زکوۃ وصول کرنے والوں کے لئے ہدیہ قبول کرنا

ارشاد ربائی ہے: ﴿وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ ؕ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰی كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ (سورة آل عمرن 161)
ترجمہ: ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہو جائے، ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا، پھر ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے۔
عَنْ أَبِى حُمَيْدٍ السَّاعِدِىِّ قَالَ اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- رَجُلاً مِنَ الأَزْدِ عَلَى صَدَقَاتِ بَنِى سُلَيْمٍ يُدْعَى ابْنَ الأُتْبِيَّةِ فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ قَالَ هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « فَهَلاَّ جَلَسْتَ فِى بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ». ثُمَّ خَطَبَنَا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ « أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّى أَسْتَعْمِلُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ عَلَى الْعَمَلِ مِمَّا وَلاَّنِى اللَّهُ فَيَأْتِى فَيَقُولُ هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِى. أَفَلاَ جَلَسَ فِى بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا وَاللَّهِ لاَ يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ إِلاَّ لَقِىَ اللَّهَ تَعَالَى يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَلأَعْرِفَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ لَقِىَ اللَّهَ يَحْمِلُ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةً تَيْعِرُ ». ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رُئِىَ بَيَاضُ إِبْطَيْهِ ثُمَّ قَالَ « اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ». بَصُرَ عَيْنِى وَسَمِعَ أُذُنِى.
(رواه مسلم)
(صحيح مسلم: كتاب الإمارة، باب تحريم هدايا العمال.)
ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ اسد کے ایک آدمی کو (جسے ابن لتبيه کہا جاتا ہے) زکوۃ کی وصولی پر مامور کیا جب وہ زکاۃ کی وصولی کے بعد آیا تو کہنے لگا یہ زکاۃ کا مال ہے جو آپ کے لئے ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے آپ نے فرمایا تو اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھا ہوتا تو تیرا ہدیہ تیرے پاس آجاتا اگر تو سچا ہے پھر آپ ﷺ نے خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد بیان فرمایا، اما بعد! میں تم میں سے کسی آدمی کو ان کاموں پر عامل مقرر کرتا ہوں، جو اللہ تعالی نے میرے سپرد کئے ہیں۔ پس وہ میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے، یہ تمہارا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے لیکن وہ اپنے والدین کے گھر میں کیوں نہ بیٹھارہا یہاں تک کہ اس کے پاس اس کا ہدیہ آتا اگر وہ سچا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی قسم اتم میں سے جو شخص بھی اس میں سے بغیر حق کے کچھ لے گا تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس (ناحق وصول کی ہوئی چیز) کو اٹھائے ہوگا، پس میں تم میں سے اس شخص کو ضرور پہچان لوں گا، جو اللہ تعالی کو اس حال میں ملے گا کہ اس نے اونٹ اٹھایا ہوا ہو گا جو ڈکار رہا ہو گا، یا گائے اٹھائے ہوگا جو چیخ رہی ہوگی یا بکری ہوگی جو ممیاتی ہوگی۔ پھر آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ بلند کئے یہاں تک کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی۔ آپ نے فرمارہے تھے اے اللہ ! یقیناً میں نے پہنچا دیا۔ ابوحمید کہتے ہیں کہ میری آنکھ نے یہ دیکھا اور میرے کان نے یہ سنا۔
عَنْ عَدِىِّ بْنِ عَمِيرَةَ الْكِنْدِىِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلٍ فَكَتَمَنَا مِخْيَطًا فَمَا فَوْقَهُ كَانَ غُلُولاً يَأْتِى بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ». قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ أَسْوَدُ مِنَ الأَنْصَارِ كَأَنِّى أَنْظُرُ إِلَيْهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْبَلْ عَنِّى عَمَلَكَ قَالَ « وَمَا لَكَ ». قَالَ سَمِعْتُكَ تَقُولُ كَذَا وَكَذَا. قَالَ « وَأَنَا أَقُولُهُ الآنَ مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلٍ فَلْيَجِئْ بِقَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ فَمَا أُوتِىَ مِنْهُ أَخَذَ وَمَا نُهِىَ عَنْهُ انْتَهَى (رواه مسلم)
(صحيح مسلم كتاب الإمارة، باب تحريم هدايا العمال.)
عدی بن عمیرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناء آپ فرما رہے تھے کہ تم میں سے جسے ہم کسی کام پر عامل (اہلکار) مقرر کریں، تو وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بڑی کوئی چیز چھپائے تو وہ خیانت ہوگی، اسے لے کر ہی وہ قیامت کے دن بارگاہ الہی میں حاضر ہوگا۔ یہ سن کر قبیلہ انصار کا ایک کالا شخص کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے جس کام پر مامورکیا وہ مجھ سے واپس لے لیں، آپ ﷺ نے پوچھا کیوں تجھے کیا ہو گیا ؟ تو اس نے کہا میں نے آپ کو اس اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اب بھی کہتا ہوں کہ تم میں سے ہم جسے کسی کام پر عامل مقرر کریں، تو وہ تھوڑا ہو یا زیادہ (جتنا بھی مال ہو) لا کر دے، پس اس میں سے جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے روک دیا جائے رک جائے۔
تشریح:
زکوۃ کی وصولی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ آپ ﷺ نے اس بارے میں تنبیہ فرمائی ہے یا ایک قومی امانت ہے اس میں خیانت بہت بڑا جرم ہے جس کی سزا قیامت کے دن انسان کو بھگتنی ہوگی، نیز یہ فرمایا کہ زکاۃ کے جمع کرتے وقت اگر کسی نے ایک سوئی بھی چھپالی ہے تو وہ اسے لے کر قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہوگا۔ اور زکوۃ کی وصولی کے وقت ہدیہ بھی لینے سے منع فرمایا ہے۔ اتنی ساری وعید اور سنگینی کے باوجود بھی لوگ اس معاملے میں کافی سستی سے کام لیتے ہیں اور اس میں خرد برد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کا محنتانہ ادارے یا اسکول کی جانب سے متعین ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں زکوۃ کی وصولی میں خرد برد اور ہیرا پھیری کرنے سے بچائے اور امانت داری کے ساتھ زکوۃ وصول کرنے کی توفیق بخشے۔
فوائد:
٭ زکوۃ کے مال میں سے کسی چیز کا چھپانا جرم عظیم ہے۔
٭ زکوۃ کے وصول کرنے والوں کے لئے ہدیہ قبول کرنا منع ہے۔
٭ زکوۃ میں خیانت کی ہوئی چیز قیامت کے دن اس کے خلاف بیان دے گی۔
٭٭٭٭٭