زکاۃ خوش دلی اور ثواب کی نیت سے ادا کرنی چاہیے

349۔سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((مَنْ أَدَّى زَكَاةَ مَالِهِ طَيِّبَ النَّفْسِ بِهَا يُرِيدُ وَجْهَ اللهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، لَمْ يُغَيِّبْ شَيْئًا مِنْ مَالِهِ، وَأَقَامَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ أَدَّى الزَّكَاةَ، فَتَعَدَّى عَلَيْهِ الْحَقُّ، فَأَخَذَ سِلَاحَهُ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ، فَهُوَ شَهِيدٌ)) (أخرجه ابن خزيمة:2336، وابن حبّان:  3193، والحاكم:404/1)

’’جس شخص نے خوش دلی سے اپنے مال کی زکاۃ ادا کی اور وہ اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور آخرت کے ثواب کا طلب گار تھا، نیز زکاۃ کے ڈر سے مال کو چھپایا نہیں۔ نماز قائم کی اور پابندی سے زکاۃ بھی ادا کی، پھر اس کے مال وغیرہ پر ڈاکا ڈالا گیا تو اس نے اپنے دفاع کے لیے اسلحہ وغیرہ اٹھایا اورلڑا، پھر قتل ہو گیا تو یہ شخص شہید ہے۔‘‘

توضیح و فوائد:  مطلب یہ ہے کہ جو آدمی خوش ہو کر زکاة دیتا ہے اور اس کا مقصد بھی اللہ کی خوشنودی اور آخرت کے ثواب کا حصول ہے، ریا کاری یا غیر اللہ کو خوش کرنا نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں شرک خفی کا ارتکاب نہ کیا ہو تو ایسا شخص اگر اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا تو وہ شہید ہوگا۔

350۔عبید بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں جو صحابی تھے کہ رسول اللہﷺ نے حجتہ الودع کے موقع پر فرمایا:

أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ الْمُصَلُونَ مَنْ يُقِيمُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْهِ، وَيَصُومُ رَمَضَانَ، وَيَحْتَسِبُ صَوْمَهُ، يَرَى أَنَّهُ عَلَيْهِ حَقٌّ، وَيُعْطِي زَكَاةَ مَالِهِ يَحْتَسِبُهَا وَيَجْتَنِبُ الْكَبَائِرَ الَّتِي نَهَى اللهُ عَنْهَا))  (أَخْرَجَةُ الحاكم:59/1،259/4، والبيهقي في السنن« 408/3، 186/10)

’’(لوگو) سن لو! اللہ تعالی کے دوست نمازی ہیں جو فرض شدہ پانچ نمازیں قائم کرتے ہیں، رمضان کے روزے ثواب کی نیت سے رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان پر یہ حق ہے۔ اور ثواب کی نیت سے اپنے مال کی زکاۃ ادا کرتے ہیں اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔‘‘

351۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے انھیں زکاۃ کے احکام لکھ کر دیے جو رسول اللہﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا):

((وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:1450)

’’صدقے کے خوف سے متفرق (الگ الگ مال کو اکٹھا نہ کیا جائے اور اکٹھے مال کو الگ الگ نہ کیا جائے۔‘‘

 توضیح و فوائد:  مال کو اکٹھا اور الگ الگ کرنے کی کئی صورتیں ہیں:

مثال کے طور پر تین آدمی ہیں۔ تینوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں ہیں، یہ تینوں اپنی اپنی بکریوں کو اکٹھا کر دیں (جبکہ حقیقت میں وہ الگ الگ ہیں) تاکہ زکاة میں ایک ہی بکری دینی پڑے۔ الگ الگ ہونے کی صورت میں ہر ایک کو ایک ایک بکری دینی پڑتی اس حیلے سے دو بکریوں کی بچت ہو گئی) اس طرح دو شریک ہوں ان کی دو سو بکریاں ہوں، اس تعداد میں تین بکریاں زکاۃ میں دینی پڑتی ہیں، چنانچہ وہ دونوں اپنی اکٹھی بکریوں کو الگ الگ کر لیں، تاکہ ہر ایک کو صرف ایک ایک بکری دینی پڑے، اس صورت میں ایک بکری کی بچت ہو جائے گی۔ (فتح الباري: 396/3)

352۔ سیدنا عبد اللہ بن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

((ثَلَاثٌ مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ عَبَدَ اللهَ وَحْدَهُ، وَأَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَعْطَى زَكَاةَ مَالِهِ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ رَافِدَةً عَلَيْهِ كُلَّ عَامٍ، وَلَا يُعْطِي الْهَرِمَةَ وَلَا الدَّرِنَةَ وَلَا الْمَرِيضَةَ وَلَا الشَّرَطَ اللَّئِيمَةَ، وَلٰكِنْ مِنْ وَسَطِ أَمْوَالِكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَسْأَلُكُمْ خَيْرَهُ، وَلَمْ يَأْمُرُكُمْ بِشَرِّهِ)) (أَخْرَجَهُ أبو دَاوُد: 1582)

’’جس شخص نے تین کام کیسے اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔ جس نے ایک اللہ کی عبادت کی اور اقرار کیا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اور خوشی خوشی ہر سال اپنے مال کی زکاۃ دی، کوئی بوڑھا، خارش زدہ بیمار یا روی قسم کا جانور زکاۃ میں نہ دیا بلکہ متوسط مال سے دیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم سے عمدہ مال کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ تمھیں برا مال دینے کا حکم دیا ہے۔‘‘

سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

((ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أليمٌ))

’’تین قسم کے لوگ ہیں، اللہ تعالی ان سے روز قیامت گفتگو نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا اور نہ انھیں (گناہوں سے) پاک ہی کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ “

رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ تین دفعہ فرمائے۔

سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: نا کام ہو گئے اور نقصان سے دوچار ہوئے، اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا:

((الْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:106)

’’اپنی شلوار، پینٹ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے قسم سامان کو فروخت کرنے والا۔‘‘

 توضیح و فوائد:  اس حدیث کا باب سے تعلق یوں ہے کہ زکاۃ کا مقصد اللہ کی رضا ہو، لوگوں پر احسان کر کے اسے جتلانا نہ ہو۔ اس طرح فائدے کے بجائے اللہ کا غضب نازل ہوگا۔

……………..