زبان کی حفاظت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

﴿ وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَ اَلْوَانِكُمْ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ۝۲۲﴾ (الروم: 22)

گذشتہ تین خطبات میں آپ حضرات تین اہم اعضاء بدن (کان، آنکھ اور دل) کے حوالے سے گزارشات سن چکے ہیں۔ اور ان کے درست استعمال کے فوائد و منافع اور غلط استعمال کے مفاسد و نقصانات سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ اور آج کے خطبہ جمعہ میں جس حساس ترین عضو کے بارے گفتگو کرنا چاہتا ہوں وہ گوشت کا ایک لوتھڑا زبان ہے۔

زبان اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر و منزلت ان لوگوں سے پوچھو جو گونگے ہیں، جن کی زبان کسی نقص کی بناء پر قوت گویائی سے محروم ہوتی ہے۔ اور یہ زبان جہاں بہت بڑی نعمت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی بھی ہے کہ گوشت کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا ہر قسم کے ذائقے (میٹھا، پھیکا، ترش، تلخ، چرپڑہ اور نمکین) محسوس کرتا ہے۔ چیز زبان پر رکھتے ہی احساس ہو جاتا ہے کہ یہ میٹھی ہے یا کڑوی، پھیکی ہے یا نمکین، ترش ہے یا چرپری فوراً معلوم ہو جاتا ہے۔ اور دنیائے طب میں یہ زبان بہت ساری بیماریوں اور تکلیفوں کی نشاندھی کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ڈاکٹر اور طبیب مرض کی شناخت کے لیے مریض کی زبان کا معائنہ کرتے ہیں اور یہ زبان مافی الضمیر (یعنی دل کی بات) کے اظہار کا زبردست آلہ ہے اور گوشت کا یہ لوتھڑا دنیا جہاں میں کتنی بولیاں بولتا ہے۔ حالانکہ سب لوگ ایک باپ حضرت آدم اور ایک ماں ’’حواء‘‘ کی اولاد ہیں لیکن بے شمار لغتیں زبانیں اور بولیاں دنیا میں رائج ہیں۔ مثلاً عربی، اردو، فارسی، انگلش، ہندی، سنسکرت، یونانی اور حبشی وغیرہ (یوں تمام زبانوں میں سے بہترین زبان عربی ہے اور یہی زبان پوری دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی اور لکھی جانے والی زبان ہے کیونکہ قرآن کی زبان ہے اور پیغمبروں کے امام پر اترنے والے دین کی زبان ہے)

بہرحال نعمتوں اور بولیوں کی یہ بہتات اللہ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ حتی کہ ایک ہی زبان کے مختلف علاقوں اور شہروں کے حوالے سے مختلف انداز اور لہجے ہیں کہ بولی سنتے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ یہ گوجرانوالہ کا مکین ہے۔ یہ گجرات کا باشندہ ہے یہ سیالکوٹ کا رہنے والا ہے یہ ملتان سے تعلق رکھنے والا ہے یہ فیصل آباد کا باسی ہے۔ اللہ اکبر۔ اسی لیے رب ارض و سماء نے سورۃ الروم میں ارشاد فرمایا:

﴿ وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَ اَلْوَانِكُمْ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ۝۲۲﴾ [الروم: 22]

’’جس طرح آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق اور لوگوں کی رنگوں قسموں اور طبیعتوں کا مختلف ہونا اللہ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے اسی طرح تمہاری زبانوں اور بولیوں کا مختلف ہوتا بھی اللہ کی قدرت کی بہت بڑی دلیل اور نشانی ہے۔‘‘

 بہر حال گوشت کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا بہت بڑی نعمت بھی ہے اور اللہ کی بے مثال قدرت کی زبردست نشانی بھی ہے۔ اور کان، آنکھ اور دل کی طرح اگر اس کا استعمال درست ہو تو یہ پورے بدن میں سے بہترین عضو ہے اور اگر اس کا استعمال لحاظ اور برا ہو تو پورے بدن میں یہ انتہائی بدترین عضو ہے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ میں زبان کے متعلق بہت زیادہ ہدایات دی گئی ہیں اور اسے انتہائی حساس عضو قرار دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ يَضْمَنُ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ، أَضْمَنُ لَهُ الجَنَّةَ).[صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب حفظ اللسان (6474)]

’’جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کے بارے میں ضمانت دے گا میں اسے جنت کی ضمانت دوں گا۔‘‘

اور بخاری شریف کی دوسری حدیث میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں رسول اللہ علی الم نے فرمایا:

’’بلاشبہ ایک شخص اللہ تعالی کی خوشنودی کا کلمہ زبان سے نکالتا ہے حالانکہ وہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تو اللہ تعالی اس کلمہ کے کہنے پر اس کے درجات بلند فرماتا ہے اور بلا شبہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کلمہ کہتا ہے اور اس کو معمولی سمجھتا ہے تو اس معمولی کلمہ کی وجہ سے وہ جہنم رسید ہوگا‘‘[[صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب حفظ اللسان (6478)]]

 مسند احمد، جامع الترمذی اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ) مجھے ایک ایسا عمل بتلائیے جو میرے دخول جنت کا باعث ہو اور مجھے نار جہنم سے دور کر دے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تو نے بہت بڑا سوال کیا ہے لیکن یہ اس کے لیے بہت آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کر دے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اسلام کے بنیادی پانچ ارکان بتلائے اور نفلی روزے رکھنے کی تلقین فرمائی۔ نفلی صدقہ و خیرات کی ترغیب دی۔ رات کی تاریکی میں اللہ کی بارگاہ میں قیام رکوع اور سجود کی نصیحت فرمائی پھر فرمایا: ’’یاد رکھو! اسلام کی کوہان کی بلندی جہاد ہے اور دین کا ستون نماز ہے‘‘۔ (دخول جنت کے لیے اور جہنم سے نجات کے لیے یہ تمام بڑے بڑے اعمال بتلانے کے بعد فرمایا: ’’کیا میں ایک ایسا کام نہ بتلاؤں جس کے کرنے سے یہ تمام اعمال آسان ہو جائیں گے؟‘‘ جناب معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے نبی (ﷺ) ضرور بتلائیے۔ تو آپ ﷺنے زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا:

(كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا)

’’اس زبان کو قابو میں رکھو۔‘‘

جناب معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی (ﷺ)! کیا ہماری باتوں پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہوگا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

(ثَكِلْتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذا وَهَلْ يُکِبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلٰى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ الْسِنَتِهِمْ) [جامع الترمذي، كتاب الإيمان، باب ماجاء في حرمة الصلاة (2616) و ابن ماجه (2973) و احمد (231/5)]

’’او معاذ! تیری ماں تجھ کو گم پائے، لوگوں کو ان کی زبانوں کی باتیں ہی چہروں اور نتھنوں کے بل جہنم میں پھینکیں گی۔‘‘

غور کیجئے زبان کا معاملہ کس قدر حساس اور سنگین ہے۔

کیونکہ زبان کو قابو میں رکھنے سے اور اسے درست استعمال کرنے سے بے شمار اجر و ثواب کمایا جاسکتا ہے اور معاشرے میں الفت و محبت کی خوشبو مہکائی جاسکتی ہے۔ اور اس کے برے استعمال سے بہت بڑا گناہ کمایا جا سکتا ہے اور معاشرے میں نفرتوں اور کدورتوں کا زہر اگلا جا سکتا ہے۔ اس لیے زبان کا درست استعمال اور اس کے فوائد و ثمرات اور زبان کا غلط استعمال اور اس کے مفاسد و نقصانات آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔

زبان کا درست استعمال:

درست، صاف اور کھری بات کرنا: اللہ رب العزت سورۃ الاحزاب میں فرماتے ہیں:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ۝۷۰ یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا۝۷﴾ [الأحزاب: 71]

’’اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرمادے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پائی۔‘‘

 اس میں سچائی بھی شامل ہے لیکن وہ سچائی جس میں خیر ہو کیونکہ بعض سچی باتیں بھی گناہ ہیں: (جس طرح غیبت اور چغلی وغیرہ جن کی تفصیل زبان کے غلط استعمال میں بیان ہو گی )۔

1۔ سچائی نبوی صفت ہے:

اللہ رب العزت سورہ مریم میں فرماتے ہیں:

﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا﴾‎ [مريم:41]
’’اس کتاب میں ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان کر بے شک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔‘‘

﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ ؗ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗ﴾ [مريم: 56]

’’اور اس کتاب میں اور ادرس علیہ السلام کا بھی ذکر کر وہ بھی نیک کردار پیغمبر تھا۔‘‘

سچائی کی مزید فضیلت سورہ توبہ میں ہے:

﴿يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّدِقِيْنَ﴾ [توبه: 119]

’’اے ایمان والو اللہ تعالی سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘

اور بخاری و مسلم کی حدیث ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ) [صحیح مسلم، البر والصلة، باب قبح الكذب و حسن الصدق و فضله (2607) و بخاری (6094)]

’’تم سچائی اختیار کرو اس لیے کہ سچائی نیکی کی جانب راہ دکھاتی ہے اور نیک کام  کرنا جنت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ آدمی ہمیشہ سچھی بات کرتا رہتا ہے اور سچائی کا طلب گار ہوتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے۔‘‘

2۔اچھی بات کہنا:

سورہ بقرہ میں ہے:

﴿وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ [البقرة:83]

’’اور لوگوں کو اچھی بات کہنا۔‘‘

اور سورہ بنی اسرائیل میں ہے:

﴿وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا۝۵۳﴾ [بنی اسرائیل: 53]

’’اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘

 اس آیت سے اشارہ نکلتا ہے کہ اچھی بات معاشرے میں الفت و محبت اور امن و سلامتی کا باعث ہے اور بری بات کے ذریعے شیطان دلوں میں نفرتیں اور کدورتیں ڈالتا ہے۔

اور صحیحین میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ) [صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب حفظ اللسان (6475) ومسلم (47) و ابن ماجه (3971)]

’’اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘

غور فرمائیے! یہ زبان کے متعلق کتنی زبر دست اور جامع نصیحت ہے کہ زبان جب بھی حرکت میں آئے خیر بھلائی اور اچھائی کے لیے حرکت میں آئے اگر اچھائی کا کلمہ کہنے کی توفیق نہیں تو پھر یہ زبان خاموش رہے۔ بری بات کہنے سے خاموشی بہتر ہے۔

3۔ دعوت الی الله:

اللہ رب العزت نے سورہ حم السجدہ میں فرمایا:

﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَی اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۳﴾ (حم السجدة: 33)

’’اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقینًا مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘

اور سورہ آل عمران میں ہے:

﴿وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ [آل عمران: 104]

’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہو جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔‘‘

اور نبیﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:

(لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ) [صحيح البخاري، كتاب المغازی، باب غزوة خبير، رقم: (4210)]

’’(اگر) اللہ تعالی آپ کی (دعوت و تبلیغ) کے ذریعے ایک شخص کو راہ راست پر لے آئے یہ آپ کے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘

 اللہ اکبر! دعوت الی اللہ کس قدر عظیم عمل ہے؟ لیکن آج ہماری زبانیں دعوت تبلیغ کے لیے نہیں چلتیں اور جھوٹ، غیبت، چغلی اور گالی گلوچ میں فرفر چلتی ہیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔

4۔ اللہ کا ذکر کرنا:

سورہ بقرہ میں ہے:

﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ﴾ [البقرة: 152]

’’اس لیے تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو۔‘‘

اور سورۃ الاحزاب میں ہے:

﴿وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [الاحزاب: 35]

’’بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لیے اللہ تعالی نے وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

مزید فرمایا:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ۝۴۱

وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا﴾ [الاحزاب: 41-42]

’’مسلمانو! اللہ تعالی کا ذکر بہت زیادہ کرو اور صبح و شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔‘‘

اور سورۃ الجمعہ میں ہے:

﴿فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ [الجمعة: 10]

’’پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو۔‘‘

یوں تو سارا قرآن ذکر ہے لیکن قرآن کریم کی چند سورتیں چند آیتیں اور چند مقامات انتہائی زیادہ باعث اجر و ثواب اور شاندار ذکر ہیں۔ ان میں سے چند انتہائی اجرو ثواب والے اذکار عرض کرتا ہوں:

آیة الکرسی:

حدیث مبارکہ میں ہے:

’’جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیتہ الکرسی پڑھتا ہے اس کے اور جنت کے درمیان صرف موت حائل ہے۔‘‘[سنن النسائي (30/6) (9928) و مجمع الزوائد (148/2) والصحيحة (972) (697/2)]

دعاء یونس:

جامع الترندی میں حدیث ہے:

دُعَاءُ ذِي النُّونِ. ’’مچھلی والے پیغمبر (حضرت یونس علی) کی دعا:‘‘

﴿ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚ﴾ [الأنبياء:87]

’’یا اللہ تیرے سوا کوئی الہ نہیں تو (ہر نقص، عیب اور شریک سے) پاک ہے میں یقینًا گنہگاروں میں سے ہوں۔‘‘

فرمایا: یہ دعا اس قدر عظیم ہے کہ جو شخص یہ دعا پڑھ کے جو دعا بھی مانگے گا ضرور قبول ہوگی۔[جامع الترمذي، كتاب الدعوات، باب ماجاء في عقد التسبيح باليد (3505) والصحيحة (1744) و صحيح الجامع الصغير (2605).]

سورة الاخلاص:

ارشاد فرمایا:

یہ وہ سورت ہے جس کے بارے امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُتَ الْقُرْآنِ). [صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين و قصرها، باب فضل قراء ة قل هو الله .. (811) والدارمي (3431)]

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ سورت دس پاروں کے برابر ہے۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے:

آپﷺ نے سورہ اخلاص سے محبت کرنے والے سے فرمایا: ’’تیری اس سورت سے محبت تجھے جنت میں لے کر جائے گی۔‘‘ [صحيح البخاري، كتاب الاذان، باب الجهر بقراءة صلاة الفجر (774) والترمذي (2601)]

تیسری حدیث میں ہے: ”تو اس سورت سے محبت کرتا ہے اس وجہ سے اللہ تجھ سے محبت کرتا ہے۔‘‘[صحيح البخاري تعليقا (774)]

قرآن کریم کے علاوہ حدیث اور سنت سے بھی چند قیمتی اذ کار آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں:

(سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ)

دن میں 100 بار سچے دل کے ساتھ پڑھنے سے سمندر کی جھاگ کے برابر گناہ معاف ہوجاتے ہیں[صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب فضل التسبيح (6405)]

(سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ)

10بار پڑھنا بنو اسماعیل میں سے چار غلام آزاد کرنے کے برابر اجر و ثواب الله۔[صحیح مسلم، كتاب الذكر، باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء (2691) والترمذي (3468) و ابن ماجه (3812)]

(لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ)

’’ہر شر سے بچنے کی قوت اور ہر خیر حاصل کرنے کی طاقت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔‘‘

 یہ جنت کا خزانہ اور عرش کے نیچے کا خزانہ ہے۔

(سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ.)

یہ کلمات اللہ کے ہاں تمام کلمات سے افضل اور محبوب ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے ہاں دنیا و مافیھا سے محبوب اور پیارے ہیں[صحیح مسلم، كتاب الذكر والدعاء (2694)]

نیز:

(اَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ. وَالْحَمْدُ لِلَّهِ يَمْلَأُ الْمِيزَانَ) [جامع الترمذي، كتاب الدعوات، باب ماجاء أن دعوة المسلم مستجابة (3383) والصحيحة (64)]

آج لوگ من گھڑت درود و وظائف کرتے ہیں۔ اور بڑے بڑے انوکھے اور عجیب انداز میں ذکر کرتے ہیں یہ سب طریقے اللہ کے قریب کرنے کی بجائے اللہ سے دور کرنے والے ہیں۔

رسول الله ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کا عاجزی وانکساری سے سادہ اور باوقار انداز میں ذکر کیا کرتے تھے۔

امام ابن القیم نے ذکر کے 30 فوائد ذکر فرمائے ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:

شیطان کو بھگانا، رحمن کی رضا، دل سے ہم و غم کا خاتمہ، دل اور چہرے کا منور ہونا، حصول رزق، محبت الہی، قرب الہی، معرفت الہی، گناہوں کی بخشش اور زبان کی حفاظت وغیرہ۔ نماز بھی ذکر کی بہترین شکل ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِىْ﴾ (طه: 14)

’’میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘

5۔ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا:

(أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ) [سنن النسائي كتاب البيعة، باب فضل من تكلم بالحق (4214) حسن.]

چند مثالیں: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وغیره:

امام مالک جنہیں امام دار الحجرة کہا جاتا ہے وہ امام مالک جنہیں تقریبًا 70 سال مدینہ الرسول میں حرم مدنی میں مصلائے رسول پر امامت کرانے کا شرف حاصل ہے۔

وہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ….. فتوی دیا:

(طَلَاقُ الْمُكْرَةِ لَيْسَ بِجَائِز)

’’جس سے اسلحہ کے زور پر ڈرا دھمکا کر طلاق دلوائی جائے وہ طلاق واقع نہیں ہوتی۔ حاکم وقت نے کہا: فتوی تبدیل کرو… حتی کہ تشدد کیا گیا کوڑے برسائے گئے بازو کھینچ کے کندھوں کے جوڑ کھول دیئے گئے، منہ پر سیاہی مل کر گدھے پہ بٹھا کر شہر میں گھمایا گیا، اس حالت میں بھی میراث نبوت کا یہ وارث، مسند رسول کا جانشین دار الہجرہ کا امام یہی کہتا رہا:

(مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي فَأَنَا مَلِكُ بن انس)

’’جو جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ بھی جان لے میں انس کا بیٹا مالک ہوں۔ میں یہ فتوی دیتا ہوں کہ:

(طَلَاقُ المُكْرَةِ لَيْسَ بِجَائِز)

یہ مجھے فتوئی بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں، لیکن میں کہتا ہوں:

هَاتُوا بِكِتَابِ اللَّهِ أَوْ مِنْ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

’’اللہ کی کتاب لاؤ یا پیغمبر کی حدیث لاؤ‘‘…. یہ ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق پکارنا۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ قید و بند کی صعوبتیں اور اذیتیں جھیلتے ہیں، لیکن مسئلہ خلق قرآن میں اپنا موقف نہیں بدلتے۔

ان واقعات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جابر بادشاہ اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا کس قدر عظیم عمل ہے۔

6۔ درود پڑھنا:

صحیح مسلم میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ صَلَّى عَلَىَّ وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا) [صحیح مسلم، کتاب الصلوة، باب الصلاة على النبيﷺ بعد التشهد (408) والترمذي (485)]

’’جس شخص نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘

اور دوسری روایت میں ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ

نے فرمایا:

(مَنْ صَلَّى عَلَىَّ صَلَاةً وَّاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ) [سنن النسائي، كتاب السهو، باب الفضل في الصلاة على النبيﷺ (1297) وصحيح الجامع الصغير (6359) و احمد (102/3)]

’’جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کی دس غلطیاں معاف ہو جاتی ہیں اور اس کے دس درجات بلند ہوتے ہیں‘‘

 جامع ترندی میں ہے: ایک شخص (جناب ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ) نے عرض کیا: اللہ کے رسول (ﷺ) میں آپ پر بکثرت درود پڑھتا ہوں میں اپنی دعاء میں سے کتنا حصہ درود پڑھوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جتنا چاہو۔‘‘ جناب ابی نے کہا: کیا چوتھا حصہ پڑھ لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جتنا چاہو۔ یوں اگر زیادہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: نصف؟ آپ ﷜ نے پھر وہی جواب دیا۔ میں نے کہا: دوثلث پڑھوں؟ آپﷺ نے پھر وہی جواب دیا تو میں نے عرض کیا: میں پھر دعا کی بجائے درود ہی پڑھوں گا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تو تیرے سارے غم دور کر دیئے جائیں گے اور تیرے گناہ بخش دیئے جائیں گئے۔‘‘[جامع الترمذي، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع (2457) والحاكم (421/2) حديث حسن]

اور سورۃ الاحزاب میں ہے:

﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ [الاحزاب: 56]

’’اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔‘‘

لیکن یاد رہے درود وہ پڑھا جائے جو رسول اللہ ﷺ نے سکھلایا۔ آج لوگ  خود ساختہ درود (لکھی، ہزاری تاج اور ماہی وغیرہ) پڑھتے ہیں لیکن یاد رکھئے ساری دنیا مل کر درود جوڑے اس درود کا مقابلہ نہیں جو پیغمبروں کے امام اور نبیوں کے سردار نے بتلایا ہے۔

لیکن آج اکثر لوگ رسول اللہﷺ کا بتلایا ہوا ورود نظر انداز کر رہے ہیں اور لوگوں کے جوڑے ہوئے من گھڑت درود لکھتے اور پڑھتے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جو بڑے ماہر عربی دان تھے انہوں نے خود درود گھڑنے کی جسارت نہیں کی تھی بلکہ جب یہ آیت اتری کہ پیغمبر ﷺ پر درود پڑھو تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ اللہ تعالی نے ہمیں آپ پر درود پڑھنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں تو آپﷺ نے فرمایا:

(قوْلُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ الخ.) [صحيح البخاري، كتاب الدعوات باب الصلاة على النبيﷺ (6358) (3370) و مسلم (401) و ابوداؤد (976)]

7۔ مختلف موقعوں کی دعائیں اور اذکار پڑھنا:

ان کی تفصیل آنکھ اور کان کے درست استعمال میں گزر چکی ہے مزید برآں سونے جاگنے دخول و خروج مجامعت کھانے پینے تعزیت عبادت اور کفارہ مجلس وغیرہ شامل کر لیں۔

زبان کا غلط اور برا استعمال

1۔ اللہ پر جھوٹ باندھنا:

الله رب العزت نے سورۃ الانعام میں فرمایا:

﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ؕ وَ لَوْ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ بَاسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝۹۳﴾

[الأنعام:93]

’’اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالی پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی لاتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔ آج تم کو ذلت کی سزادی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالی کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے۔‘‘

 اور اس کے کئی انداز ہیں جن میں سے تین انداز اس آیت میں بھی مذکور ہیں اور ان کا خطرناک انجام بھی بتلایا گیا ہے۔ آج لوگ بڑی جرأت و جسارت اور دیدہ دلیری سے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں جبکہ یہ خطرناک جرم ہے جس سے بندہ مسلمان نہیں رہتا۔ اس قسم کے کئی جھوٹ آج پوسٹروں پہ لکھے ہوئے ہیں اور نادان لوگوں نے انہیں گھروں اور دکانوں میں آویزاں کر رکھا ہے اسی طرح کئی نادان لوگ خواہ مخواہ مسائل میں بحث کرتے ہیں اور بات بات پر کہہ دیتے ہیں اللہ نے اس طرح فرمایا ہے اللہ نے اس طرح حکم دیا ہے اور کئی لوگ نعتوں اور نظموں میں کئی جھوٹی باتیں اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں مثلا: (رب نے جبریل نوں کیہا، جلدی نال جا، جا کے سوہنے نوں بلا، عرش سجدا ای نہیں) استغفر اللہ۔ یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو آج منبر و محراب میں بولا جارہا ہے۔

2۔ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا:

نبی ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَّؤَا مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ)[صحيح البخاري، كتاب العلم، باب اثم من كذب على النبيﷺ (107) و احمد (8784)]

آج یہ خطرناک گناہ بے دین لوگوں میں اور بدعتی پیشواؤں میں عام ہو چکا ہے۔ جو منہ میں آیا کہہ دیا اور اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کر دی۔ جبکہ آپ ﷺ فرما رہے ہیں: ’’جس نے جانتے بوجھتے مجھ پر جھوٹ باندھا بات بتا کر میری طرف منسوب کردی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘ اس لیے کسی مستند کتاب کے حوالے کے بغیر کوئی بات رسول اللہﷺ کی طرف منسوب نہیں کرنی چاہیے۔

3۔ اللہ کا اور اس کی آیتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا مذاق اڑاتا:

سورہ توبہ میں ہے:

﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ۝۶۵لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ ؕ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىِٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآىِٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ﴾ [التوبة: 65-66]

’’اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنس مذاق کے لیے رہ گئے ہیں۔ تم بہانے نہ بناؤ۔ یقینًا تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہو گئے اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گئے۔‘‘

آج کئی لوگ خود بھی اللہ اس کے رسول اور اس کے دین کا مذاق اُڑاتے ہیں اور مذاق اڑانے والے بھانڈ میراثیوں کی چھترول کرنے کی بجائے ان پہ نوٹ نچھاور کرتے ہیں اور ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ہنستے مسکراتے اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کی گستاخی والی بات کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

4۔ جھوٹ بولنا:

جامع ترندی میں حدیث ہے: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(إِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَكُ مِيلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِهِ).

’’جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہو جاتا ہے۔‘‘[جامع الترمذي، كتاب البر والصلة، باب ماجاء في الصلاة والكذب (1972)]

اور دوسری حدیث میں ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’تم جھوٹ سے کنارہ کش رہو اس لیے کہ جھوٹ نافرمانیوں کی جانب دھکیلتا ہے اور نافرمانی دوزخ میں پہنچاتی ہے۔ ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا طلب گار رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھا جاتا ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب البر والصلة، باب قبح الكذب و حسن الصلاة و فضلہ (2607، 2637)]

5۔ جھوٹ بولنا منافقون کی علامت ہے:

سورہ بقرہ میں ہے:

﴿ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ۝۱۰﴾ [البقرة: 10]

’’ان کے دلوں میں بیماری تھی اللہ تعالی نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘

آج جھوٹ بولنا مشغلہ بن چکا ہے کہیں ناولوں افسانوں کا جھوٹ، کہیں فلموں ڈراموں کا جھوٹ، کہیں لطیفوں شگوفوں کا جھوٹ، کہیں اپریل فول کا جھوٹ اور کہیں مذاق اور خوش طبعی میں جھوٹ، بس ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ پھیلا ہوا ہے، مزدوری میں جھوٹ، صنعت میں جھوٹ، تجارت میں جھوٹ، شادی بیاہ میں جھوٹے، خوشی غمی میں جھوٹ، اور رہی سہی کسر موبائل نے نکال دی ہے دکان پہ بیٹھا بات کر رہا ہے لیکن کہتا ہے میں دکان پر نہیں، فیکٹری اور کارخانے کے دفتر سے بول رہا ہے لیکن کہتا ہے میں دفتر میں نہیں، گھر میں بیٹھا بول رہا ہے لیکن کہتا ہے میں گھر میں نہیں، جھوٹ ہی جھوٹ، یہ ایمان اور اسلام نہیں نفاق اور منافقت ہے۔

6۔ چغلی اور غیبت کرنا:

صحیحین میں ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبیﷺ کی موجودگی میں ایک دوسرے شخص کی تعریف کی۔ آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا:

(وَيْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ أَخِيكَ)

’’تیرے لیے ہلاکت ہو تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی۔‘‘

آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کی تعریف ضرور کرنا چاہتا ہے تو وہ کہے کہ فلاں کے بارے میں میرا یہ خیال ہے۔ ورنہ اللہ تعالی اس کے بارے میں حقیقت سے آگاہ ہے (یہ بھی اس صورت میں کہے) جب کہ وہ حقیقت میں اسے ایسا پائے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کسی کو پاکیزہ قرار نہیں دے سکتے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب ماجاء في قول الرجل، ويلك، رقم: 6162 و صحیح مسلم، رقم: 7501]

اور دوسری حدیث میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم قیامت کے دن تمام لوگوں سے زیادہ برا اس شخص کو پاؤ گے جو دوغلا ہے۔ ان لوگوں کے پاس کچھ بات کہتا ہے اور دوسروں کے پاس کچھ کہتا ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب ما قيل في ذي الوجهين، رقم: 6058 و مسلم، رقم: (291)]

اور یہی بات سورہ حجرات میں اللہ یوں بیان فرماتے ہیں:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ؗ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ﴾ [الحجرات:12]

’’اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو۔ یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غبیت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تو بہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘

7۔ ایک دوسرے کا تمسخر اڑانا اور برے لقب دینا:

سورہ حجرات میں ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤی اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۱۱﴾ [الحجرات:11]

’’اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان لا چکنے کے بعد اُلٹے سلٹے نام بہت برا کام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔‘‘

اور سنن ابی داؤد میں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے (آپﷺ کی بیوی) صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں نبی ﷺ سے کہا کہ وہ ایسی ایسی ہے یعنی وہ چھوٹے قد والی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

(لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً لَوْ مُزِجَ بِهَا الْبَحْرُ لَمَزَجَتْهُ) [ابوداؤد، الأدب، باب (4875) والترمذي (2502)]

’’اے عائشہ! تو ایسا کلمہ زبان پر لائی ہے کہ اگر اسے سمندر کے برابر پانی میں ملایا جائے تو وہ اس پر غالب آ جائے (اور اسے کڑوا کر دے)۔‘‘

تمسخر اڑانا اس لیے خطرناک گناہ ہے کہ اس میں اپنی بڑائی اور مسلمان بھائی کی تحقیر ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص اس کا تمسخر اور مذاق نہیں اڑاتا جس کی محبت اور عزت اس کے دل میں موجود ہو کسی مسلمان کو کافر منافق یا یہودی کہہ کر مخاطب کرنا بھی اس میں شامل ہے اور خطرناک جرم ہے۔

8۔ کسی کی بے عزتی کرنا:

سود کے ستر سے زیادہ دروازے ہیں اور سب سے بڑے دروازے سے بھی بڑا گناہ ہے مسلمان بھائی کی بے عزتی کرنا۔

9۔ فحش کلامی کرنا:

صحیح بخاری میں ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نہ بخش گو تھے نہ لعنت کرنے والے تھے اور نہ ہی گالی گلوچ کرتے تھے۔ آپﷺ ناراضگی کے وقت فرمایا کرتے:

’’اسے کیا ہے؟ اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب لم يكن النبي ﷺ فاحشا ولا متفاحشا۔ رقم: 6031.]

10۔ گالی گلوچ بھی اسی میں شامل ہے:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب خوف المؤمن من أن يحبط عمله وهو لا يشعر (44، 48، 60)  وابن ماجه (69 – 3939) ومسلم (64)]