زبان کی حفاظت

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَیْنَیْنِۙ۝۸ وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیْنِۙ۝۹ وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِۚ۝۱۰﴾ (البلد: (8-10)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کیا ہم نے انسانوں کو دو آنکھیں، زبان اور ہونٹ نہیں دیئے۔ اور دونوں راستے دکھائے؟‘‘
اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت زبان بھی ہے۔ اسی سے ہم اپنے دل کی بات دوسرے کو سمجھا دیتے ہیں۔ اس سے کلام الہی پڑھتے ہیں اور ذکر واذکار اور وعظ ونصیحت کرتے ہیں۔ انسان اور حیوان کے درمیان اسی زبان سے فرق ہے۔ اگر زبان کی حفاظت کی جائے تو اس سے بڑے بڑے اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں اگر اس کی نگرانی نہیں کی گئی تو اس زبان کے ذریعہ بڑے بڑے شر و فساد اٹھتے ہیں اور جھگڑ ا فساد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن وحدیث میں زبان کی حفاظت کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول الله ﷺ (مَا النَّجَاةُ قَالَ اَمسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَى خَطِيْئَتكَ)[1]
’’کس چیز سے نجات ہے؟ آپ نے فرمایا اپنی زبان روک لو۔ یعنی زبان کی حفاظت کرو۔ خلاف شرع و خلاف عقل کوئی بات مت کرو۔ اور تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہو۔ یعنی گھر میں بیٹھے رہو۔ بلا ضرورت ادھر ادھر مت پھرو۔ اور اپنے گناہوں پر روتے رہو۔‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذی: كتاب الزهد باب ما جاء في حفظ اللسان (3) 288)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لا يَسْتَقِيمُ إِيْمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُهُ وَلَا يَسْتَقِيمُ قَلْبُهُ حَتَّى يَسْتَقِيمَ لِسَانُهُ)[1]
’’کسی بندے کا ایمان درست نہ ہو گا جب تک کہ اس کا دل درست نہ ہو۔ اور دل درست نہ ہوگا جب تک کہ زبان درست نہ ہو۔‘‘
زبان کی درستگی سے سب چیزوں کی درستگی ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تَكْفُرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ اتَّقِ اللَّهَ فِيْنَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنِ اسْتَقَمتَ اسْتَقَمْنَا وَ إِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا)[2]
’’ہر صبح کو تمام اعضائے انسانی عاجزی کر کے زبان سے کہتے ہیں تو خدا سے ڈرتی رہ۔ ہم سب تیرے تابع ہیں۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو تیڑھی ہو گئی تو ہم سب ٹیڑھے ہو جا ئیں گے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو زبان کی حفاظت کی وصیت فرمائی ہے۔ حضرت معازذ رضی اللہ تعالی عنہ کی لمبی حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں تمام نیکیوں کی جڑ نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا:
كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُوَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ قَالَ ثَكِلَتْكَ اُمُّكَ وَ هَلْ يَکُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلٰى وُجُوهِهِمْ أَوْ قَالَ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ الْسِنَتِهِمُ)[3]
’’تم اس کو روکے رکھو اور زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔ (یعنی زبان کی حفاظت و نگرانی کرو) میں نے عرض کیا یانبی ﷺ کیا ہم اپنی باتوں کی وجہ سے پکڑے جائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں تمہیں کم پائے زیادہ تر لوگ اپنی باتوں کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ يَضْمَنُ لِي مَا بَيْنَ لِحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنُ لَهُ الْجَنَّةَ)[4]
’’جواپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کا وعدہ کرے تو میں اس کے لیے جنت کا ذمہ دار ہوں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد (3/ 198)
[2] ترمذي: كتاب الزهد باب ماجاء في حفظ اللسان:288/3.
[3] مسند احمد (231/5) ترمذی (/3358) [4] بخاري: کتاب الرقاق باب حفظ اللسان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان کی حفاظت کی ضمانت کا یہ مطلب ہے کہ کوئی بات شرع اور عقل کے خلاف نہ کہی جائے۔ سوچ سمجھ کر کہی جائے۔ زبان کی لگام ڈھیلی نہیں چھوڑنی چاہیے کہ جو جی میں آئے کہہ دے بلکہ اس کو اپنے قابو میں رکھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک دن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے دیکھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ اپنی زبان کھینچ رہے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، اللہ آپ کو معاف کرے، یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
(إِنَّ هٰذَا أَوْرَدَنِي شَرَّ الْمَوَارِدِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ شَيٌ مِنَ الْجَسَدِ إِلَّا يَشْكُوذَرَبَ اللِّسَانِ عَلَى حِدَّتِهِ)[1]
’’کہ یہی زبان مجھے بد ترین گھاٹ پر لے جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا جسم کا ہر حصہ زبان کی تیزی کی شکایت کرتا ہے۔ اس لیے میں زبان کو کھینچ رہا ہوں تا کہ اس کی تیزی باقی نہ رہے اور میرے قابو میں رہے۔‘‘
نرم گفتگو
گفتگو کرتے وقت نرم گفتگو سے بات کرو۔ زبان شیریں ملک گیری۔ پر عمل کرو۔ اللہ تعالی نے حضرت موسی اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے یہ ہدایت فرمائی تھی۔ تم اس سے نرم بات کہنا۔ اور جو بات کو فائدہ مند اور نفع بخش ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ (بقرة: 83)
’’لوگوں سے اچھی بات کہو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ۝۷۰ یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ﴾ (سوره احزاب: 70-71)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور بات سیدھی کہو اللہ تعالی تمہارے کاموں کو سنوار دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔؏؏
اور ترش روئی اور سخت کلامی سے بچتے رہو اور زیادہ چیخ چلا کر بھی بات نہ کرو۔ بے موقع زور زور سے بولنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند ابو يعلى (5) (36؍1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے سمجھ کی بات ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ؕ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠۝۱۹﴾ (لقمان: 19)
’’اپنی آواز کچھ پست کرو! آوازوں میں سب سے بری آواز گدھے کی ہے۔‘‘
سوچ سمجھ کر بولو اور جلدی جلدی بات چیت مت کرو کہ مخاطب کی سمجھ میں نہ آسکے۔ بلکہ ٹھہر ٹھہر کر کرو۔
رسول اللہﷺ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے تھے۔ (ابوداؤد )
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
(كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَامًا فَصْلًا يَفْهَمُهُ كُلُّ مَنْ سَمِعَهُ)[1]
’’رسول اللہ ﷺ کا کلام ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتا تھا اور جو شخص اس کو سنتا تھا سمجھ لیتا تھا۔‘‘
گفتگو مختصر لفظوں میں کرو۔ زیاد و طول مت دو کہ سننے والا گھبرا جائے اور نہایت خندہ پیشانی اور ہنس مکھ چہرے سے بات چیت کرو۔
سچ بولو
سچ ہی میں نجات ہے کیونکہ یہ آفتوں سے بچاتا ہے اور سچا آدمی خدا اور رسول ﷺ کےنزدیک بہت پیارا ہے اور یہ صدق اللہ تعالیٰ کی صفتوں میں سے ایک بڑی صفت ہے۔
چنانچہ وہ فرماتا ہے: ﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللهِ حَدِيْثًا﴾ (النساء: 87)
’’اور کون اللہ سے زیادہ سچا ہے بات میں۔‘‘
اسی طرح بہشت کے وعدہ کی تقریب میں ارشاد ہے۔
﴿وَعْدَ اللهِ حَقًّا وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللهِ قِيلًا﴾ (النساء: (122)
’’وعدہ کیا اللہ نے سچا اور کون ہے اللہ سے زیادہ سچا بات میں۔‘‘
خدا سچا ہے اس لیے اس کی ساری شریعت سچی ہے فرمایا:
﴿وَإِنَّا لَصَادِقُونَ﴾ (انعام: 146)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود كتاب الادب باب الهدى في الكلام:408؍4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اور ہم ہیں سچے۔‘‘
﴿قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيْفًا﴾ (آل عمران:95)
’’آپ فرما دیجئے اللہ نے سچ فرمایا ہے۔ آپ ابراہیم عیہ السلام کے دین کی پیروی کیجئے۔‘‘
﴿وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ (زمر : 33)
’’اور جو سچائی کو لے کر آیا اور اس سچائی کو سچ مانا وہی تو پرہیز گار ہیں۔‘‘
اور یہی صدق اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی بھی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو صفت صدق سے خاص طور پر یاد کیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيْقًا نَبِيًّا﴾ (سورة مريم: 41)
’’اور اس کتاب میں ابراہیم علیہ السلام کا حال بیان کرو کہ دو بڑے سچے نبی تھے۔‘‘
ایک اور پیغمبر ادریس علیہ السلام کو بھی اللہ تعالی نے اس سے نامزد کیا ہے۔
﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا﴾ (مريم: 56)
’’اور اس کتاب میں ادریس علیہ السلام کا حال بیان کرو کہ وہ بڑے سچے نبی تھے۔‘‘
حضرت مریم علیہا السلام جنہوں نے اللہ کی باتوں کے کی ماننے میں ذرا بھی پس و پیش نہیں کیا۔ اس وصیت سے ممتاز ہوئیں:
﴿وَاُمَّهُ صِدِّيقَةٌ﴾ (مائدة : 75)
’’اور ان کی (عیسی کی) ماں بڑی سچی تھیں۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام جو خواب کی تعبیر میں ایسے سچے نکلے کہ بندوں کی زبان سے صدیق کہلائے۔
﴿يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ﴾ (يوسف: 46)
’’یوسف اے بڑے سچے۔‘‘
حضرت اسماعیل علیہ السلامم اپنے باپ سے صبر و شکر کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا۔ تو خدا سے صادق الوعد (وعد ہ کا سچا) کا خطاب پایا۔
﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ اسْمٰعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا﴾ (مريم: 54)
’’اور اس کتاب میں اسماعیل کا ذکر کرو۔ بلاشبہ وہ وعدے کے سچے اور بھیجے ہوئے نبی تھے۔‘
خدا کی خوشنودی والی جنت جن لوگوں کو ملے گی۔ ان میں وہ بھی ہوں گے جو دنیا میں دوسری صفتوں کے ساتھ سچائی اور راست بازی سے ممتاز تھے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿الصَّابِرِيْنَ وَ الصَّادِقِيْنَ﴾ (آل عمران: 18)
’’صبر کرنے والے اور سچے لوگ۔‘‘
اللہ نے جن لوگوں کے لیے اپنی مغفرت اور اجر عظیم کے وعدے کئے ہیں ان میں سچ بولنے والے بھی ہیں۔ اسلام و ایمان اور خدا کی فرمانبرداری کے بعد پہلا درجہ بچوں کا ہے۔ فرمایا:
﴿ اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىِٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىِٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۳۵﴾ (الاحزاب: 35)
’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور اللہ سے ڈرنے والے مرد اور اللہ سے ڈرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزو رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کو گناہ سے بچانے والے مرد اور بچانے والی عورتیں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں، ان سب کے لئے اللہ تعالی نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
ان کے سچائی کے کاروبار کا صلہ دوسری زندگی میں ملے گا۔ اور وہاں یہ سچائی کامیابی کا ذریعہ بنے گی۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ھٰذَا يَوْمَ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ﴾ (المائدة: 119) .
’’یہ دن ہے کہ سچے بندوں کو ان کا سچ کام آئے گا۔‘‘
اس امتحان گاہ دنیا میں سچائی کی اہمیت اتنی بڑھائی گئی ہے کہ یہی نہیں کہ سچائی اختیار کرنے کے حکم پر حکم دیا گیا بلکہ یہ بھی تاکید آئی ہے کہ ہمیشہ سچوں کا ساتھ دو۔ سچوں ہی کی جماعت سے علاقہ اور رابطہ رکھو اور ان ہی کی صحبت میں رہو کہ ان کی سچائی کے اثر سے تم بھی سچے ہو۔ کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے دو ساتھیوں نے جو تبوک کے سفر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ جاسکے تھے، ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کر کے جس سچائی کا ثبوت دیا تھا اس کی طرف اشارہ کر کے خدا فرماتا ہے۔
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ﴾ (توبه: 119)
’’اے ایمان والو ا خدا سے ڈرو اور بچوں کے ساتھ رہو۔‘‘
سچائی کی تین قسمیں ہیں (1) زبان کی سچائی (2) دل کی سچائی (3) عمل کی سچائی۔
زبان کی سچائی تو ظاہر ہے کہ زبان سے صرف سچ ہی بولا جائے اور منہ سے کوئی بات سچائی کے خلاف نہ نکلے۔ ایسی سچائی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے جس کی تعریف قرآن وحدیث میں بہت آئی ہے اور دل کی سچائی کہ جو زبان سے کہا جائے دل میں اس کی تصدیق ہو، منافقت نہ ہو، اور عمل کی سچائی یہ ہے کہ جو زبان سے کہے اور دل سے تصدیق کرے اسکے مطابق عمل بھی کرے۔ ایسی سچائی انسان کو ہر گناہ سے باز رکھتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِى إِلَى البِرِّ وَالْبِرُّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَ يَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدِ اللَّهِ صِدِّيقًا وَإِيَّاكُمْ وَالْكِذْبَ فَإِنَّ الْكِذَبَ يَهْدِى إِلَى الْفُجُوْرِ وَالْفُجُورُ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَمَا يَزَالُ الْعَبْدُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكِذَبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدِاللَّهِ كَذَابًا)[1]
’’تم سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ سچائی نیکی کی راہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت میں پہنچا دیتی ہے جو آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ ہی کا قصد کرتا ہے۔ وہ اللہ کے نزدیک بڑا سچا لکھا جاتا ہے اور تم جھوٹ بولنے سے ہمیشہ بچتے رہو۔ کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ کے راستہ پر چلاتا ہے یعنی دوزخ میں داخل کرا دیتا ہے اور جو آدمی ہمیشہ ہی جھوٹ بکتا رہتا ہے اور جھوٹ ہی اس کا مقصد ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالی کے نزدیک بڑا ہی جھوٹا لکھا جاتا ہے۔‘‘
جھوٹ کا تفصیلی بیان آئندہ خطبہ میں آرہا ہے۔
صدیقیت نبوت کے بعد انسانیت کا سب سے بڑا مرتبہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِیْقًاؕ۝۶۹﴾ (نساء: 19)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب باب قوله الله تعالى ياايها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين، مسلم كتاب البر والصلة باب قبح الكذب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اور جو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرے تو وہ (جنت میں) ان ( مقبول بندوں ) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام کیے۔ یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور (دوسرے) نیک بندے اور یہ لوگ (کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔‘‘
سورۃ حدید میں ایمان کامل اور جانی و مالی جہاد کی بار بار دعوت کے بعد ارشاد ہے۔
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ﴾ (حديد: 19)
’’اور جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں وہی صدیق ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ صدیقیت اس کامل ایمان کے ذریعہ نصیب ہوتی ہے جس سے عمل کبھی جدا نہیں ہو سکتا۔
غیبت
زبان کو بدزبانی، بدگوئی، بدکلامی سے بچانا نہایت ضروری ہے۔ یعنی غیبت سے بچنا بہت ضروری ہے غیبت کے یہ معنی ہیں کہ کسی کی برائی اس کی عدم موجودگی میں بیان کرو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا
(اَتدرُونَ مَا الْغَيْبَةُ قَالُوا اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ قِيلَ أَفَرَأَيْتَ إن كَانَ فِي أَخَى مَا أَقُولُ قَالَ إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتبَتَّهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فقد بھته)[1]
’’تم جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں صحابہ نے عرض کیا اللہ اور رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نےفرمایا: اپنے مسلمان بھائی کا اس طرح ذکر کرنا کہ اسے ناگوار ہو۔ لوگوں نے عرض کیا۔ اگر وہ برائی اس میں موجود ہو؟ آپﷺ نے فرمایا اس کی موجودہ برائی کو بیان کرو گے تو غیبت ہو گی اگر وہ برائی اس میں موجود نہ ہوتو تم اس پر بہتان باندھو گے۔‘‘
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤی اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۱۱ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ؗ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]مسلم كتاب البر والصلة باب تحريم الغيبه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(الحجرات: 11-12)
’’مسلمانو! مرد مردوں پر نہ ہنسیں (عجب نہیں کہ جن پر ہنستے ہیں) وہ (خدا کے نزدیک) ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں پر ہنسیں۔ عجب نہیں (کہ جن پر ہنستی ہیں) وہ ان سے بہتر ہوں آپس میں ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو ایمان لانے کے بعد بد تہذیبی کا نام ہی برا ہے اور جو ان حرکات سے باز نہ آئیں تو وہی خدا کے نزدیک ظالم ہیں۔ مسلمانو! (لوگوں کی نسبت) بہت شک کرنے سے بچتے رہو۔ کیونکہ بعض شک گناہ میں داخل ہیں اور ایک دوسرے کی ٹٹول میں نہ رہا کرو اور تم میں سے ایک کو ایک کے پیٹھ پیچھے برا نہ کہے۔ بھلا تم میں سے کوئی (اس بات کو) گوارا کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو تم کو گھن آئے۔ اللہ تعالی سے تقویٰ کرو بے شک اللہ تو بہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
ان آیتوں میں مسخرہ کرنے اور برے القاب سے یاد کرنے اور تجسس کرنے اور غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ غیبت کرنا اپنے بھائی کا گوشت کھانا ہے۔ اور کوئی شخص اپنے بھائی کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتا تو اسے چاہئے کہ اپنے بھائی کی غیبت بھی نہ کرے حدیثوں میں غیبت کی سخت مذمت آئی ہے۔ رسول اللہﷺ معراج والی حدیث میں فرمایا کہ میرا گزرا ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تابنے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ بولے یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت نوچ کھاتے تھے یعنی اور ان کی عزت و آبرو لیتے تھے۔[1]
اعمال اور اعمال کی جزا وسزا میں مناسبت ہوتی ہے۔ یہ لوگ چونکہ لوگوں کا گوشت نوچ کھاتے تھے یعنی ان کی غیبت کرتے تھے اس لیے عالم برزخ میں ان کی سزا یہ مقرر کی گئی ہے کہ خود اپنا گوشت نوچتے رہیں اور اسی معراج والی حدیث میں ہے کہ (وَنَظَرَ فِي النَّارِ فَإِذَا قَوْمٌ يَأْكُلُونَ الْجِيفَ قَالَ مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَانُوا يَأْكُلُونَ لُحُوْمَ النَّاسِ) ’’رسول اللہ ﷺ نے جہنم میں ایک گروہ کو مردہ لاش کھاتے ہوئے دیکھا تو دریافت فرمایا جبرائیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]ابو داود كتاب الادب باب في الغبيه (420/4) مسند احمد (257/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون لوگ ہیں؟ تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبتیں کر کے ان کا گوشت کھاتے تھے۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔
(فَارْتَفَعَتْ رِيحٌ مُنِتنَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَدْرُونَ مَا هَذِهِ الرِّيحُ رِيحُ الَّذِينَ يَغْتَابُونَ)
’’کہ سخت بو پھیلی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا تم جانتے ہو، یہ کیسی بد بو ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ان لوگوں کی بدبو ہے جو مسلمانوں کی غیبتیں کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ غیبت کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے۔ کہ دوسرے کے عیوب کی تشہیر کی جائے اس لیے جس طرح غیبت کرنے والے لوگوں کے عیوب کو عام طور پر پھیلاتے ہیں اسی طرح اس عمل کی نجاست و گندگی کی بد بو بھی دنیا میں پھیل کر لوگوں کو ان سے متنفر کرتی ہے۔ اسی نکتہ کو آپ نے دوسری حدیث میں بالا تشبیہ تمثیل کے نہایت واضح طور پر بیان کیا۔ آپ نے فرمایا:
(يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يَدْخُلِ الْإِيمَانُ قَلْبَهُ لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَنَهُ يَفْضَحْهُ فِي بیته)[2]
’’اے دو لوگو! جو زبان سے تو ایمان لائے ہو لیکن ایمان تمہارے دلوں کے اندر جا گزیں نہیں ہوا ہے نہ مسلمانوں کی غیبت کرو نہ ان کے عیوب کی تلاش میں رہو کیونکہ جو شخص ان کے عیوب کی تلاش میں رہے گا۔ اللہ تعالی بھی اس کے عیب کی تلاش کرے گا۔ اور اللہ جس کے عیب کی تلاش کرے گا خود اس کے گھر ہی کے اندر اس کو رسوا کر دے گا۔‘‘
بہر حال مسلمان کی غیبت اور آبروریزی کرنی حرام ہے اور یہ غیبت زنا و بد کاری سے زیادہ سخت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سود کے گناہ کے ستر دروازے ہیں اور سب سے آسان سود کا دروازہ یہ ہے کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ اس نے اسلام کی حالت میں اپنی ماں سے زنا کیا ہوا اور سود کا ایک درہم لینا چھتیس زنا کے گناہ سے بدتر ہے اور کسی مسلمان کی بے عزتی کرنا ان سب گناہوں سے بدتر ہے۔[3]
اس غیبت کی وجہ سے قبر میں سخت عذاب ہوتا ہے چنانچہ رسول اللہﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد (351؍3)
[2] ابو داود: كتاب الادب باب في الغبية (421/4) [3]بیھقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنہیں قبر میں عذاب ہو رہا تھا آپ نے فرمایا کہ دونوں قبر والوں کو اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ ایک پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا لوگوں کی غیبتیں کرتا تھا۔‘‘
جس طرح زندوں کی غیبت حرام ہے اسی طرح سے مردوں کی بھی غیبت ناجائز ہے۔ غیبت کا مطلب یہی ہے کہ کسی کا عیب جو اس میں موجود ہو دوسروں کے سامنے بیان کیا جائے اس میں ہر عیب داخل ہے غیبت کا دائرہ بہت وسیع ہے، غیبت زبان سے بھی ہوتی ہے۔ آنکھ سے بھی ہوتی ہے، ہاتھ پاؤں سے بھی ہوتی ہے۔ کسی شخص کی نقل کرنا توہین کے طور پر کہ اندھا ہے، لنگڑا ہے، بولا ہے تو یہ بھی غیبت میں شامل ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک دفعہ حضرت صفیہ﷩ رضی اللہ تعالی عنہا کوتاہ قد کی نقل کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ۔
(لَوْ مُزِجَتْ بِمَاءِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْهُ)[2]
’’اگر اس بری بات کو دریا کے پانی میں ملایا جائے تو دریا کے پانی کو متغیر کر دے گا۔‘‘
یعنی یہ کلمہ ایسا تلخ ہے کہ اپنی تلخی کی وجہ سے دریا کے شیریں پانی کو تلخ بنا دے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو پستہ قد کہنا بھی غیبت میں شامل ہے اس طرح چشم و ابرو کے اشارے سے کسی کے عیب کی پردہ دری کرنا بھی غیبت ہے اور قرآن مجید نے متعدد آیتوں میں غیبت کے ان ہی مخفی طریقوں کی برائی بیان کی۔
﴿هَمَّازٍ مَّشَاءٍ بِنَمِيْمٍ﴾ (قلم: (11)
’’لوگوں پر آوازیں کسا کرتا ہے (ادھر کی ادھر ادھر کی ادھر) چغلیاں لگاتا پھرتا ہے۔‘‘
﴿وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ﴾ (همزه :1)
’’ہر شخص جو (لوگوں کی) عیب چینی کرتا اور ان پر آواز کستا ہے اس کی بھی بڑی تباہی ہے۔‘‘
ان آیتوں میں غیبت کے جن مخفی اور دلخراش طریقوں کی مذمت کی گئی ہے۔ ان کی توضیح ترجمہ سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے اہل لغت کی تصریحات پیش نظر رکھنی چاہئیں جو حسب ذیل ہیں۔
(1) همز سامنے اور لمز پیٹھ پیچھے برائی کرنا
(2) همز خاص طور پر لوگوں کے نسب کی برائی کرنا۔
(3) ھمز ہاتھ کے اشارے سے اور لمز زبان سے غیبت کرنا۔
(4) همز زبان سے اور لمز آنکھ کے اشارے سے غیبت کرنا
(5) برے الفاظ سے ہم نشینوں کی دل آزاری کرنا۔
(2) لمز آنکھ، ہاتھ سر اور ابرو کے اشارے سے ہم نشینوں کی برائی بیان کرنا۔
اس تشریح سے معلوم ہوگا کہ غیبت کا دائرہ کہاں تک وسیع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الوضوء باب من الكبائر ان لا يستتر من بوله۔
[2] ابو داود: كتاب الادب باب في الغبيه (420/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے اسے چاہیے کہ اس کے سنے میں دلچسپی نہ لے تاکہ گناہ میں شریک نہ ہو بلکہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے اس کا دفاع کرے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ رَدَّعَنُ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)[1]
’’یعنی جو شخص اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کرتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے چہرے سے جہنم کو دور کر دیں گے۔‘‘
بعض صورتوں میں غیبت مباح ہے:
مظلوم ظالم کے عیبوں کو دوسروں کے سامنے اس لیے بیان کر سکتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس کے عیبوں سے واقف ہو کر ہوشیار رہیں اس سے توہین و تذلیل مقصود نہیں ہے بلکہ لوگوں کی خیر خواہی مقصود ہے حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں باریابی کی اجازت طلب کی آپ نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ یا اپنے خاندان میں کسی قدر برا شخص ہے۔ لیکن جب وہ پاس آیا تو آپ نے اس سے نہایت لطف و کرم سے گفتگو کی۔[1]
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ (نساء: 148)
’’اللہ تعالی کسی کی برائی کو پسند نہیں کرتا۔ مگر مظلوم ظالم کی برائی بیان کر سکتا ہے۔‘‘
اگر کوئی شخص دینی معاملات میں دروغ گوئی سے کام لے تو اسکے عیبوں کو اس غرض سے ظاہر کیا جائے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ شخص غیر معتبر ہے اس سے دین کی حفاظت مقصود ہے کسی کی تو ہین مقصود نہیں ہے۔
گالی دینا
کسی کی آبروریزی کرنا اور سب وشتم کرنا، بہت بری بات ہے یہ لڑائی جھگڑے کی جڑ ہے حجتہ الوداع کے خطبہ میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ
(فَإِنَّ دِمَاءَ كُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ بَيْنَكُمْ)[2]
’’تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزت آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں۔‘‘
یعنی مسلمان پر مسلمان کا خون گرانا حرام ہے کوئی کسی کو بلا وجہ نہ مارے اور نہ کسی کا مال چرائے اور نہ کسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب باب ما يجوز من اغتياب اهل الفساد والريب
[2] بخاري: كتاب الحج باب خطبة ايام منى۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی بے عزتی کرے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(سبَابُ الْمُسْلِمِ فَسُوْقَ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ)[1]
’’مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو مار ڈالنا کفر ہے۔‘‘
اور کسی کو کافر و فاسق کہہ کر گالی دینا بھی بہت برا ہے اگر وہ اس کا مستحق نہیں ہے تو کہنے والا خودی کافرو فاسق بن جاتا ہے آپﷺ نے فرمایا:
(لَا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ وَلَا يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ إِلَّا رَدَّتْ عَلَيْهِ إِن لَّمْ يَكُنْ صَاحِبَهُ كَذٰلِكَ)[2]
’’کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر فسق کی تہمت نہ لگائے اور نہ کفر کی اگر وہ اس کا مستحق نہیں تو اس کلمہ کا گناہ اسی کہنے والے پر لوٹ جاتا ہے۔‘‘
یعنی اگر وہ کا فر نہیں ہے تو خود کافر بن جاتا ہے اور اگر وہ فاسق نہیں ہے تو خود فاسق بن جاتا ہے اور گالی دینے میں جو شخص پیش قدمی کرے گا گنہ گار ہو گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الْمُسْتَبّانِ مَا قَالَا فَعَلَى الْبَادِي مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ)[3]
’’جو شخص آپس میں ایک دوسرے کو گالی دیتا ہے۔ تو دونوں کی گالیوں کا گناہ اس پر پڑتا ہے جس نے پہلے گالی دی ہے جب تک کہ مظلوم حد سے تجاوز نہ کرے۔‘‘
اگر یہ گالی گلوچ دینے والا اور بے ہودہ بکواس کرنے والا بدترین شخص ہے۔ قیامت کے روز بھی بدترین لوگوں میں ہو گا رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(اِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِندَ اللهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَن تَرَكَهُ النَّاسُ اتْقَاءَ شَرِّهِ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا اتْقَاءَ فُحْشِهِ)[4]
’’قیامت کے روز خدا کے نزدیک بلحاظ قدر و منزلت سب لوگوں سے بدتر وہ شخص ہوگا جس سے لوگ اس کے شرسے بچنے کے لیے کنارہ کشی کریں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الایمان باب خوف المؤمن ان يحبط عمله وهو لا يشعر۔ و مسلم: کتاب الایمان باب بیان قوله النبي ﷺ سباب المسلم فسوق۔
[2] بخاري: کتاب الادب باب ما ينهى عن السباب و اللعن
[3] مسلم: كتاب البر والصلة باب النهي عن السباب۔
[4] بخاري: کتاب الادب باب ما يجوز من الاغتياب اهل الفساد والريب، ومسلم کتاب البر والصلة باب مداراة من يتقى فحشه۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیحین کی ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ جس سے لوگ اس کی بد زبانی سے محفوظ رہنے کے لیے کنارہ کشی کریں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اَثْقَلَ شَيْءٌ يُوضَعُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُلْقٌ حَسَنٌ وَإِنَّ اللَّهَ يَبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِي)[1]
’’قیامت کے روز مومن کے ترازو میں سب سے زیادہ بھاری چیز نیک خوئی ہوگی بے شک اللہ تعالی بیہودہ گو (اور) حد ادب سے تجاوز کرنے والے کو دشمن رکھتا ہے۔‘‘
شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کی گالی کا جواب گالی سے نہ دیا جائے۔ اللہ تعالی نے مومنین کے اوصاف میں فرمایا ہے:
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَاماً﴾(الفرقان: (63)
’’رحمان کے بچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروشنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔‘‘
یعنی جب جاہل لوگ ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں اور سوائے بھلی بات کے۔ گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے جیسے کہ رسول ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جوں جوں دوسرا آپ پر تیز ہوتا آپ اتنے نرم ہوتے۔ یہی وصف قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے۔
﴿وَإِذَا سَمِعُو اللَّغْوَ اَعْرَضُوا عَنْهُ﴾ (القصص: (55)
’’مومن لوگ بیہودہ باتیں سن کر منہ پھیر لیتے ہیں۔‘‘
پس یہ فرمان ہے کہ اپنی زبان کو گندا نہیں کرتے، برا کہنے والے کو برانہیں کہتے۔ سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔ عیاض بن جمان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللهﷺ ایک معمولی انسان مجھے گالی دیتا ہے تو کیا میں اس گالی کا بدلہ لے سکتا ہوں آپﷺ نے فرمایا:
(الْمُسْتَبّانِ شَيْطَانَانِ يَتَهَا تَرَانِ وَيَتَكَاذَبَانِ)[2]
’’گالی دینے والے دو جھوٹے بکواسی شیطان ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: کتاب البر والصلة باب ما جاء في حسن الخلق (3/ 145)
[2] مسند احمد: 162/4 ابن حبان (5694)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا۔
(اعْهَدْ إِلَىَّ قَالَ لَا تَسْبَنَّ أَحَدًا فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلَا عَبْدًا وَلَا بَعِيراً وَلَا شَاةً قَالَ لَا تَحْقِرَنَّ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ وَارْفَعُ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ وَإِن امْرُءٌ شَتَمَكَ وَغَيْرَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ فَلَا تُغَيِّرُهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عليه)[1]
’’مجھے نصیحت اور دصیت کیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا: کسی کو گالی مت دو چنانچہ میں نے اس نصیحت کے بعد نہ کسی آزاد کو گالی دی نہ کسی غلام کو اور نہ کسی اونٹ کو اور نہ کسی بکری کو۔ آپﷺ نے فرمایا کسی نیکی اور بھلائی کو معمولی مت سمجھو اور اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ بات چیت کرو یہ بھی بھلائی سے ہے اور اپنی لنگی کو آدھی پنڈلی تک رکھو۔ اگر اس سے زیادہ کرنا چاہتے ہو تو ٹخنے تک اور ٹخنے کے نیچے کپڑا لڑکانے سے بچو۔‘‘
کیونکہ یہ تکبر میں سے ہے۔ اور اللہ تعالی تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ اگر تمہیں کوئی گالی دے اور عار و شرم دلائے تو تم اپنی معلومات کی بنا پر اسے شرم مت دلاؤ۔ کیونکہ اس کا وبال اس کے اوپر رہے گا۔
اخلاقی حیثیت سے کسی کو گالی دینا مناسب نہیں ہے نہ انسان کو نہ حیوان کو اور نہ زمانہ کو آپﷺ نے فرمایا:
(لَا تَسُبُّو الدَّهْرَ)[2]
’’زمانے کو گالی مت دو۔‘‘
اللہ تعالی زمانے کو رد و بدل کرتا رہتا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:
(لَا تَسُبُّوا الدِّيكَ فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلوةِ)[3]
’’مرغ کو گالی نہ دو کیونکہ وہ نماز کے لئے اٹھاتا ہے۔‘‘
بدزبانی اور فحش گوئی ہر حال میں بری ہے بد زبان آدمی ہمیشہ بھلائیوں سے محروم رہتا ہے اور لوگ اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب اللباس باب ما جاء في اسبال الآزار (99/4)
[2] ترمذي: کتاب الاستیذان باب ما جاء في كراهية ان يقول عليك السلام مبتداء-
[3] بخاري: کتاب الادب باب لا تسبو الدهر مسلم كتاب الفاظ من الأدب وغيره.
[4] ابو داود كتاب النوم باب في الديك و البهائم (487/4) این خیال (1990)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے روز سب سے برا شخص وہ ہے کہ جس کی بد زبانی سے لوگ ملنا جلنا چھوڑ دیں۔[1]
اور فرمایا بدزبانی جس چیز میں پائی جاتی ہے اس کو بدنما بنادیتی ہے اور حیا جس چیز میں پائی جاتی ہے اس کو زینت دار بنا دیتی ہے۔[2]
چونکه بدزبانی اور گالی گلوچ سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے۔
لعن طعن
لعنت کے معنی خدا کی رحمت سے دور ہونے اور بنانے کے ہیں جب کوئی کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ اس کے حق میں بددعا کرتا ہے کہ خدا کی رحمت سے دور ہو۔
بلاوجہ کسی انسان یا حیوان پر یاکسی اور چیز پرلعنت کرنا اور بددعا کرنا اچھا نہیں ہے جس کے اوپر لعنت کی بدعا کی گئی ہے اگر و ولعنت کا مستحق نہیں ہے تو تو لعنت لوٹ کر لعنت کرنے والے پر پڑ جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الْعَبْدَ إِذا لَعَنَ شَيْئًا صَعِدَتِ اللَّعْنَةُ إِلَى السَّمَاءَ فَتُغْلَقُ ابْوَابُ السَّمَاءِ دُونَهَا ثُمَّ تَهْبِطُ إِلَى الْأَرْضِ فَتُغْلَقُ أَبْوَابُهَا دُونَهَا ثُمَّ تَاخُدٌ يَمِينًا وَ شِمَالًا فَإِنْ لَمْ تَجِدُ مَسَاغًا رَجَعَتْ إِلَى الَّذِي لُعِنَ فَإِنْ كَانَ أَهْلًا وَإِلَّا رَجَعَتْ إِلَى قَائِلِهَا)[3]
’’جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے۔ یہ تو لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے سو آسمان کے دروازے اس کے آگے بند کر دیئے جاتے ہیں جب آسمان کی طرف چڑھنے کا کوئی راستہ اسے نہیں ملتا۔ تو وہ زمین کی طرف اترتی ہے تو زمین کے دروازے بھی اس کے آگے سے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ تو زمین میں گھنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ لعنت دائیں بائیں طرف پھرتی ہے ادھر بھی اسے کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ لعنت اس شخص پر لوٹ آتی ہے جس پر لعنت کی گئی ہے اگر وہ اس لعنت کا مستحق ہے اور اگر وہ اس لعنت کا مستحق نہیں ہے تو وہ لعنت بلعنت کرنے والے پر لوٹا دی جاتی ہے۔ ( اور لعنت کرنے والا اپنے بھی الفاظ سے ملعون ہو جاتا ہے )‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب باب المداراة مع الناس، مسلم كتاب البر والصلة باب مداراة من يتقى فحشه.
[2] ترمذي: كتاب البر والصلة باب ما جاء في الفحش (1373)
[3] ابو داود: كتاب الادب باب في اللعن (429/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کا مطلب با لکل صاف ہے کہ جب کوئی کسی پر قہر الہی کی بدعا کرتا ہے۔ تو وہ لعنت نہایت تیزی کے ساتھ آسمان کی طرف چڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ جب ادھر جانے کا اسے کوئی راستہ نہیں ملتا تو زمین پر اتر آتی ہے اور جب زمین میں اسے کوئی راستہ نہیں ملتا تو ادھر ادھر پھرتی ہے اور جب اسے کہیں راستہ نہیں ملتا تو مجبورًا اس پر لوٹ آتی ہے جس پر کی گئی بشر طیکہ وہ اس لعنت کا مستحق ہو۔ اگر وہ اس لعنت کے لائق نہیں تو لعنت کرنے والے پر لعنت لوٹ آتی ہے اور یہ لعنت کرنے والا خود اپنی ہی لعنت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ سچ ہے۔ چاہ کن را چاه در پیش۔ اس لیے ہر ممکن طریقے سے کسی پر لعنت مت بھیجو۔ یہ سنگین جرم ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(وَلَا تَلاعَنُوا بِلَعْنَةِ اللَّهِ وَلَا بِغَضَبِهِ وَلَا بِالنَّارِ)[1]
’’کسی کے اوپر اللہ کی لعنت مت بھیجو۔ اور نہ بد دعا کر و خدا کے غصے کے ساتھ اور نہ جہنم کی آگ کے ساتھ۔‘‘
کیونکہ اگر وہ اس بددعا کا مستحق نہیں ہے تو بددعا کرنے والا اس بدعا کا مستحق ہو جائے گا۔ حضرت جرموذ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ1 مجھے کچھ وصیت کیجئے۔ تو آپﷺ نے فرمایا میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تم کسی پر لعنت نہ کرو۔[2]
حضرت عمران رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں تھے اور ایک انصاریہ عورت اوٹنی پر سوار تھی۔ اس نے انٹنی کو جھڑکا اور لعنت بھیجی۔ رسول اللہ ﷺ نے سن کر فرمایا کہ جو اونٹنی پر سامان ہے اتار لو اور اس کو آزاد کر دو۔ کیونکہ اس پر لعنت پڑ چکی ہے۔ حضرت عمران رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس اونٹنی کو دیکھا ادھر ادھر ماری پھرتی ہے کوئی اسے نہیں چھوتا۔[3]
آپ نے فرمایا ماں باپ پر لعنت کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ لوگوں نے کہا رسول اللہ ﷺ ماں باپ پر بھلا کون لعنت کرے گا؟ تو آپﷺ نے فرمایا:
(يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ آبَاهُ وَيَسَبُّ الُمَّهُ فَيَسُبُّ امَّهُ)[4]
’’کسی کے باپ کو گالی دے گا تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا۔ اس کی ماں کو گالی دے گا تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود، الطيالسي (911) – ابو داود كتاب الادب باب في اللعن 430/4)
[2] طبرانی کبیر (283/2) (2181)
[3] مسلم: كتاب البر والصلة باب النهي عن اللعن الدواب وغيرها 323/2)
[4] بخاري: کتاب الادب باب لا يسب الرجل والديه مسلم كتاب الإيمان باب الكبائر و اكبرها.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو گویا اس نے اپنے ماں باپ کو برا بھلا کہا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’کامل مومن تو نہ کسی پر طعن کرتا ہے اور نہ کسی پر لعنت کرتا ہے نہ زبان درازی کرتا ہے۔‘‘[1]
اسی طرح آپﷺ نے فرمایا:
(لَا يَكُونُونَ اللَّعَّانُونَ شُفَعَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)[2]
’’یعنی کسی پر لعنت کرنے والے قیامت کے روز نہ کسی کی سفارش کر سکیں گے اور نہ کسی کی گواہی دے سکیں گے۔‘‘
بہرحال ان تمام حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی پر لعن طعن کرنا برا ہے اور کوئی اپنے برے کارناموں کی وجہ سے لعنت کا مستحق ہے تو اونت کرنا بھی جائز ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے قبر پرست یہود و نصاری کے متعلق فرمایا۔
(لعنَةُ اللهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قَبُوْرَ انبیاءهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُمَا صَنَعُوْا)[3]
’’یہود و نصاری پر خدا کی لعنت ہو انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے ڈراتے تھے اس چیز سے جو انہوں نے کیا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ اس بیان سے آپ اپنی امت کو (قبر پرستی کے) اس لعنتی فعل سے روکنے کے لئے متنبہ کرتے ہیں (الحدیث)
معلوم ہوا کہ قبروں کو سجدے کرنے والے لائق لعنت ہیں اور وہ ضرور ملعون میں بزبان رسول کریم ﷺ
(اِشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قَبُورَ أَنْبِيَاءِهِمْ مَسَاجِدَ)[4]
’’ان لوگوں پر خدا کا سخت تر غضب نازل ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں ( سجدہ گاہیں اور عبادت گاہیں ) بنائی ہیں۔‘‘
خدا کے نافرمانوں اور کافروں اور یہود و نصاری اور مکاروں اور دھوکہ بازوں پر لعنت کرنا قرآن کی رو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: کتاب البر والصلة (138/3)
[2] مسلم: كتاب البر والصلة … النهي عن اللعن الدواب وغيرها (323/2)
[3] بخاري: کتاب المغازی باب مرض النبي ﷺ ووفاته-
[4] مؤطا مالك باب جامع الجنازة-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سے جائز ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۝۷۸﴾ (مائده: (78)
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا۔ ان پر داؤد اور عیسی بن مریم (علیہما السلام) کی بدعا سے خدا کی طرف سے ان پر لعنت کی گئی یہ لعنت ان پر اس لئے آئی کہ وہ نافرمانی کرنے اور حدیں پھاند نے والے تھے‘‘
اسی طرح قرآن مجید میں مشرکوں، کافروں، منافقوں، یہودیوں، اور عیسائیوں کی خدا سے سرکشی بغاوت، کفر، طغیان، انکار، نافرمانی اور دین سے ٹھٹھا، مخول، مذاق، استہزاء، احکام الہی میں تحریف و تبدیل کانٹ چھانٹ، حیلہ سازیوں اور فریب کاریوں کی وجہ سے ان پر بکثرت لعنت اور پھٹکار آئی ہے اور اس لعنت و پھٹکار کے تذکرہ سے امت محمدیہ کو سبق سکھانا مقصود ہے کہ جو بھی افعال مذکورہ کا مرتکب ہو گا وہ پھٹکار کا سزاوار قرار پائے گا اوپر آپ نے متعدد حدیثیں پڑھی ہیں کہ جن میں کسی کو پھٹکارنے اور اس پر لعنت کرنے کی ممانعت آئی ہے اور قرآنی آیات اور بعض احادیث میں کافروں اور یہودیوں وغیر و پر لعنت بھیجی گئی ہے یہ دونوں باتیں کوئی متضاد چیز نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی لعنتی فعل کا مرتکب ہو جاتا ہے تو ارتکاب کے بعد اسے ملعون کہنا ہوا ہے جیسے یہودی ارتکاب جرائم کے بعد ملعون قرار دیے گئے اور لعنت کے لائق کاموں کو کرنے کے بغیر کی کو پھٹکارنا یا اس پر لعنت بھیجنا سخت منع ہے استشہاد قرآنی کے سوا ملعون کہنا بڑا گناہ ہے۔ (ملخص از ریاض الصالحین)
کافرو فاسق بنانا
بلا ضرورت کسی مسلمان و کافر اور فاسق کہنا جائز نہیں ہے یہ بھی ایک قسم کا جھوٹ ہے اگر وہ اس کا اہل نہیں ہے۔ رسول اللہ م ﷺ نے فرمایا:
(أَيُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِاَخِيهِ كَافِرٌ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا)[1]
’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہے تو دونوں میں سے ایک ضرور کافر ہو جاتا ہے۔“
اور اس کافر کہنے کا اتنا گناہ ہے جتنا اس کے قتل کرنے کا گناہ ہے آپﷺ نے فرمایا:
(مَن قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَتْلِهِ)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: كتاب الادب باب من أكفر اخاہ بغير تاويل فهو كما قاله۔
[2]صحیح بخاری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے تو اس کا گناہ اس کے قتل کے برابر ہے۔‘‘
اور خود کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
(لا يَرْمِى رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ وَلَا يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ إِلَّا رُدَّتْ عَلَيْهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبَهُ كَذٰلِكَ)[1]
’’کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو نہ فسق کی تہمت لگائے اور نہ کفر کی اس لیے کہ ( تہمت لگانے سے) کلمہ فاسق و کفر پھر آتا ہے تہمت کنندہ پر اگر وہ اس کے لائق نہیں۔‘‘
یعنی اگر کسی کو فاسق کی تہمت لگائی اور وہ فاسق نہیں ہے تو خود ہی فاسق ہوا۔ اور اگر کسی کو کافر کہا اور وہ کافرنہیں ہے تو کہنے والا آپ کافر ہو گیا آنحضرت ﷺ مسلمانوں کو ایک دوسرے پر الزام اور تہمت لگانے سے روک رہے ہیں تاکہ فضائے اخلاق تفسیق و تکفیر کی گندی ہوا سے خراب نہ ہو۔
ہنسی اڑانا
نازیبانی ہنسی مذاق کرنا اور استہزاء کرنا بھی خراب عادت ہے اس سے بھی بعض لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے اس لیے قرآن وحدیث میں نازیبانی کی ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤی اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۱۱﴾ (الحجرات: 11)
’’مسلمانو! مرد مردوں پر نہ ہنسی۔ عجب نہیں کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ (خدا کے نزدیک) ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں پر ہنسیں۔ عجب نہیں کہ (جن پر ہنستی ہیں) وہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے پر طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کا نام دھرو ایمان لائے نے کے بعد بدتہذیبی کا نام ہی برا ہے اور جو (ان حرکات سے باز نہ آئیں تو وہی خدا کے نزدیک ظالم ہیں۔)‘‘
مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو حقیر و ذلیل سمجھنا اور ان کا مذاق اڑانا اچھا نہیں ہے۔ ممکن ہے جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ اللہ کے نزدیک اچھے ہوں اور یوں بھی بلاضرورت بننا سخت ولی کی علامت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الادب باب ما ينهى عن السباب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(لَا تَكْثِرُوا الضِّحْكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضِّحْكِ تُمِيتُ الْقَلْبُ)[1]
’’زیادہ مت ہنسو۔ کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:
(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا)[2]
’’خدا کی قسم! اگر تم ان باتوں کو جان لیتے جن کو میں جانتا ہوں تو زیادہ روتے اور کم بنستے۔‘‘
ہنسی مذاق سے کسی کی چیز کو لے لینا اچھا نہیں ہے آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
(لَا يَأْخُذَنَّ أَحَدُكُمْ مَتَاعَ أَخِيهِ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا)[3]
’’کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے سامان کو نہ ہنسی مذاق سے لے اور نہ سچ مچ لے۔‘‘
اس لیے اس سے مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے اور مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے مندرجہ ذیل ایک لمبی حدیث فائدے کے لئے لکھتے ہیں اس کو زبانی یاد کر کے ایک لائحہ عمل بنا لو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:
(يَارَسُولَ اللَّهِ أَوْصِنِي قَالَ أَوْصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ فَإِنَّهَا زَيْنٌ لِأَمْرِكَ كُلِّهِ۔ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ زِدْنِي قَالَ عَلَيْكَ بِتَلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَإِنَّهُ ذِكْرٌ لَكَ فِي السَّمَاءِ وَنُوْرٌ لَكَ فِي الْأَرْضِ۔ قُلْتُ زِدْنِي قَالَ وَ إِيَّاكَ وَ كَثُرَةَ الضِّحْكِ فَإِنَّهُ يُمِيتُ الْقَلْبَ وَ يَذْهَبُ بِنُورِ الْوَجْهِ۔ قُلْتُ زِدْنِي قَالَ قُلِ الْحَقَّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا۔ قُلْتُ زِدْنِي قَالَ لَا تَخَفْ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لائِم)[4]
’’یارسول اللہ! مجھے دصیت کیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالی سے ہمیشہ ڈرتے رہو اور اس کے حکموں پر چلو اور جس سے منع کیا ہے اس سے بچتے رہو۔ ایسا کرنے سے تمہارے سارے کام سنور اور سدھر جائیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یا اور کچھ زیادہ نصیحت فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا تم قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر الہی کو لازم پکڑ لو، یعنی قرآن مجید پڑھتے رہو اور ذکر خدا بھی کرتے رہو جب تم یہ کام کرو گے تو آسمان میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب الزهد (257/3) مسند احمد (310/2)
[2] بخاري: كتاب الرقاق باب قول النبيﷺ لو تعلمون ما اعلم-
[3] ترمذي: کتاب الفتن باب ما جاء لا يحل لمسلم أن يدوع مسلما (286/3)
[4] ابن حبان 3611، مسند احمد 265/5)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا تذکرہ ہوگا۔ اللہ تعالی تمہارا ذکر خیر فرشتوں کے سامنے کرے گا اور فرشتے بھی تمہارے لیے نیک دعائیں کریں گے اور زمین میں نور معرفت ویقین اور ہدایت کے ظہور کا سبب ہوگا۔ میں نے عرض کیا اور زیادہ نصیحت فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا زیادہ ہنسنے سے بچتے رہو کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ بنا دیتی ہے اور چہرے کے نور کو کھو دیتی ہے اور اس کی رونق کو زائل کر دیتی ہے۔ میں نے کہا اور زیادہ نصیحت فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا: تم حق کہہ دیا کرو اگرچہ لوگوں کو تلخ اور ناگوار معلوم ہو۔ میں نے عرض کیا: اور زیادہ نصیحت فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے دین کے اظہار کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی علامت سے مت ڈرو۔‘‘
خاموشی
اللہ تعالیٰ نے تمہیں زبان اس لیے دی ہے کہ ضرورت کے وقت اس سے کام لو اور نیک و فائدے کی باتوں میں استعمال کرو نہ کہ اس سے بری باتیں نکالو۔ یا اس سے کسی کو ستاؤ جو بات زبان سے نکالتے ہو فرشتے اس کو لکھ لیتے ہیں اور قیامت کے روز وہ خدا کے سامنے پیش کیا جائے گا قرآن مجید میں فرمایا:
﴿مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ﴾ (سورة ق : 18)
’’انسان کی زبان سے جو لفظ لکھتا ہے فرشتے اس کو نوٹ کر لیتے ہیں۔‘‘
اگر ضرورت سے زیادہ بولو گے تو اس میں تمہاری پکڑ ہو گی حدیث شریف میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(أَكْثَرُ خَطَايَا ابْنِ آدَمَ فِي لِسَانِهِ)[1]
’’ابن آدم کے زیادہ تر گناہ زبان کی وجہ سے ہوتے ہیں۔‘‘
حکایت: جنگ احد میں ایک نوجوان صحابی شہید ہو گئے تھے اس کی ماں اس کے پاس آئیں تو دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے پتھر بندھا ہوا تھا۔ ان کی ماں نے ان کے چہرے سے مٹی صاف کر کے کہا۔
(هَبِيْئًا لَكَ يَا بُنَيَّ الْجَنَّةُ‘‘ ’’میرے پیارے بیٹے تجھے جنت مبارک ہو۔‘‘
یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ فِيْمَا لَا يَعْنِيْهِ وَيَمْنَعُ مَا لَا يَضُرُّهُ)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] طبرانی و بیھقی۔ [2] مسند ابو یعلی :4004/119۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’تجھے کیا معلوم کہ شاید وہ فضول باتیں کرتا ہو یا غیر نقصان دہ چیزوں کو روک لیتا ہو۔ یعنی ان دونوں چیزوں کا حساب ہوگا ممکن ہے کہ اس میں اس کی گرفت ہو جائے۔‘‘
اگر تم اپنے اسلام میں خوبی و خلوص چاہتے ہو تو طویل اور فضول گوئی سے کنارہ کشی اختیار کرو اور ضرورت سے زیادہ مت بولو۔ بلکہ خاموش رہو۔ خاموش اور چپ رہنے میں بہت کی آفتیں دور ہو جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ صَمَتْ نَجَا)[1]
’’جو چپ رہے گا وہ بہت کی بلاؤں سے بچا رہے گا۔‘‘
خاموشی سے دل و دماغ روشن رہتے ہیں۔ عقل تیز ہوتی ہے ذکر وفکر کا مادہ پیدا ہوتا ہے اچھی اچھی باتیں ذہن میں آتی ہیں اور عمل کی رغبت ہوتی ہے کیونکہ زیادہ بولنے والے عمومًا بے عمل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے
﴿وَلَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّنْ نَّجْوٰهُمُ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ﴾ (النساء: 114)
’’زیادہ سرگوشیوں میں بھلائی نہیں۔ مگر جس نے صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ یا نیک کام کرنے کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے کا حکم دیا۔ تو ان چیزوں میں بھلائی اور فائدہ ہے۔‘‘
اور جب کوئی بات بولنا ہوتو سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے بغیر سوچے مجھے بولنے میں خفت و ندامت ہوتی ہے۔
اور لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الْعَبْدَ لَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا فِي جَھَنَّم)[2]
’’بے سوچے سمجھے بندہ اللہ کی ناخوشی کی ایسی بات کہہ جاتا ہے جس سے وہ دوزخ میں ڈالا جائے۔‘‘
’’اور جب غور وفکر کے بعد اچھے لفظوں میں بات ادا کرو گے تو دنیا میں بڑی شاباشی و تعریف اور آؤ بھگت ہوگی۔ اور خدا بھی خوش ہو گا۔ بات ہی سے تمہاری خوبی اور اچھائی معلوم ہوگی۔
علامہ شیرازی نے کیا خوب فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي:317/3 كتاب صفة القيامة و دارمی: 387/2 کتاب الرقائق باب في الصمت.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تا مرد سخن نگفته باشد عیب و هنرش نهفته باشد
’’جب تک آدمی بات نہیں کرتا اس کی بھلائی برائی چھپی رہتی ہے۔‘‘
اور بات کرنے کے بعد اس کی برائی بھلائی معلوم ہو جاتی ہے اگر اچھی بات کہی ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ نیک آدمی ہے۔ بری بات کہی ہے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ نادان اور خراب آدمی ہے۔
علامہ شیرازی فرماتے ہیں:
مزن ہے تامل بگفتار دم نکوگوئی گردیر گوئی چه غم
’’ یعنی کوئی بات بے سوچے سمجھے نہ کہو اگر اچھی بات دیر میں کہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘
کلام کے موقع پر چپ رہنا اچھا نہیں ہے:
یہ حقیقت ہے کہ ہر وقت بک بک کرنا اور فضول گوئی کرنا برا ہے۔ لیکن کلام کے وقت چپ رہنا اس سے بھی برا ہے زبان اسی لئے دی گئی ہے کہ ضرورت پر استعمال کی جائے اگر ضرورت کے وقت مقفل رکھی جائے۔ تو تم میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہیگا۔ اسی واسطے حدیث شریف میں آیا ہے کہ حق بات کہو ورنہ خاموش رہو۔ وعظ و نصیحت ضرورت پر کہنا کار خیر ہے۔ کیونکہ جتنا ثواب عمل کرنے والے کو ہوگا۔ اتناہی ثواب بتانے والے کو ملے گا۔
بات چیت میں عدل و انصاف اور سچائی کو نہ چھوڑو۔ حق اور منصفانہ بات چیت کرنے میں مت جھجکو۔ اگرانصاف اور سچی بات کہنے سے رکو گے تو قیامت کے دن تمہاری گرفت ہوگی۔ اگر چہ مخاطب کتنا ہی بڑا شخص کیوں نہ ہو۔ اس کی پرواہ نہ کرو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانِ جَائِرٍ)[1]
’’ ظالم بادشاہ اور حکمران کے سامنے حق اور ثابت شدہ بات کہہ دینا سب سے بڑا جہاد ہے۔‘‘
لیکن لب و لہجہ تلخ ہرگز نہ ہو۔ بات چیت کے وقت دل و دماغ اپنے قابو میں رکھو۔ مخاطب اگر تمہاری طبعیت کے خلاف گفتگو کر رہا ہو تو اس کی گفتگو سے تنگ دل نہ ہو۔ اور نہ ملول خاطر ہو، اور طیش و غصے میں آؤ۔ اور خوش روئی اور پوری توجہ سے سنو۔ پھر معقول و مہذب طریقے اور نرم آواز سے اس کی تائید و تردید کرو۔ غصے کے لب ولہجہ میں بات کر نا معقل مندوں کا کام نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 19/3 و ابو داؤد 217/4
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات چیت میں چھوٹے بڑے کا خیال رکھو
بڑوں کو بڑے خطاب سے مخاطب کرو کوئی لفظ ان کی شان کے خلاف نہ کہو۔ حدیث شریف میں آیا ہے:
(كَبِّرُوا الْكُبْرَ) (بخاري و مسلم) ’’بڑوں کی تعظیم کرو۔‘‘
اور جو بڑوں کی تعظیم نہیں کرے گا وہ پکا مسلمان نہیں ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(ليسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَلَمْ يُوَقِّرْ كَبِيرَنَا وَيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَ عَنِ المنكر) (ترمذی حسن لغیره)
’’نہیں ہے ہماری جماعت سے وہ شخص جو ہمارے چھوٹوں پر رحم و شفقت نہ کرے اور نہ ہمارے بڑوں کی عزت و تعظیم و تکریم کرے اور نہ ترغیب دے لوگوں کو بھلائی کی اور نہ منع کرے منکرات و محظورات شرعیہ سے۔‘‘
اگر بڑے مرتبہ کے لائق ہے تو بڑے مرتبہ پر رکھو اور اگر چھوٹے مرتبہ کے لائق ہے تو چھوٹے مرتبہ پر رکھو۔ بہر حال بات چیت میں بڑوں کا لحاظ ضرور ہونا چاہئے۔ جب تم دوسروں سے ادب سے بات چیت کرو گئے تو دوسرا بھی تم سے ادب سے بات چیت کرے گا اور جب تم دوسروں کا ادب کرو گے تو دوسرے بھی تمہارا ادب و احترام کریں گے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا
(مَا أَكْرَمَ شَابٌ شَيْخًا مِنْ أَجْلِ سِنِّهِ إِلَّا قَیَّضَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ سِنِّهِ مَنْ يَكْرِمُهُ) (ترمذی)
’’جو جوان کسی بوڑھے کی بزرگی کی وجہ سے عزت کرے گا اللہ تعالی اس کے بڑھاپے کے وقت ایسے آدمی کو مقرر فرمادے گا جو اس کی عزت کرے گا۔‘‘
بوڑھے بزرگ کی عزت کرنا خدا کی عزت کرنا ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ مِنْ اجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامُ ذِي الشَّيْيَةِ الْمُسْلِمِ وَ حَامِلُ الْقُرْآنِ غَيْرُ الْغَالِي فِيْهِ وَلَا الْجَافِي عَنْهُ وَإِكْرَامُ السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ.)
’’بوڑھے بزرگ اور قاری حافظ قرآن اور منصف بادشاہ کی زمانہ سے خدا خوش ہوتا ہے اور ان کی عزت و تکریم کرتا ہے[ابو داؤد)
]لہذا بڑوں کی عزت کرنا فرض ہے۔ ادب کرنے سے تمہیں بہت فائدہ ہو گا (1) سب خوش رہیں گے (2) تمہاری عزت کریں گے اور ضرورت کے وقت تمہاری امداد کریں گے۔
ادب کرنے والے بڑے نصیب ور ہوتے ہیں اور بے ادب ہمیشہ ذلیل وخوار رہتے ہیں۔ ان کو برا سمجھتے ہیں یہ مثل مشہور ہے۔ با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب۔
خوش کلامی
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کسی سے گفتگو کرو تو نہایت میٹھی اور دل خوش کن باتیں کرو۔ تاکہ سننے والا تمہاری بات چیت سے خوش ہوا اور تمہاری محبت اس کے دل میں بیٹھ جائے ترش روئی اور سخت کلامی سے بچتے رہو۔ زبان شیریں ملک گیری پر ہمیشہ عمل کرتے رہو اور جو بات کہوا چھی کہو۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلٰوةَ وَآتُوا الزَّكٰوةَ﴾ (البقرة: (83)
’’لوگوں سے اچھی بات کہو۔ اور نماز و زکوۃ ادا کرتے رہو۔‘‘
اچھی بات سے مطلب یہ کہ کام و نصیحت اور فائدے کی بات کہو یہی انسانیت کا سب سے بڑا طر و امتیاز ہے۔ اور نیک لوگوں کی پہچان ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿وَقُلْ لِّعِبَادِى يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَعُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ الإِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا) (بنی اسرائیل: 53)
’’اے پیغمبر میرے نیک بندوں سے کہہ دو کہ وہ بات چیت کریں جو سب سے اچھی ہو بے شک شیطان دشمنی ڈالتا ہے آپس میں۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
آیت کے پچھلے حصہ میں دعوے کی دلیل بھی دے دی گئی ہے کہ خوش گوئی اور خوش کلامی آپس میں میل ملاپ پیدا کرتی ہے اور بدگوئی و بدکلامی آپس میں جھوٹ پیدا کرتی ہے جو شیطان کا کام ہے۔ وہ اس کے ذریعے سے لوگوں میں غصہ نفرت، حسد، اور نفاق کے بیج ہوتا ہے اس لیے اللہ کے بندوں کو چاہئے کہ نیک بات بولیں، نیک بات کہیں، اچھے لہجے میں کہیں اور نرمی سے کہیں کہ آپس میں میل ملاپ اور مہر و محبت پیدا ہو خوش کلامی، کرنے والا خدا کا اور رسول کا محبوب ہے اور جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہے۔
(ان في الْجَنَّةِ غُرْفَةَ يُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهِا وَ بَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا فَقَالَ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ لِمَنْ هِيَ يَارَسُولَ اللَّهِ قَالَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ وَ أَطْعَمَ الطَّعَامَ وَ بَاتَ قَائِمًا و النَّاسُ نِيَام) (طبرانی) ’’جنت میں ایسے صاف ستھرے گھر کی دار محلات ہیں جن کا باہر کا حصہ اندر سے اور اندر کا حصہ باہر سے صاف دکھائی دیتا ہے۔ ابو مالک اشعری ہی ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ ایسی جنت کسی کو ملے گی ؟ تو آپﷺ نے فرمایا جس کے خوش کلامی کی ہو اور غربیوں کو کھانا کھلایا ہو اور اس وقت نماز پڑھی ہو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ ‘‘معلوم ہوا کہ خوش کلامی جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’اچھی بات صدقہ ہے یعنی جس طرح صدقہ دے کر کسی غریب کی حاجت روائی اور دل جوئی کی جاتی ہے اسی طرح زبان کی مٹھاس سے اس کے زخموں پر پھاہا رکھا جاسکتا ہے اور کچی سعی و سفارش سے اس کو مدد پہنچائی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو اسی بات کی تعلیم دی ہے کہ لوگوں سے نرم زبان اور خوش کلامی سے پیش آئیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا انْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران: (159)
’’اللہ کی رحمت کے سبب سے تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تم مزاج کے اکھڑ اور دل کے سخت ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے تتر بتر ہو گئے ہوتے۔‘‘
اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلاز اور حضرت ہارون علیہ السلام کو جب نبی بنا کر بھیجا تو فرمایا: ﴿فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيْنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى﴾ (طه: 44)
’’سو تم دونوں اس سے نرم بات کہنا شاید وہ نصیحت پائے یا خدا سے ڈرے اور اپنی کمزوری محسوس کرے۔‘‘
اللہ تعالٰی ہم سب کو سچ بولنے اور حسن خلق کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔