ذکر الہی کی ترغیب

الحمد لله العلي الأعلى، له الأسماء الحسنى والصفات العليا. هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم، أحمده سبحانه وأشكره على ما أولاه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه والتابعين لهم على الهدى۔
تمام حمد و ثنا کا سزاوار اللہ ہے جو سب سے ارفع و اعلیٰ اور بلند و بالا ہے اس کے بہترین نام اور اعلی ترین صفات ہیں وہی اول و آخر اور ظاہر و باطن ہے اور وہی ہر چیز کا جاننے والا ہے میں اس کے تمام احسانات و انعامات پر اس کی حمد و ثنا اور شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں، اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر آپ کے آل واصحاب پر اور ان کے پیروان حق پر بے شمار درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اپنے دلوں میں اللہ کا تقویٰ پیدا کرو اور اس کے ذکر و شکر میں مصروف رہو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اسی کا حکم دیا ہے اور اس پر اجر و ثواب اور بہت بڑے انعام کا وعدہ فرمایا ہے ارشاد ہے:
﴿فَاذْكُرُوْنِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلا تَكْفُرُوْنَ﴾ (البقره: 152)
’’تم مجھے یاد کرتے رہو میں تمہیں یاد کرتار ہوں گا اور میرا احسان مانتے رہو اور ناشکری نہ کرو۔‘‘
اسی طرح اپنے ان بندوں کی جو تمام حالات میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں، تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُوْدًا وَعَلٰی جُنُوْبِهِمْ﴾ (آل عمران: 191)
’’جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یعنی وہ بندے جو رات اور دن میں، سمندر میں ہوں یا زمین پر، سفر میں ہوں یا حضر میں، غربت میں ہوں یا توانگری میں، صحت میں ہوں یا بیماری میں اور تنہائی میں ہوں یا مجلس میں ہر حال میں اللہ تعالی کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
برادران اسلام! اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بکثرت اور مداومت کے ساتھ اپنے ذکر کا حکم دیا ہے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا وَسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا﴾ (الاحزاب: 41،42)
’’اے اہل ایمان اللہ کا بہت ذکر کیا کرو اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرتے رہو۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا: ﴿وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيْرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالإِبْكَارِ﴾ (آل عمران:21)
’’اپنے پروردگار کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔‘‘
نیز حدیث قدسی ہے کہ اللہ عزو جل نے فرمایا:
(أنا مع مع عبدي إذا هو ذكرني وتحركت بي شفتاه) [مسند احمد: 540/2 (10975) و صحیح بخاری: کتاب التوحید، باب قول الله: ’’لا تحرك به لسانك‘‘]
’’میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے دونوں ہونٹ میرے نام کے ساتھ ہلتے ہیں۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(ما عمل ابن آدم عملا أنجى له من عذاب الله من ذكر الله) [مسند احمد: 239/ 5 (22140) و جامع ترمذی ابواب الدعوات، باب:6 (3437) و سنن ابن ماجه، کتاب الآداب، باب فضل الذکر (3835) و موطا مالک کتاب القرآن (24)]
قالوا: يا رسول الله! ولا الجهاد في سبيل الله، قَالَ: ولا الجهاد في سبيل الله، إلا أن تضرب بسيفك حتى ينقطع، ثم تضرب به حتى ينقطع، ثُمَّ تضرب به حتى ينقطع)
’’اللہ کے عذاب سے بچانے کے لئے انسان کے پاس ذکر الہی سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ تم اپنی تلوار سے دشمن کو مارو یہاں تک کہ تلوار ٹوٹ جائے پھر مار و پھر ٹوٹ جائے پھر مار و پھر ٹوٹ جائے۔‘‘
آپﷺ نے مزید فرمایا:
(إذا مررتم برياض الجنة فارتعوا، قيل: وَمَا رياض الجنة؟ قال: حلق الذكر) [جامع ترمذی: ابواب الدعوات، باب 83 (3510) و مسند احمد:150/3 (12525)]
’’جب تم جنت کی کیاریوں سے گزرو تو چر لیا کرو عرض کیا گیا کہ جنت کی کیاریوں سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ذکر کی مجلسیں۔‘‘
ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
’’ألا أنبئكم بخير أعمالكم، وأرضاها عند مليككم، وأرفعها في درجاتكم، وخير لكم من إعطاء الذهب والورق، ومن أن تلقوا عدوكم فتضربوا أعناقهم ويضربوا أعناقكم؟ قالوا: وما ذاك يا رسول الله، قال: ذكر الله) [سنن ابن ماجه، کتاب الادب، باب فضل الذکر (3790) و موطا مالک، کتاب القرآن باب ما جاء فی ذکر الله (24) و مسند احمد:195/5 (21761)]
’’کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتا دوں جو تمہارے اعمال میں سب سے اچھا تمہارے مالک حقیقی کے نزدیک سب سے عمدہ تمہارے درجات میں سب سے اعلیٰ وارفع اور تمہارے لئے سونا چاندی خرچ کرنے سے افضل ہے اور اس بات سے بھی بہتر ہے کہ دشمنوں سے تمہاری مد بھیٹر ہو جائے اور تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردن ماریں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اوہ بہتر عمل کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر۔‘‘
ایک دوسری حدیث قدسی میں آپﷺ نے فرمایا:
’’يقول الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملأ ذكرته في ملأْ خير منه، وإن تقرب إلي شبراً تقربت إليه ذراعاً، وإن تقرب إلى ذِرَاعًا تقربت إليه باعا، وإن أتاني يمشي أتيته هرولة) [صحیح بخاری، کتاب التوحيد، باب قول الله: ويحذركم الله نفسه (7405) و صحیح مسلم، کتاب التوبہ، باب فی الحض علی التوبة ( 2675)]
’’اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میرا بندے میرے بارے میں جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے مطابق ہوا کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ مجھے اپنے جی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی محفل میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اس سے اچھی محفل میں کرتا ہوں اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک گز قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری جانب چل کر آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(ما جلس قوم مجلسا يذكرون الله فيه إلا حفتهم الملائكة . وغشيتهم الرحمة، وذكرهم الله فيمن عنده) [یہ حدیث ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ سنن ابی داود کتاب الصلاة باب في ثواب قراءة القرآن (1355) و مسند احمد: 49/3 (11463) و جامع ترمذی: ابواب القراءات، باب 12 (2945) و سنن ابن ماجه مقدمه باب فضل العلماء (225) میں مروی ہے۔]
’’کوئی جماعت کسی مجلس میں اللہ کا ذکر کرنے کے لئے نہیں بیٹھتی مگر رحمت کے فرشتے اسے گھیر لیتے ہیں اللہ کی رحمتیں اسے ڈھک لیتی ہیں اور اللہ تعالی اس جماعت کا ذکر ان فرشتوں کے درمیان کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں۔‘‘
برادران اسلام! سب سے افضل ذکر کتاب اللہ کی تلاوت ہے اللہ تعالی نے اس پر بہت زیادہ اجر و ثواب مقرر فرمایا ہے اور خبر دی ہے کہ قرآن کریم کے ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔[الترغیب والترہیب:342/2]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی کچھ مخصوص اذکار و ادعیہ کی ترغیب دی ہے آپ کی اقتدا نیز طلب ثواب کی خاطر ان پر عمل کرنا چاہئے، چنانچہ آپ کا ارشاد ہے کہ جس نے دس مرتبہ یہ كہا:
(لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد . وهو على كل شيء قدير)
’’یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اس کی بادشاہت ہے اور اس کے لئے تمام تعریف ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے‘‘
اس نے گویا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے چار گردنیں آزاد کیں۔[الترغیب والترہیب 418/2]
نیز آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس (33) مرتبہ ’’الحمد لله‘‘ تینتیس (33) مرتبہ ’’سبحان الله‘‘ تینتیس مرتبہ ’’الله أكبر‘‘ اور آخر میں ایک بار ’’لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدیر‘‘ کہے (یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اس کی بادشاہت ہے اور اس کے لئے تمام تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے) تو اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔[الترغيب و الترهيب: 451/2]
اسی طرح حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو تعلیم دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:
(قل: لا حول ولا قوة إلا بالله، فإنها كنز من كنوز الجنة) [صحیح بخاري: کتاب التوحيد، باب قول الله: ﴿و كان الله سَمِيعًا بَصِيرًا﴾ (7386) وصحيح مسلم: الكتاب الذکر، باب استحباب خفض الصوت بالذكر…. (2704)]
یعنی ’’لا حول ولا قوة إلا بالله‘‘ کا وظیفہ کرو (جس کے معنی یہ ہیں کہ نہ حرکت ہے نہ قوت ہے مگر اللہ کی
مشیت سے) آپﷺ نے فرمایا کہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا:
(كلمتان حبيبتان إلى الرحمن، خفيفتان على اللسان، ثقيلتان في الميزان، سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم[صحیح بخاری: کتاب التوحيد، باب قول الله: ﴿ونضع الموازين القسط﴾ (7563) و صحيح مسلم: كتاب الذكر والدعاء، باب فضل التهليل والتسبيح (2694)]
’’دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ رحمن کے نزدیک بڑے پیارے زبان پر بہت آسان اور عمل کے ترازو میں نہایت ہی گراں بار ہیں اور وہ ہیں ’’سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم‘‘
برادران اسلام! ذکر الہی دلوں کے انشراح و اطمینان کا باعث ہے کیونکہ دلوں کے اندر کی کثرت غصہ اور بے اطمینانی شیطان کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور ذکر الہی سے شیطان دور بھاگتا ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(إذا ذكر الله العبد يبتعد عنه الشيطان)
’’بندہ جب اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان اس سے دور بھاگ جاتا ہے۔‘‘
نیز اللہ رب العالمین نے فرمایا:
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا﴾ (طہ: 124)
’’جس نے ہمارے ذکر سے اعراض کیا اس کے لئے تنگ زندگی ہے۔‘‘
ایک دوسری جگہ فرمایا:
﴿أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28)
’’سن لو! اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔‘‘
اللہ کے بندو! اللہ کے ذکر سے اعراض و غفلت منافقین کی خصلت ہے، جس پر اللہ تعالی نے ان کی مذمت فرمائی ہے۔ ارشاد ہے:
﴿وإنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلاةِ قَامُوْا كُسَالٰى يُرَاءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللهَ إِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء:142)
’’منافقین اللہ سے دھوکہ بازی کرتے ہیں حالانکہ اللہ ان کے دھو کہ کو انہیں پر الٹ دیتا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کابل ہو کر اور صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے اور اللہ کا بہت ہی کم ذکر کرتے ہیں۔‘‘
یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جن کے دل اللہ کے ذکر سے غافل اور سخت ہو گئے ہوں فرمایا:
﴿فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللهِ﴾ (الزمر:22)
’’تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جن کے دل اللہ کی یاد اور ذکر سے سخت ہو رہے ہیں۔‘‘
نیز اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کی تنبیہ فرمائی ہے کہ کہیں آپ بھی ذکر الہی سے غفلت برتنے والوں میں سے نہ ہو جائیں:
﴿وَلا تَكُنْ مِّنَ الْغَافِلِينَ﴾ (الاعراف: 205)
’’دیکھنا ذکر الہی سے غظت کرنے والوں میں سے نہ ہو جانا۔‘‘
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث کے اندر اس شخص کی مذمت فرمائی ہے جو کسی مجلس میں بیٹھے اور اللہ تعالی کو یاد کئے بغیر مجلس سے اٹھ کھڑا ہو۔ فرمایا:
(ما من قوم يقومون من مجلس لا يذكرون الله فيه، إلا قاموا عن مثل جيفة حمار، وكان عليهم حسرة) [سنن ابی داود: کتاب الادب، باب كراهية أن يقوم الرجل من مجلسه…. (4855) ومسند احمد: 224/2 (7115)]
’’جو جماعت کسی مجلس سے اللہ کا ذکر کئے بغیر اٹھ کھڑی ہو وہ گویا کسی گدھے کی سڑی ہوئی لاش پر اٹھی ہے، اور یہ مجلس (قیامت کے دن) اس کے لئے باعث حسرت و ندامت ہوگی۔‘‘
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور کثرت سے اس کا ذکر کرو اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی جانب سے مغفرت اور اجر عظیم کی بشارت دی ہے فرمایا:
﴿والذَّاكِرِيْنَ اللهَ كَثِيْرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَّأَجْرًا عَظِيْمًا﴾ (الاحزاب: 35)
’’اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتوں کے لئے اللہ نے بخشش و مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘
دینی بھائیو! ذکر الہی اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا حکم دیا اور اس سلسلہ میں غفلت کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلا تَكُنْ مِّنَ الْغَافِلِينَ﴾ (الاعراف: 205)
’’اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو اور ذکر الہی سے غفلت برتنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔