلح حدیبیہ، اسلام کی تاریخ میں ایک زبردست موڑ کی حیثیت رکھتی ہے یہ اس قدر مفید ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مبین قرار دیا
اس صلح اور معاہدے کے دوران کفار مکہ کی طرف سے سھیل بن عمرو سفیر بن کر آیا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گفتگو کررہا تھا سھیل کا ایک بیٹا تھا جسکا نام ابو جندل تھا اور وہ مسلمان ہو چکا تھا سھیل نے اسے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں مکہ میں زنجیروں سے باندھ کر قید کر رکھا تھا
نوشتہ صلح ابھی لکھا ہی جارہاتھا کہ ابو جندل اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے جائے معاہدہ میں آپہنچے۔ انہوں نے یہاں پہنچ کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا
ابو جندل کو دیکھ کر ان کے والد سہیل نے کہا :
 یہ پہلا شخص ہے جس کے متعلق میں آپ سے معاملہ کرتا ہوں کہ آپ اسے واپس کردیں۔
نبیﷺ نے فرمایا :
 ابھی تو ہم نے نوشتہ مکمل نہیں کیا ہے۔
اس نے کہا :
 تب میں آپ سے کسی بات پر صلح کا کوئی معاملہ ہی نہ کروں گا۔
نبیﷺ نے فرمایا:
 اچھا تو تم اس کو میری خاطر چھوڑدو۔
اس نے کہا :
 میں آپ کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا۔
آپ نے فرمایا :
نہیں نہیں اتنا تو کرہی دو۔
اس نے کہا :
نہیں میں نہیں کرسکتا۔
 پھر سہیل نے ابو جند ل کے چہرے پر چانٹا رسید کیا۔ اور مشرکین کی طرف واپس کرنے کے لیے ان کے کرتے کاگلا پکڑ کر گھسیٹا۔
ابو جندل زور زور سے چیخ کر کہنے لگے :
 مسلمانو! کیا میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا کہ وہ مجھے میرے دین کے متعلق فتنے میں ڈالیں ؟
رسول اللہﷺ نے فرمایا :
 ابو جندل ! صبر کرو۔ اور اسے باعث ِ ثواب سمجھو۔ اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ بنائے گا۔ ہم نے قریش سے صلح کر لی ہے۔ اور ہم نے ان کو اور انہوں نے ہم کواس پر اللہ کا عہد دے رکھا ہے۔ اس لیے ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔
اب تین صورتیں تھیں :
یا تو ابو جندل ضد کرلیتے کہ نہیں نہیں مجھے ہرصورت مسلمانوں کے ساتھ ہی چلنا ہے اور یوں معاہدہ بیچ میں ہی رہ جاتا
 یا معاہدے کی بحالی اور امت کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنے آپ کو کفار کے حوالے کردیتے اور پہلے سے بھی زیادہ سختیاں جھیلنے کے لیے تیار ہوجاتے
 یا پھر مسلمانوں کے عدم تعاون کی بنا پر دل برداشتہ ہو کر اسلام کو ہی خیر آباد کہہ دیتے اور باقی زندگی آرام سکون سے بسر کرتے
مگر
قربان جائیں کہ کس طرح ابو جندل نے امت کے وسیع تر مفاد میں دوسری صورت اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو سختیوں میں ڈال دیا اور یوں وہ معاہدہ پایہءِ تکمیل کو پہنچا کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بے شمار فوائد رکھے ہوئے تھے
گویا ابو جندل زبان حال سے کہہ رہے تھے
"اگر میری وجہ سے مسلمانوں کے مفاد میں ہونے والا معاہدہ کینسل ہونے کا خدشہ ہے تو میں اپنی جان کی قربانی دیتا ہوں”
ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے امت کی خاطر قید کو ترجیح دی
صلح حدیبیہ میں مسلمانوں اور قریش کے درمیان جو دفعات طے پائیں ان میں سے ایک دفعہ یہ تھی کہ اگر مکے کا کوئی آدمی مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو مدینہ والے اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے
رسول اللہﷺ مدینہ واپس تشریف لاکر مطمئن ہوچکے تو ایک مسلمان جسے مکہ میں اذیتیں دی جارہی تھیں چھوٹ کر بھاگ آیا۔ ان کا نام ابو بصیر تھا۔ وہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے تھے۔ اور قریش کے حلیف تھے۔ قریش نے ان کی واپسی کے لیے دوآدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان جو عہد وپیمان ہے اس کی تعمیل کیجیے۔ نبیﷺ نے ابو بصیر کو ان دونوں کے حوالے کردیا
اب دو صورتیں تھیں :
یا تو ابو بصیر اڑ جاتے اور کسی قیمت بھی ان کے ساتھ نہ جاتے اور یوں وہ معاہدہ ختم ہوجاتا کہ جس کے بہت سے فوائد مسلمان سمیٹ رہے تھے
یا پھر اپنے آپ کو کفار کی گرفت میں دے کر اس معاہدے کو بحال رکھتے لیکن اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال دیا جائے
مگر
قربان جائیں ابو بصیر نے ذاتی نفع پر اجتماعی نفع کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے آپ کو کفار کی گرفتاری میں دے دیا
اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے آپ کو بیچ دینا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (البقرة : 207)
اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ ان بندوں پر بے حد نرمی کرنے والا ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
 «اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ»  [ التوبۃ : ۱۱۱ ]
 ’’بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں۔‘‘
لوگوں نے کھانہ نہ دیا مگر پھر بھی لوگوں کی خدمت کرتے رہے
موسی اور خضر علیہما السلام کا واقعہ مشہور ہے کہ کس طرح خضر علیہ السلام نے ذاتی تکلیف کے باوجود تکلیف دینے والوں کی بستی کی ایک دیوار سیدھی کردی کہ جب وہ چلتے چلتے ایک بستی والوں کے پاس آئے، اور بھوک لگ چکی تھی پردیسی تھے انھوں نے اس بستی کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار دیکھی کہ جو ایک طرف جھکی ہوئی تھی اور بالکل گرنے ہی والی تھی  تو خضر اٹھے اور اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے اسے یوں بیان کیا ہے
فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا (الكهف : 77)
پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے انکار کر دیا کہ ان کی مہمان نوازی کریں، پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے تو اس نے اسے سیدھا کر دیا۔ کہا اگر تو چاہتا تو ضرور اس پر کچھ اجرت لے لیتا۔
اکیلے شکم سیری کی بجائے کسی بھوکے کو ساتھ شریک کرنا
امام حسن بصري رحمه الله فرماتے ہیں :
 لقد رأيت أقواما يمسي أحدهم وما يجد عنده إلا قوتا فيقول لا أجعل هذا كله في بطني لأجعلن بعضه لله عز و جل فيتصدق ببعضه وإن كان هو أحوج ممن يتصدق به عليه
الحلية [2/ 134]
 میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے  انکے ایک شخص کے پاس صرف ایک وقت کا کھانا موجود ہوتا تھا تو وہ شام کے وقت کہتایہ سارا کھانا اپنے پیٹ میں نہیں ڈالوں گا لازمی اس میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کروں گا وہ اس کا کچھ حصہ صدقہ کرتا حالانکہ وہ خود صدقے کا زیادہ محتاج ہوتا
غریبوں میں ستر ہزار صدقہ کردیے جبکہ اپنی قمیص پر پیوند لگے ہوئے تھے
سیدنا عروہ بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رأيت عائشة رضي الله عنها تصَّدق بسبعين ألفًا، وإنها لترقع جانب درعها».
طبقات ابن سعد ٦٦/٨
 میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا انہوں نے ستر ہزار صدقہ کیا جبکہ انکی قمیص کی ایک طرف پیوند لگے ہوئے تھے
دس ہزار درہم صدقہ کردیے جبکہ اپنے اونٹ کو چارا ڈالنے کے لئے ایک درہم ادھار لینا پڑا
ایوب بن وائل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أُتي ابن عمر بعشرة آلاف ففرقها وأصبح يطلب لراحلته علفاً بدرهم بنسيئة
– سير أعلام النبلاء ( ٢١٨/٣) –
 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دس ہزار درھم دیے گئے انہوں نے سارے پیسے لوگوں کو بانٹ دیے اور اپنے اونٹ کو چارا ڈالنے کے لئے ایک درہم ادھار طلب کرنے لگے
نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، كان إذا اشتد عجبه بشيء من ماله قربه لربه.
طبقات ابن سعد ١٦٦/٤
 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے مال میں سے جو چیز بہت زیادہ اچھی لگتی تو وہ اسے اپنے رب کے راستے میں قربان کر دیتے
ذاتی نفع پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ترجیح دینا
سعید بن مرجانہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «أَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا، اسْتَنْقَذَ اللَّهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ»
جس شخص نے بھی کسی مسلمان ( غلام ) کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے جسم کے ہر عضو کی آزادی کے بدلے اس شخص کے جسم کے بھی ایک ایک عضو کو دوزخ سے آزاد کرے گا۔
سعید بن مرجانہ کہتے ہیں پھر میں علی بن حسین ( زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ ) کے یہاں گیا ( اور ان سے حدیث بیان کی ) وہ اپنے ایک غلام کی طرف متوجہ ہوئے۔ جس کی عبداللہ بن جعفر دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار قیمت دے رہے تھے اور آپ نے اسے آزاد کردیا۔
(بخاري، كِتَابُ العِتْقِ،2517)