زبان کی آفتیں
اہم عناصرِ خطبہ :
01. زبان کے ہر بول کی اہمیت
02. زبان کی آفتیں : زبان کے ساتھ شرکیہ الفاظ بولنا ۔ اللہ تعالی پر افترا پردازی کرنا۔اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اس کی کتاب کا مذاق اڑانا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑنا۔ غیر اللہ کی قسم کھانا ۔ جھوٹ بولنا ۔ جھوٹی گواہی دینا ۔ جھوٹی قسم کھانا ۔ احسان جتلانا۔جھوٹے لطیفے سنانا ۔ مذاق اڑانا ۔ غیبت کرنا ۔ چغل خوری کرنا۔ گالی گلوچ کرنا۔ لعنت بھیجنا ۔بہتان لگانا
03. حفاظت ِزبان کی اہمیت
پہلا خطبہ
محترم حضرات !
اللہ رب العزت کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ’ زبان ‘ اور اس کی قوت گویائی ہے ۔اللہ تعالی نے انسان کو جو بڑی بڑی نعمتیں عطا کیں ان میں سے ایک ’ زبان ‘ ہے ۔
فرمایا : ﴿اَلَمْ نَجْعَلْ لَّـہٗ عَیْنَیْنِ٭ وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ ﴾ البلد90 : 8۔ 9
’’ کیا ہم نے اس کیلئے دو آنکھیں ، ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے ؟ ‘‘
اللہ تعالی نے ہمیں یہ ’زبان ‘دے کر ہم پر یہ پابندی عائد کی ہے کہ ہم اس سے سیدھی ، سچی اور حق پر مبنی گفتگو کریں ۔ اِس کا جائز استعمال کریں اور اس کے نا جائز استعمال سے بچیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا٭ یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ﴾ الأحزاب33 : 70۔71
’’اے ایمان والو ! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور درست بات کہا کرو ۔ وہ تمھارے اعمال کی اصلاح کردے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا ۔ ‘‘
اِس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے دو باتوں کا حکم دیا ہے اور ان کے دو ثمرات ذکر فرمائے ہیں ۔
جن دو باتوں کا حکم دیا ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ تم اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ، یعنی اُس سے ڈر کر اس
کی نافرمانی سے بچتے رہو ۔ اور دوسری یہ ہے کہ تم سیدھی ، سچی اور برحق گفتگو کیا کرو۔ ان دونوں باتوں پر عمل کرنے سے جو دو فائدے حاصل ہوتے ہیں ان میں سے پہلا یہ ہے کہ اللہ تعالی تمھارے کاموں کو سنوار دے گا اور تمھارے اعمال کی اصلاح کردے گا ۔ دوسرا یہ ہے کہ اللہ تعالی تمھارے گناہوں کو معاف کردے گا ۔
اگر ہم یہ دونوں فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالی کے ان دونوں حکموں پر عمل کرنا ہوگا ۔
٭انسان کے جسم میں ’زبان ‘ کی کیا حیثیت ہے ! اور اس کے جائز وناجائز استعمال پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ! اِس کا اندازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَائَ کُلَّہَا تُکَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ : اتَّقِ اللّٰہَ فِیْنَا ، فَإِنَّمَا نَحْنُ بِکَ ، فَإِنِ اسْتَقَمْتِ اسْتَقَمْنَا ،وَإِنِ اعْوَجَجْتِ اعْوَجَجْنَا ) جامع الترمذی :2407۔ وصححہ الألبانی
’’ جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء انتہائی عاجزی کے ساتھ زبان سے التماس کرتے ہیں کہ ہمارے معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا ، کیونکہ ہم تمھارے ساتھ معلق ہیں ۔ اگر تم سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے ۔ اور اگر تم ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے ۔ ‘‘
اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے تمام اعضاء کی اصلاح وعدم اصلاح کا دار ومدار زبان پر ہے ۔ اگر زبان کو قابو میں رکھا جائے اور اس سے سیدھی ، سچی اور برحق گفتگو کی جائے تو باقی اعضاء کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے اور اگر زبان کو بے لگام چھوڑ دیا جائے اور اس سے ٹیڑھی ، جھوٹی اور حق کے خلاف گفتگو کی جائے تو باقی اعضاء بھی بگڑ جاتے ہیں ۔
٭ ’زبان ‘ سے نکلے ہوا ایک ایک لفظ اہمیت رکھتا ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
( إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَانِ اللّٰہِ لَا یُلْقِیْ لَہَا بَاًلا ، یَرْفَعُ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ لَا یُلْقِیْ لَہَا بَالًا ، یَہْوِیْ بِہَا فِیْ جَہَنَّمَ ) صحیح البخاری: 6478
’’ بے شک ایک بندہ اللہ تعالی کو راضی کرنے والا ایک کلمہ بولتا ہے ، جس کی وہ کوئی خاص پرواہ نہیں کرتا ، لیکن اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کے درجات بلند کردیتا ہے ۔ اور ایک بندہ اللہ تعالی کو ناراض کرنے والا ایک کلمہ بولتا ہے ، جس کی وہ کوئی خاص پرواہ نہیں کرتا ، لیکن اللہ تعالی اسے اس کی وجہ سے جہنم میں گرا دیتا ہے ۔ ‘‘
اور بلال بن حارث المزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
( إِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَانِ اللّٰہِ مَا یَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ ، فَیَکْتُبُ اللّٰہُ لَہُ بِہَا رِضْوَانَہُ إِلٰی یَوْمِ یَلْقَاہُ ، وَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ مَا یَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ ، فَیَکْتُبُ اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا سَخَطَہُ إِلٰی یَوْمِ یَلْقَاہُ ) جامع الترمذی :2319۔ وصححہ الألبانی
’’ بے شک تم میں سے کوئی شخص اللہ کو راضی کرنے والے کلمات میں سے ایک کلمہ بولتا ہے ، اسے پتہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک کلمہ اتنے بڑے مرتبہ کو پہنچ گیا ہے ، لیکن اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کیلئے اُس دن تک اپنی رضا کو لکھ دیتا ہے جب اُس کی اللہ سے ملاقات ہوگی ۔ اور تم میں سے کوئی شخص اللہ کوناراض کرنے والے کلمات میں سے ایک کلمہ بولتا ہے ، اسے پتہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک کلمہ اِس قدر سنگین ہے ، لیکن اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پراُس دن تک اپنی ناراضگی کو لکھ دیتا ہے جب اُس کی اللہ سے ملاقات ہوگی ۔ ‘‘
قیامت کے دن تک رضامندی کو لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اسے دنیا میں اپنی اطاعت وفرمانبرداری اور نیک اعمال کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اسے برے اعمال سے بچنے کی توفیق دیتا ہے ۔ پھر اس کا خاتمہ بھی ایمان اور عمل صالح پر کرتا ہے ۔ اس کے بعد اس کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنا دیتا ہے ۔ پھر قیامت کے دن اسے اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا اور آخر کار اسے جنت میں داخل کردے گا ۔
اور دوسری صورت میں ناراضگی لکھنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی اسے اعمال صالحہ کی توفیق نہیں دیتا ۔ چنانچہ وہ گناہوں میں بری طرح ڈوب جاتا ہے ۔ پھر اسے اچھا خاتمہ بھی نصیب نہیں ہوتا ۔مرنے کے بعد اس کی قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بن جاتی ہے ۔ اور قیامت کے روز بھی اسے اللہ تعالی کی ناراضگی اور اس کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔والعیاذ باللہ
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ ، مَا یَتَبَیَّنُ مَا فِیْہَا ،یَہْوِیْ بِہَا فِی النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ) صحیح البخاری :6477،صحیح مسلم :2988واللفظ لہ
’’ بے شک ایک بندہ ایک لفظ بولتا ہے جس کے بارے میں اسے پتہ نہیں ہوتا کہ اس میں کیا وبال ہے ! لیکن وہ اُس کی وجہ سے مشرق ومغرب کے درمیان جو مسافت ہے اس سے بھی زیادہ جہنم میں نیچے چلا جاتا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی زبان کو پکڑ کر کہتے تھے :
( یَا لِسَانُ ! قُلْ خَیْرًا تَغْنَمْ ، وَاسْکُتْ عَنْ شَرٍّ تَسْلَمْ ، مِنْ قَبْلِ أَنْ تَنْدَمَ )
’’ اے زبان ! تم خیر کی گفتگو کیا کرو ، اِس طرح بہت سے فوائد حاصل کرلوگی ۔ا وربری گفتگوسے خاموش رہا کرو ، اِس طرح محفوظ رہوگی ۔ قبل اِس کے کہ تمھیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے ۔ ‘‘
اس کے بعد کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
( أَکْثَرُ خَطَایَا ابْنِ آدَمَ فِیْ لِسَانِہٖ ) السلسلۃ الصحیحۃ :534، صحیح الترغیب :2872
’’ ابن آدم کی اکثر غلطیاں اس کی زبان میں ہوتی ہیں ۔ ‘‘
لہٰذا ہم سب کو اپنی زبانوں کی حفاظت کرنی اور اسے کنٹرول کرنا چاہئے ۔ اور اسے ناحق گفتگو سے بچانا چاہئے ۔ آئیے آج کے خطبۂ جمعہ میں زبان سے صادر ہونے والی آفتوں ، مصیبتوں اور غلطیوں کی نشاندہی کریں اور عزم کریں کہ ہم اللہ کے حکم سے اپنی زبانوں کو ان تمام لغزشوں سے پاک رکھنے کی کوشش کریں گے ۔اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔
زبان کی آفتیں
01. زبان کے ساتھ شرکیہ الفاظ بولنا
’زبان ‘کی سب سے بڑی آفت ومصیبت یہ ہے کہ کوئی شخص اُس سے شرکیہ الفاظ بولے ۔مثلا وہ غیر اللہ کو مدد کیلئے پکارے ، یا اس سے دعا مانگے ، یا کسی کی تعریف میں اِس قدر غلو کرے کہ اسے ان اختیارات کا مالک قرار دے جو اللہ تعالی نے اپنے پاس رکھے ہیں ۔ ’ زبان ‘ سے شرکیہ الفاظ بولنا اِس قدر سنگین گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالی انسان کے تمام نیک اعمال کو غارت کردیتا ہے ۔
2۔ اللہ تعالی پر افتراپردازی کرنا
یعنی اللہ تعالی پر جھوٹ گھڑنا ۔ مثلا کوئی شخص یہ کہے کہ اللہ تعالی کی اولاد ہے ۔ یا وہ یہ کہے کہ اللہ تعالی نے فلاں کام کا حکم دیا ہے ، جبکہ حقیقت میں اللہ تعالی نے اس کا حکم نہ دیا ہو ۔ یا وہ یہ کہے اللہ تعالی نے فلاں کام سے منع کیا ہے جبکہ حقیقت میں اللہ تعالی نے اس سے منع نہ کیا ہو ۔ یا وہ بغیر علم کے فتوی دیتے ہوئے حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دے دے ۔ یعنی وہ حلت وحرمت کے خود ساختہ احکام کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کردے ۔
اللہ تعالی نے اپنے اوپر افتراپردازی کو حرام قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہَـذَا حَلَالٌ وَّہَـذَا حَرَامٌ
لِّتَفْتَرُوا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لاَ یُفْلِحُونَ٭مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَّلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ﴾ النحل16 :116۔117
’’جو جھوٹ تمھاری زبانوں پر آ جائے اس کی بناء پر یہ نہ کہا کرو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ہے اور اس طرح تم اللہ تعالی پر جھوٹ افترا کرنے لگو ۔ جو لوگ اللہ تعالی پر جھوٹ افترا کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے ۔ (ایسے جھوٹ کا ) فائدہ تو تھوڑا سا ہے مگر ( آخرت میں ) ان کیلئے المناک عذاب ہے ۔‘‘
اسی طرح اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
﴿ قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ الأعراف7 :33
’’ آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے بے حیائی کے تمام کاموں کو حرام قرار دیا ہے خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ، اسی طرح گناہ کو اور ناحق سرکشی کو بھی حرام قراردیا ہے ۔ اور ( یہ بھی حرام کردیا ہے کہ ) تم لوگ اللہ کا شریک ایسی چیزوں کو ٹھہراؤ جن کی عبادت کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں نازل کی ہے ۔ اور ( یہ بھی حرام کردیا ہے کہ) تم اللہ پر وہ باتیں کہو جن کا تمھیں علم نہیں ہے ۔ ‘‘
03. اللہ تعالی ، یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، یا اس کی کتاب ( قرآن مجید ) کا مذاق اڑانا
اللہ تعالی یا اس کی آیات یا اس کے احکام یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا کفر ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِئُ وْنَ ٭ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ﴾ التوبۃ9 :65۔66
’’ اور اگر آپ ان سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی گپ شپ کرتے تھے اور دل بہلاتے تھے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگ اللہ ، اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے ؟ اب جھوٹی معذرت نہ پیش کرو ، تم لوگ ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر ہو چکے ہو ۔ ‘‘ 4۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا
من گھڑت باتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔
مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
( إِنَّ کَذِبًا عَلَیَّ لَیْسَ کَکَذِبٍ عَلٰی أَحَدٍ ، مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ) صحیح البخاری :1291، صحیح مسلم :4
’’ بے شک میرے اوپر جھوٹ گھڑنا کسی اور پر جھوٹ گھڑنے کی طرح نہیں ہے ۔ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے تووہ یقین کر لے کہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔‘‘
اور سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَن یَّقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ ، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ) صحیح البخاری : 109
’’ جس نے میری طرف ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی ، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔ ‘‘
جبکہ آج کل بہت سے لوگ بڑی جسارت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی حدیثوں کو منسوب کرتے ہیں اور انھیں خوب پھیلاتے اور مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں ۔ خصوصا سوشل میڈیا پر ایسی ’حدیثیں ‘ بکثرت گردش کر رہی ہیں جو بالکل بے بنیاد ہیں اور ان کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ لہٰذا ایسی تمام ’ احادیث ‘ کی نشر واشاعت سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ورنہ یہ بات یادر کھیں کہ جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ یہ جھوٹی حدیث ہے ، پھر وہ اسے لوگوں میں بیان کرے یا اسے کسی بھی طریقے سے پھیلائے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( مَنْ حَدَّثَ عَنِّیْ بِحَدِیْثٍ یَرَی أَنَّہُ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنَ ) مسلم فی المقدمۃ ، جامع الترمذی : 2874، سنن ابن ماجہ :38
’’ جو شخص مجھ سے ایسی حدیث بیان کرے جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ یہ جھوٹی ہے ، تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم احادیث بیان کرنے میں انتہائی احتیاط کرتے تھے کہ کہیں کوئی ایسا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے نہ کہا ہو ۔
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا :
میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں بیان کرتے ہوئے نہیں سنتا جیسا کہ فلاں ، فلاں بیان کرتے ہیں !
تو انھوں نے جواب دیا : میں کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوا ، بلکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا :
( مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ) صحیح البخاری : 107
’’ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے تووہ یقین کر لے کہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔‘‘
لہٰذا اِس دور کے تمام خطباء اور واعظین پر اور اسی طرح عام لوگوں پربھی لازم ہے کہ وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام لیں اور صرف وہ احادیث بیان کریں یا سوشل میڈیا پر دوسروں کے ساتھ شیئر کریں جو مستند اور ثابت شدہ ہوں ۔
04. غیر اللہ کی قسم کھانا
’ زبان ‘ کی آفتوں میں سے ایک آفت غیر اللہ کی قسم کھانا ہے ۔ کیونکہ قسم صرف اللہ تعالی کی کھائی جا سکتی ہے، غیر اللہ کی نہیں کھائی جا سکتی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( لَا تَحْلِفُوْا بِآبَائِکُمْ وَلَا بِأُمَّہَاتِکُمْ وَلَا بِالْأنْدَادِ ، وَلَا تَحْلِفُوْا إِلَّا بِاللّٰہِ ، وَلَا تَحْلِفُوْا بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ صَادِقُوْنَ ) سنن أبی داؤد :3248، سنن النسائی :3769۔ وصححہ الألبانی
’’تم اپنے باپوں ، ماؤں اور شریکوں کی قسم نہ اٹھایا کرو اور صرف اللہ ہی کی قسم اٹھایا کرو اور اللہ کی قسم بھی صرف اس وقت اٹھایا کرو جب تم سچے ہو ۔‘‘
06. عمومی گفتگو میں جھوٹ بولنا
’زبان ‘کی آفتوں میں سے ایک آفت جھوٹ بولنا اور غلط بیانی کرنا ہے ۔ کیونکہ جھوٹ بولنا اور غلط بیانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے 🙁 عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِیْ إِلَی الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ یَہْدِیْ إِلَی الْجَنَّۃِ ، وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ صِدِّیْقًا )
’’ تم ہمیشہ سچ ہی بولا کرو کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے اور ایک شخص ہمیشہ سچ بولتا اور سچ ہی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے ہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ نہایت سچ بولنے والا آدمی ہے ۔‘‘
اس کے بعد فرمایا :
( وَإِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ فَإِنَّ الْکَذِبَ یَہْدِیْ إِلَی الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَہْدِیْ إِلَی النَّارِ ، وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّابًا ) صحیح مسلم :2607
اور تم جھوٹ سے پرہیز کیا کرو کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم تک پہنچا دیتا ہے ۔ اور ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ ہی کا متلاشی رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے ہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا ہے ۔‘‘
جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا ائْتُمِنَ خَانَ ) صحیح البخاری :33
’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں : وہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ، جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اسے امانت سونپی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔‘‘
جبکہ آج کل لوگ بڑے شوق سے جھوٹ بولتے ہیں اور اسے سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں !!
اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ اِس طرح جھوٹ کو دنیا میں پھیلانے کا انجام کیا ہے ! آئیے ایک حدیث سماعت کیجئے ۔
حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر پوچھتے : آج رات تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے ؟ اگر کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ اسے بیان کردیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر کردیتے۔ پھر ایک دن آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ معمول یہی سوال کیا تو ہم نے جواب دیا: نہیں ہم نے کوئی خواب نہیں دیکھا ۔ تو آپ نے فرمایا :
’’ لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے، انھوں نے میرے ہاتھوں کو پکڑا اور مجھے ارضِ مقدسہ میں لے گئے ۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور ایک آدمی اس کے پاس کھڑا ہوا ہے جس کے ہاتھ میں ایک مہمیز تھی ،اسے وہ اس کی ایک باچھ میں داخل کرتا ( پھر اسے کھینچ کر ) اس کی گدی تک لے جاتا ، پھر دوسری باچھ کو بھی اسی طرح کھینچ کر پیچھے گدی تک لے جاتا ۔ اور یوں اس کی دونوں باچھیں اس کی گدی کے پاس مل جاتیں ، پھر اس کی باچھیں اپنی حالت میں واپس آجاتیں ، پھروہ اس کے ساتھ پہلے کی طرح کرتا ۔ میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ تو ان دونوں نے کہا : آگے چلو ۔ تو ہم آگے
چلے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان دونوں نے وضاحت کی کہ وہ شخص جس کی باچھوں کو چیرا جا رہا تھا تو
( فَإِنَّہُ الرَّجُلُ یَغْدُوْ مِنْ بَیْتِہٖ فَیَکْذِبُ الْکِذْبَۃَ تَبْلُغُ الْآفَاقَ )
’’یہ وہ ہے جو صبح کے وقت گھر سے نکلتا ہے ، پھر جھوٹ بولتا ہے جو دور دور تک پھیل جاتا ہے ۔اسے یہ عذاب قیامت تک دیا جاتا رہے گا ۔۔۔‘‘ صحیح البخاری : کتاب الجنائز :1386 ،7047
07.جھوٹی گواہی دینا
زبان کی آفتوں میں سے ایک آفت جھوٹی گواہی دینا ہے ۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( أَ لَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ؟ )’’ کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال تین بار کیا ۔ ہم نے کہا : کیوں نہیں اے اﷲ کے رسول !
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اَلْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ )
’’ اﷲ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہارا لیا ہوا تھا ۔ پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا :
( أَ لَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْرِ ، أَ لَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْر، أَ لَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْر )
’’ خبر دار ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنا ۔ خبر دار ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنا ۔ خبر دار ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنا ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی الفاظ دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے ( دل میں ) کہا کہ کاش آپ خاموشی اختیار فرما لیں ۔ صحیح البخاری :5976، صحیح مسلم :87
08. جھوٹی قسم کھا کر کسی چیز کو فروخت کرنا اور احسان جتلانا
جھوٹی قسم اٹھا کر اپنی کوئی چیز فروخت کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ اسی طرح احسان جتلانا بھی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ۔۔۔ اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ ، وَالْمَنَّانُ الَّذِیْ لَا یُعْطِیْ شَیْئًا إِلَّا مَنَّہُ ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ ) صحیح مسلم :106، جامع الترمذی :1211
’’ تین افراد سے اللہ تعالی قیامت کے روز نہ بات کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا : اپنا تہہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا جو جب بھی کوئی چیز دیتا ہے تو اس پر احسان جتلاتا ہے اور جھوٹی قسم اٹھا کر اپنا سودا بیچنے والا ۔‘‘
09. کسی کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولنا
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذاق میں غلط بیانی کرنا یا جھوٹ بولنا یا جھوٹے لطیفے سنانا جائز ہے حالانکہ جھوٹ بہر حال جھوٹ ہی ہے اور مذاق میں بھی اس کا گناہ اتنا ہی ہے جتنا سنجیدگی میں جھوٹ بولنے کا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( وَیْلٌ لِلَّذِیْ یُحَدِّثُ بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ ، وَیْلٌ لَہُ ، وَیْلٌ لَہُ )
’’ اس شخص کیلئے ہلاکت ہے جو لوگوں کو کوئی جھوٹی بات بیان کرے تاکہ وہ ہنسیں ، اس کیلئے ہلاکت ہے ، اس کیلئے ہلاکت ہے ۔‘‘ سنن أبی داؤد :4990۔ وحسنہ الألبانی
10. مذاق اڑانا یا برے القاب سے پکارنا
مسلمانوں میں سے کسی کو حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے آپ کو اس سے بہتر تصور کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑانا یا اسے برے لقب سے یاد کرنا حرام ہے ۔اور یہ بھی زبان کی آفتوں میں سے ایک آفت ہے ۔
اللہ تعالی مومنوں کو ایک دوسرے کا مذاق اڑانے یا برے القاب کے ساتھ پکارنے سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَّکُونُوا خَیْْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَائٌ مِّن نِّسَائٍ عَسَی أَن یَّکُنَّ خَیْْرًا مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ﴾ الحجرات49 :11
’’ ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں ۔اور نہ عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں ۔ اور آپس میں ایک دوسرے کوعیب نہ لگاؤ ا ور نہ ایک دوسرے کا بُرا لقب رکھو۔ ‘‘
11. غیبت کرنا
زبان کی آفتوں میں سے ایک آفت غیبت کرنا ہے ۔ اور ’ غیبت ‘ کیا ہوتی ہے ، اس کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک میں موجود ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( أَتَدْرُونَ مَاالْغِیْبَۃُ ؟ ) ’’ کیا تمھیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے ؟ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ)
’’ تم اپنے بھائی کا ذکر اس چیز کے ساتھ کرو جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ ‘‘
پوچھا گیا کہ میں اس کے بارے میں جو کچھ کہوں اگر وہ واقعتا اس میں موجود ہو ؟
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( إِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَہُ ، وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْہِ فَقَدْ بَہَتَّہُ )
’’ اگر وہ چیز اس میں موجود ہو جو تم کہتے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی ۔ اور اگر اس میں نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا ۔ ‘‘ صحیح مسلم :2589
لہذا اِس طرح مسلمانوں کی پیٹھ پیچھے اُن کے عیب بیان کرنا درست نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
ارشادِ باری تعالی ہے :
﴿وَلَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضًا أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَّأکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوہُ﴾ الحجرات49 :12
’’ اور تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی غیبت نہ کرے ، کیا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ پس تم اسے نا پسند کروگے۔ ‘‘
گویا اللہ تعالی یہ فرما رہے ہیں کہ غیبت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے ۔ لہذا جس طرح تمھیں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا نا پسند ہے اسی طرح اس کی غیبت بھی نا پسند ہونی چاہئے ۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( مَنْ أَکَلَ لَحْمَ أَخِیْہِ فِی الدُّنْیَا قُرِّبَ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہُ : کُلْہُ مَیِّتًا کَمَا أَکَلْتَہُ حَیًّا، فَیَأْکُلُہُ
وَیَکْلَحُ وَیَصِیْحُ ) قال الحافظ فی الفتح ( الأدب ۔باب الغیبۃ ) : سندہ حسن
’’ جس آدمی نے ( غیبت کرکے ) اپنے بھائی کا گوشت کھایا قیامت کے روز اس کا گوشت اس کے قریب کرکے اسے کہا جائے گا : لو اسے مردہ حالت میں کھا لو جیسا کہ تم نے اس کی زندگی میں اسے کھایا تھا ۔ چنانچہ وہ اسے کھائے گا اور انتہائی بد شکل ہو جائے گا اور چیخے گا ۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ( یَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِہٖ وَلَمْ یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ قَلْبَہُ ! لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِیْنَ ، وَلَا تَتَّبِعُوْا عَوْرَاتِہِمْ ، فَإِنَّہُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِہِمْ یَتَّبَعِ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَوْرَتَہُ ،وَمَنْ یَّتَّبِعِ اللّٰہُ عَوْرَتَہُ یَفْضَحْہُ فِیْ بَیْتِہٖ )
’’ اے ان لوگوں کی جماعت جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا ! تم مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو اور نہ ہی ان کے عیبوں کا پیچھا کیا کرو ۔ کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیبوں کا پیچھا کرتا ہے ، اللہ تعالی اس کے عیبوں کا پیچھا کرتا ہے ۔ اور جس کے عیبوں کا اللہ عز وجل پیچھا کرتا ہے اسے اس کے گھر میں رسوا کرکے چھوڑتا ہے ۔ ‘‘ سنن أبی داؤد :4880۔ وقال الألبانی : حسن صحیح
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کرنے والوں کے برے انجام سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’ جب میرے رب عز وجل نے مجھے معراج کرایا تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گذرا جنھیں تانبے کے ناخن دئیے گئے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ۔ میں نے کہا : جبریل ! یہ کون ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا 🙁 ہٰؤُلَائِ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ وَیَقَعُوْنَ فِیْ أَعْرَاضِہِمْ )
’’ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ( غیبت کرتے ) ہیں اور ان کی عزتوں پر طعن وتشنیع کرتے ہیں۔‘‘ سنن أبی داؤد :4878۔ وصححہ الألبانی ، وأخرجہ أحمد :13364 ۔ وصححہ الأرناؤوط
اور غیبت کا ایک لفظ کس قدر سنگین ہوتا ہے اِس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حقارت آمیز انداز میں بس ایک لفظ کہا تھا اور وہ بھی بہت ہلکا سا لفظ ، یعنی یہ کہ ان کا قد چھوٹا ہے ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
( لَقَدْ قُلْتِ کَلِمَۃً لَوْ مُزِجَتْ بِمَائِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْہُ ) سنن أبی داؤد :4875۔ وصححہ الألبانی
’’ تم نے ایسا لفظ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملایا جائے تو وہ بھی کڑوا ہو جائے ۔ ‘‘
12. چغل خوری کرنا
زبان کی آفتوں میں سے ایک اور آفت ہے : چغل خوری کرنا ۔ یعنی ایک آدمی کی بات سن کر دوسرے تک پہنچانا اور اُس کی بات سن کر اِس تک پہنچانا تاکہ دونوں کے تعلقات خراب ہوں اور ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو۔
اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چغل خوری کرنے والے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اس کو قبر میں عذاب دیا جاتاہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ نے فرمایا 🙁 إِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ ، وَمَا یُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ وَإِنَّہُ لَکَبِیْرٌ ، أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ لَا یَسْتَنْزِہُ مِنْ بَوْلِہٖ )
’’ ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور ان کو یہ عذاب ( ان کے خیال کے مطابق ) کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں دیاجا رہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا گناہ بڑا ہے ۔ ان میں سے ایک چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاپ سے نہیں بچتا تھا ۔‘‘ صحیح البخاری ۔ الجنائز :1378،صحیح مسلم ۔ الطہارۃ :292
بلکہ اس کے متعلق یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔
ارشاد ہے : (لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ نَمَّامٌ ) صحیح مسلم : 105
دوسری روایت میں ہے : ( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ ) صحیح البخاری :6056۔ صحیح مسلم : 105
’’ چغل خوری کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا ۔‘‘
13. سب وشتم اور گالی گلوچ کرنا
زبان کی آفتوں میں سے ایک اور آفت مسلمان کو سب وشتم یا گالی گلوچ کرنا ہے ۔ کیونکہ مسلمان کو گالی گلوچ کرنا اللہ تعالی کی نافرمانی ہے ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ ) صحیح البخاری :48 ،صحیح مسلم :64
’’ مسلمان کو گالی گلوچ کرنا اللہ کی نافرمانی اور اس سے قتال کرنا کفر ہے ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( لَیْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ ، وَلَا اللَّعَّانِ ، وَلَا الْفَاحِشِ ، وَلَا الْبَذِیِٔ ) جامع الترمذی :1977 ۔ وصححہ الألبانی
’’ مومن نہ تو بہت زیادہ طعنے دیتا ہے ، نہ بہت زیادہ لعنت بھیجتا ہے ، نہ بے حیائی کے کام کرتا ہے اور نہ ہی بے حیائی کی گفتگو کرتا ہے ۔ ‘‘
14. لعنت بھیجنا
’زبان ‘ کی آفتوں میں سے ایک اور آفت لعنت بھیجنا ہے ۔ کیونکہ لعنت بھیجنا بہت بڑا گناہ ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( وَمَنْ لَعَنَ مُؤْمِنًا فَہُوَ کَقَتْلِہٖ ،وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ فَہُوَ کَقَتْلِہٖ) صحیح البخاری :6047 ، صحیح مسلم :110
’’جس نے مومن پر لعنت بھیجی تو وہ اسے قتل کرنے کے مترادف ہے ۔ اور جس نے مومن پر کفر کا بہتان لگایا تو وہ بھی اسے قتل کرنے کی مترادف ہے۔‘‘
اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا لَعَنَ شَیْئًا صَعِدَتِ اللَّعْنَۃُ إِلَی السَّمَائِ ، فَتُغْلَقُ أَبْوَابُ السَّمَائِ دُوْنَہَا ، ثُمَّ تَہْبِطُ إِلَی الْأرْضِ فَتُغْلَقُ أَبْوَابُہَا دُوْنَہَا ، ثُمَّ تَأْخُذُ یَمِیْنًا وَشِمَالًا ، فَإِذَا لَمْ تَجِدْ مَسَاغًا رَجَعَتْ إِلَی الَّذِیْ لُعِنَ ، فَإِنْ کَانَ لِذَلِکَ أَہْلًا وَإِلَّا رَجَعَتْ إِلٰی قَائِلِہَا ) سنن أبی داؤد :4905۔ وحسنہ الألبانی
’’ ایک بندہ جب کسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے تو لعنت آسمان کی طرف جاتی ہے ، لیکن اس کے دروازے اس کے سامنے بند کردئیے جاتے ہیں ، پھر وہ زمین کی طرف آتی ہے ، لیکن اس کے دروازے بھی اس کے سامنے بند کردئیے جاتے ہیں ، پھر وہ دائیں بائیں جاتی ہے ، جب اسے کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ اُس کی طرف جاتی ہے
جس کی طرف بھیجی گئی ہوتی ہے ۔ اگر وہ اس لعنت کا اہل ہو تو ٹھیک ، ورنہ لعنت بھیجنے والے پر ہی لوٹ آتی ہے ۔ ‘‘
خاص طور پر والدین پر لعنت بھیجنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ أَنْ یَّلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ )
’’بے شک کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔‘‘
پوچھا گیا : (یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَکَیْفَ یَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ )
یا رسول اللہ ! آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیجتا ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ ، وَیَسُبُّ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ )
’’وہ کسی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے تو اُس کے نتیجے میں وہ اِس کے باپ کو گالیاں دیتا ہے ۔ اور وہ کسی کی ماں کو گالیاں دیتا ہے تو وہ اِس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے۔ ‘‘ صحیح البخاری :5973 ، صحیح مسلم : 90
15. بہتان لگانا
زبان کی آفات میں سے ایک اور آفت بغیر ثبوت کے کسی پر بہتان لگانا ہے ۔ اور یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ النور24 : 23
’’ جو لوگ پاکدامن ، گناہوں سے بے خبر ، مومنہ عورتوں پر زناکی تہمت لگاتے ہیں ، وہ یقینا دنیا وآخرت میں ملعون ہیں ۔ اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے ۔ ‘‘
اسی طرح ارشاد فرمایا : ﴿ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلاَ تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ٭ اِِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ النور24 : 4۔5
’’ اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگا ئیں ، پھر چار گواہ نہ لائیں تو انھیں تم لوگ اسی (۸۰) کوڑے مارو ۔ اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو ۔ اور یہی لوگ فاسق ہیں ۔ ہاں وہ لوگ جو اِس گناہ کے بعد توبہ اور اپنی اصلاح کرلیں ، تو اللہ تعالی یقینا بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح کسی بھی شخص کی عزت کو داغدار کرنا اور اس پر کسی بھی قسم کی تہمت لگانا حرام ہے ۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی زبانوں کی حفاظت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں زبان کی تمام آفات سے محفوظ رکھے ۔
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! ’ زبان ‘ کی پندرہ آفات آپ نے سنیں ، ہم سب کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان تمام آفات سے اپنی زبانوں کو بچائیں ۔ اور اپنی زبانوں سے صرف خیر ہی کی گفتگو کریں ، ورنہ خاموش رہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ ) صحیح البخاری :6018، صحیح مسلم :47
’’ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو وہ خیر ہی کی بات کرے ، ورنہ خاموش رہے ۔ ‘‘
’خیر ‘ کی گفتگو سے مراد ہر ایسی بات ہے جس سے اللہ تعالی راضی ہو ۔ مثلا ذکر اللہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ ۔
حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :
( إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلاَمِ قَدْ کَثُرَتْ عَلَیَّ ، فَأَخْبِرْنِیْ بِشَیْئٍ أَتَشَبَّثُ بِہٖ )
’’ شریعت کے احکامات ( میری کمزوری کی وجہ سے ) مجھ پر غالب آ چکے ہیں ، لہذا آپ مجھے کوئی ( آسان سا) کام بتا دیں جس پر میں ( فرائض کے بعد ) ہمیشہ عمل کرتا رہوں ۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا بِذِکْرِ اللّٰہِ )
’’ تمہاری زبان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ تر رہے ۔‘‘ جامع الترمذی :3375 ۔ وصححہ الألبانی
اور ایک حدیث مبارک میں ہے کہ ہر پاکیزہ کلمہ صدقہ لکھا جاتا ہے ۔ لہٰذا ہمیں اپنی زبان سے ہمیشہ پاکیزہ کلمات ہی بولنے چاہئیں ۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکیں تو پھر خاموشی میں ہی خیر اور نجات ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ صَمَتَ نَجَا ) ’’ جو شخص خاموش رہا وہ نجات پا گیا ۔ ‘‘ جامع الترمذی : 2501۔ وصححہ الألبانی
لہٰذا اگر ہم بھی نجات چاہتے ہیں تو اپنی زبانوں کو بے ہودہ ، نا حق اور فضول گفتگو سے خاموش رکھیں ۔
’زبان ‘ کا معاملہ اِس قدر سنجیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص رات کو تہجد پڑھتا ہو اور دن کو روزہ رکھتا ہو، اس کے علاوہ وہ دیگر نیک اعمال بھی انجام دیتا ہو ، لیکن اس کی زبان سے لوگ محفوظ نہ ہوں تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ فلاں عورت رات کو قیام کرتی اور دن کو روزہ رکھتی ہے ۔ اِس کے علاوہ اور کئی نیک کام اور صدقہ وغیرہ بھی کرتی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کے ساتھ اپنے پڑوسیوں کو ایذاء بھی پہنچاتی ہے ۔
تو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لَا خَیْرَ فِیْہَا ، ہِیَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ )
’’ اس میں کوئی خیر نہیں ہے ۔ وہ جہنم والوں میں سے ہے ۔ ‘‘
پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ فلاں عورت فرض نمازیں پڑھتی ہے ، پنیر کے ٹکڑوں ساتھ صدقہ کرتی ہے اور کسی کو ایذاء نہیں پہنچاتی ۔ تو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ہِیَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ) ’’ وہ جنت والوں میں سے ہے ۔ ‘‘ رواہ البخاری فی الأدب المفرد وصححہ الألبانی فی السلسلۃ الصحیحۃ :190
اِس حدیث میں ذرا غور کریں کہ ایک عورت بہت زیادہ نیکیاں کرنے کے باوجود جہنم میں چلی گئی ، وجہ کیا بنی؟ اس کی زبان ۔ اور دوسری عورت کم نیکیاں کرکے جنت میں چلی گئی ، اس کی اہم وجہ کیا بنی ؟ یہی کہ اس نے اپنی زبان سے کسی کو ایذاء نہیں پہنچائی ۔ اور حقیقت میں سچا مسلمان ہوتا ہی وہی ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھوں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ ، وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَی اللّٰہُ عَنْہُ) صحیح البخاری :10
’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ۔ اور مہاجر وہ ہے جو ہر اس چیز کو چھوڑ دے جس سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے ۔ ‘‘
محترم بھائیو اور بزرگو !
یاد رکھیں کہ ’ زبان ‘ کی کارستانیاں ہی لوگوں کو اوندھے منہ جہنم میں گرائیں گی ۔ والعیاذ باللہ
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، ایک دن میں
صبح کے وقت آپ سے قریب ہوا ، ہم چل رہے تھے ، میں نے عرض کی : یا رسول اللہ !
( أَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ وَیُبَاعِدُنِیْ مِنَ النَّارِ )
آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے اور جہنم سے دور کر دے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( لَقَدْ سَأَلْتَ عَظِیْمًا ، وَإِنَّہُ لَیَسِیْرٌ عَلٰی مَن یَّسَّرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ ، تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئاً ، وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ ، وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ ، وَتَحُجُّ الْبَیْتَ )
’’ تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے ۔ اور یقینا یہ عمل اس کیلئے آسان ہے جس کیلئے اللہ تعالی آسان کردے ۔تم اللہ تعالی کی عبادت کرتے رہنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، نماز پابندی سے پڑھتے رہنا ، زکاۃ دیتے رہنا ، رمضان کے روزے رکھتے رہنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( أَلَا أَدُلُّکَ عَلٰی أَبْوَابِ الْخَیْرِ ؟ اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ ،وَالصَّدَقَۃُ تُطْفِیُٔ الْخَطِیْئَۃَ کَمَا یُطْفِیُٔ النَّارَ الْمَائُ ، وَصَلَاۃُ الرَّجُلِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ )
’’ کیا میں تمھیں خیر کے دروازے نہ بتاؤں ؟ روزہ ڈھال ہے ، صدقہ گناہوں کو ایسے ہی مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے ۔ اور آدھی رات میں نمازتہجد ادا کرنا ۔ ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ۔۔۔۔جَزَآئًم بِمَا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ﴾ السجدۃ32 :16۔17
پھر فرمایا : ( أَ لَا أُخْبِرُکَ بِرَأْسِ الْأمْرِ وَعَمُوْدِہٖ وَذِرْوَۃِ سَنَامِہٖ ؟ الْجِہَادُ )
’’ کیا میں تمھیں دین کی اصل ، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں ؟ وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے ۔ ‘‘
پھر فرمایا : ( أَ لَا أُخْبِرُکَ بِمِلَاکِ ذَلِکَ کُلِّہٖ ؟ )
’’ کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں جس پر ان تمام باتوں کا دار ومدار ہے ؟ ‘‘
میں نے عرض کی : جی ہاں ضرور بتائیے ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑی اورفرمایا : ( تَکُفُّ عَلَیْکَ ہٰذَا )
’’ اسے اپنے قابو میں رکھنا۔ ‘‘
میں نے عرض کی : ( یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ! وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَکَلَّمُ بِہٖ ؟ )
اے اللہ کے نبی ! ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس پر بھی ہماری پکڑ ہوگی ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا مُعَاذُ ! وَہَلْ یَکُبُّ النَّاسَ عَلٰی وُجُوہِہِمْ فِی النَّارِ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِہِمْ ) سنن ابن ماجہ :3973۔ وصححہ الألبانی
’’ معاذ ! تیری ماں تجھے گم پائے ، لوگوں کو اوندھے منہ جہنم میں ان کی زبانوں کی کارستانیاں ہی گرائیں گی ۔ ‘‘
اِس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تقریبا پورے دین کا دار ومدار زبان پر ہے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اسلام کے پورے ارکان ذکر فرمائے ، پھر صدقہ اور نماز تہجد اور اس کے بعد جہاد کا ذکر فرمایا ۔اور اس کے بعد وہ چیز ذکر کی جس پر ان تمام باتوں کا دار ومدار ہے ۔ اور وہ ہے : زبان ۔
اور اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا : ( مَن وَّقَاہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ شَرَّ مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَشَرَّ مَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) جامع الترمذی :2409۔ وصححہ الألبانی
’’ جس شخص کو اللہ تعالی نے زبان اور شرمگاہ کے شر سے بچا لیا ، وہ جنت میں داخل ہو گیا ۔‘‘
نیز فرمایا :
( مَن یَّضْمَنْ لِیْ مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ أَضْمَنْ لَہُ الْجَنَّۃَ ) صحیح البخاری:6474
’’ جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔ ‘‘
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زبانوں کو کنٹرول کرنے اور ان کی حفاظت کرنے کی توفیق دے ۔ اور ہمیں ان کی تمام آفات سے محفوظ رکھے ۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین