’’زَرَعتُ‘‘ کہنا منع ہے۔

662۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سیاہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَّا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: زَرَعْتُ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: حَرَثْتُ )) (أخرجه ابن حبان:5723، والبزار: 1289، والبيهقي: 138/6، وأبو نعيم في الحلية: 267/8.)

’’تم میں سے کوئی ایک بھی زرعت (میں نے اگایا ) قطعا نہ کہے بلکہ حرمت کہے میں نے بیج ہو یا یا ہل وغیرہ چلایا)۔‘‘

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ کیا آپ نے اللہ تبارک و تعالی کا (یہ) فرمان نہیں سنا:

﴿أَفَرَأَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُونَ وَأَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ﴾ (الواقعة:65 :63، 64)

’’بھلا بتلاؤ تو جو تم ہوتے ہو! کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم ہی اگانے والے ہیں۔‘‘

توضیح و فوائد: امام قرطبی نے اپنی تفسیر (218/17) میں لکھتے ہیں: اللہ تعالی نے حرث (بونے) کی نسبت ان کی طرف اور زرع (اگانے) کی نسبت اپنی طرف کی ہے کیونکہ بیج بونا ان کا فعل ہے اور یہ ان کے اختیار سے ہوتا ہے جبکہ کھیتی اگانا اللہ تعالی کا کام ہے۔ وہ اپنے اختیار اور مرضی سے اسے اگاتا ہے نہ کہ لوگوں کے اختیار سے . لہٰذا مذکورہ حدیث میں نہی، ارشاد و ادب کے معنی میں ہے نہ کہ تحریم و ایجاب کے لیے۔

حافظ ابن حجر نے فتح الباری (514) میں (مَا مِن مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا ….) کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس حدیث میں آدمی کی طرف زرع کی نسبت کرنے کا جواز ہے، اس سے منع کی ایک غیر قومی حدیث مروی ہے جسے ابن ابی حاتم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا نقل کیا ہے۔

درست بات یہ ہے کہ زرع کی نسبت آدمی کی طرف کرنا جائز ہے، یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ زمین میں ہل چلانا اور بیج بونا تو انسان کا عمل ہوتا ہے لیکن اس سے (پھل پھول) نکالنا اور آباد کرنا یہ اللہ وحدہ لاشریک کا فعل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو کونپل کے سیدھا کھڑا ہونے اور کٹائی سے پہلے ہی اسے خشک کر دیتا لیکن جس نے زرعت یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہا کہ اس نے اسے عدم سے وجود بخشا اور بنجر ہونے کے بعد اسے آباد اور زندہ کیا تو اس نے کفر کیا اور ایسا عقیدہ رکھنا سراسر شرک ہے۔